تازہ ترین تحریریں

Thursday 22 March 2018

علم کلام میں امام ابوحنیفہؒ کی تصانیف اور مقام

سب  سے پہلے تو یہ بات جاننے کی ضرورت ہے کہ علم کلام کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت یا ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی اس علم کلام پر کام کرنے اور اس میں کتابیں تسنیف کرنے والوں کی قدر و منزلت اور ان کی محنت کا مقصد سمجھ میں آ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے جس شخصیت کا قول نقل کیا جا رہا ہے ان کا نام ہے ابوالسیر بزدویؒ، وہ اپنی کتاب اصول دین میں وضاحت فرماتے ہیں:
علم کلام دراصل ان مسائل کا نام ہے جن کی حیثیت اسلام میں اسول دین کی ہے اور جن کا سیکھنا فرض عین ہے امام ابوحنیفہؒ نے یہ علم حاصل کیا ہے اور اس کے ذریعے معتزلہ اور تمام اہل بدعت سے مناظرہ کیا ہے۔ آغاز میں آپ اپنے اصحاب کو اس کی تعلیم بھی دیتے تھے اور اس علم  میں آپ نے کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے کچھ تک ہماری رسائی ہوئی ہے اور کچھ کو اہل بدعت نے خورد برد کر دیا۔ جو کتابیں امام اعظمؒ کی ہم کو ملی ہیں ان میں العالم والمتعلم اور الفقہ الاکبر ہے۔ العالم والمتعالم میں امام اعظمؒ  نے یہ بات کھول کر سمجھائی ہے کہ علم کلام پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے چنانچہ اسی کتاب میں ہے کہ متعلم کہتا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علم کلام نہ پڑھنا چاہئے کیونکہ صحابہ کرامؓ نے یہ علم نہیں پڑھا ہے۔ عالم کہتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ ہاں ٹھیک ہ ہمیں  بھی علم کلام نہیں پڑھنا چاہیئے جیسے صحابہ کرامؓ نے نہیں پڑھا لیکن تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ ہمارے اور صحابہؓ کے معاشرے میں کیا فرق ہے؟ جن حالات سے ہمیں دین کی زندگی میں دوچار ہونا پڑ رہا ہے ان سے صحابہؓ دوچار نہیں تھے ہمارا ایسے معاشرے  سے سابقہ پڑا ہے جن کی زبانیں مسلک حق کے خلاف چھوٹ اور بے لگام ہیں۔ جن کے یہاں ہمارا خون روا ہے کیا اس ذہن کے گردوپیش  میں ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ راست رو اور غلط کار میں ایک حد فاصل اور خط تمیز قائم کر یں۔
یوں سمجھو کہ صحابہؓ ایسے خوش آئند ماحول میں تھے جہاں جنگ کا نام و نشان نہ تھا امن و سکون کی زندگی تھی۔ یقیناً ایسے ماحول میں سامن جنگ اور جنگی تیاری کی ضرورت نہین ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ایک جنگجو طبقہ نے حملہ کر کے ایمان و اعتقاد کی زندگی کا امن و سکون تہ و بالا کر دیا ہے۔ اس لیے ہمیں ان سے نمٹنے کے لیے سامان جنگ کی ضرورت ہے اور فوجی ٹریننگ کی کی بھی۔ ہمارے اکثر فقہاء نے لوگوں کو علم کلام سیکھنے سے روک دیا ہے لیکن جو امام ابوحنیفہؒ کے پیروکار ہیں وہ اس کی تعلیم و تعلم کے جواز کے قائل ہیں البتہ انہوں نے عمر کے آخری حصہ میں اس میں مناظرے سے روک دیا تھا۔ (اصول بزدوی صدرالاسلام: 4)
گویا امام اعظمؒ کی نظر میں علم کلام کو ایمان کیلئے ایک دفاعی سرمایہ  کی حیثیت حاصل ہے۔  علامہ بیاضی نے اشارات المرام میں بھی امام صاحبؒ کے اس بیان کی وضاحت فرمائی ہے۔
امام الحرمین ابو محمد جوینی فرماتے ہیں:
قرآن کے دلائل غذا کے درجے میں ہیں ہر انسان ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کلامی موشگافیاں دوا کی حیثیت میں ہیں کچھ کیلئے سود مند مگر بہتوں کو اس کے استعمال سے نقصان ہو رہا ہے۔ قرانی تصریحات پانی کی طرح ہیں دودھ پیتا بچہ بھی پی سکتا ہے لیکن کلامی کچن کے روغنی کھانے صرف طاقتور ہی کھا سکتے ہیں اور وہ بھی زیادہ سے گاہ گاہ بیمار ہو جاتے ہیں۔ (نصیحۃ المسلمون)
امام غزالیؒ جیسے کلامی محقق نے اپنی زندگی کی آخری  تالیف میں اقرار کیا ہے کہ:
انما المقصود منہ حفظ عقیدۃ اھل السنۃ وحراستھا عن تشویش اھل البدعۃ
علم کلام سے مقصود صرف بدعتیوں سے اہل السنہ کے عقیدہ کی حفاظت اور نگرانی ہے۔ (المنقذ من الضلال: ص 66)
ان اقراروں سے یہ واضح ہو جا تا ہے کہ جو بات اولاً امام صاحبؒ کی زبان پر آئی بالآخر وہی وقت کا آوازہ بن گیا جو بعد میں آنے والے علماء کی زبان سے بھی جاری ہوا۔
علم کلام میں مخالفین کو جواب دینے کیلئے کوئی نیا علم اور نئی بنیادیں نہیں گھڑی گئیں بلکہ قرآنی دلائل اور سنت اپنی جگہ پر ویسے کے  ویسے قائم و دائم رہے اور مخالفین کو انہی کے ہتھیاروں سے مارا گیا۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
لکنھم اعتمد وافی ذالک علی ماتسلموھا من خصومھم۔
لیکن متکلمین نے اس معاملے میں اپنے مدمقابل کے مسلمات کا ہی سہارا لیا۔
اور فرمایا:
وکان اکچر خوضھم فی استخراج مناقضات الخصوم ومواحذتھم للوازم مسلماتھم۔
ان کی فکری توجہ صرف یہ تھی کہ مد مقابل کا توڑ کیا جائے اور ان کے مسلمات کے لوازم ہی سے ان کی گرفت کی جائے۔
امام عبدالقاہر  بغدادی شافعی نے بتایا ہے کہ علم کلام کے موضوع پر اولیت کا شرف امام اعظمؒ کو حاصل ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں:
فقہاء میں سب سے پہلے  متکل ابوحنیفہؒ اور شافعیؒ ہیں۔ ابوحنیفہؒ نے قدریہ کے رد میں فقہ اکبر نامی کتاب تصنیف کی ہے موضوع استطاعت پر اہل السنۃ کے مؤقف کی نصرت میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے۔ (اصول الدین عبدالقاہر بغدادی: ص 308)
علامہ ابوالمظفر اسفرائینی نے امام اعظم کی کلامی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے (دیکھئے التبصیر: ص 113)
ابن الندیم نے بھی ان کتابوں کا پتہ دیا ہے اور آخر میں آپ کی وسعت علمی کے بارے میں لکھا ہے:
العلم بحراً وبراً شرقاً بعدًا وقرباً
دور نزدیک، مشرق، مغرب اور خشکی و تری میں آپ ہی کا علم ہے۔ (الفہرست لابن الندیم: ص255)
تاریخ الاسلام السیاسی کے مؤلف حسن ابراہیم حسن  نے بھی  ابن الندیم کی ہمنوائی کی ہے۔
امام اعظمؒ کی علم کلام میں تصانیف:
امام اعظمؒ نے علم الکلام میں متعدد تصانیف فرمائی ہیں جن میں ان فرقوں کے مقابل اہلسنۃ والجماعت کے مؤقف کو واضح فرمایا ہے۔یہ بات کہ امام اعظمؒ کی اس موضوع پر کوئی کتاب نہین ہے معتزلہ کی اڑائی ہوئی ہے۔ چنانچہ حافظ عبدالقادر قرشیؒ فرماتے ہیں:
ھذا کلام المعتزلۃ ودعواھم انہ، لیس لہ فی علم الکلام لہ تصنیف
یہ معتزلہ کی بات ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ امام اعظمؒ کی علم الکلام میں کوئی تصنیف نہیں ہے۔ (الجوہر المضیہ: ج 2، ص 461)
حافط صاحبؒ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس قسم کی افواہون سے معتزلہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ امام اعظمؒ کو اپنے مزعومات کی اشاعت کے لیے استعمال کرسکیں۔
علامہ بیضاویؒ نے اشارات المرام میں علم الکلام کے موضوع پر امام اعظمؒ کی جن تصانیف  کی نشاندہی کی ہے وہ یہ ہیں۔ الفقہ الاکبر، الرسالہ، الفقہ الابسط، کتاب العالم والمتعلم اور الوصیہ۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان کتابوں کی تالیف بھی اس زمانے کے رواج کے مطابق املائی طرز پر ہوئی ہے۔
املاھا علی اصحابہ من الفقہ الاکبر والرسالۃ  والفقہ الابسط وکتاب العالم والمتعلم والوصیۃ ۔(اشارات المرام: ص 21)
علامہ طاش کبریٰ زادہ نے پوری قوت سے یہ بات بتائی ہے کہ:
امام اعظمؒ  نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ۔ الفقہ الاکبر اور العالمجیسی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ یہ کہنا کہ یہ کتابیں امام اعظمؒ کی نہیں معتزلہ کی اڑائی ہوئی باتیں ہیں۔ (مفتاح السعادۃ: ج 2، ص 29)
علامہ بزازیؒ نے تصریح کی ہے کہ:
یہ قطعاً غلط اور بے بنیاد بات ہے کہ علم الکلام میں امام ابو حنیفہؒ کی کوئی تصنیف نہیں ہے۔ الفقہ الاکبر اور العالم والمتعلم میں نے خود علامہ شمس الدین کی ارقام فرمودہ دیکھی ہیں ان پر لکھا ہوا تھا کہ یہ امام اعظمؒ کی تصانیف ہیں۔ (مناقب کردری: ج 1، ص 108)
صدر الاسلام ابوالیسر  بزدویؒ نے اپنی مشہور کتاب اسول دین میں جو حال ہی میں مصر میں ڈاکٹر ہانس پتیرلنس کی تحقیق سے زیور طباعت سے آراستہ ہوکر آئی ہے اس میں امام اعطمؒ کے بارے میں تصریح کی ہے کہ:
قد سنف فیھا کتباً وقع بعضھا الینا
آپ نے علم کلام میں کچھ کتابیں لکھی ہیں جن میں سے کچھ ہمیں ملی ہیں۔ (اصول بزدوی: ص4)
یہ ابولیسر فروع و اصول میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور لکھا ہے کہ کان امام الائمۃ علی الاطلاق۔ صرف پانچ واسطوں سے امام محمدؒ کے شاگرد ہیں۔ چنانچہ ان کی سند یہ ہے:
عن اسمٰعیل بن عبدالصادق عن جدہ ابی الیسر عبدالکریم عن ابی المنصور الماتریدی عن ابی بکر الجوزجانی عن ابی سلیمان عن محمد۔ (الفوائد البہیہ: ص 73)
علامہ بیاضی نے امام اعظمؒ کی ان کتابوں کی تاریخی اور روایتی حیثیت کو شرح و بسط سے لکھا ہے، وہ فرماتے ہیں:
الفقہ الاکبر، الرسالہ، الفقہ الابسط، العالم والمتعلم اور الوصیۃ کی امام اعظمؒ سے روایت میں مرکزی حیثیت حماد بن ابی حنیفہ، قاضی ابویوسف، ابومطیع الحکم بن عبداللہ اور ابومقاتل حفص بن مسلم کی ہے۔ ان ائمہ سے ان کتابوں کو اسماعیل بن حماد، محمد بن مقاتل، محمد بن سماعہ، نصیر بن یحییٰ اور شداد بن حکیم نے روایت کیا ہے۔ (اشارات المرام: ص 22)
آخر میں لکھتے ہیں کہ ان کتابوں کو نسیر بن یحییٰ اور محمد بن مقاتل سے امام ابومنصور ماتریدی نے روایت کیا ہے۔ علامہ زاہد کوثری رقم طراز ہیں:
علم کلام میں امام اعظمؒ کا یہ علمی سرمایہ امت کو وراثت میں ملا ہے۔ الفقہ الاکبر اس کی سند یہ ہے۔ علی  بن احمد  الفارسی عن نصیر بن یحییٰ عن ابی مقاتل عن غصام بن یوسف عن حماد بن ابی حنیفہ عن ابی حنیفہؒ۔ الفقہ الابسط۔ اس کی سند یہ ہے، ابو زکریا یحییٰ بن مطرف عن نصیر بن یحییٰ عن ابو مطیع البلخی عن ابو حنیفہؒ۔ الرسالۃ۔ نصیر بن یحییٰ عن محمد بن سماعہ بن ابی ہوسف عن ابی حنیفہؒ کی سند سے مروی ہے اور اسی سلسلہ سند سےالوصیۃ۔ بھی مروی ہے۔ (مقدمہ اشارات: ص 5)
تاریک و روای کی یہ شہادتیں بتا رہی ہیں کہ علم الکلام میں امام اعظمؒ نے جو علمی سرمایہ چھوڑا ہے وہ امام اعظمؒ ہی کا ساختہ و پرداختہ ہے۔
امام اعظمؒ  کی علمی طلبگاریوں کا آغاز تو بچپن  ہی میں ہو گیا تھا مگر امام شعبیؒ جیسی نابغہ روزگار شخصیت نے امام اعظمؒ کے اندر کا فن اور ان کی قابلیت کو جانچ لیا تھا اور اسی لیے امام اعظمؒ کو علم الشرائع کی طرف مائل کیا، چونکہ امام اعظمؒ  کو دوسرے علوم و فنون  کے ساتھ علمی الکلام سے خاصی دلچسپی تھی ، جس کی وجہ یہ بتائی کی چونکہ علم کلام مین اصول دین سے بحث ہوتی ہے اس لیے یہ تمام علوم سے برتر ہے (مناقب للموفق: ج1، ص 64)
اس علم کی تکمیل کی ااور صرف تکمیل ہی نہیں بلکہ اس درجہ امامت  اور مہارت پیدا کر لی کہ:
بلغ فیہ مبلغاً بشار الیہ بالا صابع۔
اس مقام پر پہنچ گئے کہ انگلیاں ان ہی کی طرف اٹھتی تھیں۔ (مناقبکردری: ج 1، ص 64۔ تاریخ بغدادؒ ج 13، ص 232)
اور اس بات کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے  جو صدرالائمہ نے یحییٰ ابن بکیر کے حوالہ سے امام اعظمؒ کی زبانی لکھا  کہ:
میں ایک روز بازار جاتے ہوئے امام شعبیؒ کے پاس سے گذرا، امام شعبیؒ نے مجھے بلایا اور دریافت کیا، کہاں جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ بازار۔ آپ نے فرمایا مطلب یہ ہے کہ علمی مشغلہ کیا ہے؟ مین نے عرض کیا کہ میں علماء کے پاس کم جاتا ہوں، فرمایا کہ اس بارے مین غفلت کو راہ نہ دو۔ مطالعہ اور اہل علم کی صحبت کو اپنے لیے ضروری کر لو۔ مجھے تم میں ہونہاری نظر آ رہی ہے۔ (مناقب للموفق: ج 1، ص 64)
حقیقت یہ ہے کہ امام شعبیؒ کو امام اعظمؒ کی کلامی مسائل میں ہونہاری اور بیداری کی داستان معلوم تھی۔ اس بناء پر انہوں نے امام اعظمؒ کو الشرائع کو طرف لگنے کا مشورہ دیا۔ وگرنہ کون ہے جو خومخواہ بازار جاتے راستے میں کسی کو روکے اور  ایک اجنبی کو یہ کہے اور اسے مجبور کرے کہ تم میں مجھے علمی بیداری نظر آتی ہے۔ اس کے نتیجے میں خود امام صاحبؒ فرماتے ہیں:
امام شعبیؒ کی بات دل میں گھر کر گئی اور بازار چھوڑ کر بس علم ہی کا ہو رہا۔
گویا علم ہی کے ہو رہنے کا معاملہ اب پیش آیا ورنہ طلب علم کا آغاز تو اب سے بہت پہلے ہو چکا ہے۔

No comments:

Post a Comment