تازہ ترین تحریریں

Tuesday 4 February 2014

اماموں نے اپنی تقلید سے منع کیا ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کرو ہمارا بھی عمل یہی ہے

اذ اصح الحديث فھو مذہبی
(وسوسہ: اماموں نے اپنی تقلید سے منع کیا ہے کہ صحیح حدیث پر عمل کرو ہمارا بھی عمل یہی ہے)
امام  نوویؒ  نے اپنی کتاب (المجموع ) کے مُقدمہ میں اس کا جواب دیا ہے:
وهذا الذي قاله الشافعي ليس معناه أن كل واحد رأى حديثًا صحيحًا قال: هذا مذهب الشافعي، وعمل بظاهره وإنما هذا فيمن له رتبة الاجتهاد في المذهب الخ
یعنی یہ جو امام شافعی رحمہ الله نے کہا ہے کہ  (اذا صح الحديث فھو مذہبی) اس کا یہ معنی ومطلب نہیں ہے کہ ہرایک آدمی جب صحیح حدیث دیکھے تو یہ کہے کہ یہ امام شافعی رحمہ الله کا مذہب ہے اور پھرظاہر حدیث پرعمل کرے بلکہ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو مذہب میں اجتہاد کا درجہ رکهتا ہو ۔
یہی بات حافظ ابن الصلاح امام شامی وغیرھما  ائمہ نے بھی کی ہے کہ امام شافعی وغیره ائمہ کا یہ قول عامۃ الناس کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنے مذہب کے اصحاب وتلامذه کے لئے ہے جو مجتہد فی المذہب کا درجہ رکھتے ہوں ۔
امام ذہبیؒ  کا ارشاد عالیشان                             
حافظ ابن حزمؒ ظاہری  کا قول ہے کہ میں اجتہاد کرتاہوں کسی مذہب خاص میں مقید نہیں حق کی پیروی کرتا ہوں ابن حزم ؒکے اس قول کا رد کرتے ہوئے امام ذہبیؒ فرماتے ہیں۔
میں کہتاہوں جو شخص اجتہاد کے رتبہ کو پہنچ چکا ہو اور س کے حق میں چند ائمہ نے شہادت بھی دے دی ہو اس کے لئے تقلید جائز نہیں ہی۔
 جس طرح کوئی عامی یا فقیہ مبتدی جس نے قرآن یا اس کا زیادہ حصہ یاد کر لیا ہے اس کے لئے اجتہاد جائز نہیں۔ بھلا وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ اور کیسے کوئی رائے قائم کرے گا؟ اور کس بل پر اپنے مذہب کی عمارت کھڑی کرے گا اور کیسے میدان اجتہاد میں پرواز کرے گا جب کہ اس کے پر بھی اُگے نہ ہوں۔
تیسری قسم:  وہ فقیہ منتہی بیدار مغز سمجھ دار محدث ہے جس کو فروع میں کوئی مختصر یاد ہو اور قواعد الاصول میں کوئی کتاب یاد ہو اور نحو یاد ہو اور کمالات میں ایک حصہ کا مالک ہو ساتھ ہی اللہ کی کتاب حفظ اور اس کی تفسیر کا مشغلہ رکھتا ہو اور بحث و تحقیق کی صلاحیت رکھتا ہو تو یہ مرتبہ اس شخص کا ہے جو اجتہاد مقید (یعنی اجتہاد فی المذہب ) کو پہنچا ہے اور اماموں کے دلائل میں غور کرنے کا اہل ہی۔
تو ایسے شخص کے نزدیک جب کسی مسئلہ میں حق واضح ہو جائے اور اس میں کوئی نص ثابت ہو جائے جس ہر ائمہ علام میں کسی کا عمل بھی ہو مثلاً امام ابو حنیفہ یا جیسے امام مالک یا سفیان ثوری یا امام اوزاعی یا امام شافعی اور ابو عبید یا امام احمد اور امام اسحاق تو اب اس مسئلہ میں حق کی پیروی کر سکتا ہے ، لیکن رخصتوں کی راہ نہ اپنائے بلکہ تورع سے کام لے اور اب اس مسئلہ میں حجت قائم ہو جانے کے بعد اس کے لئے تقلید کی گنجائش نہیں ہے تاہم اگر اپنے فقہاء کے شور و شغب سے خطرہ محسوس کرتا ہو تو اس دلیل کو راز میں رکھے اور اس پر عمل کرکے نمائش نہ کری، کیوں کہ بسا اوقات خود فریبی کا شکار ہو جائے گا اور شہرت پسند بن بیٹھے گا اور سزا بھگتنی پڑے گی اور اس کا نفس اس پر غالب ہو جائے گا بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے کلمہ حق بولا اور امر بالمعروف کی لیکن ان کی بدنیتی اور دینی قیادت پسندی کی وجہ سے اللہ نے ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کر دیا جنہوں نے ان کو تکلیف پہنچائی پس یہ ایک خٖفی بیماری ہے جو علماء کے نفس میں گھسی ہوئی ہی۔
اور جوشخص علم کی طلب مدارس اور افتاء کے عہدوں اور فخر وریا کے لئے کرتا ہے وہ حماقت کا شکار اور فریب خوردہ بنا اور لوگوں کی عیب جوئی میں پڑا غرور نے اس کو ہلاک کیا اور لوگوں کی عداوت کا نشانہ بنا۔ قد افلح من زکاھا وقد خاب من دساھا.
علامہ ابن قیمؒ  حنبلی کی رائے عالی
ابو عمرو بن صلاح سے منقول ہے :
اگر کوئی شخص کسی حدیث کو اپنے مذہب کے خلاف پائے تو اگر اس میں مطلق اجتہاد یا اجتہاد فی المذہب یا اس نوع میں اجتہاد یا خاص ا س مسئلہ میں اجتہاد کی مکمل اہلیت ہو تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا بہتر ہے ، لیکن اگر اہلیت مکمل نہ ہو اور اپنے دل میں حدیث کی مخالفت سے قلق اور گرانی محسوس کرے جب کہ تلاش و تحقیق کے بعد بھی اس کی مخالفت کے لئے کوئی جواب شافی نہ پا سکا ہو تو پھر غور کرے کہ اس حدیث پر کسی مستقل (مجتہد مطلق) امام کا عمل ہے یا نہیں اگر کسی مستقل امام کا اس پر عمل ہے تو اس حدیث میں اسی امام کے مذہب پر عمل کر لے اور یہ اس لئے اپنے امام کے مذہب کو چھوڑ دینے کے لئے صرف اس مسئلہ میں ایک عذر ہو گا ۔ واللہ اعلم ۔
امام ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ امام نووی نے ابن صلاح کے اس قول کی تحسین کی ہے اور بلا تنقید برقرار رکھا ہے ۔ (عقد الجید ص۴۴)   ط
امام ناقد حافظ شمس الدین ذہبیؒ  کا فرمان ذیشان:
حدیث پر عمل کرنا امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کے قول پر عمل کرنے سے بہتر ہی۔
اس پر رد کرتے ہوئے اما م ذہبی فرماتے ہیں:۔
(میں کہتا ہوں یہ عمدہ بات ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حدیث پر عمل کا قائل ان دونوں اماموں امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے ہمسر کوئی امام بھی ہو جیسے امام مالک یا امام سفیان یا امام اوزاعی اور اس شرط کے ساتھ کہ وہ حدیث ثابت اور ہر علت سے پاک بھی ہو نیز یہ بھی شرط ہے کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے پاس دلیل میں کوئی دوسری صحیح حدیث اس حدیث کے خلاف نہ ہو لیکن اگر کوئی کسی صحیح حدیث پر اس طرح عمل کرتا ہے کہ اس حدیث کے خلاف تمام ائمہ اجتہاد جمع ہوں تو ایسی صورت میں ہر گز اس حدیث پر عمل جائز نہیں۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی ج ۶۵۰۴)
اس کے بعد اما م ذہبی نے اپنے قول کے دلائل جمع فرمائے ہیں۔
حافظ ابن رجبؒ حنبلی کا ارشاد گرامی
ائمہ دین اور اہل حدیث فقہاء کرام حدیث صحیح کی پیروی کرتے ہیں چاہے جہاں بھی موجود ہو بشرطیکہ وہ حدیث صحابہ اور ان کے بعد والوں کے نزدیک معمول بہ ہو یا ان میں ایک جماعت کے نزدیک معمول بہ ، لیکن وہ حدیث جس کے ترک پر سلف میں اتفاق ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں، اس لئے کہ انہوں نے اس کو متروک نہیں قرار دیا مگر یہ کہ ان کے پاس اس بات کا علم ہے کہ وہ حدیث معمول بہ نہیں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں رائے میں رائے میں سے صرف اس کو لے لو جو تم سے پہلے والوں موافق ہو کیوں کہ ہو تم سے زیادہ علم والے تھی۔ (بیان فضل علم السلف علی علم الخلف تصنیف ابن رجب حنبلی متوفی ۵۹ ص۷۵)
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے ایک مستقل انتہائی لطیف ومفید رسالہ لکھ کرغیرمقلدین پر رد کیا ہے،  اس رسالہ کا نام ہے؛
الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ
یعنی ان لوگوں پر رد جو مذاہب اربعہ (حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ) کے علاوه کسی اورکی اتباع کرتے ہیں۔اس رسالہ میں ایک مقام پر ایک اعتراض نما سوال نقل کرتے ہیں اورخود ہی اس کا جواب دیتے ہیں۔

سوال: اگر يہ كہا جائے کہ امام احمد رحمہ الله وغيرہ نے جو اپنى كتاب اور كلام ميں تقليد كرنے سے منع كيا ہے اس كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں ؟؟ اور پھر امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے ميرا اور فلان اور فلان كا كلام مت لكھو، بلكہ جس طرح ہم نے سيكھا ہے اور تعليم حاصل كى ہے اس طرح تم بھى تعليم حاصل كرو آئمہ كى كلام ميں يہ بہت موجود ہے ؟؟

جواب: اس كے جواب ميں كہا جائيگا كہ بلاشک و شبہ امام احمد رحمہ اللہ فقہاء كى آراء لكھنے اور حفظ كرنے ميں مشغول ہونے سے منع كيا كرتے تھے بلكہ كہتے كہ كتاب و سنت كى فہم اور تعليم و تدريس اور حفظ ميں مشغول ہوا جائے اور صحابہ كرام اور تابعين عظام كے آثار لكھا كريں ان كے بعد والوں كى نہيں اور اس ميں سے صحيح اور ضعيف شاذ و مطروح قول كو معلوم كريں بلاشک اس يہ سے تعين ہو جاتا ہے كہ كتاب و سنت كى تعليم كا اہتمام كرنا كسى دوسرے كام ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے بلكہ پہلے اس كى تعليم حاصل كى جائے.لہذا جو يہ جان لے اور اس كى معرفت كى انتہاء تک پہنچ جائے جيسا كہ امام احمد رحمه الله نے اشارہ كيا ہے تو اس كا علم تقريبا امام احمد رحمه الله كے قريب ہو گيا تو اس پر كوئى روک ٹوک نہيں ہے اور نہ ہى اس كے متعلق كلام كى جا رہى ہے، بلكہ كلام تو اس شخص كے متعلق ہے جو اس درجہ تک نہيں پہنچا اور نہ ہى وہ اس كى انتہاء كو پہنچا ہے اور نہ اس نے كوئ سمجھا ہے ہاں تهوڑا ساعلم ضرور ہے جيسا كہ اس دور كے لوگوں كى حالت ہے بلكہ كئى زمانوں سے اكثر لوگوں كا يہى حال ہے وہ انتہاء درجہ تک پہنچنے اورغايت كو پانے كا دعوى كرتے ہيں حالانكہ وہ تو ابتدائى درجات تک بھى نہيں پہنچ سكے۔
اصل عربی عبارت ملاحظہ ہو:
فإن قيل : فما تقولون في نهي الإمام أحمد وغيره من الأئمة عن تقليدهم وكتابة كلامهم ، وقول الإمام أحمد : لا تكتب كلامي ولا كلام فلان وفلان ، وتعلم كما تعلمنا . وهذا كثير موجود في كلامهم ؟
قيل : لا ريب أن الإمام أحمد رضي الله عنه كان ينهى عن آراء الفقهاء والاشتغال بها حفظاً وكتابة ويأمر بالاشتغال بالكتاب والسنة حفظاً وفهماً وكتابة ودراسة وبكتابة آثار الصحابة والتابعين دون كلام مَن بعدهم ومعرفة صحة ذلك من سقمه والمأخوذ منه والقول الشاذ المطرح منه ولا ريب أن هذا مما يتعين الاهتمام به والاشتغال بتعلمه أولاً قبل غيره فمن عرف ذلك وبلغ النهاية من معرفته كما أشار إليه الإمام أحمد فقد صارعلمه قريباً من علم أحمد فهذا لا حجرعليه ولا يتوجه الكلام فيه إنما الكلام في منع من لم يبلغ هذه الغاية ولا ارتقى إلى هذه النهاية ولا فهم من هذا إلا النزر اليسير كما هو حال أهل هذا الزمان بل هو حال أكثر الناس منذ أزمان مع دعوى كثير منهم الوصول إلى الغايات والانتهاء إلى النهايات وأكثرهم لم يرتقوا عن درجة البدايات " انتهى۔ الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ۔
امام احمد بن حنبلؒ  کی نصیحت
اگر کسی کے پاس ایسی کتابیں ہوں جن میں رسول اللہ ؐ کے ارشادت نیز صحابہ و تابعین کے اختلاف جمع کئے گئے ہیں تو اس کے لئے ہر گز جائز نہیں کی جیسے چاہے عمل کر لے اور جو پسند ہو اس کے مطابق فیصلہ یا عمل کر لے  تا وقتیکہ اہل علم سے معلوم نہ کرلے کہ کس قول کو اختیار کرنا چاہیے تا کہ عمل صحیح امر پر ہو سکی۔ (اعلام المعوقین تصنیف ابن قیم ج۱ص۴۴)
امام جلیل فقیہ ابو الحسن میمونؒ کا ارشاد مبارک
امام احمد بن حنبل نے مجھ سے فرمایا اے ابو الحسن تم کسی ایسے مسئلہ میں گفتگو سے پرہیز کرو جس میں تمہارا کوئی امام نہ ہو ۔
مناقب الامام احمد تصنیف ابن الجوزی ص ۸۷۱ اور مسودہ لال ابن تیمیہ ص ۱۰۴ و ۴۸۴ اور سیر اعلام النبلاء للذہبی ج ۱۱ ص ۶۹۲)

No comments:

Post a Comment