تازہ ترین تحریریں

Showing posts with label امام ابو حنیفہ و فقہ حنفی سے متعلق وساوس. Show all posts
Showing posts with label امام ابو حنیفہ و فقہ حنفی سے متعلق وساوس. Show all posts

Tuesday, 20 March 2018

امام ابو الحسن اشعری اور امام ابو منصور ماتريدی کے بعد لوگ اپنے آپ کو اشعری وماتریدی کیوں کہنے لگے؟


اس سوال کا جواب چوتھی صدی ہجری کے عالم اور امت مسلمہ کے مستند ومعتبرامام وفقیہ ومحدث ومفسر حفظ واتقان وضبط میں سب سے فائق مرجع العوام والخواص تمام علوم الشرعیۃ کے بے مثل امام ، میری مراد امام حافظ ابو بكر احمد بن حسین  بہیقی رحمہ الله تعالى ہیں ،جن کے متعلق حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ذہبی اس طرح تبصره کرتے ہیں ، کہ اگر امام بہیقی چاہے تو اپنا ایک مستقل اجتہادی مذہب ومسلک بنا لیتے کیونکہ اجتہاد پرقادرتھے اورعلوم میں وسعت رکھتے تھے اور اختلاف کی معرفت رکھتے تھے ۔ یعنی امام بیہقی میدان اجتہاد کے شہسوار تھے لیکن باوجود اس اہلیت وکمال کے دین میں امام شافعی کی راہنمائی وتقلید کا دامن پکڑا ، خیر میں نے یہ چند کلمات اس لئے عرض کئے تاکہ امام بہیقی کا مرتبہ پہلے ذہن نشین ہوجائے ، اب میں مذکوره سوال کا جواب اسی امام کی زبانی نقل کرتا ہوں ،
وقال الحافظ أبو بكر البيهقي رحمه الله تعالى
إلى أن بلغت النوبة إلى شيخنا أبي الحسن الأشعري رحمه الله فلم يحدث في دين الله حَدَثاً، ولم يأت فيه ببدعة، بل أخذ أقاويل الصحابة والتابعين ومن بعدهم من الأئمة في أصول الدين فنصرها بزيادة شرح وتبيين،الخ (تبیین كذب المفتری 103، الطبقات الكبرى للتاج السبكی 3/397)

Sunday, 16 September 2012

امام الاعظم ابى حنیفہ رحمہ الله اوران کے ناقدین خطیب بغدادی کی کتاب (تاریخ بغداد) پرایک تحقیقی نظر

حافظ أبي بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي کی کتاب تاريخ بغداد چوده جلدوں میں ہے ، اس کتاب میں فقهاء ومحدثين وأرباب علوم وأئمہ دین ودیگرمشاہیر زمانہ کے تقریبا (7831 ) تراجم وسوانح واحوال بیان کیئے گئے ہیں ، اوریہ کتاب خطيب البغدادي کی أهم اوربڑی مشہورکتاب ہے ، کتاب میں تمام علماء بغداد کی تاریخ بیان کرتے ہیں ، مقدمة الكتاب میں وضاحت فرماتے ہیں کہ یہ تاریخ ان لوگوں پرمشتمل ہوگی،

حنفی بڑے گستاخ ہیں جواپنی کتاب " هدایہ " کو قرآن کے برابر جانتے ہیں

وسوسه = حنفی بڑے گستاخ ہیں جواپنی کتاب " هدایہ " کو قرآن کے برابر جانتے ہیں ۰
جواب = یہ وسوسہ بهی فرقہ جدید نام نہاداهل حدیث کے جہلاء نے کافی مشہورکیا هے ، اوراپنی کتب ورسائل میں اس وسوسہ کو برابرلکهتے چلے جارهے ہیں ، اورعوام الناس کوبهی گمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ سناتے اورپڑهاتے ہیں ،
اس وسوسہ کے استعمال کا طریقہ عام طور پراس طرح ہوتا هے کہ پہلے عوام کوباور کراتے ہیں کہ دیکهو یہ حنفی کتنے گستاخ ہیں کہ اپنی فقہ کی کتاب " هدایہ " کے بارے میں یہ نظریہ رکهتے ہیں کہ یہ بالکل قرآن کی طرح هے ،

Thursday, 13 September 2012

فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث کا فقہ حنفی سے بُغض وعداوت

اس فرقہ جدید کی بنیاد ہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی سے بغض وعداوت ونفرت وتعصب پر رکھی گئی ہے ، باستثناء بعض معتدل اشخاص سب کا یہی حال ہے ، ان کے چھوٹے بڑے آئے دن وقتا فوقتا فقہ حنفی کے خلاف کچھ نہ کچھ بکواسات لکھتے اور بولتے رہتے ہیں ، اور حتی کہ ایک ناواقف جاہل شخص جب ان کی ظاہری خوشنما جال میں پھنستا ہے تو اس کو ابتدائی سبق ہی یہ پڑھایا جاتا ہے کہ " فقہ حنفی قرآن وحدیث کے بالکل خلاف ومتضاد ہے " لہذا اس کے قریب بھی نہ جانا ، اور پھر اس کو مزید گمراه کرنے کے لئے  اورامام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی سے متنفرکرنے کے لیئے چند کتب ورسائل کے پڑھنے کی تاکید کی جاتی ہے جن کو بعض جہلاء نے ترتیب دیا ہے اوران میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی کے خلاف انٹرنیشنل جھوٹ وکذب وفریب کوجمع کیا ، اب ایک ناواقف وجاہل خالی الذہن شخص یہ سب کذبات وافترآت پڑھتا ہے یا سنتا ہے اور اس کو خالص اندھی تقلید میں قبول کرتا جاتا ہے ، کیونکہ یہ شخص بوجہ اپنی جہالت کے دین کے بنیادی احکامات وفرائض کی خبرنہیں رکھتا تو فقہ حنفی کی تفصیلات کا اس کو کیا علم ہوگا ، اور اس فرقہ جدید میں شامل ہونے والے اکثرکا یہی حال ہے کہ اسی قسم کا وسوسہ کسی نے سنایا یا پڑھایا اور ان کے ساتھ ہولیا ، اب یہی شخص اس کے بعد رات دن امام اعظم ابو  حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی اورعلماء احناف کے خلاف طعن وتشنیع کرتا  رہتا ہے اوراپنی عاقبت کوخراب کرتا ہے ، اور یہ سب کام یہ شخص خالص اندهی وناجائز تقلید میں کرتا ہے ، کیونکہ خود تو اس کے اندر اتنی استعداد وصلاحیت نہیں ہے کتب فقہ کی طرف رجوع کرکے صحیح وغلط جھوٹ وسچ کی تمیز وتفریق کرسکے ، لہذا  چند جہلاء کے رسائل وکتب وبیانات پرہی آمین ولبیک کہہ دیتا ہے ، اور اس طرح ضلالت کی وادی میں پہلا قدم رکھتا ہے ، لہذا ایک عاقل شخص پرلازم ہے کہ امام اعظم ابو  حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی اورعلماء احناف کے خلاف اس فرقہ جدید کی طرف سے پھیلائے گئے وساوس واکاذیب کو ہرگز قبول  نہ کرے ، الله تعالی علماء حق علماء دیوبند کو جزاء خیردے کہ اس فرقہ جدید کی اڑائی ہوئی تمام جھوٹی باتوں کا جواب مستقل کتب ورسائل وبیانات وتقاریر کی صورت میں دے چکے ہیں اور اس فرقہ جدید پرخصوصا اوردیگرتمام لوگوں پرحُجت تمام کرچکے ہیں ، یہاں میں صرف ایک بات امام اعظم ابو  حنیفہ رحمہ الله کے اصول اجتہاد کے حوالے سے عرض کرتا ہوں ، جس کوپڑھ کرآپ اندازه کریں کہ امام اعظم نے باب اجتہاد میں کتنا عظیم اصول قائم کیا ہے ، اوراس اصول کو پڑھنے کے بعد امام اعظم اورفقہ حنفی کے خلاف اس فرقہ جدید کے پھیلائے ہوئے اکثر وساوس فنا ہوجاتے ہیں۔

مذہب حنفی رائے اورقیاس پرمبنی ہے


یہ وسوسہ اور جھوٹ بھی  بہت پھیلایا گیا اور آج تک اس فرقے کے  جاہل لوگ عوام میں اس جھوٹ کوپھیلا رہے ہیں ، فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی ہندوستان میں پیدائش کے بعد اس جھوٹ کوبہت فروغ دینے کی ناکام کوشش کی گئی ،الحمدلله اس جھوٹ و وسوسہ کی ویسے بھی اہل علم کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں تھی کیونکہ علماء احناف اور فقہ حنفی کسی مخفی وپوشیده چیز کا نام نہیں ہے اہل علم کو فقہ حنفی کا مرتبہ ومقام خوب معلوم ہے اور فقہ حنفی پر مشتمل کتب کا ایک بحرذخائر دنیائے اسلام کے تمام کتب خانوں میں پھیلا ہوا ہے ،لیکن پھر بھی اتمام حجت کے لئے  اس وسوسہ کا جواب علماء احناف نے دیا ،اور اس وسوسہ کے جواب میں مفصل ومختصر کئی کتب لکھی گئی ،لیکن اس باب میں سب سے عظیم الشان انتہائی مدلل دلائل وبراہین سے مزین کتاب  العلامۃ المحقق الكبير المحدث العظیم الفقيہ الجلیل والبحاثۃ المدقق الثبت الحجۃ المفسرالمحدث الاصولی البارع الاديب المؤرخ الزاهد الورع الشيخ ظفر احمد العثمانی التهانوی الدیوبندی رحمہ الله نے لکھی ہے ، جس کا نام (( إعــْــلاءُالسُّـنـَن )) ہے،

اشاعرہ اور ماتریدیہ میں مسائل عقیده میں اختلاف ہے

اشاعره اور ماتریدیہ  میں اصول عقیده میں کوئی اختلاف نہیں ہے ،چند فروعی مسائل میں اختلاف ہے جوکہ مضرنہیں ہے یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جس کی بنا پر ان میں سے کوئی فرقہ ناجیہ ہونے سے نکل جائے ،لہذا امام اشعریؒ اورامام ماتريدیؒ کے مابین بعض جزئی اجتہادی مسائل میں اختلاف ہے ، اور علماء امت نے ان مسائل کوبھی جمع کیا ہے ،امام تاج الدین  السبكی رحمہ الله نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل تیره مسائل ہیں ، 
تفحصت كتب الحنفية فوجدت جميع المسائل التى فوجدت جميع المسائل التى بيننا وبين الحنفية خلاف فيها ثلاث عشرة مسائل منها معنوي ست مسائل والباقي لفظي وتلك الست المعنوية لا تقتضي مخالفتهم لنا ولا مخالفتنا لهم تكفيراً ولا تبديعاً، صرّح بذلك أبو منصور البغدادي وغيره من أئمتنا وأئمتهم ) طبقات الشافعية ج 3 ص 38 (

احناف ماتریدی عقیده رکهتے ہیں اوردیگر مقلدین اشعری عقیده رکهتے ہیں

یہ باطل وسوسہ بھی عوام الناس کو مختلف انداز سے یاد کرایا جاتا ہے ، اور فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جاہل شیوخ اپنے جاہل مقلد عوام کو وسوسہ پڑھا دیتے  ہیں اور وه بے چارے اس وسوسہ کو یاد کرلیتے ہیں ، اور آگے اس کو پھیلاتے ہیں ، فرقہ جدید اہل حدیث کے عوام کوتواشعری وماتریدی کا نام پڑھنا بھی نہیں آتا ، اوریہی حال ان کے خواص کا ہے ان کو کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ ماتریدی کون تھا ،اشعری کون تھا،  ان کے کیاعقائد وتعلیمات ہیں ؟ بس احناف سے ضد کی بنا پر انہوں سب کچھ کرنا ہے ۔اس وسوسہ کے تحت کسی قدر تفصیل سے بات کرنا چاهتا ہوں۔
تاريخ علم الكلام
 کون نہیں جانتا کہ خاتم الانبیاء ﷺ  کی آمد مبارک سے پہلےدنیاکا شیرازه بکھرا ہوا تھا ، انسانیت میں انتشار وافتراق تھا نفرت وعداوت تھی ، تمام اعمال رذیلہ موجود تھے،  عقائد واخلاق کا کوئی ضابطہ نہ تھا،  عبد ومعبود کا صحیح رشتہ ٹوٹ چکا تھا ، خاتم الانبیاء ﷺ  کی بعثت مبارکہ سے خزاں رسیده انسانیت بہار کے ہم آغوش ہوئی، قلوب انسانی کی ویران کھیتیاں لہلہا  اٹھیں، 

امام ابوحنیفہ " عقیده اِرجاء " رکهتے تهے

فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث کے بعض متعصب لوگوں نے  ( غنية الطالبين ) کی اس عبارت کو لے کر امام ابوحنیفہ اور احناف کے خلاف بہت شور مچایا اور آج تک اس وسوسہ کو گردانتے چلے جارہے هیں ،انهی لوگوں میں پیش پیش کتاب " حقیقت الفقہ " کے مولف نام نہاد اہل حدیث غیرمقلد عالم یوسف جے پوری بھی ہے ، لہذا اس نے اپنی کتاب " حقیقت الفقہ " میں گمراه فرقوں کا عنوان قائم کرکے اس کے تحت فرقہ کا نام " الحنفیہ" اور پیشوا کا نام ابو حنيفہ نعمان بن ثابت  لکھا ، اور "حنفیہ " کو دیگرفرق ضالہ کی طرح ایک گمراه فرقہ قرار دیا اوراسی غرض سے شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ( غنیۃ الطالبين) کی عبارت نقل کی۔
امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب اس وسوسہ کا جواب دینے سے قبل یوسف جے پوری کی امانت ودیانت ملاحظہ کریں ، اس نے اصل عبارت پیش کرنے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفاء کیا اور وه بھی اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ذکرکیا ،(غنيۃ الطالبين ) کی اصل عبارت اس طرح ہے ۔
أما الحنفية فهم بعض أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت زعموا ان الإيمان هوالمعرفة والإقرار بالله ورسوله وبما جاء من عنده جملة على ماذكره البرهوتي فى كتاب الشجرة۔ (291)

فقہ حنفی اور حدیث میں ٹکراؤ ہے

یہ  بھی بہت پرانا وسوسہ اور جھوٹ ہے جس کو فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کے جہلاء نقل در نقل چلے آ رہے ہیں ، اور اس وسوسہ کے ذریعہ عوام کو بآسانی بے راه کرلیتے ہیں ، اس وسوسہ کے استعمال کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی مسئلہ میں اگر مختلف احادیث وارد ہوئی ہوں اور فقہ حنفی کا کوئی مسئلہ بظاہر کسی حدیث کے خلاف نظرآتا ہو تو یہ حضرات اس کو بڑے زور وشور سے بار بار بیان کرتے ہیں ، لمبے چوڑے بیانات وتقریریں کرتے ہیں ،اور اس پر کتابچے اور رسائل لکھتے ہیں اور فقہ حنفی کو حدیث کے مخالف ثابت کرنے کی ناکام ونامراد کوشش کرتے ہیں ،اور اس طرح ان وساوس کی ترویج وتشہیر کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ اس فقہی مسئلہ کے موافق حدیث ودلیل بھی ہوتی ہے لیکن یہ اس کوچھپا دیتے ہیں اس کا بالکل ذکرہی نہیں کرتے ، اور اگرکوئی اس فقہی مسئلہ کے موافق حدیث ودلیل ذکر کربھی دے تو اس پر " ضعیف یا موضوع " کا لیبل لگا دیتے ہیں ، اب ایک عام آدمی کو فقہی مسائل اوراحادیث کے علوم کی کیا خبرہے ، خود فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کے ان نام نہاد شیوخ کو کچھ پتہ نہیں لیکن بس " اندهوں میں کانا راجہ " والی بات ہے ، لہذا اگر یہ وسوسہ وه قبول کرلے توپھر صرف یہی نہیں کہ وه فقہ حنفی کی مخالفت پرکمربستہ ہوجاتا ہے بلکہ اپنی گذشتہ زندگی پر توبہ واستغفار بھی کرتا ہے ،اور اپنے زعم میں بہت خوش ہوتا ہے کہ الحمد لله اب میں توحید وسنت کی دولت سے مالا مال ہوگیا ہوں ، اب مجھے صراط مستقیم مل گیا ہے ،

کیا قرآن وحدیث کو چار اماموں کے علاوه کسی نے نہیں سمجها؟

یہ باطل وسوسہ بھی ایک جاہل آدمی بہت جلد قبول کرلیتا ہے ، لیکن اس وسوسہ کے جواب میں عرض ہے کہ آیت مذکورہ  کا اگریہ مطلب ہے کہ قرآن سمجھنے کے لئے کسی استاذ  ومعلم  ومفسر کی ضرورت نہیں ہے ، اور ہربنده خود کامل ہے تو پھر " فقہکے ساتھ حدیث بھی جاتی ہے ، اور اگرقرآن کے ساتھ اس کےآسان ہونے کے باوجود کتب احادیث صحاح ستہ اور ان کے شروح وحواشی کی بھی ضرورت ہے ، توپھرکتب " فقہ " کا بھی دین سے خارج ہونا بڑا مشکل ہے ، اگرفہم قرآن کے لئے حدیث کی ضرورت ہے تو فہم حدیث کے لیئے" فقہ " کی ضرورت ہے ، اگرقرآن سمجھنے کے لئے حضور ﷺ  کی ضرورت ہے ، تو آپ کی حدیث سمجھنے کے لئے آپ کے خاص شاگرد صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اور ان کے شاگرد تابعین وتبع تابعین رضی الله عنہم کی ضرورت ہے ، اگرحدیث قرآن کی تفسیر ہے تو " فقہ " حدیث کی شرح ہے ، اور فقہاء کرام نے دین میں کوئی تغیر تبدل نہیں کیا  بلکہ دلائل شرعیہ کی روشنی میں  احکامات ومسائل مستنبط ( نکال ) کرکے ہمارے سامنے رکھ دیئے ، جو کام ہمیں خود کرنا تھا اور ہم اس کے لائق و اہل نہ تھے وه انہوں نے ہماری طرف سے ہمارے لئے کردیا "فجزاهم الله عنا خیرالجزاء "

فقہ تابعین کے دور کے بعد ایجاد ہوئی

حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب ( اعلام الموقعین ) میں یہ تصریح کی ہے کہ بڑے فقہاء صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی تعداد تقریبا ( 130) کے لگ بھگ ہے ، اور اسی طرح دیگر ائمہ نے بھی فقہاء صحابہ کرام  رضی اللہ عنھم کی تعداد اور ان کے علمی وفقہی کارناموں پر مفصل بحث کی ہے ، یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے ، عرض یہ کرنا ہے کہ فقہ اور فقہاء جماعت صحابہ کرام  رضی اللہ عنھم میں بھی موجود تھے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ " علم فقہ " کی جمع وتدوین کتابی شکل میں بعد میں ہوئی ہے ، اور اس سے " علم فقہ " کی فضیلت واہمیت پرکوئی فرق نہیں پڑتا ، حتی کہ " علم حدیث " کی جمع وتدوین کتابی شکل میں " علم فقہ " کے بھی بعد ہوئی ہے ، اگر " علم فقہ " کو اس وجہ سے چھوڑنا ہے کہ یہ عہد صحابہ  رضی اللہ عنھم کے بعد لکھی گئی ہے تو پھر " علم حدیثکا کیا بنے گا ،صحاح ستہ وغیره کتب حدیث تو بہت بعد میں لکھی گئی ہیں ۔

حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی بعد کی پیداوار ہیں

یہ وسوسہ بھی عام آدمی کوبڑا وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل یہ وسوسہ بھی باطل ہے ، الحمد لله ہم اہل سنت والجماعت ہیں اور اہل سنت کے چاربڑے مکاتب فکرہیں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، یہ چار مسالک ایک دوسرے کے ساتھ باہمی محبت ومودت رکھتے ہیں،  ایک دوسرے کے ساتھ استاذ وشاگرد کی نسبت رکھتے ہیں، ایک دوسرے کو کافر و مشرک و گمراه نہیں کہتے ،صرف فروعی مسائل میں دلائل کی بنیاد پراختلاف رکھتے ہیں۔ اصول وعقائد میں اختلاف نہ توصحابہ کے مابین تھا اور نہ ائمہ اربعہ کے درمیان ۔ غیرمنصوص مسائل میں ان ائمہ کرام نے اجتہاد کیا اسی وجہ سے فروعی مسائل میں ان ائمہ کرام کے مابین اختلاف موجود ہے ، اور یہ اختلاف بمعنی جنگ وفساد نہیں ہے جیسا کہ فرقہ جدید اہل حدیث کا پروپیگنڈه ہے بلکہ یہ علمی اختلاف دلائل وبراہین کی بنیاد پر ہے ، جوکہ امت مرحومہ کے لئے  رحمت ہے ، اور پھر یہ فروعی اختلاف صحابہ کرام کے مابین بھی تھا اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی سب اہل سنت والجماعت ہیں ، اور ہمارا یہ نام ولقب حدیث سے ثابت ہے ، حضور ﷺ نے قول باری تعالی[‏يوم تبيض وجوه وتسود وجوه‏] کی تفسیر میں فرمایا کہ وه اہل سنت والجماعت ہیں

ائمہ اربعہ کے درمیان مسائل میں اختلاف ہے

ائمہ اربعہ کے درمیان مسائل میں اختلاف ہے اورقرآن وسنت میں کوئی اختلاف نہیں ہے لہذا اختلاف وشک سے بچنے کے لئے ان ائمہ کوچهوڑنا ضروری ہے۔

یہ وسوسہ اس طرح بهی پیش کیا جاتا ہے کہ: ائمہ اربعہ کی تقلید کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوئے لہذا ان اختلافات سے تنگ آکرہم نے ان کی تقلید چهوڑدی۔
  یہ وسوسہ بھی ایک عام ان پڑھ آدمی کوبہت جلد متاثرکرلیتا ہے ، لیکن درحقیقت یہ وسوسہ بھی بالکل باطل ہے ، اس لئے کہ فروعی مسائل میں اختلاف صرف ائمہ اربعہؒ  کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے مابین بھی تھا جیسا کہ اہل علم خوب جانتے ہیں کہ ( ترمذی ، ابوداود ، مصنف عبدالرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ ، وغیره ) کتب احادیث میں سینکڑوں نہیں ہزاروں مسائل مختلف فیہ مسائل موجودہیں ، اب اس اصول کی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو بھی چھوڑنا پڑے گا ، لیکن ان شاء الله اہل سنت والجماعت ان وساوس باطلہ کی بنا پر نہ توصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی اتباع کوچھوڑیں گے اور نہ ائمہ اربعہ ؒ کی اتباع کو ۔فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کے جاہل شیوخ نے عوام الناس کو نہ صرف یہ کہ ائمہ اربعہؒ  کی اتباع سے دور کیا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی اتباع سے بھی دور کیا  اورمختلف وساوس پیدا کرکے عوام الناس کوفرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کے جاہل شیوخ نے اپنی اتباع اورتقلید پرمجبور کردیا ۔

کیا فقہ حنفی کا هرمسئلہ سند کے ساتهہ امام ابوحنیفہ سے ثابت ہے

یہ وسوسہ بھی عوام میں پھیلایا جاتا ہے ، صرف اور صرف امام ابوحنیفہ کے ساتھ بغض کی وجہ سے ، آپ کبھی بھی نام نہاد فرقہ اہل حدیث میں شامل جہلاء کی زبانی فقہ شافعی ، فقہ مالکی ، فقہ حنبلی ، کے خلاف کوئی بات نہیں سنیں گے کیونکہ ان کا مقصد ومشن امام ابوحنیفہ ؒ اور فقہ حنفی کی مخالفت ہے ، کیونکہ یہ فرقہ شاذه اسی کام کے لئے  ہندوستان میں پیدا کیا گیا ۔
باقی مذکوره بالا وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ الحمد لله فقہ حنفی کا ہرمفتی بہ اورمعمول بہا مسئلہ سند ودلیل کے ساتھ ثابت ہے ، اور سند سے بھی زیاده مضبوط وقوی دلیل تواتر ہے ، اور اہل سنت کے نزدیک یہ بات متواتر ہے کہ فقہ حنفی کے مسائل واجتہادات امام ابوحنیفہؒ اورآپ کے تلامذه کے ہیں۔ 
علماء امت نے مذاہب اربعہ کے مسائل پرمشتمل مستقل کتب لکھی ہیں ، مثال کے طور پر کتاب ( بداية المجتهد ونهاية المقتصد ) علامہ القاضی ابی الوليد ابن رشد القرطبی المالکی ؒکی ہے ، اس میں مذاہب اربعہ کے تمام مسائل دلائل کے ساتھ موجود ہیں ، اوراس باب میں یہ کتاب انتہائی بہترین اورمقبول کتاب ہے ، اسی طرح ایک کتاب ( الفقه على المذاهب الأربعة) علامہ عبد الرحمن الجزيري کی ہے ، اسی طرح ایک کتاب (رحمة الأمة في اختلاف الأئمة) علامہ محمد بن عبدالرحمن بن الحسين القرشی الشافعی الدمشقی کی ہے ،اسی طرح امام شعرانی کی کتاب ( المیزان ) وغیرذالک۔

فقہ حنفی پر عمل کرنا بہتر ہے یا قرآن و حدیث پر

یہ وسوسہ بھی جہلاء کو بڑا خوبصورت معلوم ہوتا ہے ، حالانکہ درحقیقت یہ وسوسہ بھی باطل وفاسد ہے ، اس لئے کہ جس طرح حدیث،   قرآن کی شرح ہے اسی طرح فقہ،   حدیث کی شرح ہے ، اب اصل سوال یہ بنتا ہے کہ قرآن وحدیث پر عمل علماء وفقہاء وماہرین کی تشریحات کے مطابق کریں یا اپنے نفس کی تشریح اور نام نہاد جاہل فرقہ اہل حدیث میں شامل جہلاء کی تشریح کے مطابق ؟؟ 
 اہل سنت والجماعت توقرآن وحدیث پرعمل کرتے ہیں مستند علماء وفقہاء ومجتہدین کی تشریحات وتصریحات کے مطابق اور اسی کا نام علم فقہ ہے ، جب کہ نام نہاد فرقہ اہل حدیث میں شامل ناسمجھ لوگ نام نہاد خودساختہ جاہل شیوخ کے خیالات وآراء پرعمل کرتے ہیں ، اب ایک عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ کس کا عمل زیاده صحیح ہے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کوئی کتاب نہیں لکهی

اہل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بھی باطل وفاسد ہے ، اور تارعنکبوت سے زیاده کمزور ہے ، اور یہ طعن تواعداء اسلام بھی کرتے ہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حضورﷺ نےخود اپنی زندگی میں احادیث نہیں لکھیں لہذا احادیث کا کوئی اعتبارنہیں ہے ، اسی طرح منکرین قرآن کہتے ہیں کہ حضورﷺنےخود اپنی زندگی میں قرآن نہیں لکھوایا  لہذا اس قرآن کا کوئی اعتبارنہیں ہے ، فرقہ اہل حدیث کے جہلاء نے یہ وسوسہ منکرین حدیث، قرآن اور شیعہ سے چوری کرکے امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بغض کی وجہ سے یہ کہہ دیا کہ انهوں نے توکوئی کتاب نہیں لکھی ، لہذا ان کی فقہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے ،۔یاد رکھیں کسی بھی آدمی کے عالم وفاضل وثقہ وامین ہونے کے لئے کتاب کا لکھنا ضروری نہیں ہے ، اسی طرح کسی مجتہد امام کی تقلید واتباع کرنے کے لئے  اس امام کا کتاب لکھنا کوئی شرط نہیں ہے ۔بلکہ اس امام کا علم واجتہاد محفوظ ہونا ضروری ہے ۔ اگرکتاب لکھنا ضروری ہے تو خاتم الانبیاء ﷺ  نے کون سی کتاب لکھی ہے ؟؟؟  اسی طرح بے شمار ائمہ اور راویان حدیث ہیں ، مثال کے طور پر امام بخاری ؒ  اور امام مسلم  ؒکے شیوخ ہیں،  کیا ان کی حدیث و روایت معتبر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ انہوں نے کوئی  کتاب لکھی ہو ؟؟؟   اگر ہر امام کی بات معتبر ہونے کے لئے  کتاب لکھنا ضروری قرار دیں تو پھر دین کے بہت سارے حصہ کو خیرباد کہنا پڑے گا ۔

امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے


یہ باطل وسوسہ بھی فرقہ اہل حدیث کے جہلاء نےامام اعظم ؒ کے ساتھ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اہل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بھی باطل وکاذب ہے۔
یاد رکھیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا ہے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹھنا شرط نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبہ) میں فرمایا (ہذٰا ہوالمختار) یہی بات صحیح ومختارہے۔
امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے ، اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی ہونے کو محدثین اور اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تهے

  یہ باطل وسوسہ بھی فرقہ اہل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتے چلے آرہے ہیں ، اہل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور ہے ، اور دن دیہاڑے چڑتے سورج کا انکار ہے ۔ روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں ہے  چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور ہے؟
بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل ہونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کرتا ہوں ، جن میں ہرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر ہے ۔

امام ابوحنيفہ رحمہ الله ضعيف راوى تهے

دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کے نام ذکر کروں گا ، جو اس وسوسہ کو باطل کرنے کے لئے کافی ہیں ۔
1. امام ذہبی رحمہ الله حدیث و رجال کے مستند امام ہیں ، اپنی کتاب ( تذکرة الحُفاظ ) میں امام اعظم رحمہ الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکھے ہیں ، جرح ایک بھی نہیں لکھی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکھنے کے بعد امام ذہبی رحمہ الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمہ الله کے مناقب میں ایک جدا ا ور مستقل کتاب بھی لکھی ہے۔
2. حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ الله نے اپنی کتاب (تهذیبُ التهذیب) میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکھنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا ۔
مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين
"امام ابوحنيفہ رحمہ الله کے مناقب کثیر ہیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی ہو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین"۔

امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ؟؟

یہ وسوسہ بہت پرانا ہے جس کو فرقہ اہل حدیث کے جہلاء نقل درنقل نقل کرتے چلے آرہے ہیں ، اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو ( لعنة الله علی الکاذبین ) ہے ، یہ انهوں نے (کتاب تاریخ ابن خلدون ) سے لیا ہے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی ہے کہ ہمارے اصول صرف قرآن وسنت ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض ہے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سے بهی ملے وه سر آنکھوں پر، اس کے لئے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئی ضرورت نہیں اگرچہ کسى مجہول آدمی کا جھوٹا قول ہی کیوں نہ ہو ۔یہی حال ابن خلدون کے نقل کرده اس قول کا ہے ، تاریخ ابن خلدون میں ہے۔
فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها