تازہ ترین تحریریں

Thursday 13 September 2012

علماء دیوبند قبور سے فیض حاصل کرنے کا عقیده رکهتے هیں

وسوسه = علماء دیوبند قبور سے فیض حاصل کرنے کا عقیده رکهتے هیں جوکہ ایک شرکیہ عقیده هے ۰
جواب = فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں فی زمانہ کچهہ نام نہاد شیوخ عوام الناس کوگمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ استعمال کرتے هیں ، ان کا دجل وفریب اس طرح هوتا هے کہ حکایات وسوانح اور وعظ ونصیحت وتصوف وغیره کسی کتاب ورسالہ سے کوئ بات لیتے هیں اورکوئ مُحتمل ومُشتبہ عبارت پیش کرتے هیں اورپهرعوام سے کہتے هیں کہ یہ علماء دیوبند کا عقیده هے ، اوراس طرح کرکے جاهل عوام کوورغلاتے هیں ،
خوب یاد رکهیں همارے اکابرومشائخ حضرات علماء دیوبند (کثرهم الله سوادهم )

کا مسلک ومنهج تمام امورمیں افراط وتفریط سے پاک اورمبنی براعتدال هے اوراعتدال کی یہ شان ان اکابراعلام کا ایک خصوصی وصف وامتیاز هے ، لیکن اعتدال کا یہ طریق اختیارکرنے کی وجہ سے کچهہ جہلاء نے بوجہ جہالت وتعصب وحسد کےان اکابراعلام کو افراط وتفریط میں مبتلا قراردیا ،


چند جہلاء مذکوره بالا وسوسہ پیش کرکے عوام کویہ باورکراتے هیں کہ قبورسے فیض کا مطلب یہ هے کہ یہ لوگ قبرپرست هیں ، قبورکا طواف کرتے هیں ،اهل قبورسے استمداد کرتے هیں ، ان کومشکل کشا حاجت روا سمجهتے هیں وغیره ( معاذالله )
خوب یادرکهیں همارے اکابرومشائخ حضرات علماء دیوبند میں سے کسی نے بهی یہ تعلیم نہیں دی بلکہ قبور واهل قبورسے متعلق بهی ان کا مسلک اعتدال والا هے نہ تواتنی تفریط هے کہ اهل قبورکی زیارت ودعا وایصال ثواب کوبهی منع کردیں ، اورنہ اتنا افراط هے کہ قبور سے متعلق تمام مُروجہ بدعات وخرافات کوجائزقراردیں ، لہذا احادیث مبارکہ سے قبور کی زیارت ودعاء مسنون وایصال ثواب برائے اهل قبورثابت هے ، تویہی تعلیم وطریق علماء دیوبند کا بهی هے ، باقی اس سے زیاده اگرکوئ شخص وساوس پیش کرے تواس کی طرف توجه نہیں کرنی چائیے کیونکہ وساوس کا اصل علاج عدم التفات هے ۰
انبیاء واولیاء وصالحین کی قبورسے فیض حاصل کرنے کا عام فہم مطلب
حدیث میں آتا هے کہ قبرجنت کے باغوں میں سے ایک باغ هے یا جهنم کے گهڑوں میں سے ایک گهڑا هے ۰
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ ) رواه الترمذي في سننه ، والبيهقى فى شعب الإيمان ، والطبراني
اب قبر کا یہ گهڑا جس میں انبیاء وصحابہ واولیاء الله وعلماء وصُلحاء مدفون هیں همارا اعتقاد هے کہ یہ جنت کے باغات هے ، جیسا کہ حدیث میں بیان هوا ، اب جنت الله تعالی کے انعامات ورحمتوں وتجلیات کا مقام هے توصالحین کے قبورپرالله تعالی رحمتوں کا نزول هوتا هے ، لہذا زیارت کرنے والا شخص اس رحمت سے محروم نہیں رهتا اگرچہ اس کومحسوس هو یا نہ هو ، یہی سارا مفہوم هے فیض وفائده کا ، ایک لحظہ کے لیئے اس حدیث کوسامنے رکهہ کریہ دیکهیں کہ انبیاء وصحابہ وعلماء وصالحین کے قبور جنت کے باغ هیں یقینا اس بات میں کوئ شک نہیں کرسکتا ، لہذا جنت کے ان باغات کی زیارت ونفع کا کون انکارکرسکتا هے ؟؟ باقی قبور کا طواف اورسجدے کرنا ، وهاں چراغ جلانا ، قبرپراذان پڑهنا ، وهاں عرس میلے قوالی کرنا ، قبرکوبوس وکنار کرنا ،ان سے حاجات طلب کرنا ، ان کومتصرف سمجهنا وغیره سب بدعات وخرافات هیں۔ 
صحيح البخاري میں امام البخاري نے ایک باب قائم کیا هے
" باب ماجاء في قبر النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما "
اس باب کے تحت امام البخاري نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی وه حدیث نقل کی هے جس میں انهوں نے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ کے واسطہ سے حضرت عائشة رضي الله عنها سے حجرة النبوية میں دفن هونے کی اجازت مانگی تهی انهوں نے کہا تها کہ یہ جگہ میں نے اپنے لیئے پسند کی تهی لیکن
میں آج یہ جگہ ان کودیتی هوں الحدیث
حافظ ابن حجر رحمہ الله اس حدیث کی شرح میں لکهتے هیں کہ
وفيه الحرص على مجاورة الصالحين في القبور طمعا في إصابة الرحمة إذا نزلت عليهم وفي دعاء من يزورهم من أهل الخير "
یعنی اس حدیث میں ثبوت هے اس بات كاکہ صالحین کے ساتهہ قبورمیں پڑوسی هونے كاحرص کرنا چائیے اس امید ونیت سے کہ صالحین پرنازل هونے والی رحمت اس کوبهی پہنچے گی اورنیک صالح لوگ جب ان کی زیارت کریں گے اوردعا کریں گے تواس کوبهی حصہ ملے گا ۰
اسی طرح ایک حدیث حسن میں هے کہ
بعض صحابہ نے کسی قبرپراپنا خیمہ نصب کیا اوراس معلوم نہیں تها کہ یہ قبرهے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة { تبارك الذي بيده الملك }پڑهہ رها تها یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، جب حضور صلى الله عليه وسلم.کے پاس تشریف
لائے توفرمایا يا رسول الله میں اپنا خیمہ ایک قبرپرنصب کیا اورمجهے معلوم نہیں تها کہ وه قبر هے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة { تبارك الذي بيده الملك }پڑهہ رها تها یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورة عذاب قبرکوروکتی هے عذاب قبرسے نجات دیتی هے اس (صاحب قبر) کو عذاب قبرسے نجات دیتی هے ۰
وقال الإمام الترمذي بسنده عن ابن عباس قال : ضرب رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر وهو لا يحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، ضربت خبائي على قبر وأنا لا أحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " هي المانعة ، هي المنجية تنجيه من عذاب القبر " . قال : حديث حسن غريب .
ورواه الطبراني في الكبير، وأبونعيم في الحلية ، والبيهقي في إثبات عذاب القبر ٠
قبور اولیاء سے فیض کا مطلب استمداد واستغاثہ نہیں هے
سوال = مردوں سے بطریق دعا مد د چاهنا جائزهے یا نہیں ؟ 
جواب = مد د چاهنا تین قسم کا هے

1 = ایک یہ کہ اهل قبور سے مد د چاهے اسی کوسب فقہاء نے ناجائزلکهاهے ،

2 = دوسرے یہ کہ کہے اے فلاں خدا تعالی سے دعا کرکہ فلاں کام میرا پورا هوجائے یہ مبنی هے اس بات پرکہ مردے سنتے هیں کہ نہیں ، جوسماع موتی کے قائل هیں ان کے نزدیک درست ، دوسروں کے نزدیک ناجائز،

( سماع موتی کے مسئلہ میں صحابہ کے زمانہ سے اختلاف هے دونوں طرف اکابر ودلائل هیں لہذا ایسے اختلافی امرکا فیصلہ کون کرسکتا هے ، لیکن بہتریہ هے اس دوسری قسم پربهی عمل نہ کرے ۰)

3 = تیسرے یہ کہ دعا مانگے الہی بحرمت فلاں میرا کام پورا کردے یہ بالاتفاق جائز هے ( فتاوی رشیدیه ص 57 ) حضرت گنگوهی رحمہ الله کی یہ فتوی بالکل واضح هے کہ مردوں سےمد د طلب کرنا تمام فقہاء کے نزدیک ناجائزهے ، اوریہی فیصلہ وفتوی تمام اکابرعلماء دیوبند کا بهی هے ، لہذا جو لوگ فیض عن القبور کا مطلب استعانت واستمداد وغیره بیان کرکے اس کو اکابرعلماء دیوبند کا عقیده قرار دیتے هیں ، یہ سب دجل وفریب هے ، هداهم الله


قبور اور أهل قبور کے متعلق فرقہ جدید اهل حدیث کے اکابرکا مذهب
جیسا کہ میں گذشتہ سطورمیں عرض کرچکا کہ اس فرقہ جدید کے اکابراورآج کل کے اس فرقہ جدید کے هم نواوں میں بہت سخت اختلاف هے ، مثلا اسی مذکوره مسئلہ میں اس فرقہ جدید اهل حدیث کے بانی ومُوجد نواب صدیق حسن خان صاحب کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں اپنی کتاب ( ألتاجُ المُكلل ) میں اپنے والد

ابواحمد حسن بن علی الحُسینی البخاری القنوجی کے تذکره میں لکها کہ
لايـَزال يـُرى النـورعَـلى قـبـره الشـريـف والنـاسُ يـَتـَبَـرَّكـُون بـه ٠
آپ کی کی قبرشریف پرهمیشہ نور رهتا هے اورلوگ آپ کی کی قبرسے تـَـبـَـرُّکـــْـــــــ حاصل کرتے هیں ۰
( ألتاجُ المُكلل صفحه 543 ، مكتبة دارالسلام )
اسی طرح فرقہ جدید اهل حدیث کے بانی علامہ وحیدالزمان صاحب بهی یہی فرماتے هیں کہ ولازال السلف والخلف يـَتـَبَـرَّكـُون بآثارالصلحـاء ومشـاهدهم ومقـامـاتهم وآبـارهم وعـيـونهم ۰ یعنی سلف وخلف سب صالحین کے آثار ، اور ان کی قبروں سے ، اوران کے مقامات ، اور ان کے کنووں سے ، اور ان کے چشموں سے تـَـبـَـرُّکـــْـــــــ حاصل کرتے تهے ۰

آگے علامہ وحیدالزمان صاحب فرماتے هیں کہ

ولم یقل احد ان التبرک بمثل هذه الاشیاء شرک

یعنی کسی ایک نے بهی یہ نہیں کہا کہ اس قسم کی اشیاء تـَـبـَـرُّکـــْـــــــ حاصل کرنا شرک هے ۰

آگے علامہ وحیدالزمان صاحب فرماتے هیں کہ

ترجى سرعة الإجابة عند قبرالنبي صلى الله عليه وسلم أوغيره من المواضع المتبركة قال الشافعي قبرموسى الكاظم ترياق مجرب وروى الشيخ ابن حجرالمكي في القلائد عن الشافعي قال إني أستبرك بقبرأبي حنيفة واذا عرضت لي حاجة أجيئ عند قبره وأصلي ركعتين وأدعوالله عنده فتقضي حاجتي ٠

آپ صلى الله عليه وسلم کے قبرمبارک اوراس کے علاوه مقامات متبركة میں دعا بہت جلد قبول هوتی هے ، امام شافعی رحمہ الله نے فرمایا کہ موسی کاظم کی قبرتریاق مجرب هے ، اورالشيخ ابن حجرالمكي نے اپنی کتاب " القلائد " میں امام شافعی رحمہ الله سے روایت کیا هے فرمایا کہ میں ابوحنیفہ کے قبرسے تبرک حاصل کرتا هوں ، اورجب مجهے کوئ حاجت پیش آتی هے تومیں ابوحنیفہ کے قبرکے پاس آتاهوں اوردورکعت نمازپڑهتا هوں ، اورالله تعالی سے دعا کرتا هوں پس میری حاجت پوری هوجاتی هے ۰

علامہ وحیدالزمان صاحب نے ایک فصل قائم کیا هے " مَقرارواح " کے متعلق اورآٹهہ مذاهب نقل کیئے هیں اسی فصل میں فرماتے هیں کہ

وقال شـيخنا ابن القـيـم فثبت بهذا انه لامنافات بين كون الروح في عليين أوفي الجنة أوفي السماء وبين اتصاله بالبدن بحيث تدرك وتسمع وتصلي وتقرأ ،

اورهمارے شیخ ابن القـيـم نے فرمایا کہ اس سے ثابت هوا کہ اس میں کوئ منافات نہیں هے کہ روح عليين میں هو یا جنت میں هو یا آسمان میں هو اوراس کا تعلق بدن کے ساتهہ هو اس طورپرکہ وه ادراک بهی کرے اور سماع بهی کرے اورنمازبهی پڑهے اورقرآءت بهی کرے ۰

قلت بهذا يدفع الشـبـهـة التي أوردهـا القــاصرون انه كيف يمكن استحصال الفيوض

والبـركــات وبرد القلب والأنوارمن أرواح الصلحـاء بزيـارة قبـورهم ٠

میں ( علامہ وحیدالزمان صاحب ) کہتا هوں کہ اس سے وه شبہ بهی دور هوجائے گا جو بعض کوتاه عقل لوگ پیش کرتے هیں کہ صلحاء کی قبور کی زیارت کرکے ان کی ارواح سے فـيـوض وبـركـــــات وأنـوارات کا حصول کیسے ممکن هے ۰

(( دیکهیئے هــديـة المـهـدي ص 32 ، 33 ، 34 ، 62 ،23 ))

اسی طرح علامہ وحیدالزمان صاحب نے قبروں کی مُجاوری کوبهی جائزقرار دیا هے ( دیکهیئے هــديـة المـهـدي ص 34 ، نزل الأبرار ج 1 ص 2
یہ چند حوالے اختصارکے ساتهہ فرقہ جدید اهل حدیث کے اکابرکے حوالہ سے آپ نے ملاحظہ کیئے ، جب کہ آج کل فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل چند لوگ ان سب امورکوشرک وبدعت کہتے هیں ، میرے علم میں نہیں هے کہ فرقہ جدید اهل حدیث کی آج کل کی ایڈیشن میں شامل توحید وسنت کے علمبرداروں نے فرقہ جدید اهل حدیث کے بانیان نواب صدیق حسن خان اورعلامہ وحیدالزمان صاحب کے ان نظریات کی تردید کی هو کوئ کتاب ورسالہ لکها هو یا کوئ بیانات اس سلسلہ میں کیئے هوں ؟؟ والله اعلم
مزارات اولیاء سے فیض بطریق خاص صرف کاملین کے لیئے هے

سوال = مزارات اولیاء رحمهم الله سے فیض حاصل هوتا هے یا نہیں ؟؟
اگر هوتا هے توکس صورت سے ؟؟
جواب = مزارات اولیاء سے کاملین کوفیض هوتا هے مگرعوام کواس کی اجازت دینی هرگزجائزنہیں هے ، اورتحصیل فیض کا طریقہ کوئ خاص نہیں هے ، جب جانے والا اهل هوتا هے تواس طرف سے حسب استعداد فیضان هوتا هے ، مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کهولنا هے ۰
(( فتاوی رشیدیه ص 104 ))
اب یہاں چند باتیں قابل غور هیں
1 = تقریبا اسی طرح کی بات ( المهند علی المفند ) اور دیگرکتب مشائخ میں بهی موجود هے ، اور حضرت گنگوهی رحمہ الله اوردیگرتمام اکابرعلماء دیوبند کا اجماعی فتوی یہ هے کہ اهل قبورسے استمداد واستعانت جائزنہیں هے ، تومعلوم هوا کہ اس فیض سے مراد اهل قبورسے استمداد واستعانت وغیره نہیں هے ،
2 = پهر قبور اولیاء سے فیض سے متعلق جو طرق وتفصیلات هیں یہ صرف علماء کاملین کے لیئے هیں نہ کہ عوام کے لیئے اورپهر عوام میں هروه شخص داخل هے جواس طریق سے نابلد هو چاهے کسی اورفن میں معلومات رکهتا هے
عربی کا مشہور مقولہ هے (( لکُـل فـَنٍّ رِجـَال )) هرفن کے اپنے ماهرلوگ هوتے هیں ، لہذا اس وجہ سے اس میدان کے کامل وماهرلوگوں کواجازت هے 3 = کچهہ لوگ اس قول پراعتراض کرتے هیں کہ عوام کواس کی اجازت دینی کیوں جائزنہیں هے ؟؟ اورعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کهولنے کےمترادف کیوں هے ؟؟
خوب یاد رکهیں الحمد لله حضرات اکابرعلماء دیوبند کا یہ قول بهی احادیث نبویہ وتعلیمات سلف کے بالکل موافق هے ، کیونکہ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں بیان کرنا ممنوع هے جہاں تک ان کے عقول ومعرفت نہ پہنچ سکیں ،
ابن مسعود رضی الله عنہ کا قول هے کہ
جب توکسی قوم کو کوئ حدیث بیان کرتا هے جس تک ان کے عقول نہیں پہنچتے تو وه اس قوم میں سے بعض کے لیئے فتنہ کا باعث بن جاتا هے ۰
قال ابن مسعود رضی الله عنہ : " ما أنت بمحدث قوما حديثا لا تبلغه عقولهم ، إلا كان لبعضهم فتنة "
أخرجه مسلم في " مقدمة صحيحه " ( 1 / 108 – نووي ) ، وعبدالرزاق في " مصنفه " ( 11 / 286 ) – ومن طريقه الطبراني في " المعجم الكبير " ( 9 / 151 / 8850 ) ، والخطيب في "الجامع لأخلاق الراوي " ( 2 / 108 / 1321 ) ، والسمعاني في " أدب الإملاء والاستملاء " ( ص 60 ) – ، والرامهرمزي في " المحدث الفاصل " ( ص 577 ) ، وابن عبدالبر في " جامع بيان العلم " ( 1 / 539 و 541 / 888 و 892 ) ، والبيهقي في " المدخل " ( 611 ) .
الله تعالی کی بے شمار رحمتیں هوں ان اکابراعلام کے قبور مبارکہ پر کہ دین میں کوئ بات بلادلیل وثبوت نہیں کہی ، مجهے ازخود اکابرکے اس قول پرکئ ساتهیوں نے کہا کہ همیں کچهہ کهٹک سی رهتی هے کہ یہ کیوں کہا کہ کاملین کے لیئے جائز اور عوام کے لیئے ناجائز ؟ لہذا اس باب میں تهوڑی سی تحقیق وتفتیش کے بعد معلوم هوا کہ ان اکابراعلام کا یہ فرمان احادیث نبویہ واقوال وتعلیمات سلف کے بالکل مطابق وموافق هے ، حتی کہ امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری (کتاب العلم ) میں ایک باب قائم کیا هے ، جس میں اتنی واضح طور پراکابراعلام کے اس قول کی تائید وتصدیق موجود هے ،

باب من ترك بعض الاختيار مخافة أن يقصر فهم بعض الناس عنه فيقعوا في أشد منه
یعنی یہ باب هے اس شخص کے بارے میں جس نے بعض جائز چیزوں کو اس ڈرسے چھوڑ دیا کہ بعض کم فہم لوگ اس سے سخت بات میں مبتلا نہ ہو جائیں ،
اوراس باب وترجمہ کے تحت یہ حدیث نقل کی هے

حدثنا عبيد الله بن موسى عن إسرائيل عن أبي إسحاق عن الأسود قال: قال لي ابن الزبير كانت عائشة تسر إليك كثيرا فما حدثتك في الكعبة قلت: قالت لي قال النبي يا عائشة لولا قومك حديث عهدهم قال ابن الزبير بكفر لنقضت الكعبة فجعلت لها بابين باب يدخل الناس وباب يخرجون ففعله بن الزبير ۰
امام بخاری رحمہ الله نے صحیح بخاری (کتاب العلم ) میں ایک اوراس طرح باب قائم کیا هے

باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية أن لا يفهموا

یعنی جس نے بعض قوم کوعلم کے ساتهہ خاص کیا اوربعض کواس ڈرسے نہیں پڑهایا کہ وه اس کو نہیں سمجهیں گے ۰

اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ الله نے فرمایا


وقال علي حدثوا الناس بما يعرفون أتحبون أن يكذب الله ورسوله
حضرت علی نے فرمایا کہ لوگوں کوبیان کرو جووه سمجهتے هوں ، کیاتم پسند کرتے هو کہ الله ورسول کی تکذیب کی جائے ؟
یعنی کوئ بهی غامض ودقیق وباریک بات جوعوام کے سمجهہ وفہم سے باهرهوتوان کووه بیان نہ کی جائے۰
اوراسی کو حضرت الامام گنگوهی رحمہ الله نے فرمایا کہ
( مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کهولنا هے ۰ )
اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ الله نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کی یہ روایت نقل کی هے ،
حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ رسول الله صلى الله عليه وسلم کے ساتهہ سواری پرسوار تهے تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا يا ‏ ‏معاذ بن جبل
حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے فرمایا لبيك يا رسول الله وسعديك پهر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا يا ‏ ‏معاذ بن جبل حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے فرمایا لبيك يا رسول الله وسعديك ، تین مرتبہ فرمایا یعنی یہ ندا اورجواب ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جوکوئ بهی صدق دل سے یہ گواهی دے کہ لا إله إلا الله وأن ‏ ‏محمدا ‏ ‏رسول الله توالله تعالی اس کوجهنم کی آگ پرحرام کردیں گے ، حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے فرمایا يا رسول الله کیا میں لوگوں کواس کی خبرنہ دوں پس وه بهی خوشخبری حاصل کرلیں ؟؟
رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ( إذا يتكلوا ) یعنی اگرتوان کوخبردے گا تووه اسی پراکتفاء کرلیں گے ، یعنی عمل نہیں کریں گے اسی حکم کے ظاهرپراعتماد کرلیں گے ، اور حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ نے اپنی موت کے وقت اس حدیث کی خبردی تاکہ ( کتمان علم ) کا گناه نہ هو ۰
حدثنا إسحاق بن إبراهيم قال: حدثنا معاذ بن هشام قال: حدثني أبي عن قتادة قال: حدثنا أنس بن مالك أن النبي ومعاذ رديفه على الرحل قال: يا معاذ بن جبل قال لبيك يا رسول الله وسعديك قال: يا معاذ قال لبيك يا رسول الله وسعديك ثلاثا قال: ما من أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار قال: يا رسول الله أفلا أخبر به الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا وأخبر بها معاذ عند موته تأثما ۰
حدثنا مسد د قال: حدثنا معتمر قال: سمعت أبي قال: سمعت أنسا قال: ذكر لي أن النبي قال لمعاذ من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة قال ألا أبشر الناس قال لا إني أخاف أن يتكلوا ۰
اوراسی مضمون کوبیان کرنے والی بعض دیگر روایات ملاحظہ کریں
أُمِرْنا أن نُكلِّمَ الناسَ على قدْر عقولِهم.
(رواه الديلمي عن ابن عباس مرفوعا، )
وقال في المقاصد وعزاه الحافظ ابن حجر لمسند الحسن بن سفيان عن ابن عباس بلفظ
أمرت أن أخاطب الناس على قدر عقولهم ،

ورواه أبو الحسن التميمي من الحنابلة في العقل له عن ابن عباس من طريق أبي عبد الرحمن السُلَمي أيضا بلفظ بُعْثِنا معاشر الأنبياء نخاطب الناس على قدر عقولهم، وله شاهد عن سعيد بن المسيب مرسلا بلفظ إنا معشر الأنبياء أمرنا وذكره،

ورواه في الغنية للشيخ عبد القادر قدس سره بلفظ أمرنا معاشر الأنبياء أن نحدث الناس على قدر عقولهم
وروى البيهقي في الشعبعن المقدام بن معدي كرب مرفوعاإذا حدثتم الناس عن ربهم فلا تحدثوهم بما يعزب عنهم ويشق عليهم،
وصح عن أبي هريرة حفظت عن النبي صلي الله عليه وسلم وعاءَيْنِ  فأما أحدهما فَبَثثْتُهُ، وأما الآخر فلو بثثتُه لقُطع هذا البلعوم،
وروى الديلمي عن ابن عباس مرفوعا عاقبوا أرقاءكم على قدر عقولهم، وأخرجه الدارقطني عن عائشة مثله، وروى الحاكم وقال صحيح على شرط الشيخين عن أبي ذر مرفوعا خالقوا الناس بأخلاقهم،
وأخرج الطبراني وأبو الشيخ عن ابن مسعود خالط الناس بما يشتهون، ودينك فلا تَكْلِمْهُ، ونحوه عن علي رفعه، خالق الفاجر مخالقة، وخالص المؤمن مخالصة، ودينك لا تسلمه لأحد، وفي حديث أوله خالطوا الناس علي قدر إيمانهم (( راجع كشف الخفاء للعجلوني ))



اس باب میں دیگراقوال وروایات بهی هیں ، لیکن حق وهدایت کے طالبین کے لیئے اس قدر میں کفایت هے ۰

No comments:

Post a Comment