تازہ ترین تحریریں

Thursday 13 September 2012

امام ابوحنیفہ " عقیده اِرجاء " رکهتے تهے

فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث کے بعض متعصب لوگوں نے  ( غنية الطالبين ) کی اس عبارت کو لے کر امام ابوحنیفہ اور احناف کے خلاف بہت شور مچایا اور آج تک اس وسوسہ کو گردانتے چلے جارہے هیں ،انهی لوگوں میں پیش پیش کتاب " حقیقت الفقہ " کے مولف نام نہاد اہل حدیث غیرمقلد عالم یوسف جے پوری بھی ہے ، لہذا اس نے اپنی کتاب " حقیقت الفقہ " میں گمراه فرقوں کا عنوان قائم کرکے اس کے تحت فرقہ کا نام " الحنفیہ" اور پیشوا کا نام ابو حنيفہ نعمان بن ثابت  لکھا ، اور "حنفیہ " کو دیگرفرق ضالہ کی طرح ایک گمراه فرقہ قرار دیا اوراسی غرض سے شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ( غنیۃ الطالبين) کی عبارت نقل کی۔
امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب اس وسوسہ کا جواب دینے سے قبل یوسف جے پوری کی امانت ودیانت ملاحظہ کریں ، اس نے اصل عبارت پیش کرنے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفاء کیا اور وه بھی اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق ذکرکیا ،(غنيۃ الطالبين ) کی اصل عبارت اس طرح ہے ۔
أما الحنفية فهم بعض أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت زعموا ان الإيمان هوالمعرفة والإقرار بالله ورسوله وبما جاء من عنده جملة على ماذكره البرهوتي فى كتاب الشجرة۔ (291)

اب (غنية الطالبين) کی اس عبارت کی بنیاد ایک مجہول شخص " برہوتی " کی مجہول کتاب "كتاب الشجرۃ" پر ہے ، لیکن یوسف جے پوری نے اس عبارت کا ترجمہ کرتے وقت " كتاب الشجرة " کا نام اڑا دیا جو کہ ( غنية الطالبين ) کا مآخذ ہے ، اب سوال یہ ہے کہ
یہ " برہوتی " کون شخص ہے ؟ اور اس کی " كتاب الشجرة " کوئی مستند کتاب ہے ؟
حقیقت میں یہ دونوں مجہول ہیں ، لیکن یوسف جے پوری چونکہ فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں جن کا یہ اصول ہے کہ ہم ہربات صحیح وثابت سند کے ساتھ قبول کرتے ہے ضعیف اور مجہول بات کا ہمارے نزدیک کوئی اعتبارنہیں ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ ؒ   اور احناف کے خلاف جوبات جہاں سے جس کسی سے بھی مل جائے تو وه سرآنکھوں پر ہے ، اس کے لئے کسی دلیل ثبوت صحت سند غرض کسی چیزکی کوئی ضرورت نہیں ،اگر " كتاب الشجرة " اور اس کا مصنف " برہوتی " واقعی ایک معروف ومعتمد آدمی ہے تو یوسف جے پوری نے اصل " كتاب الشجرة " کی عبارت مع سند کیوں ذکرنہیں کی ؟
جب ایسا نہیں کیا تو اہل عقل پرواضح ہوگیا کہ یوسف جے پوری نے محض تعصب وعناد کی بنا پر جاہل عوام کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ 
دوسری اہم بات ( غنیۃ الطالبین ) کی مذکوره بالا عبارت کو دیکھیں اس میں ( بعض أصحاب أبی حنیفۃ ) کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کہ کچھ حنفی اس عقیده کے حامل تھے ، لیکن یوسف جے پوری کی امانت ودیانت کو داد دیں کہ اس نے " بعض " کا لفظ اڑا کر تمام احناف کواس میں شامل کردیا اور اس کو امام ابوحنیفہ ؒ کا مذہب بنا دیا ۔
یوسف جے پوری  لکھتا ہے کہ
ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کوفی مقتدا ہیں فرقہ حنفیہ کے اکثر اہل علم نے ان کو " مرجئہ فرقہ " میں شمارکیا ہے الخ (حاشیہ حقیقت  الفقہ ص 27)
جے پوری کی یہ بات کہ (اکثر اہل علم نے ان کو " مرجئہ فرقہ " میں شمارکیا ہے ) یہ محض دھوکہ اورکذب و وسوسہ ہے ، اس لئے  اگر اکثر اہل علم نے امام ابوحنیفہ ؒ کو مرجئہ کہا ہے تو جے پوری نے ان اکثر اہل علم کی فہرست اور ان کے نام ذکرکرنے کی تکلیف کیوں نہیں کی ؟
 جو شخص امام ابوحنیفہ ؒسے اس درجہ بغض وعناد رکھتا ہے کہ سب رطب ویابس غلط جھوٹ بغیرجانچ پڑتال کے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ، تعجب ہے کہ اس نے یہ توکہہ دیا کہ اکثر اہل علم نے امام ابوحنیفہ کو مرجئہ کہا ہے ، لیکن اکثر اہل علم میں سے کسی ایک کا نام ذکرنے کی تکلیف نہیں کی ۔
حافظ ابن عبدالبر المالکی ؒ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے امام ابوحنیفہؒ  پر " ارجاء " کا الزام لگایا ہے ، حالانکہ اہل علم میں توایسے لوگ کثرت سے موجود ہیں جن کو مرجئہ کہا گیا ہے ، لیکن جس طرح امام ابوحنیفہ  ؒ    کی امامت کی وجہ سے اس میں برا پہلو نمایاں کیا گیا ہے دوسروں کے بارے ایسا نہیں کیا گیا ، اس کے علاوه  یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگ امام ابوحنیفہ ؒ سے حسد وبغض رکھتے تھے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جن سے امام ابوحنیفہ ؒ                           کا دامن بالکل پاک تھا ، اوران کے بارے نامناسب اوربے بنیاد باتیں گھڑی جاتی تھیں حالانکہ علماء کی ایک بڑی جماعت نے امام ابوحنیفہ ؒ کی تعریف کی اور ان کی فضیلت کا اقرار کیا ہے ۔
(دیکھیے  جامع بیان العلم وفضله لابن عبدالبر ص 431 )
ارجاء کا معنی اور حقیقت
ارجاء کا لغت عرب میں معنی ہے " الأمل والخوف والتأخير وإعطاء الرجاء والإمهال " تاخیر اور مہلت دینا اور خوف اور امید ۔علامہ عبدالکریم شہرستانی اپنی کتاب ( المِلَل والنِحَل ) میں فرماتے ہیں کہ ارجاء کے دو معنی ہیں۔
1.    تاخیرکرنا جیسا کہ قول باری تعالی " قالوا أرجه وأخاه " ( انهوں نے کہا کہ موسی اور ان کے بهائی کو مہلت دے ) یعنی ان کے بارے میں فیصلہ کرنے میں تاخیرسے کام لینا چاہیئے  اور ان کومہلت دینا چاہیئے ۔
2.     والثانی: إعطاء الرجاء. دوسرا معنی ہے امید دلانا ( یعنی محض ایمان پرکلی نجات کی امید دلانا اور یہ کہنا کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناه ومعاصی کچھ مضرنہیں ہیں۔
3.     ) اوربعض کے نزدیک ارجاء یہ بھی ہے کہ کبیره گناه کے مرتکب کا فیصلہ قیامت پرچھوڑدیا جائے اور دنیا میں اس پر جنتی یا جہنمی ہونے کا حکم نہ لگایا جائے ۔
4.     اور بعض کے نزدیک ارجاء یہ ہے کہ حضرت علی رضی الله عنہ کو پہلے خلیفہ کے بجائے چوتھا خلیفہ قرار دیا جائے۔ (الملل والنحل ، الفصل الخامس ألمرجئة )
ارجاء   کے معنی ومفہوم میں چونکہ " التأخير " بھی شامل ہے ، اس لئے  جو حضرات ائمہ‘   گناہگار کے بارے میں توقف اور خاموشی سے کام لیتے ہیں ، اور دنیا میں اس کے جنتی اور جہنمی هونے کا کوئی فیصلہ نہیں کرتے ، بلکہ اس کا معاملہ آخرت پرچھوڑتے ہیں کہ حق تعالیٰ  شانہ اس کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے خواه اس کو معاف کرے اور جنت میں داخل کردے ، یا سزا بھگتنے کے لئے جہنم میں ڈال دے ، یہ سب " مرجئہ " ہیں اور اسی معنی کے اعتبار سے امام اعظمؒ  اور دیگر ائمہ و محدثین کو "مرجئہ"  کہا گیا ۔
علامہ ملا علی قاری نے ( شرح فقہ اکبر ) میں یہی بات لکھی ہے
 ثم اعلم أن القُونَوِيَّ ذَكَرَ أنَّ أبا حنيفة كان يُسمَّى مُرجِئاً لتأخيره أمرَ صاحبِ الكبيرة إلى مشيئة الله، والإرجاء التأخير. انتهى
جاننا چائیے کہ علامہ قونوی نے ذکرکیا ہے کہ امام ابوحنیفہ کو بھی مرجئہ کہا جاتا تھا کیونکہ امام ابوحنیفہ مرتکب کبیره کا معاملہ الله تعالی کی مشیت پر موقوف رکھتے تھے ، اور " ارجاء " کے معنی ومفہوم موخرکرنے کے ہیں ۔ ( منح الروض الأزهر فی شرح الفقه الأكبر ) ص67 (للعلامۃ علی القاری )
اب سوال یہ ہے کہ کیا امام ابوحنیفہ کا یہ عقیده قرآن وحدیث کی تصریحات وتعلیمات کےخلاف ہے ؟؟ یا صریح نصوص آیات واحادیث سے امام ابوحنیفہ کے اس عقیده کی تائید وتصدیق ہوتی ہے ، اور تمام اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے ۔
مرجئہ فرقہ كا عقيده
علامہ ملا علی قاری (شرح فقہ الاکبر ص 104 ) پرفرماتے ہیں کہ
مرجئہ مذمومہ بدعتی فرقہ " قدریہ سے جدا ایک فرقہ ہے جن کا عقیده ہے کہ ایمان کے آنے کے بعد انسان کے لیئے کوئی گناه مضرنہیں ہے جیسا کہ کفرکے بعد کوئی نیکی مفید نہیں ہے اور ان (مرجئہ) کا نظریہ ہے کہ مسلمان جیسا بھی ہوکسی کبیره گناه پر اس کوکوئی عذاب نہیں دیا جائے گا ،پس اس ارجاء (یعنی مرجئہ اہل بدعت کا ارجاء) اور اُس ارجاء (یعنی امام اعظم اوردیگرائمہ کا ارجاء) میں کیا نسبت ؟
یوسف جے پوری لکھتا ہے کہ
چنانچہ ایمان کی تعریف اور اس کی کمی وزیادتی کے بارے میں جوعقیده مرجئہ کا ہے انہوں ( امام ابوحنیفہ ) نے بھی بعینہ وہی اپناعقیده اپنی تصنیف فقہ اکبرمیں درج فرمایا ہے ۔ ( حاشيہ حقيقت الفقہ ص 72 )
یوسف جے پوری کی یہ بات بالکل غلط اور جھوٹ ہے، فقہ اكبركى عبارت ملاحظہ کریں
ولانقول ان المؤمن لايضره الذنوب ولانقول انه لايدخل النارفيها ولانقول انه يخلد فيها وان كان فاسقا بعد ان يخرج من الدنيا مؤمنا ولا نقول حسناتنا مقبولة وسيئاتنا مغفورة كقول المرجئة (شرح كتاب الفقہ الاكبر ص 108)
اور ہم یہ نہیں کہتے کہ مومن کے لئے گناه مضرنہیں ، اور نہ ہم اس کے قائل ہیں کہ مومن جہنم میں بالکل داخل نہیں ہوگا ، اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وه ہمیشہ جہنم میں رہے گا اگرچہ فاسق ہو جب کہ وه دنیا سے ایمان کی حالت میں نکلا ،اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری تمام نیکیاں مقبول ہیں اور تمام گناه معاف ہیں جیسا مرجئہ کا عقیده ہے ۔
اب یوسف جے پوری کی بات (( جوعقیده مرجئہ کا ہے انہوں ( امام ابوحنیفہ ) نے بھی بعینہ وہی اپناعقیده اپنی تصنیف فقہ اکبرمیں درج فرمایا ہے))کو دیکھیں اور " شرح فقہ اکبر " کی مذکوره بالاعبارت پڑھیں ، اس میں مرجئہ کا رد ومخالفت ہے یا موافقت ؟؟
یوسف جے پوری لکھتا ہے کہ
علامہ شہرستانی نے ( کتاب الملل والنحل ) میں بھی رجال المرجئہ میں حمادبن ابی سلیمان اور ابوحنیفہ اورابویوسف اور محمد بن حسن وغیرھم کو درج کیا ہے ،اسی طرح غسان ( جوفرقہ غسانیہ کا پیشوا ہے ) بھی امام صاحب کو مرجئہ میں شمارکرتا ہے ۔ (حاشيہ حقيقت الفقہ ص 72)
یوسف جے پوری کی یہ بات بھی دھوکہ وخیانت پرمبنی ہے یا پھر ( کتاب الملل والنحل ) کی عبارت پڑھنے میں ان کو غلط فہمی ہوئی ہے
علامہ شہرستانی سے سنیے
ومن العجيب ان غسان كان يحكى عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى مثل مذهبه ويعده من المرجئة ولعله كذب كذالك عليه ولعمرى كان يقال لأبى حنيفة وأصحابه مرجئة السنة ( ألملل والنحل، الفصل الخامس الغسانية)
تعجب کی بات ہے کہ غسان ( جوفرقہ غسانیہ کا پیشوا ہے ) بھی اپنے مذہب کو امام ابوحنیفہؒ  کی طرح ظاہر کرتا اورشمارکرتا تھا ، اور امام ابوحنیفہ ؒ  کو بھی مرجئہ میں شمارکرتا تھا  غالبا  یہ جھوٹ ہے ، مجھے زندگی عطا کرنے والےکی قسم کہ ابوحنیفہ اور  اس کے اصحاب کو تو " مرجئة السنة " کہا جاتا تھا ۔
اب آپ یوسف جے پوری کی عبارت پڑهیں اور علامہ شہرستانی کی اصل عبارت اور ترجمہ دیکھ لیں ،یہ نام نہاد اہل حدیث امام صاحب پر اس طرح جھوٹ وخیانت  ،  دھوکہ وفریب کے ساتھ طعن وتشنیع کرتے ہیں ،حاصل یہ کہ ( غنیۃ الطالبین ) میں جو کچھ لکھا ہے اس کی حقیقت بھی واضح هوگئی اور جو کچھ ہاتھ کی صفائی سے  یوسف جے پوری نے دکھائی وه بھی آپ نے ملاحظہ کرلی ،
ایک دوسری اہم بات بھی ملاحظہ کریں وه یہ کہ ( غنیۃ الطالبین ) میں شیخ عبدالقادر جیلانی نے کئی جگہ امام ابوحنیفہؒ  کے اقوال بھی نقل کئے  اور ان کو امام کے لقب سے یاد کیا ، مثلا ایک مقام پر شیخ عبدالقادر جیلانی نے تارک صلوة کا حکم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
وقال الإمام أبوحيفة لايقتل
امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔
اب اگر شیخ عبدالقادر جیلانی کے نزدیک امام ابوحنیفہ " مرجئہ مبتدعہ ضالہ "  میں سے ہوتے توپھر ان کو " الإمام " کے لقب سے کیوں ذکر کرتے ہیں ؟؟؟
اور مسائل شرعیہ میں امام ابوحنیفہ کے اقوال کیوں ذکرکرتے ہیں ؟؟ ((ميزان الاعتدال )) و (( تہذيب الكمال ) و (( تہذيب التہذيب )) اور (( تقريب التہذيب )) وغیره رجال کی کتابوں میں ایسے بہت سے روات کے حق میں " ارجاء" کا طعن والزام لگایا گیا ، مثلا اس طرح کے الفاظ استعمال کئے گئے
"رُمِيَ بالإرجاء، كان مرجئاً ، " وغیره
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب " تدریبُ الراوی " میں بخاری ومسلم کے ان روایوں کے اسماء کی پوری فہرست پیش کی ہے جن کو " مرجئہ " کہا گیا ۔
امام الحافظ الذہبی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
قلتُ: الإرجاءُ مذهبٌ لعدةٍ من جِلَّة العلماء، ولا ينبغي التحاملُ على قائله
( الميزان ج3ص163 في ترجمة " مِسْعَر بن كِدَام)
میں ( امام ذہبی ) کہتا ہوں کہ " ارجاء " تو بڑے بڑے علماء کی ایک جماعت کا مذہب ہے اور اس مذہب کے قائل پر کوئی مواخذه نہیں کرنا چاہیئے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایک " ارجاء " فرقہ مبتدعہ ضالہ مرجئہ  کا ہے اور ایک " ارجاء " ائمہ اہل سنت کا قول ہے ، جس کی تفصیل گذشتہ سطور میں گذرگئی ہے ۔
آخری بات فرقہ اہل حدیث کے مستند عالم مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی بات نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں ، فرماتے ہیں کہ اس موقع پراس شبہ کاحل نہایت ضروری ہے کہ بعض مصنفین نے سیدنا امام ابوحنیفہؒ   کوبھی رجال مرجئہ میں شمارکیا ہے حالانکہ آپ اہل سنت کے بزرگ امام ہیں اورآپ کی زندگی اعلی تقوی اورتورع پرگذری جس سے کسی کوبھی انکارنہیں ، بے شک بعض مصنفین نے (الله ان پر رحم کرے) امام ابوحنیفہ ؒ اورآپ کے شاگردوں امام ابویوسف ؒ، امام محمد ؒ، امام زفرؒ ، اور امام حسن بن زیادؒ  کو رجال مرجئہ میں شمارکیا ہے ، جس کی حقیقت کو نہ سمجھ کر اور حضرت امام صاحب ممدوح کی طرز زندگی پرنظر نہ رکھتے ہوئے بعض لوگوں نے اسے خوب اچھالا ہے لیکن حقیقت رس علماء نے اس کا جواب کئی طریق پردیا ہے ۔ (( تاريخ اہل حديث ، ارجاء اور امام ابوحنيفہ ، ص 77 ))
اسی کتاب میں ( ص 93) پرلکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے حوالے سے بھی ٹھوکرلگی ہے آپ نے حضرت امام صاحب رحمہ الله علیہ کو مرجیئوں میں شمار کیا ہے ، سواس کا جواب ہم اپنے الفاظ میں نہیں بلکہ اپنے شیخ الشیخ حضرت سید نواب صاحب مرحوم کے حوالے سے دیتے ہیں ۔
اس کے بعد مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے بانی فرقہ اہل حدیث نواب صدیق حسن صاحب کا کلام ان کی کتاب ( دلیل الطالب ) سے ذکر کیا ، اور پھر اس ساری بحث کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ حاصل کلام یہ کہ لوگوں کے لکھنے سے آپ کس کس کو ائمہ اہل سنت کی فہرست سے خارج کریں گے ؟؟

No comments:

Post a Comment