سب سے پہلے تو یہ
بات جاننے کی ضرورت ہے کہ علم کلام کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت یا ضرورت ہے۔ اس کے
بعد ہی اس علم کلام پر کام کرنے اور اس میں کتابیں تسنیف کرنے والوں کی قدر و
منزلت اور ان کی محنت کا مقصد سمجھ میں آ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے جس شخصیت کا قول نقل کیا جا رہا ہے
ان کا نام ہے ابوالسیر بزدویؒ، وہ اپنی کتاب اصول دین میں وضاحت فرماتے ہیں:
علم کلام دراصل ان مسائل کا نام ہے جن کی حیثیت اسلام میں
اسول دین کی ہے اور جن کا سیکھنا فرض عین ہے امام ابوحنیفہؒ نے یہ علم حاصل کیا ہے
اور اس کے ذریعے معتزلہ اور تمام اہل بدعت سے مناظرہ کیا ہے۔ آغاز میں آپ اپنے
اصحاب کو اس کی تعلیم بھی دیتے تھے اور اس علم
میں آپ نے کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے کچھ تک ہماری رسائی ہوئی
ہے اور کچھ کو اہل بدعت نے خورد برد کر دیا۔ جو کتابیں امام اعظمؒ کی ہم کو ملی
ہیں ان میں العالم والمتعلم اور الفقہ الاکبر ہے۔ العالم والمتعالم میں امام
اعظمؒ نے یہ بات کھول کر سمجھائی ہے کہ
علم کلام پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے چنانچہ اسی کتاب میں ہے کہ متعلم کہتا ہے
کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علم کلام نہ پڑھنا چاہئے کیونکہ صحابہ کرامؓ نے یہ علم
نہیں پڑھا ہے۔ عالم کہتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ ہاں ٹھیک ہ ہمیں بھی علم کلام نہیں پڑھنا چاہیئے جیسے صحابہ
کرامؓ نے نہیں پڑھا لیکن تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ ہمارے اور صحابہؓ کے معاشرے
میں کیا فرق ہے؟ جن حالات سے ہمیں دین کی زندگی میں دوچار ہونا پڑ رہا ہے ان سے
صحابہؓ دوچار نہیں تھے ہمارا ایسے معاشرے
سے سابقہ پڑا ہے جن کی زبانیں مسلک حق کے خلاف چھوٹ اور بے لگام ہیں۔ جن کے
یہاں ہمارا خون روا ہے کیا اس ذہن کے گردوپیش میں ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ راست رو اور غلط
کار میں ایک حد فاصل اور خط تمیز قائم کر یں۔