تازہ ترین تحریریں

Sunday 16 September 2012

رفع یدین کی نماز میں حیثیت اور اس پر احناف کا موقف دلائل کی روشنی میں

رفع یدین کی نماز میں حیثیت اور اس پر احناف کا موقف دلائل کی روشنی میں
نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹهانا) بالاتفاق مستحب ہے ، الإمام النووي رحمه الله یہی فرماتے ہیں
قال الإمام النووي في شرح صحيح مسلم : أجمعت الأمة على استحباب رفع اليدين عند تكبيرة الإحرام .
لیکن نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین کے حکم میں اختلاف ہے اس بارے میں دو قول ہیں:
1 = نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین واجب ہے ، امام الأوزاعي اور امام الحميدي یعنی شيخ البخاري اور امام داود الظاهري اوران کے بعض أصحاب اوربقول امام حاکم امام ابن خزيمة اور أحمد بن سيار بن أيوب شوافع میں سے اور امام ابن حزم کا مذهب یہی ہے۔

2 = نمازکی ابتداء میں تکبیرتحریمہ کہتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام اعظم أبو حنيفة اوران کے أصحاب اورامام مالك ، اورامام الشافعي ، اورامام أحمد اورامام أبو عبيد ، اورامام أبي ثور ، اورامام إسحاق ، وابن المنذر ، وغيرهم کثیر کا یہی مذهب ہے ۔

تفصیل دیکهیئے : شرح صحيح مسلم للنووي ، فتح الباري ، نيل الأوطار، بداية المجتهد ، الاستذكار والتمهيد ، وغیرذالک
لیکن رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرنے اور نہ کرنے سے متعلق سلف صالحین وائمہ هدی کے مابین اختلاف ہے اور دوراول یعنی صحابہ وتابعین وتبع تابعین رضی الله عنهم سےاس میں اختلاف چلا آرہا ہے اوراس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ رفع یدین کے بارے مختلف روایات وارد ہوئ ہیں لہذا جس مجتهد نے اپنے دلائل کی روشنی میں جس صورت کوزیاده بہتر وراجح سمجها اس کو اختیارکیا اورکسی بهی مجتهد نے دوسرے مجتهد کے عمل واجتهاد کو باطل وغلط نہیں کہا اور یہی حال ان مجتهدین کرام کا دیگراختلافی مسائل میں بهی ہے کہ باوجود اختلاف کے ایک دوسرے کے ساتهہ محبت وعقیدت واحترام کا رشتہ رکهتے تهے جیسا کہ گذشتہ سطور میں گذر چکا کہ امام شافعی رحمه الله امام مالک رحمه الله کے شاگرد ہیں لیکن بہت سارے اجتهادی مسائل میں ان سے اختلاف رکهتے ہیں حتی کہ رفع یدین کے مسئلہ میں بهی دونوں استاذ وشاگرد کا اجتهاد مختلف ہے امام شافعی رحمه الله رفع یدین کے قائل ہیں اورامام مالک رحمه الله رفع یدین کے قائل نہیں ہیں وغیرذالک اور دوراول سے لے کر آخرتک یہی حالت رہی حتی کہ ہمارے اس آخر زمانہ میں ہندوستان کے اندر کچهہ نفوس پرمشتمل ایک جماعت نمودار ہوئ جس نے بڑے زور وشور سے ان اختلافی مسائل کو لے کرعوام الناس کو ان ائمہ هدی اورخصوصا امام اعظم ابوحنیفہ وعلماء احناف کے منهج وطریق سے ہٹانے کا بهرپور سلسلہ شروع کیا اورمختلف حیلوں بہانوں سے عوام کو یہ باور کرایا اورآج تک کر رہے ہیں کہ احناف کی فقہ اوران کا عمل حدیث رسول کے بالکل مخالف ہے ان کا مشہورطریقہ واردات اس بارے میں یہ ہوتا ہے کہ مثلا ایک اختلافی مسئلہ میں وه روایت عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں جس کے ساتهہ احناف بوجوه استدلال نہیں کرتے اوراس مسئلہ میں احناف کی مستدل روایات کو جہالت یا ضد وتعصب کی وجہ سے پیش نہیں کرتے مثلا رفع یدین کا مسئلہ لے لیں ایک عام آدمی کے سامنے حدیث پڑهتے ہیں کہ دیکهو حدیث میں ہے کہ حضور صلی الله وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین کرتے تهے اور حنفی اس حدیث پرعمل نہیں کرتے لہذا ان کو چهوڑ دو اور اهل حدیث جماعت میں شامل ہوجاوجن کا مقصد صرف اور صرف حدیث رسول پرعمل کرنا ہے لہذا عموما ایک عام ناواقف شخص اسی وسوسہ کو قبول کرکے ٹهوکر کها لیتا ہے جیسا کہ معلوم ہے کہ مسئلہ رفع یدین سے متعلق علماء کرام کی مفصل ومختصر بہت ساری کتب موجود ہیں جن میں اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث وکلام موجود ہے لہذا میں اس مختصر مقالہ میں صرف ائمہ اربعہ کی آراء اور ائمہ احناف کے کچهہ دلائل ذکرکروں گا تاکہ ایک عام آدمی کو معلوم ہوجائے حنفی تکبیرتحریمہ کےعلاوه رفع یدین کیوں نہیں کرتے اور ان کے پاس کیا دلائل ہیں 
رفع یدین کے بارے مذاهب اربعہ کی تصریحات 1 = احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی ہے یعنی بہترنہیں ہے 
فتاوی شامی میں ہے 
قوله إلا في سبع ) أشار إلى أنه لا يرفع عند تكبيرات الانتقالات ، خلافا للشافعي وأحمد ، فيكره عندنا ولا يفسد الصلاة الخ
رد المحتار على الدر المختار ، كتاب الصلاة ، فصل في بيان تأليف الصلاة إلى انتهائها
2 = مالکیہ کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین مکروه وخلاف اولی ہے ، مذهب مالکیہ کی مستند کتاب المدونة الكبرى میں ہے ، ففي المدونة الكبرى قال الإمام مالك: (لا أعرف رفع اليدين في شيء من تكبير الصلاة، لا في خفض ولا في رفع إلا في افتتاح الصلاة، يرفع يديه شيئا خفيفا، والمرأة في ذلك بمنزلة الرجل)، قال ابن القاسم : (كان رفع اليدين ضعيفا إلا في تكبيرة الإحرام ) المدونة الكبرى للإمام مالك ص 107 – دار الفكر بيروت 
امام مالك رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نمازکی تکبیرات میں کسی جگہ رفع اليدين نہیں جانتا نہ رکوع میں جاتے وقت اور نہ رکوع سے اٹهتے وقت مگر صرف نمازکے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت ، امام مالک کے صاحب وشاگرد ابن القاسم فرماتے ہیں کہ رفع اليدين کرنا ضعیف ہے مگرصرف تکبیرتحریمہ میں . امام مالك رحمه الله کے الفاظ پر ذرا غور کریں لا أعرف یعنی میں نہیں جانتا تکبیر تحریمہ کے علاوه رفع یدین کرنا الخ 
یاد رہے کہ کتاب المُدَونة الكبرى فقہ مالكي کی اصل وبنیاد ہے دیگرتمام کتابوں پرمقدم ہے اور مُوطأ الإمام مالك کے بعد اس کا دوسرا نمبرہے اوراکثر علماء المالكية کی جانب سے اس کتاب المدونة کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور فتاوی کے باب میں بهی علماء المالكية کا اسی پراعتماد ہے اور روایت و درجہ کے اعتبارسے سب سے أصدق وأعلى کتاب ہے 
علامہ ابن رشد المالکی نے بهی یہی تصریح کی ہے اور فرمایا کہ رفع یدین میں اختلاف کا سبب دراصل اس باب میں وارد شده مختلف روایات کی وجہ سے ہے یعنی چونکہ روایات مختلف ہیں لہذا ائمہ مجتهدین کا عمل بهی ہوگا .اهــ لہذا جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی نماز غلط ہے توایسے لوگ جاہل وکاذب ہیں 
وأما اختلافهم في المواضع التي ترفع فيها فذهب أهل الكوفة أبو حنيفة وسفيان الثوري وسائر فقهائهم إلى أنه لا يرفع المصلي يديه إلا عند تكبيرة الإحرام فقط، وهي رواية ابن القاسم عن مالك " الی ان قال " والسبب في هذا الاختلاف كله اختلاف الآثار الواردة في ذلك الخ (بداية المجتهد ، كتاب الصلاة ، للعلامه ابن رُشد المالکی)۔ 
علامہ عبد الرحمن الجزيري نے بهی یہی تصریح کی ہے کہ مالکیہ کے نزدیک رفع یدین دونوں کندہوں تک تکبیرتحریمہ کے وقت مستحب ہے اس کے علاوه مکروه ہے
المالكية قالوا: رفع اليدين حذو المنكبين عند تكبيرة الاحرام مندوب، وفيما عدا ذلك مكروه الخ الفقه على المذاهب الاربعة ' لعبد الرحمن الجزيري ' الجزء الاول (كتاب الصلاة باب رفع اليدين)
3 = شافعيه کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے ، امام شافعي كى كتاب الأم میں یہی تصریح موجود ہے اوردیگرعلماء شافعیه کا بهی یہی مذهب ہے۔
قال سألت الشافعي: أين ترفع الأيدي في الصلاة؟ قال: يرفع المصلي يديه في أول ركعة ثلاث مرات، وفيما سواها من الصلاة مرتين مرتين يرفع يديه حين يفتتح الصلاة مع تكبيرة الافتتاح حذو منكبيه ويفعل ذلك عند تكبيرة الركوع وعند قوله " سمع الله لمن حمده " حين يرفع رأسه من الركوع ولا تكبيرة للافتتاح إلا في الأول وفي كل ركعة تكبير ركوع، وقول سمع الله لمن حمده عند رفع رأسه من الركوع فيرفع يديه في هذين الموضعين في كل صلاة الخ (كتاب الأم ، باب رفع اليدين في الصلاة)
قال الشافعي وبهذا نقول فنأمر كل مصل إماما ، أو م أموما ، أو منفردا ؛ رجلا ، أو امرأة ؛ أن يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ؛ وإذا كبر للركوع ؛ وإذا رفع رأسه من الركوع ويكون رفعه في كل واحدة من هذه الثلاث حذو منكبيه ؛ ويثبت يديه مرفوعتين حتى يفرغ من التكبير كله ويكون مع افتتاح التكبير ، ورد يديه عن الرفع مع انقضائه . (كتاب الأم ، باب رفع اليدين في التكبير في الصلاة)
4 = حنابله کے نزدیک بهی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین سنت ہے
مسألة : قال : ( ويرفع يديه كرفعه الأول ) يعني يرفعهما إلى حذو منكبيه ، أو إلى فروع أذنيه ، كفعله عند تكبيرة الإحرام ، ويكون ابتداء رفعه عند ابتداء تكبيره ، وانتهاؤه عند انتهائه .
كتاب المُغني لإبن قدامة الحنبلي ، كتاب الصلاة ، باب صفة الصلاةرفع یدین کے بارے احناف کا موقف دلائل کی روشنی میں جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ احناف کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹهتے وقت رفع یدین خلاف اولی ہے یعنی بہترنہیں ہے ذیل میں احناف کے چند دلائل پیش خدمت ہیں1 = باب ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة 
حدثنا هناد حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة قال وفي الباب عن البراء بن عازب : قال أبو عيسى حديث ابن مسعود حديث حسن : وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين: وهو قول سفيان الثوري وأهل الكوفة 
سنن الترمذي ، كتاب الصلاة ، صفة الصلاة امام ترمذی رحمه الله اپنی سند کے ساتهہ حضرت علقمة سے روایت کرتے ہیں وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ کیا میں آپ حضرات کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز نہ پڑهاوں ؟ پهر حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے نماز پڑهی پس پہلی مرتبہ ( یعنی تکبیرتحریمه ) کے علاوه رفع یدین نہیں کیا 
امام ترمذی رحمه الله فرماتے ہیں ابن مسعود رضی الله عنه کی یہ حدیث حسن ہے اور بہت سارے أهل العلم صحابہ کرام اورتابعین کا بهی یہی قول ہے یعنی صرف تکبیرتحریمه کے وقت رفع یدین کے قائل ہیں ، اور سفيان الثوري اورأهل الكوفة کا بهی یہی قول ہے 
اورامام ترمذی رحمه الله نے یہ تصریح بهی کی کہ ابن مسعود رضی الله عنه کی اس حدیث کے علاوه حضرت البراء بن عازب رضی الله عنه سے بهی ترک رفع یدین کی روایت مَروی ہے 
2 = عن علقمة قال : قال عبدالله بن مسعود ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة
رواه أبوداود في سننه ورجاله رجال الصحيح 
حضرت علقمة سے روایت ہے وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ کیا میں آپ حضرات کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز نہ پڑهاوں ؟ پهر حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے نماز پڑهی پس پہلی مرتبہ ( یعنی تکبیرتحریمه ) کے علاوه رفع یدین نہیں کیا 
3 = حدثنا الحسن بن علي ثنا معاوية وخالد بن عمرو وأبو حذيفة قالوا ثنا سفيان بإسناده بهذا قال فرفع يديه في أول مرة وقال بعضهم مرة واحدة 
سنن أبي داود 
امام ابوداود فرماتے ہیں کہ اوپرمذکور سند ( عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة ) سے حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه کی روایت کے الفاظ فلم يرفع يديه إلا مرة کے بجائے فرفع يديه في أول مرة اوربعض نے فرفع يديه مرة واحدة کے الفاظ بیان کیئے ہیں 
یاد رہے کہ ان سب الفاظ کا معنی ومفہوم ایک ہی ہے یعنی یعنی تکبیرتحریمه کے وقت ایک مرتبہ رفع یدین کیا 
4 = أخبرنا محمود بن غيلان المروزي ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله أنه قال ألا أصلي بكم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة واحدة
سنن النســائـي 
حضرت علقمة سے روایت ہے وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ کیا میں آپ حضرات کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز نہ پڑهاوں ؟ پهر حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے نماز پڑهی پس پہلی مرتبہ ( یعنی تکبیرتحریمه ) کے علاوه رفع یدین نہیں کیا 
5 = وروى الإمام النسائـي بسند آخرعن علقمة عن عبد الله أنه قال ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يُعـد
سنن النســائـي ، وقال العلامة النيموي رحمه الله هذا إسناد صحيح
حضرت علقمة سے روایت ہے وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ کیا میں آپ حضرات کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز کی خبرنہ دوں ؟ حضرت عَلقمه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه کهڑے ہوئے اور ہاتهوں کو پہلی مرتبہ ( یعنی تکبیرتحریمہ کے وقت ) اٹهایا پهر نہیں اٹهایا 
6 = حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال : قال ابن مسعود ألا أصلي لكم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ؟ قال فصلى فلم يرفع يديه إلا مرة ، 
مسند الإمـام أحـمد ، وفيه فرفع يديه في أول مرة 
7 = حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبدالله قال : ألا أريكم صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ؟ فلم يرفع إلا مرة
مُصَنف ابن أبـي شـيبة 
حضرت علقمة سے روایت ہے وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ کیا میں آپ حضرات کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز نہ دکهاوں ؟ ( یہ کہ نمازپڑهی ) اور صرف ایک بار رفع یدین کیا مذکوره بالا سات روایات ائمہ حدیث نے سیدنا عبد الله بن مسعود رضی الله عنه سے روایت کی ہیں جن میں عبد الله بن مسعود رضی الله عنه خود عملی طورپرلوگوں کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی نماز کے متعلق خبر وتعلیم دے رہے ہیں اورصرف نمازکے شروع میں تکبیرتحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے ہیں پهر نہیں کرتے ، عبد الله بن مسعود رضی الله عنه کون ہیں ؟؟ انتہائ عظیم وکثیرفضائل ومناقب والے صحابی ہیں ، رسول الله صلى الله عليه وسلم کےرازدار وخادم خاص ومقرب صحابی ہیں ، ظاہری ہیئت اور سیرت وطریقے میں اورشان و وقار میں رسول الله صلى الله عليه وسلم کے سب سے زیاده مشابہ وقریب تهے ، صحابہ میں صاحب النعلین والسواک والسواد کے لقب سے معروف وممتازہیں کیونکہ نعلین مبارک عصاء مبارک ومسواک مبارک آپ ہی رسول الله صلى الله عليه وسلم کو پیش فرماتے ، اورسفرمیں بسترمبارک ومسواک مبارک ونعلین مبارک آپ ہی تحویل میں رہتیں ، حضرت ابواشعری رضی الله عنه جب یمن سے مدینه منوره پہنچے تو کثرت باریابی دیکهہ کر عبد الله بن مسعود رضی الله عنهما کی اور ان کی والده محترمه کو اهل بیت سمجهے ، تمام غزوات میں شریک رہے ، رسول الله صلى الله عليه وسلم خود ان سے قرآن پڑهوا کر سنتے تهے جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے 
يا عبد الله اقرأ علي القرآن قال: أ أقرأ عليك يا رسول الله وعليك أنزل ؟ قال إني أحب أن أسمعه من غيري الخ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے امت کو یہ وصیت فرمائ کہ عبد الله بن مسعود رضی الله عنهما کی ہدایت وحکم واتباع کو مضبوط پکڑے رہو جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے تمسكوا بعهد ابن أم عبد رواه الإمام أحمد والحاكم وغيرهما اسی طرح دوسری صحیح حدیث میں ہے رضيت لأمتي ما رضي لها ابن أم عبد وصح أيضا عنه عليه الصلاة والسلام أنه قال قد رضيت لكم ما رضي لكم ابن أم عبد ، اسی لیئے عبد الله بن مسعود رضی الله عنهما صاحب وصايا بهی ہیں ، رسول الله صلى الله عليه وسلم کا ارشاد مبارک ہے 
من سره أن يقرأ القرآن رطبا كما أنزل فليقرأ على قراءة ابن أم عبد 
المصنف ابن أبي شيبة كتاب فضائل القرآن
یعنی جس کو یہ پسند ہوکہ قرآن اسی تازگی وطراوت کے ساتهہ پڑهے جیسا کہ نازل ہوا تو اس کوچائیے کہ ابن ام عبد ( ابن مسعود رضی الله عنهما) کی قراءت سے پڑهے ، اوراسی طرح جن چار صحابه سے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خاص طور پر قرآن سیکهنے کا حکم فرمایا ان میں اول نام عبد الله بن مسعود رضی الله عنهما کا لیا ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : خذوا القرآن من أربعة من ابن مسعود وأبي بن كعب ومعاذ بن جبل وسالم مولى أبي حذيفة قال هذا حديث حسن صحيح سنن الترمذي ، كتاب المناقب ، باب مناقب عبد الله بن مسعود رضي الله عنه ،وفي رواية الشيخين استقرئوا القرآن أي : اطلبوا القراءة 
صحابه رضوان الله عليهم میں عبد الله بن مسعود رضی الله عنهما قرآن کے سب سے بڑے قاری وعالم تهے اسی لیئے تو زبان نبوت سے امت کو یہ خصوصی حکم صادر ہوا کہ قرآن انهی سے پڑهو 
ایک دوسری صحیح حدیث میں ہے کہ ایک صحابه رضي الله عنهم نے عبد الله بن مسعود رضی الله عنهما کی باریک پنڈلیاں دیکهہ کر ہنس پڑے تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا تم کیوں اس کی باریک پنڈلیاں دیکهہ کر ہنستے ہوں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ دونوں پنڈلیاں تو (قیامت کے دن) میزان میں أحد ( پہاڑ) سے بهی زیاده بهاری ہوں گے 
فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ما يضحككم من دقة ساقيه والذي نفسي بيده إنهما أثقل في الميزان من أحد " وفي رواية " أنه كان يجتني سواكاً من الأراك وكان دقيق الساقين فجعلت الريح تكفؤه فضحك القوم منه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مم تضحكون؟ قالوا: يا نبي الله من دقة ساقيه فقال: والذي نفسي بيده، لهما أثقل في الميزان من أحد ، رواه أحمد في مسنده وفي فضائل الصحابة، والطيالسي ، والبزار في مسنده ، وأبو يعلى الموصلي في مسنده ، والطبراني في الكبير ، وأبو نعيم في الحلية وغیرهم والحديث صحيح چند کلمات میں نے سیدنا عبد الله بن مسعود رضی الله عنه کے فضائل میں اس لیئے نقل کیئے کہ ہمارے اس زمانہ میں کچهہ جاہل لوگ یہاں تک کہ دیتے ہیں کہ جو لوگ نماز میں رفع یدین نہیں کرتے ان کی نماز باطل وفاسد ہے یہ جاہل لوگ احناف کی ضد میں اس طرح کہتے ہیں لیکن ان کو معلوم نہیں کہ ان کے اس جاہلانہ واحمقانہ فتوے کی زد میں صرف احناف نہیں بلکہ سب سے پہلے کبار صحابہ آتے ہیں جن میں سرفہرست سیدنا عبد الله بن مسعود رضی الله عنه ہیں اورپهر یہ جاہل لوگ بڑے طمطراق سے عوام الناس کے سامنےصرف حدیث پرعمل کا دعوی کرتے ہیں لیکن ان جاہل لوگوں کو اس حدیث صحیح پرعمل کی توفیق نہیں ہوگی تمسكوا بعهد ابن أم عبد عبد الله بن مسعود رضی الله عنهما کی ہدایت وحکم واتباع کو مضبوط پکڑے رہو ، الحمد لله احناف کو یہ امتیاز وخصوصیت حاصل ہے کہ اپنی فقہ کی بنیاد ہی سیدنا عبد الله بن مسعود رضی الله عنه کے علوم وفیوض پر رکهی ہے اور رسول الله صلى الله عليه وسلم کی اس ارشاد مبارک تمسكوا بعهد ابن أم عبد پرکامل طور پرعمل پیرا ہیں 
اورایک دوسری صحیح حدیث میں رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ہم کوعبد الله بن مسعود رضی الله عنه کی اتباع کا حکم اس طرح دیا ارشاد فرمایا کہ
عبد الله بن مسعود تم سے جو بات بیان کریں توتم اس کی تصدیق کرو اس کو صحیح سمجهو ، وفي رواية حذيفة : ما حدثكم ابن مسعود فصدقوه ، رواه الترمذي وقال : حديث حسن ، أقول : وحديث حذيفة رواه أحمد ، والترمذي ، وابن ماجه وابن حبان في صحيحه . مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
اور شیخ البانی نے بهی اس کوصحیح قراردیا ہے ہم حدیث کے باب میں شیخ البانی کی تصحیح وتضعیف پراعتبارنہیں کرتے یہ صرف ان حضرات کی معلومات کے لیئے ہے جوان پراعتماد کرتے ہیں 
اب سوال یہ ہے کہ کیا وه لوگ جو عمل بالحدیث کا دعوی کرتے ہیں رسول الله صلى الله عليه وسلم کےاس ارشاد مبارک (کہ عبد الله بن مسعود تم سے جو بات بیان کریں توتم اس کی تصدیق کرو اس کو صحیح سمجهو) پرعمل کریں گے اور مذکوره بالا سیدنا عبد الله بن مسعود رضی الله عنه کی حدیث پرعمل شروع کریں گے ؟؟ یا کم ازکم رفع یدین نہ کرنے والے مسلمانوں کی نماز کو باطل وفاسد نہیں کہیں گے بلکہ حدیث وسنت کے مطابق سمجهیں گے ؟؟ اوریاد رہے کہ اس حدیث کے بارے شیخ البانی نے بهی بڑی تاکید کے ساتهہ یہ حکم صادر فرمایا والحق انه حديث صحيح على شرط مسلم ، اورحق بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اورامام مسلم کے شرط پر ہے 
الله تعالی ہم کو صحیح سمجهہ دے اورجہلاء کے وساوس سے محفوظ رکهے۔
8 = حضرت علقمة سے روایت ہے وه فرماتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنه نے فرمایا کہ میں نے نبي صلى الله عليه وسلم اور أبي بكر اور عمر رضى الله تعالى عنهما کے ساتهہ (دوسری روایت میں ہے ان کے پیچهے ) نمازپڑهی ان حضرات نے صرف تکبیرتحریمہ کے وقت ہاتهوں کو اٹهایا 
عن أبي عثمان سعيد بن محمد بن أحمد الحناط وعبد الوهاب بن عيسى بن أبي حية قالا : نا إسحاق بن أبي إسرائيل نا محمد بن جابر عن حماد عن إبراهيم عن علقمة عن عبد الله قال صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ومع أبي بكر ومع عمر رضى الله تعالى عنهما فلم يرفعوا أيديهم إلا عند التكبيرة الأولى في افتتاح الصلاة. 
رواه الدارقطني ، ورواه ابن عدي في الكامل و رواه البيهقي ، و الحديث رواه ابن الجوزي من طريقين . و أخرجه ابن حبان و عزاه لأبي حاتم و ذكره السيوطي و الذهبي في التلخيص و في الميزان و ذكره ابن حجر و الشوكاني و غيرهم 
9 = امام زہری فرماتے ہیں کہ مجهے حضرت سالم بن عبدالله نے اپنے والد حضرت عبدالله ابن عمر رضى الله تعالى عنهما کے حوالہ سے خبردی کہ انهوں نے فرمایا کہ میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کو دیکها جب آپ نماز شروع کرتے تو مونڈہوں تک رفع یدین کرتے اورجب رکوع میں جانے کا اراده کرتے اور رکوع سے سر اٹهالیتے تو پهر رفع یدین نہیں کرتے تهے اور نہ دونوں سجدوں کے درمیان کرتے 
حدثنا الحميدي قال حدثنا سفيان قال حدثنا الزهري قال أخبرني سالم بن عبدالله عن أبيه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا افتتح الصلوة رفع يديه حذو منكبيه واذا أراد ان يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع فلا يرفع ولا بين السجدتين 
مسند الحُميدي ، ورواه في صحيح أبي عوانة أيضا 
10 = حضرت عَلِي رضي الله عنه نمازکے شروع میں صرف تکبیرتحریمه کے وقت رفع یدین کرتے پهر نہیں کرتے تهے 
عن وكيع عن أبي بكر بن عبد الله بن قطاف النهشلي عن عاصم بن كليب عن أبيه أن عليا كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ثم لا يعود 
رواه أبو بكر ابن أبي شيبة 
عن أَبَي بَكرَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عَلِيًّا رضي الله عنه كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ مِنْ الصَّلاَةِ ، ثُمَّ لاَ يَرْفَعُ بَعْدُ 
رواه الإمام أبو جعفر الطحاوي الحنفي ، ورواه عن ابن أَبِي دَاود ، قَالَ : حَدَّثنا أَحمَدُ بن يونس ، قَال : حَدَّثنا أَبُو بَك النَّهْشَلِيُّ ، عَن عَاصِم ، عَن أبيه وَكانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ رضي الله عنه عَنْ عَلِيٍّ مِثْلهُ . و جزم الإمام الطحاوي على صحة هذا الحديث و رجحه على حديث علي الآخر من طريق الأعرج ، و قال الإمام الزيلعي: هذا الأثر صحيح ، و قال الإمام العيني الحنفي في العمدة القاري : إسناد عاصم بن كليب صحيح على شرط مسلم و تابع الطحاوي في الاستدلال به في نسخ الرفع في غير تكبيرة الإحرام 
11 = حضرت مُجَاهِد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عُمَر رضي الله عنهما کے پیچهے نماز پڑهی وه نماز میں پہلی تکبیرکے علاوه رفع یدین نہیں کرتے تهے 
عن ابْنُ أَبِي دَاوُد ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الآُولَى مِنْ الصَّلاَةِ. 
رواه الإمام الحافظ أبو جعفر الطحاوي الحنفي 
اورحافظ ابن أبي شيبة کی روایت میں ہے کہ حضرت مُجَاهِد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عُمَر رضي الله عنهما کو نہیں دیکها کہ وه رفع یدین کرتے مگرصرف نماز کے شروع میں ، صرف تکبیرتحریمه کے وقت رفع یدین کرتے 
ورواه الإمام الحافظ ابن أبي شيبة عن أبي بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال ما رأيت ابن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح 
12 = حضرت اسود فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عُمَرُ بْنُ الْخَطَّاب رضي الله عنه کو ديكها کہ وه صرف پہلی تکبیر (یعنی تکبیرتحریمه) میں ہاتهہ اٹهاتے تهے پهرنہیں اٹهاتے . اورالإمام الحافظ أبو جعفر الطحاوي الحنفي رحمه الله نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے 
عن ابْنُ أَبِي دَاوُد ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحِمَّانِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ، عَنْ الأَسْوَدِ ، قَالَ : رَأَيْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ، ثُمَّ لاَ يَعُودُ. 
رواه الإمام الحافظ أبو جعفر الطحاوي الحنفي 
قال الإمام الحافظ أبو جعفر الطحاوي : عقب ذكره للحديث: فَهَذَا عُمَرُ رضي الله عنه لَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَيْضًا إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الآُولَى فِي هَذَا الْحَدِيثِ ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لِأَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَيَّاشٍ ، وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ إنَّمَا دَارَ عَلَيْهِ ، فَإِنَّهُ ثِقَةٌ حُجَّةٌ ، قَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ . أَفَتَرَى عُمَرُ بنُ الْخَطابِ رضي الله عنه خَفِيَ عَلَيْهِ أَنَّ النَّبِيَّ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ ، وَعَلِمَ بِذَلِكَ مَنْ دُونَهُ ، وَمَنْ هُوَ مَعَهُ يَرَاهُ يَفْعَلُ غَيْرَ مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ يَفْعَلُ ، ثُمَّ لاَ يُنْكِرُ ذَلِكَ عَلَيْهِ ، هَذَا عِنْدَنَا مُحَالٌ . وَفَعَلَ عُمَرُ رضي الله عنه هَذَا وَتَرَكَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّه إيَّاهُ عَلَى ذَلِكَ ، دَلِيلٌ صَحِيحٌ أَنَّ ذَلِكَ هُوَ الْحَقُّ الَّذِي لاَ يَنْبَغِي لِأَحَدٍ خِلاَفُهُ 
اورحافظ ابن أبي شيبة کی روایت میں ہے حضرت اسود فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عُمَرُ بْنُ الْخَطَّاب رضي الله عنه کے ساتهہ نمازپڑهی پس انهوں نے اپنی نماز میں رفع یدین نہیں کیا مگرصرف نمازکے شروع میں یعنی صرف تکبیرتحریمه کے وقت ، عبد الملك نے فرمایا کہ میں نے شعبي وإبراهيم وأبو إسحاق کودیکها وه رفع یدین نہیں کرتے تهے مگرصرف نمازکے شروع میں یعنی صرف تکبیرتحریمه کے وقت 
عن يحيى بن آدم عن حسن بن عياش عن عبد الملك بن أبجر عن الزبير ابن عدي عن إبراهيم عن الاسود قال صليت مع عمر فلم يرفع يديه في شئ من صلاته إلا حين افتتح الصلاة قال عبد الملك ورأيت الشعبي وإبراهيم وأبا إسحاق لا يرفعون أيديهم إلا حين يفتتحون الصلاة 
رواه الإمام الحافظ ابن أبي شيبة 
13 = عن أبي كريب محمد بن العلاء ثنا عبد الرحمن بن محمد المحاربي ثنا ابن أبي ليلى عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس، وعن نافع عن ابن عمرعن النبي صلى اللّه عليه وسلم، قال: "ترفع الأيدي في سبعة مواطن: افتتاح الصلاة. واستقبال البيت. والصفا والمروة. والموقفين. وعند الحجر 
رواه البزار في مسنده وغيره 
14 = رواه الحاكم بإسناده عن المحاربي عن ابن أبي ليلى عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس، وعن نافع عن ابن عمر، قالا: قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: " ترفع الأيدي في سبعة مواطن: عند افتتاح الصلاة. واستقبال القبلة. والصفا والمروة. والموقفين. والجمرتين
و رواه البيهقي من طريق الحاكم بهذا اللفظ
15 = و روى الطبراني عن محمد بن عثمان بن أبي شيبة ثنا محمد بن عمران بن أبي ليلى حدثني أبي عن ابن أبي ليلى عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس 
عن النبي صلى اللّه عليه وسلم، قال: "لا ترفع الأيدي إلا في سبعة مواطن: حين يفتتح الصلاة. وحين يدخل المسجد الحرام، فينظر إلى البيت. وحين يقوم على الصفا. وحين يقوم على المروة. وحين يقف مع الناس عشية عرفة. ويجمع. والمقامين حين يرمي الجمرة.
16 = و رواه ابن أبي شيبة موقوفا في مصنفه فقال : حدثنا ابن فضيل عن ابن أبي ليلى عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس، قال: لا يرفع الأيدي إلا في سبعة مواطن: إذا قمت إلى الصلاة. وإذا جئت من بلد. وإذا رأيت البيت. وإذا قمت على الصفا والمروة. وبعرفات. وبجمع. وعند الجمار
ورواه الحاكم موقوفا بإسناده عن ابن أبي ليلى عن نافع عن ابن عمر، وعن ابن أبي ليلى عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس، قالا: ترفع الأيدي في سبعة مواطن: في افتتاح الصلاة. واستقبال القبلة. وعلى الصفا والمروة. وبعرفات. وبجمع. وفي المقامين عند الجمرتين
17 = عن أبي بكر بن أبي شيبة وأبو كريب. قالا: حدثنا أبو معاوية عن الأعمش، عن المسيب بن رافع، عن تميم بن طرفة، عن جابر بن سمرة؛ قال:خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال "مالي أراكم رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ اسكنوا في الصلاة " الحديث 
أخرجه الإمام مسلم في باب الأمر بالسكون في الصلاة 
و الحديث أخرجه البخاري في جزئه و أخرجه النسائي بنحوه عن قتيبة و السراج عن الوليد بن شجاع و أخرجه ابن حبان و غيرهم
18 = عن القاسم بن زكرياء. قال حدثنا عبيد الله بن موسى عن إسرائيل، عن فرات (يعني القزاز) عن عبيد الله، عن جابر بن سمرة؛ قال:صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم. فكنا إذا سلمنا، قلنا بأيدينا: السلام عليكم. السلام عليكم. فنظر إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال "ما شأنكم؟ تشيرون بأيديكم كأنها أذناب خيل شمس؟ إذا سلم أحدكم فليلتفت إلى صاحبه ولا يومئ بيده
رواه الإمام مسلم 
19 = حدثنا وكيع وأبوأسامة عن شعبة ، عن أبي اسحق قال كان أصحاب عبدالله وأصحاب علي لايرفعون أيديهم الا في افتتاح الصلوة : قال وكيع ثم لا يعودون
رواه ابن أبي شيبة في المصنف وسنده صحيح على شرط الشيخين 
20 = عن عباد ابن الزبير ان رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم كان اذا افتتح الصلوة رفع يديه فى أول الصلوة ثم لم يرفعهما في شيئ حتى يفرغ
الخلافيات للبيهقي كمافى نصب الراية ، وقال إمامنا العلامة أنورشاه الكشميري فى كتابه نيل الفرقدين فهومرسل جيد من كان يرفع يديه في أول تكبيرة ثم لا يعود 21 = حدثنا أبو بكر قال نا وكيع عن ابن أبي ليلى عن الحكم وعيسى عن عبد الرحمن بن أبي ليلى عن البراء بن عازب أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه ثم لا يرفعهما حتى يفرغ . 
22 = حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الله بن الأسود عن علقمة عن عبد الله قال ألا أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يرفع يديه إلا مرة . 
23 = حدثنا وكيع عن أبي بكر بن عبد الله بن قطاف النهشلي عن عاصم بن كليب عن أبيه أن عليا كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ثم لا يعود . 
24 = حدثنا وكيع عن مسعر عن أبي معشر عن إبراهيم عن عبد الله أنه كان يرفع يديه في أول ما يستفتح ثم لا يرفعهما . 
25 = حدثنا ابن مبارك عن أشعث عن الشعبي أنه كان يرفع يديه في أول التكبير ثم لا يرفعهما . 
26 = حدثنا هشيم قال أخبرنا حصين ومغيرة عن إبراهيم أنه كان يقول إذا كبرت في فاتحة الصلاة فارفع يديك ثم لا ترفعهما فيما بقي . 
27 = حدثنا وكيع وأبو أسامة عن شعبة عن أبي إسحاق قال كان أصحاب عبد الله وأصحاب علي لا يرفعون أيديهم إلا في افتتاح الصلاة قال وكيع ثم لا يعودون . 
28 = حدثنا أبو بكر بن عياش عن حصين ومغيرة عن إبراهيم قال لا ترفع يديك في شيء من الصلاة إلا في الافتتاحة الأولى . 
29 = حدثنا أبو بكر عن الحجاج عن طلحة عن خيثمة وإبراهيم قال كانا لا يرفعان أيديهما إلا في بدء الصلاة . 
30 = حدثنا يحيى بن سعيد عن إسماعيل قال كان قيس يرفع يديه أول ما يدخل في الصلاة ثم لا يرفعهما . 
31= حدثنا ابن فضيل عن عطاء عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال لا ترفع الأيدي إلا في سبعة مواطن إذا قام إلى الصلاة وإذا رأى البيت وعلى الصفا والمروة وفي عرفات وفي جمع وعند الجمار . 
32 = حدثنا معاوية بن هشيم عن سفيان بن مسلم الجهني قال كان ابن أبي ليلى يرفع يديه أول شيء إذا كبر . 
33 = حدثنا أبو بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد قال ما رأيت ابن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح . 
34 = حدثنا وكيع عن شريك عن جابر عن الأسود وعلقمة أنهما كانا يرفعان أيديهما إذا افتتحا ثم لا يعودان . 
35 = حدثنا يحيى بن آدم عن حسن بن عياش عن عبد الملك بن أبجر عن الزبير بن عدي عن إبراهيم عن الأسود قال صليت مع عمر فلم يرفع يديه في شيء من صلاته إلا حين افتتح الصلاة قال عبد الملك ورأيت الشعبي وإبراهيم وأبا إسحاق لا يرفعون أيديهم إلا حين يفتتحون الصلاة . 
المُصـنف ابن أبـي شـيبــة ، كتــاب الصــلاة
باوجود اختصار کے اراده کے بات طویل ہوگئ آخر میں جوآثار مصنف ابن أبـي شـيبــة کے حوالہ سے ذکر ہوئے ان سب کا مفہوم تقریبا ایک ہی ہے یعنی نماز میں پہلی تکبیرکے علاوه رفع یدین نہ کرنا ، اس لیئے بخوف طوالت میں نے ان کا ترجمه نہیں لکها ، اوراس باب میں اور بہت آثار وروایات جو مفصل ومبسوط کتب میں موجود ہیں ، میں نے بطور مثال چند روایات وآثار نقل کیئے ہیں 
ومن أراد المزيد فعليه بالمبسوطات حــاصل كــلامآخرمیں امام ابن هـَمام الحنفـي اور سیدنـا الإمام أنورشاه الكشميري رحمهما الله کی بصیرت افروز کلمات نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں 
علامه ابن الهـَمَّام الحنفـي فرماتے ہیں کہ 
والقدرالمحقق بعد ذالك كله ثبوت رواية كل من الأمرين عند الركوع وعدمه فيحتاج الى الترجيح لقيام التعارض : فتح القدير ج 1 ص 270
یعنی ساری بحث کے بعد تحقیقی بات یہ ہے کہ دونوں روایتیں رسول الله صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہیں یعنی رکوع میں جاتے وقت ہاتهہ اٹهانا اور نہ اٹهانا 
لہذا تعارض کی وجہ سے ترجیح کی ضرورت پیش آئے گی 
سیدنـا الإمام أنورشاه الكشميري رحمه الله فرماتے ہیں کہ 
تواترالعمل بهما من عهد الصحابة والتابعين وأتباعهم على كلا النحوين وإنما بقي الخلاف في أفضل من الأمرين : نيلُ الفرقدين ص 3
دونوں باتوں پر ( یعنی رفع یدین کرنے اور نہ کرنے پر) صحابہ وتابعین وتبع تابعین کے زمانہ سے متواترعمل رہا ہے اوراختلاف صرف اس بات میں ہے کہ افضل کیا ہے ؟؟ یعنی رفع یدین افضل ہے یا عدم رفع یدین بس اختلاف صرف اسی بات میں ہے .
سبحان الله ان دونوں اماموں نے جوبات لکهی ہے بالکل حق وسچ ہے لہذا اس باب میں ہمیں اسی بات کو سامنے رکهنا چائیے اوراس حد سے آگے نہیں گذرنا چائیے والله تعــالى أعـلم

3 comments:

  1. جزاک الله خیرا والدنیا والآخرة

    ReplyDelete
  2. جتنی روایات آپ نے ذکر کی ہیں ان سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں کہ 1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کیا پھر دوبارہ نہیں کیا۔ 2۔ اپنی نماز میں سکون کرو ہاتھ مت اٹھاؤ۔ میرے تین سوال ہیں سوال نمبر1۔ پھر مقلدین حضرات دیوبندی اور بریلوی وتر میں پہلی دفعہ تکبیرتحریمہ کے علاوہ دعائے وقنوت سے پہلے دوبارہ رفع یدین کیوں کرتے ہیں ؟؟؟
    سوال نمبر2۔ عید الفطر کی نماز کی پہلی رکعت اور دوسری رکعت میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ 3 ۔ 3 دفعہ رفع یدین کیوں کرتے
    ہیں ؟؟؟ سوال نمبر 3۔ عید الآضحی کی نماز کی پہلی رکعت اور دوسری رکعت میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ 3 ۔ 3 دفعہ رفع یدین کیوں کرتے ہین ؟؟؟ آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس کے تفصیلی جواب کے لئے ہمارا یہ بلاگ پڑھئے۔۔
      http://tark-e-rafayadain.blogspot.com/2013/09/blog-post.html

      Delete