تازہ ترین تحریریں

Thursday 13 September 2012

احناف ماتریدی عقیده رکهتے ہیں اوردیگر مقلدین اشعری عقیده رکهتے ہیں

یہ باطل وسوسہ بھی عوام الناس کو مختلف انداز سے یاد کرایا جاتا ہے ، اور فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جاہل شیوخ اپنے جاہل مقلد عوام کو وسوسہ پڑھا دیتے  ہیں اور وه بے چارے اس وسوسہ کو یاد کرلیتے ہیں ، اور آگے اس کو پھیلاتے ہیں ، فرقہ جدید اہل حدیث کے عوام کوتواشعری وماتریدی کا نام پڑھنا بھی نہیں آتا ، اوریہی حال ان کے خواص کا ہے ان کو کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ ماتریدی کون تھا ،اشعری کون تھا،  ان کے کیاعقائد وتعلیمات ہیں ؟ بس احناف سے ضد کی بنا پر انہوں سب کچھ کرنا ہے ۔اس وسوسہ کے تحت کسی قدر تفصیل سے بات کرنا چاهتا ہوں۔
تاريخ علم الكلام
 کون نہیں جانتا کہ خاتم الانبیاء ﷺ  کی آمد مبارک سے پہلےدنیاکا شیرازه بکھرا ہوا تھا ، انسانیت میں انتشار وافتراق تھا نفرت وعداوت تھی ، تمام اعمال رذیلہ موجود تھے،  عقائد واخلاق کا کوئی ضابطہ نہ تھا،  عبد ومعبود کا صحیح رشتہ ٹوٹ چکا تھا ، خاتم الانبیاء ﷺ  کی بعثت مبارکہ سے خزاں رسیده انسانیت بہار کے ہم آغوش ہوئی، قلوب انسانی کی ویران کھیتیاں لہلہا  اٹھیں، 
انسانیت نے سراٹھایا ، اخلاق واعمال کی پاکیزگی، عقائد حقہ کی پختگی اورعبادات وطاعات کی لذت سے کائنات کا ذره ذره آشنا  ہوگیا ،،خاتم الانبیاء ﷺ  کے بعد آپ کے جانثار اصحاب بھی پورے کائنات انسانی کے لئے آپ کی سیرت وکردار کامل ومکمل نمونہ تھے ، لیکن صحابہ کرام  رضی اللہ عنھم کا مبارک دورگذرنےکے بعد حالات مختلف ہوئے ،اموی دورخلافت کے اخیرمیں علم وفن کی خدمت کے نام پر غیردینی علوم کا ترجمہ شروع ہوا ، فلاسفہ کی ایک جماعت نے عبرانی اور قبطی زبانوں سے ہیئت وکیمیا کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ، اسی طرح ارسطو کے کچھ رسائل کو اور فارسی زبان کی بعض کتب کوعربی میں منتقل کیا گیا ،پھر جب اسلام کو وسعت حاصل ہوئی اور ایرانی ، قبطی ، یونانی وغیره اقوام حلقہ بگوش اسلام ہوئیں تو انہوں نے مسائل عقائد میں نکتہ آفرینیاں اور بال کی کھال نکالنا شروع کردی ، اسلامی عقائد کا جوحصہ ان کے قدیم عقیده سے کسی درجہ میں ملتا جلتا نظرآیا تو قدرتی طور پرانہوں نے اسی رنگ میں اس کی تشریح پسند کی ، پھر عقل ونقل کی بحث نے اس خلیج کو اور وسیع کیا ، یہ سلسلہ چل ہی رہا  کہ اموی خلافت کی جگہ دولت عباسیہ نے لے لی اور اس نے دوسری مختلف زبانوں کے ساتھ حکمت وفلسفہ یونان کا سارا ذخیره عربی میں منتقل کرکے مسلمانوں میں پھیلا دیا ،یونانی فلسفہ کے پھیلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات میں کمزوری کے ساتھ ساتھ باہم مذہبی اختلاف اورگروه بندی کا دروازه بھی کھل گیا ، جس کے نتیجہ میں الحاد و زندقہ نے بال وپر نکالنے شروع کردیئے ،اب تک عقائد سے متعلقہ مسائل کو ذہن نشین کرنے کا جوفطری طریقہ کتاب وسنت کی بنیاد پرقائم تھا،  حکمت وفلسفہ کی موشگافیوں اور کچھ دیگر انسانی اصطلاحات وقواعد رواج پاجانے کے بعد علماء امت کی نظرمیں کچھ زیاده موثرنہیں رہا ،اس طرح کے حالات وماحول میں جب کہ شکوک وشبہات اور الحاد وزندقہ وگمراہی کے پاوں جمنے شروع  ہوچکے تھے ،
اور خلیفہ مہدی جو ( ۱۵۷ ھ ) میں تخت نشین ہوا ’ کے دور خلافت میں ملحدین وزنادقہ کی رد میں کتب لکھوانے کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور حکومت کی سرپرستی میں ایسی چند کتب لکھی گئیں یہ " علم کلام " کی پہلی بنیاد تھی جومسلمانوں میں قائم ہوئی ، پھر حالات کے پیش نظر دن بدن اس کام کی اہمیت بڑهتی ہی گئی ، حتی کہ علماء اسلام کی ایک مخصوص جماعت مجبور ہوئی کہ وه اپنے آپ کواس کام لئے وقف کردیں ،لہذا  مامون رشید نے ایسے علماء کی بڑھ چڑھ کرحوصلہ افزائی کی ، اورحکومت وقت کی حوصلہ افزائی دیکھ کر علماء  کا  ایک ذہین طبقہ معقولات کی تحصیل میں ہمہ تن مشغول ہوگیا اور اس فن میں انہوں نے مہارت تامہ حاصل کی ، لیکن ان علماء میں زیاده تر  وه لوگ تھے جو " مسلک اعتزال " سے وابستہ تھے کیونکہ حکومت وقت کا مزاج ومسلک بھی یہی (مُعتزلہ والا ) تھا انہی علماء کی کدوکاوش نے ( علم کلام ) کو ایک خاص فن کا درجہ دیا اور انہوں نے ہی اس فن کی جمع وتدوین کی ،
علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ 
ثم طالع بعد ذالك شيوخ المعتزلة كتب الفلاسفة حين فسرت أيام المامون فخلطت مناهجها مناهج الكلام وأفردتها فنا من فنون العلم وسميتها باسم الكلام ،
(الملل والنحل ج 1 ص 32 )
یعنی " معتزلہ " کے اکابرنے فلاسفہ کی تصنیفات کا مطالعہ کیا اور اس طرح کلام وفلسفہ کی مختلف راہیں ایک ہوگئیں اور ایک نیا فن ( علم کلام ) کے نام سے ایجاد ہوا ۔
 علم کلام کی وجہ تسمیہ (یہ نام کیوں رکهاگیا ) ؟
علامہ شہرستانی لکھتے ہیں کہ 
أما لأن أظهر مسئلة تكلموا فيها وتقابلوا عليها هي مسئلة الكلام فسمى النوع باسمها وأما لمقابلتهم الفلاسفة فى تسميتهم فنا من فنون علمهم بالمنطق والمنطق والكلام مترادفان 
(الملل والنحل ج 1 ص 33)
   علم کلام کا اہم ترین موضوع بحث الله تعالی کا کلام ہی تھا ، اسی وجہ سے اس فن کا نام ( علم کلام ) رکھا گیا۔ الخ
تاريخ  فرقہ معتزلہ
معتزلہ کا سردار  و پیشوا  ابوالہذیل علاف تھا  اور اس نے اس فن میں بہت سی کتب بھی لکھیں ،
 حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله لکھتے ہیں۔ 
أبوالهذيل العلاف شيخ المعتزلة ومُصنف الكتب الكثيرة فى مذاهبهم كان خبيث القول فارق اجماع المسلمين ورد نص كتاب الله وجحد صفات الله تعالى عما يقول علوا كبيرا وكان كذاباً أفاكاً مات سنة سبع وعشرين ومأتين ٠ 
(لسان الميزان ص 413 ج 5 )
ابوالہذيل العلاف مُعتزلہ فرقہ کے شیوخ میں سے تھا جس نے اعتزال کے رنگ میں ڈوبی ہوئی بہت سی کتب لکھیں ، یہ پہلا شخص ہے جس نے نصوص قطعیہ کا انکارکیا۔ صفات باری تعالی کوتسلیم کرنے سے انکارکیا ، جھوٹا ، لغوگو ، اور بدترین خلائق انسان تھا ۔ 
علامہ شہرستانی نے بھی یہی بات لکھی ہے 
فكان أبوالهذيل العلاف شيخهم الأكبر وافق الفلاسفة وأبدع بدعا فى الكلام والإرادة وأفعال والقول بالقدر والآجال والأرزاق ٠ 
(الملل والنحل ج 1 ص 33)
أبوالہذيل العلاف مُعتزلہ فرقہ معتزلہ کا سب سے بڑا شیخ تھا،  فلاسفہ کا موافق تھا ,افعال عباد ، اراده ، تقدیر، رزق ، تمام مسائل میں امت کے قطعی نظریات سے صاف پھر گیا تھا ۔ 
حافظ ذہبی نے بھی اپنی کتاب (سير أعلام النبلاء) میں تقریبا یہی بات لکھی ہے
أبو الهذيل العلاف ورأس المعتزلة أبو الهذيل محمد بن الهذيل البصري العلاف صاحب التصانيف الذي زعم أن نعيم الجنة وعذاب النار ينتهي بحيث إن حرمات أهل الجنة تسكن وقال حتى لا ينطقون بكلمة وأنكر الصفات المقدسة حتى العلم والقدرة وقال هما الله وأن لما يقدر الله عليه نهاية وآخرا وأن للقدرة نهاية لو خرجت إلى الفعل فإن خرجت لم تقدر على خلق ذرة أصلا وهذا كفر وإلحاد ۰ ( سير أعلام النبلاء ؛ أبو الهذيل العلاف )
اورفرقہ معتزلہ کا بانی وموسس واصل بن عطاء البصری تھا،پھراس کے بعد ابو الهذيل حمدان بن الهذيل العلاف ہے جو شیخ  المعتزلة، ومقدم الطائفة، ومقرر الطريقة، والمناظر کے القاب سے معروف ہے ، اس نے مذہب الاعتزال عثمان بن خالد الطويل سے بطریق واصل بن عطاء کے حاصل کیا۔(الشهرستانی: الملل والنحل ج1ص 64) اور  ( فرقة الهُذيلية.) اسی کی طرف منسوب ہے ۔
اسی طرح إبراهيم بن يسار بن هانئ  النظَّام نے کتب فلاسفہ کا بکثرت مطالعہ کیا اور فلاسفہ کا کلام معتزلہ کے کلام کے ساتھ ملایا اور  ( فرقة النظاميّة )  اسی کی طرف منسوب ہے ۔( الشهرستاني: الملل والنحل ج1ص 64 )
اسی طرح معمر بن عباد السلمی ہے جس کی طرف ( فرقة المعمرية.) منسوب ہے ۔
اسی طرح عيسى بن صبیح المكنى بأبی موسى الملقب بالمردار اس کو راہب المعتزلہ کہا جاتا تھا  ( فرقة المردارية) اس کی طرف منسوب ہے ۔
اسی طرح ثمامة بن أشرس النميري یہ آدمی بادشاه المأمون اورالمعتصم اور الواثق، کے عہد میں ( قدریہ ) فرقہ کا سربراه تھا ، اور اس کے فرقہ کو ( الثماميّة ) کہا جاتا ہے ۔
اسی طرح أبو عثمان عمرو بن بحر الجاحظ فرقہ معتزلہ کے بہت بڑے لکھاری تھا اور کتب فلاسفہ سے خبردار  اور ادب وبلاغت میں ماہر تھا (الجاحظية) فرقہ اسی کی طرف منسوب ہے ۔
اسی طرح ابو الحسین بن ابی عمر الخياط ہے جو بغداد کا معتزلی ہے ( الخياطية)اسی کی طرف منسوب ہے ۔
اسی طرح قاضی عبد الجبار بن احمد بن عبد الجبار الهمدانی  یہ متاخرین معتزلہ میں سے تھا اور اپنے زمانہ کے بہت بڑا شيوخ المعتزلہ  میں سے تھا اور مذہب معتزلہ کے اصول وافکار وعقائد کو بڑا پھیلایا ، اور معتزلہ کا بڑا مشہور مناظر تھا ۔
حاصل کلام یہ کہ ( فرقہ معتزلہ) کے کل بائیس بڑے فرقے بن گئے تھے ، ہر فرقہ سب کی تکفیر کرتا تھا ، ان فرقوں کی کچھ تفصیل میں نے لکھ دی ہے ،اجمالی طور پران کے اسماء درج ذیل ہیں 
(الواصلية، والعمرية، والهذيلية، والنظامية، والأسوارية، والمعمرية، والإسكافية، والجعفرية، والبشرية، والمردارية، والهشامية، والتمامية، والجاحظية، والحايطية، والحمارية، والخياطية، وأصحاب صالح قبة، والمويسية، والشحامية، والكعبية، والجبابية، والبهشمية المنسوبة إلى أبي هاشم بن الحبالى. )
(البغدادی: الفرق بین الفرق ص104)
جس علم کی تدوین کے بنیادی اراکین میں ابو الهذيل العلاف جیسے لوگ شامل ہوں تو پھر اس کے نقش قدم پرچلنے والے لوگ کیسے ہوں گے ؟
پھر اس فن کے لئے جواصول وضوابط نافذ کئے گئے وه اسلام کے اصل نہج سے کتنے دور ہوں گے ؟
علماء اسلام نے بعد میں معتزلہ کے رواج دیئے ہوئے نظریات کو مٹانے کی کوشش کی لیکن جو خمیر معتزلہ ڈال چکے تھے وه مکمل طور پرپاک نہ ہوسکا ، لہذا  قدیم علم کلام کی کتب میں اس طرح مباحث بکثرت موجود  ہیں ، پھر اس فلسفیانہ طرز استدلال ونظریہ نے جو نقصان پہنچایا  وه بالکل ظاہر ہے ، حتی کہ آج بھی آزاد طبع لوگ معتزلی نظریات کوقبول کرلیتے ہیں ، بہرحال علم کلام ترقی کرتا رہا ، علم کلام کی تاریخ کے سلسلہ میں 
علامہ شہرستانی جیسا مستند وذمہ دار آدمی رقمطراز ہے کہ 
أما رونق علم الكلام فابتداءه من الخلفاء العباسية هارون والمامون والمعتصم والواثق والمتوكل وأما إنتهائه فمن صاحب ابن عباد وجماعة من الديالمة ۔( ألملل والنحل ج 1 ص 39)
علم کلام کی ابتداء خلفاء عباسیہ خصوصا ہارون اور مامون کے دور میں ہوئی ،اور معتصم ، واثق ، متوكل کے عہد سلطنت میں بھی اس فن کو عروج حاصل ہوا ، اور پھر یہ فن صاحب بن عباد اور دیالمہ کے وقت میں انتہائی حدود میں داخل ہوگیا ۔ 
ان گھمبیر حالات میں جس کی سرسری جھلک گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کی کہ معتزلہ اور ذیلی گمراه فرقوں کے نظریات پھیلتے جارہے تھے 
الله تعالی نے امت محمدیہ کی ہدایت وراہنمائی کے  لیے ایسے رجال وافراد کو منتخب کیا جنہوں نے دین حنیف اور عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت وصیانت کا کام بڑے اعلی درجات اور منظم طریقہ سے انجام دیا ، اور ملحدین وزنادقہ وفرق ضالہ کے اوهام ونظریات کا ادلہ وبراہین سے بھرپور رد کیا ، اور معتزلہ اور دیگرفرق ضالہ کے انتشار کے بعد الله تعالی نے شیخ ابو الحسن اشعری اور شیخ ابو منصور ماتريدی کو پیدا کیا ،  لہذا ان دونوں بزرگوں نے عقائد اہل سنت کی حفاظت وحمایت کا کام بڑی محنت شاقہ کے ساتھ شروع کیا ، اور صحابہ وتابعین وتبع تابعین کے عقائد کی حفاظت وصیانت کا ذمہ اٹھایا ، اور اپنے زبان وقلم سے دلائل نقلیہ وعقلیہ سے اس کا اثبات کیا ، اور مستقل کتب وتالیفات میں عقائد اہل سنت کو جمع کیا ، اور ساتھ ساتھ معتزلہ اوران سے نکلنے والے دیگرفرق ضالہ کے شبہات ونظریات کا بڑے زور وشور سے رد کیا ، لہذا اس کے بعد تمام اہل سنت اشعری یا ماتریدی کہلانے لگے ،اور یہ نسبت اس لئے ضروری تھی تاکہ دیگر فرق ضالہ سے امتیاز وفرق واضح رہے ،، لہذا اس کے بعد ان دو  ائمہ کے منھج    پرچلنے والے لوگ اہل سنت کہلائے ۔

امام ابو الحسن اشعری رحمہ الله

ترجمة الإمام أبو الحسن الأشعري رحمه الله :
أبو الحسن علي بن إسماعيل بن أبي بشر إسحاق بن سالم بن إسماعيل بن عبد الله بن موسى بن بلال بن أبي بُردَةَ عامر ابن صاحب رسول الله أبي موسى الأشعری
تاریخ ولادت و وفات :
آپ کی ولادت ( 260 ه ) میں ہوئی،  بعض نے (270 ھ ) بتایا ، اور آپ کی تاريخ وفات میں اختلاف ہے بعض نے  (333 ھ ) بعض نے ( 326 ھ )، بعض نے ( 330 ھ )۔ بغداد میں آپ فوت ہوئے مقام ( الكرخ اور باب البصرة) کے درمیان مدفون ہوئے ۔ 
ابتداء حیات میں آپ نے مذہب اعتزال أبي علی الجبَّائي معتزلی سے پڑھا اور ایک مدت تک اسی پر رہے ، پھر آپ نے مذہب اعتزال سے توبہ کیا  اور بالکلیہ طور پر اس کوخیرباد کہ دیا ، اور بصره کی جامع مسجد میں جمعہ کے دن کرسی ومنبرپرچڑھ کر  بآواز  بلند ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ اے لوگو جس نے مجھے پہچانا  اس نے مجھے پہچانا  اور جس نے مجھے نہیں پہچانا  میں اس کو اپنی پہچان کراتا ہوں لہذا میں فلان بن فلان قرآن کے مخلوق ہونے کا قائل تھا ، اور یہ کہ الله تعالی رؤیت آخرت میں آنکھوں کے ساتھ نہیں ہوسکتی ، اور یہ کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں ، اور اب میں مذہب اعتزال سے توبہ کرتا ہوں اور میں معتزلہ کے عقائد پر رد کروں گا اور ان کے عیوب وضلالات کا پرده چاک کروں گا ، اور میں نے الله تعالی سے ہدایت طلب کی الله تعالی نے مجھے ہدایت دی ، اور میں اپنے گذشتہ تمام نظریات کو اس طرح اتارتا ہوں جس طرح  یہ کپڑا  اتارتا ہوں ، پھر اس کے بعد بطورمثال اپنے جسم پرجو چادر تھی اس اتار کرپھینک دیا ، پھر لوگوں کو وه کتابیں دیں جو مذہب اہل حق اہل سنت کے مطابق تالیف کیں ۔ 
امام اشعرى کے تلامذه :
ایک كثير مخلوق نے آپ سے استفاده کیا ، بڑے بڑے  أعلام الأمة  اكابر العلماء نے آپ کے مسلک کی اتباع کی اور نصرة عقائد اہل سنت  میں آپ کے اصول کو اپنایا ، اور آپ کے تلامذه کی تعداد وتذکره علماء امت نے مستقل طور پرآپ کے سوانح میں کیا ، قاضی القضاة الشيخ تاج الدين ابن الامام قاضی القضاة تقی الدين السبكی الشافعی نے اپنی کتاب  (طبقات الشافعيۃ )  میں ایک خاص فصل میں آپ کا تذکره کیا ۔
 امام سبکی الشافعی نے آپ کے ترجمہ کی ابتداء ان الفاظ میں کی۔ 
شيخنا وقدوتنا إلى الله تعالى الشيخ أبو الحسن الأشعري البصري شيخ طريقة أهل السنة والجـماعة وإمام المتكلمين وناصر سنة سيد المرسلين والذاب عن الدين والساعي في حفظ عقائد المسلمين سعيًا يبقى أثره إلى يوم يقوم الناس لرب العالمين، إمام حبر وتقي بر حمى جناب الشرع من الحديث المفترى وقام في نصرة ملّة الإسلام فنصرها نصرًا مؤزرًا وما برح يدلج ويسير وينهض بساعد التشمير حتى نقَّى الصدور من الشُّبه كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس ووقى بأنوار اليقين من الوقوع في ورطات ما التبس فلم يترك مقالاً لقائل وأزاح الأباطيل، والحق يدفع ترهات الباطل " اهـ.
اسی طرح مؤرخ الشام اور حافظ الحدیث الشیخ ابو القاسم علی بن الحسن بن هبة الله بن عساكر نے  الشيخ ابو الحسن الأشعری کی مناقب ومؤلفات وسوانح پرمستقل کتاب لکھی اوردیگر تمام علماء امت نے بھی اپنی کتب میں آپ کا تذکره کیا ، اور سب نے آپ کو اہل سنت کا امام قرار دیا ۔

المؤرخ الحافظ ابن العماد الحنبلی نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا ۔
الإمام العلامة البحر الفهامة المتكلم صاحب المصنفات، ثم قـال: "وممّا بيض به وجوه أهل السنة النبوية وسود به رايات أهل الاعتزال والجهمية فأبان به وجه الحق الأبلج، ولصدور أهل ا لإيمان والعرفان أثلج، مناظرته مع شيخه الجبائي التي قصم فيها ظهر كل مبتدع مرائي " اهـ.
(شذرات الذهب (2/ 303، 305)).

امام شمس الدین  بن خلكان نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا ۔
صاحب الأصول، والقائم بنصرة مذهب أهل السنة، وإليه تنسب الطائفة الأشعرية، وشهرته تغني عن الإطالة في تعريفه " اهـ.
(وفيات ا لأعيان (3/ 284ء286))

امام ابو بكر بن قاضی شهبة نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا 
الشيخ أبو الحسن الأشعري البصري إمام المتكلمين وناصر سنة سيد المرسلين، والذاب عن الدين" ا.هـ.(طبقات الشافعية (1/ 113))

علامہ يافعی شافعی نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا 
الشيخ الإمام ناصر السنة وناصح الأمة، إمام الأئمة الحق ومدحض حجيج المبدعين المارقين، حامل راية منهج الحق ذي النور الساطعوالبرهان القاطع " ا.هـ
(مرأة الجنان (2/ 298))

علامہ القرشی الحنفی نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا 
صاحب الأصول الإمام الكبير وإليه تنسب الطائفة الأشعرية"
(الجواهر المضية في طبقات الحنفية 21/ 544، ه 54).

علامہ الأسنوی الشافعی نے آپ کا ذکران الفاظ میں کیا 
هو القائم بنصرة أهل السنة القامع للمعتزلة وغيرهم من المبتدعة بلسانه وقلمه، صاحب التصانيف الكثيرة، وشهرته تغني عن ا لإطالة بذكره ۔
(طبقات الشافعية (1/ 47)
خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ اسلام کے اقوال وآراء تعریف وتوصیف  امام اشعرى اورامام ابو منصور ماتريدی  کے متعلق بیان کروں توایک مستقل کتاب تیار ہوجائے ، بطور مثال چند ائمہ کے اقوال ذکرکردیئے تاکہ ان لوگوں کوہدایت ہوجائے ، جو جہلاء کی اندھی تقلید میں امت مسلمہ کے کبارائمہ پرلعن طعن کرتے  ہیں ، جبکہ  ان جہلاء کی اپنی حالت یہ ہے کہ  الف باء سے واقف نہیں ۔ فالی الله المشتکی ۔

مؤلفات امام ابو الحسن اشعری:
آپ کی کتب وتالیفات بہت زیاده ہیں ، بطورمثال چند کتب کا ذکرکرتا ہوں 
1. إيضاح البرهان في الرد على أهل الزيغ والطغيان. 
2. تفسير القرءان، وهوكتاب حافل جامع. 
3. الرد على ابن الراوندي في الصفات والقرءان.
4. الفصول في الرد على الملحدين والخارجين عن الملّة. 
5. القامع لكتاب الخالدي في الارادة
6. كتاب الاجتهاد في الأحكام. 
7. كتاب الأخبار وتصحيحها. 
8. تاب الإدراك في فنون من لطيف الكلام.
9. كتاب الإمامة.
10. التبيين عن أصول الدين. 
11. الشرح والتفصيل في الرد على أهل الإفك والتضليل.
12. العمد في الرؤية.
13. كتاب الموجز.
14. كتاب خلق الأعمال.
15. كتاب الصفات، وهو كبير تكلم فيه على أصناف المعتزلة والجهمية.
16. كتاب الرد على المجسمة .
17. اللمع في الرد على أهل الزيغ والبدع. 
18. النقض على الجبائي.
19. النقض على البلخي.
20. جمل مقالات الملحدين.
21.  كتاب في الصفات وهو أكبر كتبه نقض فيه ءاراء المعتزلة وفند أقوالهم وأبان زيغهم وفسادهم.
22. أدب الجدل.
23. الفنون في الرد على الملحدين.
24. النوادر في دقائق الكلام.
25. جواز رؤية الله تعالى بالأبصار.
26. كتاب الإبانة.

امام ابو منصور ماتريدی
ترجمہ
هو ابو منصور محمد بن محمد بن محمود الماتريدی السمرقندی، 
ماتریدی نسبت ہے ماترید کی طرف اور یہ سمرقند  ماوراء النهر میں ایک مقام کا نام ہے۔ اورامام ابو منصور الماتريدی کوبھی علماء امت نے "إمام الهدى" و "إمام المتكلمين" و "إمام أهل السنه "  وغير ذلك القابات سے یاد کیا ۔
آپ کی تاریخ ولادت کے متعلق کوئی متعین تاریخ تونہیں ملتی مگر علماء کرام نے لکھا ہے کہ آپ کی ولادت عباسی خلیفہ المتوكل کے عہد میں ہوئی ، اور آپ کی ولادت امام ابو الحسن اشعری سے تقریبا بیس سال قبل ہوئی ہے ۔
اور آپ نے جن مشائخ سے علم حاصل کیا ان سب کی سند امام الجليل امام اعظم ابو حنیفہ نعمان  بن ثابت سے جاملتی ہے ،
اورآپ علوم القرآن الكريم واصول الفقہ  وعلم الكلام والعقائد کے بے مثال ومستند امام ہیں ، اورآپ کی پوری زندگی حماية الإسلام ونصرة عقيدة أهل السنة والجماعة سے عبارت ہے ، اورآپ بالاتفاق اہلسنت والجماعت کے امام جلیل محافظ العقائد اہلسنت، وقاطع الاعتزال والبدع قرارپائے ، معتزلہ اوردیگر فرق ضالہ کا اپنی مناظرات ومحاورات میں اور تصنیفات وتالیفات میں بھرپور رد وتعاقب کیا ، اور تمام عمرعقائد اہلسنت کی حفاظت وصیانت وتبلیغ وتشہیرکی ۔

مؤلفات امام ابو منصور الماتريدی
آپ کے کئی مؤلفات ہیں جن کا تذکره علماء امت نے آپ کے ترجمہ میں کیا ہے ۔جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں 
 كتاب "التوحيد"
1.    كتاب "المقالات"
2.    كتاب "الرد على القرامطة"
3.    كتاب "بيان وهم المعتزلة"
4.    كتاب "رد الأصول الخمسة لأبي محمد الباهلي"
5.    كتاب "أوائل الأدلة للكعبي"
6.    كتاب "رد كتاب وعيد الفساق للكعبي"
7.    كتاب "رد تهذيب لجدل للكعبي"
8.    كتاب "الجدل"
9.   وكتاب "مأخذ الشرائع في أصول الفقه"
10.    كتاب "شرح الفقه الأكبر"
11۔   كتاب "تأويلات أهل السنة"
بعض نسخوں میں اس کتاب کا نام "تاويلات الماتريدي في التفسير" ہے ۔امام عبد القادر القرشی المتوفى سنة 775هــ اس کتاب کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس فن میں لکھی گئی پہلی کتابوں میں سے کوئی کتاب اس کے برابربلکہ اس کے قریب بهی نہیں پہنچ سکتی ۔ اس کتاب کے مقدمہ کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے 
"قال الشيخ الإمام الزاهد علم الدين شمس العصر، رئيس أهل السنة والجماعة أبو بكر محمد بن أحمد السمرقندي رحمه الله تعالى: إن كتاب التاويلات المنسوب إلى الشيخ الإمام أبي منصور الماتريدي رحمه الله كتاب جليل القدر، عظيم الفائدة في بيان مذهب أهل السنة والجماعة في أصول التوحيد، ومذهب أبي حنيفة وأصحابه رحمهم الله في أصول الفقه وفروعه على موافقة القرأن". ا.هــ.
صاحب کتاب "كشف الظنون" نے یہ تصریح کی ہے کہ یہ کتاب آٹھ جلدوں میں ہے اور الشيخ علاء الدین بن محمد بن احمد نے اس کو جمع کیا ہے ۔
حاصل یہ کہ بطور مثال آپ کے علمی میراث کی ایک جھلک آپ نے ملاحظہ کی ، اور جیساکہ میں گذشتہ سطور میں عرض کرچکا ہوں کہ ان دو جلیل القدر ائمہ اہلسنت کے ترجمہ وسوانح وکمالات وکارناموں پرمستقل کتب موجود ہیں ،یہاں تواختصارکے ساتھ ان کا تذکره مقصود ہے ، تاکہ ایک صالح متدین آدمی کے علم میں اضافہ ہو اور اس کے دل میں ان جلیل القدر ائمہ اہلسنت کا احترام وعظمت زیاده ہوجائے ، اور جوشخص جہل کی وجہ سے ان کے ساتھ بغض رکھتا ہے ان پرلعن طعن کرتا ہے اس کی اصلاح ہوجائے ۔

امام ماتريدی ؒ                    كى تاريخ وفات :
صاحب كتاب "كشف الظنون" نے ذکرکیا ہے کہ آپ کی وفات ( 332هــ ) میں ہوئی ہے ، دیگر کئی  مؤرخین نے سنہ وفات ( 333هــ ) بھى لكھى ہے ۔علامہ عبد الله القرشی نے بھى "الفوائد البهية" میں سنہ وفات ( 333هــ ) بتائی ہےاور آپ کی قبرسمرقند میں ہے ۔

امت مسلمہ کے کبارمحدثین ومفسرین وفقہاء وائمہ اشعری وماتریدی ہیں

بطورمثال چند کا تذکره پیش خدمت ہے 
1.   الإمام الحافظ أبو الحسن الدارقطني رحمه الله تعالى ،
تفصیل دیکھئے ،  (تبيين كذب المفتري 255، السير 17/558، أثناء ترجمة الحافظ أبي ذر الهروي، وتذكرة الحفاظ 3/1104)
2.   الحافظ أبو نعيم الأصبهاني رحمه الله تعالى، صاحب حلية الأولياء، 
امام اشعری ؒ کے متبعین میں سے ہیں ۔
(تبيين كذب المفتري 246،  الطبقات الكبرى للتاج السبكي 3/370)۔
3.  الحافظ أبو ذر الهروي عبد بن أحمد رحمه الله تعالى،
 تفصیل دیکھئے گذشتہ حوالے اور ، (الطبقات الكبرى للتاج السبكي 3/370)۔
4.   الحافظ أبو طاهر السلفي رحمه الله تعالى، (الطبقات 3/372)۔
5.  الحافظ الحاكم النيسابوري رحمه الله تعالى صاحب المستدرك على الصحيحين،
اپنے زمانہ کے امام اہل الحديث ہیں کسی تعارف محتاج نہیں ہیں ۔اورعلماء امت کا اتفاق ہے کہ امام حاکم ان بڑے علم والے ائمہ میں سے ایک ہیں جن کے ذریعہ سے الله تعالی نے دین متین کی حفاظت کی ۔ (تبيين كذب المفتري ص/227)۔
6. الحافظ ابن حبان البستي رحمه الله تعالى صاحب الصحيح وكتاب الثقات وغيرها، الإمام الثبت القدوة إمام عصره ومقدم أوانه۔
7. الحافظ أبو سعد ابن السمعاني رحمه الله تعالى، صاحب كتاب الأنساب.
(الطبقات 3/372)۔
8. الإمام الحافظ أبو بكر البيهقي رحمه الله تعالى صاحب التصانيف الكثيرة الشهيرة۔
9. الإمام الحافظ ابن عساكر رحمه الله تعالى ۔
10. الإمام الحافظ الخطيب البغدادي رحمه الله تعالى، (التبيين ص / 268)۔
11.الإمام الحافظ محي الدين يحيى بن شرف النووي محي الدين رحمه الله تعالى۔
امام نووی ؒ          کسی تعارف کےمحتاج نہیں ہیں ، دنیا کا کون سا  حصہ ایسا ہے جہاں آپ کی کتاب رياض الصالحين اور کتاب الاذكار اورشرح صحيح مسلم نہیں ہے ؟؟
12. شيخ الإسلام الإمام الحافظ أبو عمرو بن الصلاح رحمه الله تعالى ۔
13. الإمام الحافظ ابن أبي جمرة الأندلسي مسند أهل المغرب رحمه الله تعالى ۔
14.  الإمام الحافظ الكرماني شمس الدين محمد بن يوسف رحمه الله ، صاحب الشرح المشهور على صحيح البخاري ۔
15. الإمام الحافظ المنذري رحمه الله تعالى صاحب الترغيب والترهيب.
16.                       الإمام الحافظ الأبي رحمه الله تعالى شارح صحيح مسلم.
17. الإمام الحافظ ابن حجر العسقلاني رحمه الله تعالى (امام حافظ ابن حجرؒ    کسی تعارف کےمحتاج نہیں ہیں )
18. الإمام الحافظ السخاوي رحمه الله تعالى.
19. الإمام الحافظ السيوطي رحمه الله تعالى.
20. الإمام القسطلاني رحمه الله تعالى شارح الصحيح.
21. الإمام الحافظ المناوي رحمه الله تعالى
خلاصہ کلام یہ کہ اگراشاعره وماتریدیہ علماء امت کی صرف اسماء کو بھی جمع کیا ہے توایک ضخیم کتاب تیارہوجائے ، مذکوره بالا ائمہ میں اکثرشافعی المسلک ہیں ، اس کے بعد احناف ، مالکیہ ، حنابلہ ، کے تمام حفاظ حدیث وائمہ اسلام جوکہ اشاعره وماتریدیہ ہیں ان کا تذکره ہماری بس سے باہر ہے ، کیونکہ علماء اسلام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جنہوں نے عقائد واصول میں امام ابو الحسن الأشعری ؒ اور امام ابو منصور الماتريدی  ؒ              کی اتباع کی ، یہاں سے آپ ان جاہل لوگوں کی جہالت وحماقت کا اندازه بھی لگالیں ، جویہ کہتے ہیں کہ اشعری وماتریدی توگمراه ہیں ( معاذالله ) کیا اتنے بڑے کبارائمہ گمراہوں لوگوں کی اتباع کرنے والے تھے ؟ 
بس جہالت اور اندهی تقلید کی زنده مثالیں کسی نے دیکھنی ہوتو وه فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں شامل عوام وخواص کو دیکھ لے ، کوئی کسی شخص یا کسی مسئلہ کے بارے علم نہیں ہوتا لیکن ضد وتعصب واندھی تقلید میں اس کو پھیلاتے جاتے ہیں ، اور دلیل یہ ہوتی ہے کہ فلاں شیخ صاحب سے سنا ہے ،اب اگراس جاہل شیخ کی غلطی کوئی ظاهرکربھی دے پھر بھی یہ بے وقوف لوگ اس جاہل شیخ کی دم نہیں چھوڑتے ، اور جواب بزبان حال وقال یہی دیتے ہیں کہ خبردینے والا نائی بڑا پکا ہے ، آخر ایسی ضد وجہالت کا علاج کس کے پاس ہے ؟؟

3 comments:

  1. جزاکم اللہ احسن الجزا یا اخی المکرم

    ReplyDelete
  2. ان کے عقائد جو اہل سنت نے قبول کئے بھی قلم بند کئے جائیں

    ReplyDelete
  3. ویسے حضرت ابن صلاح اورابن حجر عسقلانی اشعری تھے جیسا کہ آپ نے لکھا ہے تو اس پر حوالہ ہو تو ضرور عنایت کریں۔۔۔

    کسی بھائی یہ درج ذیل سوال ہے اسکا بھی جواب عنایت فرمائیں لیکن باحوالہ ہو۔۔

    1۔امام ابن حجر ،بیہقی ، نووی ، ابن صلاح رح وغیرہ کا اشعری ہونا ثابت کریں حوالہ کے ساتھ ہوں نہ کہ سلفی ہونا


    2۔آئمہ کا حنفی شافعی نام کے ساتھ لگانا مقلد ہونے کی وجہ سے تھا نہ کہ صرف یہ کہ انکا اجتہاد آئمہ اربعہ کے اجتہاد کے موافق ہو گیا تھا (علی زئی)


    شاید میں جواب نہ دیکھ سکوں کیونکہ یہ گوگل میں اتنی استعمال نہیں کرتا تو یہ میرا واٹس ایپ نمبر ہے ⁦⬇️⁩
    03020816410

    ReplyDelete