قرونِ اُولٰی
اور قرونِ وسطیٰ میں اہلحدیث سے مراد وہ اہلِ علم تھے، جو حدیث پڑھنے
پڑھانے راویوں کی جانچ وپڑتال اور حدیث کی شرح وروایت میں مشغول رہتے ہوں،
حدیث ان کا فن ہو اور وہ علمی طور پر اس کے اہل ہوں، دوسرے لفظوں میں یوں
سمجھئے کہ ان ادوار میں اہلحدیث سے محدثین مراد لئے جاتے تھے؛ اگرکوئی علمی
طور پر اس درجے میں نہیں کہ حدیث پرکوئی فیصلہ دے یااس کے راویوں کوپہچانے
توصاف کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ اہلحدیث میں سے نہیں ہے، عامی ہے، حافظ ابن
تیمیہؒ (۷۲۸ھ) ایک مقام پر محدثین کی اس عادت پرکہ فضائل میں ضعیف حدیثیں
بھی روایت کردیتے ہیں، تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
د"والبيهقي يروي في الفضائل أحاديث كثيرة ضعيفة بل موضوعة كما جرت عادة أمثاله من أهل العلمد"۔ (منہاج السنۃ:۳/۸)
ترجمہ:بیہقی فضائل میں بہت سے ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی لے آتے ہیں جیسے کہ ان جیسے اہلِ علم کی عادت جاری ہے۔
د"والبيهقي يروي في الفضائل أحاديث كثيرة ضعيفة بل موضوعة كما جرت عادة أمثاله من أهل العلمد"۔ (منہاج السنۃ:۳/۸)
ترجمہ:بیہقی فضائل میں بہت سے ضعیف بلکہ موضوع احادیث بھی لے آتے ہیں جیسے کہ ان جیسے اہلِ علم کی عادت جاری ہے۔