تازہ ترین تحریریں

Thursday 22 March 2018

تحقیق اہلِ حدیث

فرقۂ غیر مقلدین دوسرے فرقوں کی بہ نسبت ایک نومولود فرقہ ہے۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو سال قرار دی جاسکتی ہے، لیکن یہ ایک عجیب بے بسی بلکہ بد نصیبی ہے کہ اب تک اس فرقہ کے افراد، اپنی تمام کوشش و کاوش کے باوجود، کوئی ایسا نام یا لقب نہیں دریافت کرسکے، جو ان کی حرکات وسکنات کو دیکھتے ہوئے پوری طرح اس پر منطبق ہوسکے، چنانچہ اپنے روز پیدائش سے لے کر اب تک اس جماعت نے اپنے لئے جتنے القاب اختیار کئے اور جتنے لبادے اوڑھے، وہ باوجود افسوس ناک ہونے کے ایک  حیرت انگیز داستان ہے۔
غیر مقلدین کا سب سے بڑا دعویٰ عمل بالحدیث کا ہے ، جس کی مناسبت سے وہ خود کو اہل حدیث کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو حدیث رسول ﷺ کا سرمایہ دار سمجھ کر تمام دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم راہ راست پر ہیں اور جہاں کے تمام مسلمان راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں، لیکن واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے ، حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے علم و فہم اور اس پر عمل کی بابت ان کی حرماں نصیبی قابل رحم ہے ، یہ جماعت اپنے کو اہل حدیث ثابت کرنے کے لئے مختلف قسم کی چالبازیاں دکھاتی رہی ہے، چنانچہ وہ علماء و محدثین کی کتابوں میں جہاں کہیں، "اصحاب الحدیث" یا " اہل الحدیث" وغیرہ الفاظ دیکھتی ہے ، اپنے اوپر چسپاں کر کے غرور و نخوت کا مظاہرہ کرتی پھرتی ہے، حالانکہ ان الفاظ سے مراد وہ اہل علم ہوتے ہیں جن کا شب و روز کا مشغلہ حدیثوں کا بیان کرنا اور ان کا پڑھنا پڑھانا ہوتا تھا، جس سے اس جماعت کو دور کابھی واسطہ نہیں۔

غیر مقلدین نے اپنے مذہب کو پھیلانے کے لئے جوجو کرتب کئے اور سوانگ رچائے اور کذب ودروغ بافی کے جیسے جیسے جال بچھائے اس کی مثال ملنا مشکل ہے ، کانفرنس، سیمینار، پمفلٹ، کتابچے غرض تقریر و تحریر کا وہ کون سا حربہ ہے جس کو اس فرقہ حادثہ نے نہ آزمایا ہو، چنانچہ 1943میں جب کہ انگریزی حکومت کے خلاف تمام ہندوستان میں غیظ و غضب کی لہر چل رہی تھی، اور انگریزوں کی پنجۂ اقتدار سے رہائی کے لئے پورا ملک سخت جدوجہد کر رہاتھا ، فرقۂ غیر مقلدین سب سے الگ ہوکر مؤ آئمہ ضلع الہ آباد میں کانفرنس کررہا تھا، جس میں اس کے سربرآوردہ مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی اپنے خطبۂ صدارت میں اہل حدیث کے مسلک پر نظر ڈال رہے تھے، اور محدثین بلکہ عہد صحابہ و تابعین سے اپنا رشتہ جوڑنے کے لئے آسمان و زمین کے قلابے ملارہے تھے، دفعیہ شر کے لئے اس کے چند مہینے بعد جواباً احناف کانفرنس بھی ہوئی، جس میں مسلک حنفی کے ہندوستان کے اکابر و مشاہیر اہل علم نے شرکت کی، ان ہی میں محدث جلیل ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمٰن الاعظمی ؒ بھی تھے، آپ نے اپنی تقریر کے اندر مولانا ابوالقاسم بنارسی کے خطبۂ صدارت پر نہایت فاضلانہ و محققانہ تبصرہ کیا اور ان کے تخیلات کا پرزور دلائل کے ساتھ رد کیا، یہ تبصرہ اس قدر پسند کیا گیا کہ لوگوں کے شدید اصرار کی وجہ سے حضرت محدث کبیر علیہ الرحمہ نے اس کو کچھ اور وسعت دے کر کتابی شکل دی ، جسے احناف دارالاشاعت و التبلیغ مؤ آئمہ نے شائع کیا، اس کا وہ ایڈیشن جو 43 ہی میں شائع ہوا تھا مختصر سی مدت میں ختم ہوگیا، اس کے بعد سے اس کا برابر تقاضا اور اس کے لئے اصرار بہت زہادہ ہوگیا اور شدت کے ساتھ اس کی ضرورت محسوس کی جانے لگی، جس کے پیش نظر اس کی دوبارہ اشاعت وطباعت کا فیصلہ کرنا پڑا، خدا سے دعا ہے کہ وہ اس رسالہ کو نافع اور فتنہ کا دافع بنائے! آمین۔
الحمداللہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی اما بعد!
احناف کانفرنس منعقدہ 15، 16، 17 اکتوبر 1943؁ ء بمقام مٔو آئمہ ضلع الہ آباد کے آخری اجلاس میں ناچیز نے جو تقریر کی تھی، وہ خدا کے فضل سے بہت بروقت اور مفید خیال کی گئی، اور اصرار ہوا کہ اس کا قلم بند ہوکر شائع ہونا ضروری ہے۔ جب میں نے اسے منظور کر لیا تو چونکہ اس تقریر میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس منعقدہ اپریل 43؁ء کے خطبہ صدارت مصنفہ مولوی ابوالقاسم صاحب بنارسی کے چند اجزاء پر تبصرہ کیا گیا تھا، اس لئے اصرار ہوا کہ جن اجزاء پر تقریر میں تبصرہ نہیں ہوا ہے۔ اس تحریر میں ان پر بھی تبصرہ ہوجانا ضروری ہے، دوستوں کی اس خواہش کو بھی رد نہ کر سکا، اور مذکورہ بالا خطبہ صدارت کے تمام اجزاء پر ایک تنقیدی تبصرہ کے لئے مجھے فرصت نکالنا ہی پڑی۔

حدیث کی نئی تعریف
مولوی ابوالقاسم صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں یاد رفتگاں [1]؎ کے بعد آغاز کلام میں یہ ظاہر کیا ہے کہ:
            "میری بحث کی جولانی کے لئے صرف ایک ہی میدان رہ جاتا ہے، اور وہ یہ کہ اہل حدیث مسلک پر نظر ڈالوں۔"
اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے اہل حدیث کی وجہ تسمیہ لکھی ہے، اس ضمن میں آپ فرماتے ہیں کہ:
            "حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام الرسول کا۔"[2]
حدیث کی یہ تعریف غیر مقلدیت کا ایک تازہ کرشمہ ہے، ورنہ اس دور سے پہلے کے حضرات غیرمقلدین بھی یہی لکھتے آئے ہیں کہ حدیث نام ہے رسول ﷺ کے قول و فعل وتقریر کا، چنانچہ نواب صدیق حسن خان صاحب اہلِ حدیث مسک الختام میں لکھتے ہیں: حدیث دراصطلاح مشہور قول و فعل و تقریر رسول ستﷺ (صفحہ 21) آگے غیر مشہور اصطلاح کو جس میں صحابی و تابعی کے قول کو بھی حدیث کہا گیا ہے لکھ کر فرماتے ہیں وصواب اول است ، بلکہ اس دور کے بھی سب سے بڑے غیر مقلد مولی ثناء اللہ صاحب امرتسری کلام اللہ کو حدیث سے الگ اور حدیث کو قرآن سے دوسرے درجہ کی چیز قرار دیتے ہیں لکھتے ہیں:
            "اہل حدیث تو بموجب اصول مسلمہ حدیث کو درجۂ دوم قرآن سے سمجھ کر اور قرآن شریف کے بعد، تلاش مسائل کے وقت پہلی نظر حدیث پر ڈالتے ہیں۔"[3]؎
جعلی حدیث سے استناد
وجہ تسمیہ لکھنے کے بعد مولوی ابوالقاسم صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ اہل حدیث نام پیغمبر ﷺ کا مقرر فرمایا ہوا اور صحابہ کا قبول کردہ نام ہے ، پہلی بات کی سند میں یہ حدیث لکھی ہے کہ:
            " قیامت میں اہلِ حدیث سیاہی دانوں سمیت آئیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا تم اہل حدیث ہو جنت میں جاؤ۔"
ناظرین یہ معلوم کرکے محو حیرت ہوجائیں گے کہ یہ حدیث جعلی ہے ، اور جعلی حدیث سے سند پکڑنا باتفاق حرام ہے، مگر مولوی ابوالقاسم صاحب نے لاعلمی کی وجہ سےاس حدیث کو سند قرار دے لیا، اگر مولوی صاحب ٹھنڈے دل سے غور کریں تو اسی ایک بات سے ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ جب آج کل کے تارک تقلید علماء جعلی اور غیر جعلی حدیث میں تمیز نہیں کر سکتے تو ان کو براہ راست حدیث سے مسائل اخذ کرنے کا حق کہاں تک حاصل ہوسکتا ہے۔
لطف یہ ہے کہ اس حدیث کو مقلد علماء (ذہبی، خطیب اور سیوطی) نے تو موضوع لکھا ہی ہے، ایک غیر مقلد "امام" نے بھی اس کو موضوعات (جعلی حدیثوں میں ) شمار کیا ہے۔
علامہ شوکانی کی کتاب الفوائد المجموعۃ (صفحہ 30) ملاحظہ کیجئے۔ اور مقلدین کی تحقیق دیکھنی ہو تو لآلی مصنوعہ (جلد1 صفحہ 112) میں یہ تصریح پڑھئے، " قال الخطیب موضوع (الی) قال فی میزان وضع ہذا الحدیث علی الطبرانی" یعنی خطیب نے کہا کہ یہ حدیث جعلی ہے…….. میزان میں کہا (رقی ہے) اس حدیث کو طبرانی کے نام پر بنالیا ہے۔
 اصحاب الحدیث کی صحیح مراد
پھر اگر بالفرض یہ حدیث جعلی نہ ہوتی تب بھی اس سے مولوی ابوالقاسم صاحب کا مدعا حاصل نہیں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ اس میں اصحاب الحدیث کا جو لفظ واقع ہوا ہے، اس سے تارکین تقلید کی وہ جماعت جو براہ راست عمل بالحدیث کی مدعی ہو، مراد نہیں ہے، بلکہ اہل علم کی وہ جماعت مراد ہے جو کتابت ودرس حدیث کا مشغلہ رکھتی ہو، چنانچہ اس کی بین دلیل " بایدیم المحابر" کا لفظ ہے،یعنی (ان کے ہاتھوں میں دواتیں ہوں گی) ظاہر ہے کہ دواتیں ہاتھوں میں لئے ہوئے آنا کتابت کا مشغلہ رکھنے والے ہی کا کام ہوسکتا ہے۔
دوسری دلیل یہ کہ یہ جعلی حدیث ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے:
          "یحشر اللہ اصحاب الحدیث و اھل العلم"
            ترجمہ" یعنی اللہ حدیث اور علم والوں کو محشور فرمائے گا۔"[4]؎
دیکھئے اس میں اصحاب الحدیث کے ساتھ اہل العلم کہہ کر واضح کر دیا کہ اصحاب الحدیث سے مراد علمائے حدیث اور اس کے لکھنے پڑھنے والے ہیں۔
تیسری بین دلیل ، اس جعلی حدیث کے وہ الفاظ ہیں جن کو مولوی ابوالقاسم صاحب نے کسی مصلحت کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے اور وہ یہ ہیں:
            "طالما کنتم تصلون علی بنیی فی الدنیا"
            یعنی اللہ تعالیٰ اصحاب الحدیث کو یہ کہہ کر جنت میں بھیجے گا کہ" تم ہمارے نبی ﷺ پر دنیا میں درود بہت پڑھتے تھے۔" دیکھئے یہ الفاظ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اصحاب الحدیث سے لکھنے پڑھنے والے مراد ہیں، اس لئے کہ کثرت درود انہیں کا مشغلہ ہے، چاہے، کتابۃً ہو یا تلفظاً، نیز ان الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ ان کے جنتی ہونے کا سبب "ترک تقلید" یا "ادعائے عمل بالحدیث" نہیں بلکہ، کثرت درود ہے، اور مولوی ابوالقاسم صاحب خود بھی خوب خوب سمجھتے ہیں کہ کثرت درود مقلدین کا مشغلہ ہے یا غیر مقلدین کا۔ میں نے اس جعلی حدیث کے لفظ اصحاب الحدیث کی جو مراد لکھی ہے وہی امام ذہبی کے کلام سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے اس حدیث کو "حدیث فی حشر العلماء بالمحابر" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[5]؎
 صحابہ کے اہل حدیث ہونے کا مطلب
دوسری بات کے ثبوت میں مولوی ابوالقاسم نے متعدد حوالے دیئے ہیں، لیکن ان کی یہ کوشش بھی رائیگاں ہے، اس لئے کہ ان کے تمام حوالوں میں بھی اصحاب الحدیث  یا اہل الحدیث سے وہی حدیثوں کی روایت کرنے والے یا ان کو یاد کرنے والے، درس دینے والے اور لکھنے والے مراد ہیں، تارکین تقلید یا مدعیان عمل بالحدیث کسی طرح مراد نہیں ہوسکتے، چنانچہ اس سلسلے میں پہلی بات انہوں نے یہ لکھی ہے کہ "حضرت ابو ہریرہؓ نے اپنے کو اہل حدیث کہا" لیکن افسوس ہے کہ پوری بات نہیں لکھی، ورنہ صاف کھل جاتا کہ اہل حدیث سے حضرت ابوہریرہؓ کی مراد کیا ہے، مولوی صاحب نے اس کے لئے تاریخ خطیب و تذکرہ کا جس مقام کا حوالہ دیا ہے اس مقام میں ابو بکر بن ابی داؤد کا ایک خواب مذکور ہے کہ:
            "ابو بکربن ابی داؤد جس زمانے میں حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیثوں کی تصنیف میں مصروف تھے اسی زمانہ میں انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓکو خواب میں دیکھا، گھنی داڑھی، گندمی رنگ، موٹے کپڑے پہنے ہوئے ، ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے ان کو دیکھا کہ مجھے جناب سے محبت ہے، انہوں نے جواب دیا کہ میں دنیا میں پہلا صاحب حدیث ہوں۔"
اس پورے واقعہ کو سامنے رکھ کر اب مولوی ابوالقاسم صاحب ہی بتائیں کہ اگر صاحب حدیث سے ان کے اصطلاحی معنی یعنی عامل بالحدیث مراد ہیں تو کیا حضرت ابوہریرہؓ سے پلے صحابہ میں کوئی عامل بالحدیث نہیں تھا، یا مولوی صاحب کے لفظوں میں یہ کہ "جس طرح حدیث کو جماعت اہل حدیث نے اپنا پروگرام بنایا ہے " اس طرح حضرت ابو ہریرہؓ سے پہلے کسی صحابی نے نہیں بنایا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ مولوی صاحب یہ کہنے کی ہر گز جرأت نہیں کرسکتے، لہذا "صاحب حدیث" کے وہ معنی یہاں نہیں ہوسکتے جو مولوی صاحب کہتے ہیں، بلکہ صاحب حدیث کے معنی وہی ہیں کہ حفظ حدیث و روایت حدیث کا مشغلہ رکھنے والا، اور کچھ شبہہ نہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ کو جماعت صحابہ میں اہتمام حفظ حدیث و کثرت روایت و غیر ہما کے لحاظ سے اولیت کا درجہ حاصل ہے، اور اس کے معنی کے لئے ایک کھلا ہوا قرینہ یہ ہے کہ  تصنیف حدیث کے وقت یہ خواب نظر آیا ہے، ترک تقلید یا عمل بالحدیث کے وقت نہیں۔
 جعلی حدیث کے بعد خواب سے استناد
 پھر لطف یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کا کلام بھی حالت حیات و بیداری کا نہیں ہے۔ بلکہ وفات کے کئی صدی بعد حالت خواب کا ناظرین دیکھتے چلیں، پہلی بات کے ثبوت میں مولوی صاحب نے جعلی حدیث کی پیش کی اور دوسری بات کی سند میں خواب، اہل حدیث کے دلائل کی قوت کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے۔
یہ تو مولوی صاحب کے ایک حوالہ پر ہماری گفتگو تھی، ان کے دوسرے حوالوں کا بھی یہ حال ہے چنانچہ مولوی صاحب نے متعدد تابعین یا تبع تابعین کی نسبت "شرف اصحاب الحدیث" کے حوالہ سے اہلحدیث کا لفظ دکھا کر یہ باور کرانا چاہے کہ وہ اسی معنی میں اہل حدیث تھے جس معنی میں خود مولوی ابوالقاسم صاحب ہیں، حالانکہ یہ غلط ہے ۔"شرف اصحاب الحدیث" میں محدثین و رواۃ حدیث کے شرف و منقبت کا بیان ہے اور اس میں اصحاب الحدیث یا اہل الحدیث کے لفظ سے محدثین اور رواۃ حدیث ہی مراد ہیں۔ چنانچہ مصنف کتاب خود فرماتے ہیں؛
            "قد ذکرنا فی کتابنا ھذا من فضل الحدیث واھلہ المخصوصین بحفظہ و نقلۃ الخ"
            یعنی ہم نے اس کتاب میں حدیث اور اس کے اہل کی، جو حدیث کو یاد اور نقل کرنے کے ساتھ مخصوص ہیں، فضیلت بیان    کی ہے۔ (صفحہ 134)
اس  کے علاوہ اس کتاب میں میرے اس دعوے کی سینکڑوں دلیلیں موجود ہیں، از انجملہ اس کتاب میں ایک عنوان ہے " اصحاب الحدیث کا خلفائے نبی ہونا" اس عنوان کے تحت میں یہ حدیث ذکر کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے پوچھا گیا آپ  خلفاء کون ہیں؟ حضرت نے فرمایا وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے ، میری حدیثوں اور سنت کی روایت کریں گے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں گے۔ (صفحہ 31) دیکھئے کتنی وضاحت سے ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب الحدیث سے حدیثوں کی روایت کرنے والے اور تعلیم دینے والے مراد ہیں۔
از انجملہ ایک عنوان ہے۔ "آنحضرتﷺ کا اصحاب الحدیث کی عزت کرنے کی وصیت کرنا۔"
اس کے تحت میں یہ حدیث نبوی ذکر کی ہے کہ:
      "تمہارے پاس اطراف زمین سے کچھ جو ان حدیث کا علم حاصل کرنے آئیں گے، ان سے اچھا سلوک کرنا۔" (صفحہ 21)
معلوم ہوا کہ علم حدیث کے طالب علم اصحاب الحدیث ہیں، اسی مقام پر حضرت ابو سعید خذریؓ کا وہ قول بھی مذکور ہے جس کو مولوی صاحب نے (صفحہ 3) میں ذکر کیا ہے۔ لیکن مولوی صاحب نے پوری بات نہیں لکھی، پوری بات یہ ہے کہ حضرت ابو سعیدجب ان جوانوں کو جو علم حدیث حاصل کرنے آتے تھے، دیکھتے تو مرحبا کہتے، اور فرماتے کہ حضرتﷺ نے تہمارے لئے مجلس کشادہ کرنے اور تم کو حدیث سمجھانے کا ہم کو حکم دیا ہے۔ تم ہمارے جانشین اور ہمارے بعد اہل حدیث یعنی محدث ہو۔
از انجملہ ایک عنوان ہے " اصحاب الحدیث کے باب میں صالحوں کے خواب" اس کے تحت میں ایک خواب یہ کہ ایک شخص علم حدیث حاصل کر رہا تھا اسی اثناء میں مر گیا، ابو بکرہ بکراوی نے اس کو خواب میں دیکھا، پوچھا کیا گزری؟ کہا بخشش ہوگئی پوچھا کس بات پر؟ کہا علم حدیث طلب کرنے پر(صفحہ11) دیکھئے حدیث کے طالب علم اصحاب الحدیث ہیں۔ اسی طرح اور بھی خواب اس میں مذکور ہیں۔ یہ چند مثالیں بطور مشتے نمونہ از خروارے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مولوی محمد صاحب جونا گڑھی غیر مقلد خوداس کتاب کے ترجمہ میں کسی مقام پر اصحاب الحدیث کا ترجمہ "حدیث کے طالب علم" کرنتے ہیں، چنانچہ(صفحہ105) میں " رجل من اصحاب الحدیث" کاترجمہ ایک حدیث کے طالب علم نے کیا ہے۔ اور کسی مقام پر "حدیث جاننے والے" جیسا کہ (صفحہ 33)میں ہے اور کسی مقام پر "محدثین کرام" جیسا کہ (صفحہ 38) میں اہل الحدیث کا ترجمہ " محدثین کرام" کیا ہے، اسی طرح (صفحہ 24) میں صاحب الحدیث کا ترجمہ "محدثین" کیا ہے۔
ایک لطیفہ: اہل حدیث حضرات کی عادت ہے کہ جہاں اصحاب الحدیث کی کوئی بزرگی یا کوئی منقبت مذکور ہوتی ہے وہاں تو اصحاب الحدیث کا ترجمہ جماعت اہل حدیث، یا اہل حدیث کرتے ہیں اور جہاں کوئی برائی مذکور ہوتی ہے وہاں "حدیث کے طالب علم " ترجمہ کرتے ہیں یا کوئی ترجمہ نہیں کرتے گو ل مول " ایسے ہی لوگوں، یا ان لوگوں" کا لفظ لکھ کر آگے گزر جاتے ہیں۔ مثلاً مولوی محمد جونا گڑھی "ماقوم خیر من اصحاب الحدیث" کا ترجمہ تو یہ کرتے ہیں کہ اہل حدیث سے بہتر کوئی قوم نہیں (صفحہ 33) لیکن "ام تری اھل الحدیث کیف تغیر و اکیف افسدوا" کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ دیکھئے تو یہ طالب حدیث کیسے بگڑ گئے۔
اسی طرح شرف اصحاب الحدیث میں جہاں جہاں اصحاب الحدیث کے ایمان کی تعریف، یا ان کا وارث رسول اللہ ﷺ ہونا ان کا ابدال وغیرہ ہونا مذکور ہے وہاں تو اس کا ترجمہ اہل حدیث یا جماعت اہلحدیث ہے۔ (دیکھو صفحہ 18،32،34 وغیرہ) لیکن اما م اعمش کے قول "ما فی الدنیا قوم شر من اصحاب الحدیث" کا ترجمہ یہ ہے کہ دنیا میں اس قوم سے بری کوئی قوم نہیں ہے حالانکہ ان کے اصول سے ترجمہ یوں ہونا چاہئے تھا کہ: دنیا میں جماعت اہل حدیث سے بدتر کوئی قوم نہیں ہے" اسی طرح امام اعمش کے دوسرے قول " لو کانت لی اکلب کنت ارسلتھا علی اصحاب الحدیث" کا ترجمہ کرتے ہیں کہ اگر میرے پاس کتے ہوتے تو میں ان لوگوں پر چھوڑ دیتا (صفحہ 104) حالانکہ ان کو یو ں ترجمہ کرنا زیبا تھا کہ" اگر میرے پاس کتے ہوتے تو میں اہل حدیثوں پر چھوڑ دیتا۔"
اسی طرح: " نظر عبیداللہ بن عمر الی اصحاب الحدیث و زحامھم فقال شنتم العلم وذھبتم بنورہ لو ادرکنا وایاکم عمر بن الخطاب لا وجعلنا ضرباً"
کا ترجمہ کرتے ہیں کہ حضرت عبیداللہ بن عمر نے ایسے ہی لوگوں کی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر فرمایا تھا کہ تم نے علم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے الخ (صفحہ 94) حالانکہ ان کی  تحقیق کی رو سے صحیح ترجمہ یوں ہے کہ حضرت عبیداللہ بن عمر نے اہل حدیثوں کی بھیڑ بھاڑ دیکھ کر فرمایا تھا کہ تم نے علم کے ٹکڑے ٹکڑے [6]؎ کردیئے اور علم کی رونق گھٹا دی اگر ہمیں تمہیں حضرت عمر پالیتے ہیں تو سخت سزادیتے۔2؎
اسی طرح :
            "سمعت اللیث بن سعد یقول وقد اشرف علی اصحاب الحدیث فرای منھم شیئا فقال ما ھذا انتم الی یسیر من الادب احوج منکم الی کبیر من العلم"
کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ حضرت لیث بن سعد ایسے ہی لوگوں کو اور ان کی ایسی ہی حرکتوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں کہ تم تھوڑے سے ادب وعمل کے زہادہ محتاج ہو اور بڑے سارے علم کے کم محتاج ہو(صفحہ 94) حالانکہ اپنے اصول سے یوں ترجمہ کرنا چاہئے تھا کہ لیث بن سعد نے ان اہلحدیثوں اور ان کی حرکتوں کو دیکھ کر فرمایا کہ ادب و تمیز کے زیادہ محتاج ہو۔3
ابوبکر بن عیاش فرماتے تھے "اصحاب الحدیث ھم شر الخلق ھم المجان" مولوی صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ  اصحاب الحدیث بڑے برے لوگ ہیں وہ تو مجنون ہیں (صفحہ110) حالانکہ ان کو یوں لکھنا چاہئے تھا کہ اہل حدیث بد ترین خلائق ہیں۔
یو ہی " کان لہ کلب یوذی اصحاب الحدیث" کا ترجمہ کرتے ہیں کہ ان کا کتا ہمیں ایذاء دیا کرتا تھا(صفحہ 107) حالانکہ ان کو یوں کہنا چاہئے کہ امام اعمش کا کتا اہل حدیثوں کو ایذا ء دیتا تھا۔
مولوی محمد صاحب (صفحہ55) میں " واھلہ" کا ترجمہ"اہل حدیث" کرتے ہیں لیکن "یرید شعبۃ ان اھلہ یضیعون العمل بما یسمعون منہ" کا ترجمہ کرتے ہیں شعبہ کا مطلب ان لوگوں سے ہے جو حدیثیں سنتے ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتے (صفحہ 84) حالانکہ یہ بالکل غلط ترجمہ ہے ، یوں لکھنا چاہئے کہ شعبہ کی مراد یہ ہے کہ اہل حدیث جو حدیثیں سنتے ہیں ان پر عمل نہیں کرتے۔
صحابہ کو اہل حدیث ثابت کرنے کے سلسلہ میں مولوی ابو القاسم صاحب نے تاریخ بغداد کے حوالے سے ایک بات یہ بھی لکھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو اہل حدیث کیا گیا (صفحہ 5) لیکن مولوی صاحب نے تاریخ بغداد کی وہ عبارت نقل نہیں کی ورنہ معلوم ہوجاتا کہ حضرت ابن عباس کو کس معنی میں اہل حدیث کہا گیا، سنئے تاریخ بغداد کی عبارت یہ ہے:
            "اصحاب الحدیث ثلثۃ عبداللہ بن عباس فی زمانہ والشعبی فی زمانہ، والثوری فی زمانہ"
یعنی اصحاب حدیث تین شخص ہیں ابن عباسؓ اپنے زمانہ میں، اور شعبیؒ اپنے زمانہ میں اور ثوریؒ اپنے زمانہ میں۔ دیکھئے اس عبارت میں اگر اصحاب الحدیث سے اہلحدیث مراد لئے جائیں تو جس طرح اس سے ابن عباس کا اہل حدیث ہونا  ثابت ہوگا، اسی سے یہ بھی تو ثابت ہوگا کہ ابن عباس ؓ کے زمانہ سے لے کر ثوریؒ کے زمانے تک صرف تین ہی اہل حدیث ہوئے ہیں، لہذا اسی (صفحہ5) میں مولوی ابو القاسم صاحب کا یہ لکھنا غلط ہوگیا کہ "تمام صحابہ اہلحدیث تھے" اور "صحابہ و تابعین سب اہل حدیث تھے۔"
اسی سلسہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ امام "شعبیؒ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ اہل حدیث تھے۔" (صفحہ5) مولوی صاحب نے اس کے لئے تذکرۃ الحفاظ(جلد1 صفحہ 72) کا حوالہ دیا ہے ، حالانکہ تذکرۃ الحفاظ(جلد 1صفحہ72) تو درکنار دس بیس صفحے آگے پیچھے بھی یہ مضمون نہیں ہے۔
اسی سلسلہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے جتنے ملک فتح کئے وہاں کے تمام لوگ اسلام میں داخل ہونے کے بعد مذہب اہل حدیث رکھتے تھے (صفحہ5) ہم پوچھتے ہیں کہ اگر یہ بات صحیح بھی ہوتو اس سے صحابہ کرام کا اہلحدیث ہونا کس طرح ثابت ہوتاہے، اور آپ نے "صحابہ کرام" کے عنوان کے ماتحت اس کو کیوں لکھا؟ کیا صحابہ کے مفتوحہ علاقوں کے نو مسلم بھی" صحابہ کرام" تھے۔
ثانیاً اس دعوے کے ثبوت میں جس کتاب کا آپ نے حوالہ دیا ہےاس میں ہرگز یہ مضمون نہیں ہے۔ آپ نے اس کتاب کی عبارت تو (تحریف ہی کے ساتھ سہی) نقل کی لیکن ترجمہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی، ورنہ معلوم ہوجاتا کہ اس عبارت سے آپ کی کتربیونت کے بعد بھی صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ روم، جزیرہ، شام اور آذربیجان کی سرحدوں کے تمام لوگ اہل حدیث کے مذہب پر تھے ، لیکن کب تھے، اسلام لانے اور صحابہ کرام کے فتح کرنے کے بعد ہی سے یا کچھ زمانہ گزرنے پر، اس  کا کوئی ذکر نہیں۔[7]؎
ثالثاً کتاب اصول الدین میں یہ عبارت جس طرح آپ نے نقل کی ہے اس طرح نہیں ہے ، آپ نے اس میں تحریف کی ہے اصل عبارت یوں ہے:
            "بیان ھذا واضح، فی ثغور الروم والجزیرۃ و ثغور الشام و ثغور آذر بیجان و باب الابواب کلھم علی مذھب اھل الحدیث    من اھل السنۃ"
دیکھئے آپ نے اور تصرفات کے علاوہ "علی مذھب اھل الحدیث" کے پہلے ایک لفظ "کانوا" کا اضافہ کردیا اور "اھل الحدیث " کے بعد "من اھل السنۃ" کا لفظ کھا گئے۔
میں عام ناظرین کو بتانا چاہتا ہوں کہ مولوی ابوالقاسم صاحب نے اس عبارت میں یہ دونوں تحریفیں اس لئے کی ہیں کہ وہ ایسا نہ کرتے تو اس عبارت سے یہ ثابت ہوتا کہ مذکورہ بالا سرحدوں کے تمام لوگ مذہب اہلحدیث پر تھے نہیں بلکہ ہیں، اور یہ بیان پانچوں صدی کاہے۔ لہذا ان سرحدوں کے باشندوں کا پانچویں صدیں میں اہل حدیث ہونا ثابت ہوگا۔
2۔پھر اس عبارت سے یہ بھی  واضح ہوجاتا کہ ان کے اہل حدیث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اہل سنت تھے، یہ مطلب نہیں کہ وہ غیر مقلد تھے۔
اگر مولوی صاحب نے اس عنوان کو بھی غور سے پڑھا ہوتا جس عنوان کے ماتحت یہ عبارت اصول الدین میں ہے تو شاید وہ سمجھ سکتے کہ مصنف کا مقصود اہل ثغور کو غیر مقلد ثابن کرنا نہیں ہے بلکہ یہ مقصود ہے کہ وہ عقیدۃً سنی تھے، رافضی ، خارجی، معتزلی وغیرہ نہ تھے، وہ عنوان یہ ہے "فی تحقیق اھل السنۃ لا ھل الثغور" (یعنی اہل ثغور کو سنی ثابت کرنے کے بیان میں)۔
 تابعین و اتباع تابعین
کو اہلحدیث ثابت کرتے ہوئے ایک مولوی ابوالقاسم صاحب نے یہ لکھی ہے کہ: "سفیان بن عیینہ کو حکماً اہل حدیث میں شمار کیا گیا ہے" (صفحہ6) اور اس کے لئے تاریخ بغداد (جلد9 صفحہ 79) کا حوالہ دیا ہے لیکن افسوس ہے کہ (جلد 9 صفحہ 79) میں یہ مضمون نہیں ہے، ہاں اگر اصحاب الحدیث کے معنی جماعت اہل حدیث کے ہیں، تو اس صفحہ میں جماعت اہل حدیث کے چوری کرنے کا ایک واقعہ ضرور مذکور ہے، وہ واقعہ یہ ہے۔
    " سرق اصحاب الحدیث نعل ابی زید فکان ازا جاء اصحاب الشعراء العربیۃ والاخبار رمی بثیابہ ولم یتفقدھا واذا جاء اصحاب الحدیث جمعھا وجعلھا بین یدیہ" [8]؎
یعنی جماعت اہلحدیث نے ابو زید انصاری کا جوتا چرالیا اس لئے جب شعر و عربیت اور اخبار والے آتے تو ابو زید اپنے کپڑے ادھر ادھر پڑے رہنے دیتے اور ان کی خبر گیری نہ کرتے لیکن جب جماعت اہل حدیث آتی تو سب کپڑوں کو سمیٹ کر اپنے آگے رکھ لیتے۔
خیر، یہ تو ایک لطیفہ تھا، واقعہ یہ ہے کہ ابن عیینہ یا جس کسی کو بھی اہلحدیث کہا گیا ہے اس کے معنی یہی ہیں کہ حدیث کا علم رکھنے والے اور اس فن کے خدمت گزار تھے جیسا کہ میں اوپر تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
 ائمہ اربعہ
اس کے بعد مولوی ابوالقاسم صاحب نے ائمہ اربعہ کو اپنے جیسا اہل حدیث ثابت کرنے کی لاسعی کی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا نام امام اعظمؒ کا لیا ہے اور ان کی نسبت کتاب اصول الدین سے یہ عبارت نقل کی ہے ، "اصل ابی حنیفۃ فی الکلام کاصول اصحاب الحدیث" یہاں مولوی صاحب نے عبارت تو صحیح نقل کی ہے، لیکن ترجمہ میں وہ حرکت کی ہے کہ دیانت اپنا سر پیٹ کر رہ گئی، فرماتے ہیں کہ "امام ابو حنیفہؒ کے اصول ، عقائد و حرمت تقلید میں اہلحدیث کے اصول جیسے ہیں" (صفحہ 6) اہل علم ملاحظہ فرمائیں کہ الکلام کے ترجمہ میں حرمت تقلید کا اضافہ کیسی دیانت داری ہے! مولوی ابوالقاسم کو کون سمجھائے کہ کتاب اصول الدین عقائد کلامیہ کے بیان میں ہے اور اس کے مصنف نے آغاز کتاب ہی میں عقائد کلامیہ کے پندرہ اصول گن کر بتادیئے ہیں جن میں حرمت تقلید کا نام ونشان بھی نہیں ہے، لہذا ان کے لفظ الکلام کے ترجمہ میں حرمت تقلید کا اضافہ ان پر افترائ نہیں ہے تو کیا ہے؟ اصحاب الحدیث کے اصول عقائد مصنف کتاب نے آغاز میں اجمالاً اور پوری کتاب میں تفصیلاً بیان کردیئے ہیں، لہذا مولوی ابوالقاسم صاحب اگر سچے ہیں تو پوری کتاب پڑھ کر بتائیں کہ مصنف اصول الدین نے اصحاب الحدیث کے اصول میں حرمت تقلید کا ذکر کہاں پر کیا ہے اور کیوں کر سکتے ہیں جس تقلید کی حرمت میں بحث ہے وہ فروعی مسائل میں تقلید ہے اس کا ذکر اصول عقائد میں کس بنا پر کریں گے۔
اس کے بعد یہ بھی بتادوں  مصنف اصول الدین اصحاب الحدیث یا اہل الحدیث کے لفظ سے غیر مقلد ہرگز مراد نہیں لیتے، اس لئے کہ متعدد جگہ وہ اہل حدیث کی مثال میں امام شافعیؒ کے مقلدوں کا نام لیتے ہیں، مثلاً(صفحہ204) میں متکلمین اہل حدیث میں عبداللہ بن سعید اور کرابیسی کا ذکر کرتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں امام شافعی کے مقلد تھے۔[9]؎ ابن حجر نے لسان المیز ان میں ان دونوں کا فقہائے شافعیہ میں سے ہونا ذکر کیا ہے۔
مولوی ابوالقاسم صاحب نے اسی سلسلہ میں ابن عیینہ کا یہ قول بھی لکھا ہے کہ" پہلے پہل امام ابو حنیفہؒ ہی نے مجھ کو اہل حدیث بنایا۔" (صفحہ6)
میں کہتا ہوں کہ اگر مولوی صاحب کی نظر وسیع ہوتی تو اسی ایک بات سے ان کی سمجھ میں آسکتا تھا کہ کتابوں میں اہل حدیث کے لفظ سے کیا مراد ہوا کرتی ہے، مولوی صاحب اگر احسان مانیں تو میں ان کو بتاؤں کہ جو فقرہ انہوں نے لکھا ہے وہ "اول من صیرنی محدثا ابو حنیفۃ" کا ترجمہ ہے۔
سفیان بن عیینہ کا مقولہ تاریخ ابن خلکان (جلد1صفحہ211) میں انہیں الفاظ میں مذکور ہے۔ ترجمہ کرنے والے نے محدث کا ترجمہ اہل حدیث کردیا۔ پس جب اہل حدیث بنانے سے محدث بنانا مراد ہے تو مولوی ابوالقاسم صاحب نے بعد میں جو فقرہ اپنی طرف سے لکھا ہے وہ یوں ہونا چاہئے کہ امام اعظمؒ محدث تھے اور دوسروں کو(بلکہ سفیان بن عیینہ جیسو ں کو بھی) محدث بنایا کرتے تھے۔
اس کے بعد بقیہ ائمہ کی نسبت بھی اسی طرح کی عبارتیں نقل کی ہیں، لہذا ان سب پر الگ الگ بحث کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں! ایک بات ہم  مولوی ابوالقاسم صاحب سے یہاں ضرور پوچھیں گے کہ جب آپ کی تحقیق میں ائمہ اربعہ اہل حدیث تھے یعنی انہوں نے بھی آپ کی طرح حدیث کو اپنا پروگرام بنایاتھا اور اپنے ہر قول و فتویٰ کی بنیاد حدیث ہی پر رکھی تھی تو آپ کو ایک الگ جماعت قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا ائمہ اربعہ کے ماننے والوں نے ان کے پروگرام کو قبول کیا تو وہ اہل حدیث نہیں ہے؟ اگر ہوئے اور یقیناً ہوئے تو ان سے علیحدہ ایک جماعت قائم کرنے کا مقصد تفریق بین المسلمین کے سوا اور کیا ہے؟
دوسری بات یہ دریافت کرنی ہے کہ ان ائمہ کی نسبت اہل حدیث کا لفظ کہیں مل جاتا ہے تو اس کو بہت دھوم دھام سے نقل کرتے ہیں، لیکن فقہاء، اہل الفقہ، ائمۃ الفقہ کے جو الفاظ جگہ جگہ ان کی نسبت مذکور ہیں ان کو کیوں نہیں نقل کرتے ، مثلاً اصول الدین (صفحہ 312) کی جو عبارت آپ نے نقل کی ہے اس سے چند سطر پہلے مذکور ہے "ومن بعد ھم ائمۃ الامۃ فی الفقہ مثل الاوزاعی ومالک والثوری والشافعی وابی ثور واحمد بن حنبل الخ"۔
اسی ضمن میں ایک بات مولوی ابوالقاسم صاحب نے یہ لکھی ہے کہ امام احمد سے حدیث نبوی"لا تزال من امتی منصورین" (میری امت میں ایک گروہ مظفر و منصور رہے گا) کی نسبت پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں ، تو فرمایا اہل حدیث ہیں (صفحہ7) میں کہتا ہوں کہ یہاں آپ نے اصح الکتب بعد کتاب اللہ (یعنی صحیح بخاری) کو پس پشت ڈال دیا ورنہ معلوم ہو جاتا کہ امام احمد بن حنبل کی مراد "جماعت اہلحدیث" نہیں ہے بلکہ حدیث نبویﷺ کا علم رکھنے والے چاہے وہ حنفی ہوں یا شافعی یا مالکی وغیرہ، صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ اس گروہ سے اہل العلم مراد ہیں۔
            "لا تزال طائفۃ من امتی ظاھرین علی الحق، وھواھل العلم"[10]
 بڑے پیر
اس کے بعد مولوی ابوالقاسم صاحب نے بڑے پیر صاحب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ" اہل بدعت کی علامت اہل حدیث کو برا کہنا ہے" میں کہتا ہوں کہ با ایں ہمہ وہ مذہب حنبلی کے مقلد تھے جیسا کے غیر مقلدین کے امام نواب صدیق حسن خانصاحب کی کتاب مسک الختام میں ہے کہ:"مشہور و مقرر آن ست کہ ایشاں حنبلی مذہب اندو ذکر ایشاں درحابلہ واقع است" (صفحہ 14)۔
دوسرے یہ کہ اصحاب الحدیث کے لفظ سے ان کی مراد تمام اہلسنت ہیں۔ چنانچہ مولوی یوسف صاحب جے پوری اسی غنیۃ الطلالبین کی عبارت کرتے ہیں: "اھل السنۃ ولا سم لھم الا اسم واحد وھو اصحاب الحدیث۔"[11] ؎       اور خود ہی ترجمہ کرتے ہیں کہ"اہل سنت کا ایک ہی نام ہے اور وہ اہلحدیث ہے" دیکھئے! اس عبارت سے صاف صاف ظاہر ہوگیا کہ پیران پیر تمام اہل سنت کا نام اصحاب الحدیث بتاتے ہیں۔ مولوی ابوالقاسم صاحب نے بھی اس عبارت کو نقل کیا ہے مگر اس کی ابتداء میں "اھل السنۃ" کا جو لفظ ہے اس کو چھوڑ دیا ہے۔
 افغانستان
مولوی ابوالقاسم صاحب نے ابو الطیب سہیل[12]؎  بن محمد سلیمان صعلو کو نسبت فرشتہ کے اردو ترجمہ سے یہ دکھا کر کہ وہ اہل حدیث سے تھے، بڑی خوشی منائی ہے کہ لیجئے غزنی کے دربار میں بھی اہل حدیث عالم موجود تھے، (صفحہ8) لیکن اگر ان کی نظر اردو ترجموں سے کچھ آگے پہنچی ہوتی ، تو سمعانی کی انساب اور سبکی کی طبقات(جلد3 صفحہ169) سے بآسانی معلوم ہوسکتا تھا کہ ابوالطیب        مذکور  شافعی کے مقلد تھے، لہذا ان کو اہل حدیث لکھنا اس اصطلاح پر مبنی ہے، جس کے رو سے مالکی و شافعی لوگ اہلحدیث کہلاتے ہیں [13]؎بلکہ تمام بلاد خراسان کی یہ اصطلاح ہے کہ اہل حدیث بول کر سوائے شافعیہ کے دوسرے کسی کو مراد نہیں لیتے، جیسا کہ ابن الصلاح اور سبکی نے تصریح کی ہے:
            "ذلک اصطلاح اھل خراسان اذا اطلقوا اصحاب الحدیث یعنون الشافعیۃ"[14]؎
            "اذا اطلق اھل الحدیث لا یرادغیر الشافیعۃ"[15]؎
            اس کے بعد مولوی ابوالقاسم صاحب ایک مجتہدانہ شان سے رقم طراز ہیں کہ : "سلطان محمود غزنوی کا اہل حدیث عالم        سے سفارت کا کام لینا شاید اس وقت شروع ہوا جب کہ وہ مشہور اہل حدیث فاضل قفال مروزی کی صحبت کے اثر سے    مذہب حنفی کو خیر باد کہہ چکا تھا۔" (صفحہ8)
اس دو سطر کی عبارت میں مولوی صاحب نے اپنے اجتہاد کی خوب نمائش کی ہے۔
1۔ قفال مروزی کو اہل حدیث لکھنا حالانکہ وہ کٹر شافعی مقلد تھے۔[16]؎
2۔ قفال مروزی کے مکذوب و جعلی قصہ کا اعادہ کیا حالانکہ وہ قصہ عقلاً ونقلاً باطل ہے، تفصیل کے لئے ملا علی قاری اور ملا عبدالنبی گنگوہی کے رسالے دیکھئے نیز "مخائل الافتعال علی صلٰوۃ القفال" نامی میرا رسالہ پڑھئے۔
3۔ سلطان محمود غزنوی کی حنفی مذہب سے بیزاری کا راگ الاپا، حالانکہ مسعود بن شیبہ اور عبدالقادر قرشی نے سلطان کو فقہائے حنفیہ میں شمار کیا ہے اور مدتوں تک فقہ حنفی میں سلطان کی ایک تصنیف تفرید نامی بلاد غزنہ میں مشہور و متداول رہ چکی ہے۔
نیز سلطان کی آخر حیات تک اس کی سلطنت کے قاضی القضاۃ ابو محمد ناصحی حنفی تھے، جیسا کے جواہر مضیہ ٔ میں ہے۔
4۔ اگر اہل حدیث سے سفارت کا کام لینا حنیفی مذہب سے بیزاری کا اثر ہے، تو سفارت کے واقعہ کے بائیس برس بعد 412ھ میں قاضی القضاۃ ابو محمد ناصحی کو امیر حاج مقرر کرنا اور انہیں حنفی بزرگ کے ذریعہ حج کو از سر نو جاری کرانا (قرامطہ کے ظلم کی وجہ سے عرصہ دراز سے حج بند تھا) کیا مذہب حنفی سے گرویدگی اور اس کی برتری کا اعلان نہیں ہے؟حیرت ہے کہ یہ واقعہ بھی اسی تاریخ فرشتہ (جلد1صفحہ 46) میں مذکور ہے، مگر مولوی صاحب کو نظر نہیں آیا۔
 ہندوستان
اوپر کے بیان سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ منصورہ(سندھ) کے اکثر مسلمانوں کا بشاری کے زمانہ میں اہلحدیث[17]؎ ہونا مولوی ابوالقاسم صاحب کے لئے کوئی خوشی کی چیز نہیں ہے، جب تک کہ ان کا غیر مقلد ہونا ثابت نہ ہو، اس لئے کہ ابن خلدون کے حوالہ سے بتایا جا چکا ہے کہ شافعیوں کو بھی اہلحدیث کہا کرتے تھے۔
 تقسیم مذاہب
دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف مذہبوں کے قدرتی طور پر پھیلنے کو مولوی ابوالقاسم صاحب نے "ملکی بٹوارہ" قرار دیا ہے۔ اسکے جواب میں ہم کو اس کے سوا کچھ نہیں کہنا کہ "موتو ابغیظکم"
ہاں! اس مسئلہ میں ایک بات کی طرف ان کو متوجہ کرنا ضروری ہے کہ قفال کبیر شاشی، عبدان مروزی[18]؎ اور ابو عوانہ اسفرائینی تو کبار اصحاب الحدیث میں سے ہیں، پھر ان لوگوں نے تقلیدی مذہب (شافعیت) کے قدم جمانے میں کس طرح کوشش کی۔
 اشاعت بزور حکومت
مولوی صاحب نے اپنے بعض پیشرووں کی تقلید میں اس بات پر بھی بہت زور دیاہے کہ مذاہب بزور شمشیر رائج کئے گئے ہیں، لیکن مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ؛
            ؏          پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
            تقلیدی مذاہب کی خدادادمقبولیت کو دیکھ کر جلنے والے سن رکھیں        ؎
بمیر  تا بر  ہی  ا ے  حسود  کیں  رنجیست
کہ از  مشقت  او جز  بمرگ نتواں رست
حسد کے جذبہ سے مغلوب ہو کر یہ بک دیناتو آسان ہے کہ تقلیدی مذاہب بزور شمشیر پھیلے، لیکن اس کی دلیل پیش کرنا ، مولوی ابوالقاسم صاحب کے بڑوں کے امکان میں بھی نہیں ہے۔ مقریزی اور ابن خلکان کی عبارتوں کے ترجمہ میں مولوی صاحب نے زبردست خیانت کی ہے۔ ان عبارتوں میں حکومت کے ڈنڈے کے زور کا کوئی ذکر نہیں ہے، بلکہ حکومت کی زبانی زور کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ مولوی صاحب اگر سچے ہوں تو وہ کسی تاریخی کتاب کی عبارت میں یہ دکھا دیں کہ فلاں حکومت نے کسی ایک  شخص کو تلوار یا ڈنڈے سے دھمکا کر یا زبانی ہی تہدید سے حنفی یا مالکی مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا۔
ہاں! مذہب اہل حدیث کی اشاعت بے شک تلوار کے زور سے ہوئی، اور اس کا اقرار خود مولوی ابوالقاسم صاحب کے اسی خطبۂ صدارت میں ہے لکھتے ہیں کہ: "یوسف[19] بن عبدالمئومن پھر اس کے بعد اس کے بیٹے یعقوب ۔۔۔ نے مذہب اہل حدیث کی پوری حمایت کی۔۔۔۔(یعقوب)۔۔۔۔خلیفہ کا حکم تھا کہ فقہ چھوڑ دو،۔۔۔۔اور کسی امام کی تقلید نہ کرو۔"(صفحہ11)
دیکھئے! مولوی ابوالقاسم صاحب کو اقرار ہے کہ افریقہ کے ان بادشاہوں نے اپنے شاہی حکم سے تقلید بند کرادی، بلکہ اسی(صفحہ11) میں انہوں نے یہ بھی ذکر کیا  ہے کہ یوسف بادشاہ تلوار سامنے رکھ کر قرآن پاک اور سنن ابوداؤد کے سوا ہر چیز کو غلط کہتا تھا یعنی تلوار سے دھمکا کر لوگوں سے اسے منواتا تھا، نیز انہوں نے اسی صفحہ میں انعام دینے کا بھی ذکر کیاہے، یعنی روپیہ کا لالچ دے کر بھی اہلحدیث کی اشاعت ہوئی۔
پھر مولوی صاحب نے انعام دینے کا ذکر کر کے لکھاہے کہ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے علماء کٹر اہلحدیث ہوگئے اور مثال میں امام ابن حزم کا نام لیا ہے۔ ہم اس بیان میں مولوی صاحب کی تصدیق کرتے ہیں اور ہماری طرح ہر وہ آدمی اس کی تصدیق کے لئے مجبورہے جو ہندوستان میں بھی سیکڑوں بندگان زرکو نواب صدیق حسن خانصاحب کی داد ودہش کے اثر سے مذہب بدلتے دیکھ چکا ہے اور اس کے بعد انہیں واقعات کا اعادہ ہوتے ہوئے مئو اور بنارس میں بھی مشاہدہ کرچکا ہے۔
 مذہبی عصبیت
کے ماتحت مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ۔
            "اگر ایک مذہب کا مقلد اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب میں داخل ہوجاتا تو وہ سزا کا مستحق ہوتاتھا۔"
اور "ابتلا ءاہلحدیث" کے ماتحت لکھتے ہیں کہ ایک شخص حنفی مذہب چھوڑ کر رفع الیدین اور قرأۃ فاتحہ خلف الامام کرنے لگا………… تو اس کو برسر بازار کوڑے لگائے گئے حیرت ہے کہ مولوی صاحب تو ہمارا عمل و مسلک یہ بتاتے ہیں، اور ان کے مذہب کے پیشوا مولوی محمد جونا گڑھی عقیدۂ محمدی میں، شرح درمختار معروف بہ شامی کے حوالہ سے ہمارا مسلک یہ نقل کرتے ہیں کہ:
            "اگر ایک شخص نے آج ایک مذہب (مثلاً حنفی مذہب) کے مطابق (بغیر آمین بالجہر اور رفع الیدین ، اور فاتحہ خلف الامام) نماز پڑھی اور دوسرے دن وہ دوسرے مذہب (مثلاً شافعی مذہب) کے مطابق (یعنی آمین، رفع الیدین، سورہ فاتحہ وغیرہ سے) نماز پڑھتا ہے تواس کے لئے منع نہیں (جائز ہے)۔" (صفحہ 10)
اب وہ ہی بتائیں کہ ہم ان کو سچا مانیں یا مولوی محمد صاحب کو؟
اصل حقیقت یہ ہے کہ مولوی ابوالقاسم صاحب نے یہاں سخت تلبیس ومغالطہ دہی سے کام لیا ہے۔ درمختار کی عبارت "ارتحل الی مذھب الشافعی" (کوہ اس در مختار سے نقل کرتے ہیں جو شامی کے حاشیہ پر ہے اور اس عبارت پر شامی جو لکھتے ہیں اس سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، ناظرین کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ شامی نے اس جگہ تصریح کردی ہے کہ حنفیت چھوڑ کر شافعی ہوجانے والے کو اس وقت سزا دی جائے گی جب کہ اس نے ناجائز یا شرعاً ناپسندیدہ غرض کے لئے تبدیل مذہب کیا ہو، مثلاً شہوت رانی یا اور کسی دنیاوی غرض کے لئے، لیکن اگر ایسا نہ ہو بلکہ اس کو ملکۂ اجتہاد [20]حاصل ہوگیا، اور اجتہاد سے اس کو واضح ہوگیا کہ فلاں بات حق ہے، اس لئے اس کو اس نے اختیار کرلیا تو وہ ہرگز سزا کا مستحق نہیں۔
حاصل یہ ہے کہ ہمارے فقہاء نے تبدیل مذہب کرنے والے کو مذہبی عصبیت کی بناء پر مستحق سزا نہیں قرار دیا ہے، بلکہ اس لئے کہ اس نے تبدیل مذہب کو شہوت رانی یا تحصیل غرض فاسد کا ذریعہ قرار دیا، اور اس طرح مذہب کو مذاق بنایا، چنانچہ اس کی بھی اسی جگہ شامی میں تصرح موجود ہے۔ نیز یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شافعی بھی ایسی ہی کسی غرض فاسد کے لئے حنفی ہوجائے، تو اس کا بھی وہی حکم ہے، جیسا کہ شامی میں اسی جگہ اس کی بھی تصریح موجود ہے، مگر مولوی ابوالقاسم صاحب ان سب تصریحات سے آنکھیں بند کر کے صرف ایک فقرہ نقل کرتےہیں۔ معلوم نہیں اس قسم کے فریب کارانہ حرکات کے جواز کے لئے کون سی آیت یا حدیث رکھتے ہیں۔
 ابتلاء اہلحدیث
کے ماتحت مولوی ابوالقاسم صاحب لکھتے ہیں کہ۔
            " امام بخاری جامع حدیث نبویﷺ کو ابو حفص حنفی نے پہلے تو بخارا میں فتویٰ دینے سے روکا پھر شہر بدر کرایا۔"(صفحہ12)
اس قصہ میں ابو حفص کی طرف شہر بدر کرانے کی نسبت صریح افتراء پردازی ہے؛ اور اس کے لئے جواہر مضیئہ کا نام لینا دوسرا افتراء ہے، شاید مولوی ابوالقاسم صاحب کو یہاں "علی الکاذبین" والی آیت یاد نہیں رہی، جواہر مضیئہ میں ابو حفص کی نسبت صرف اتنا لکھا ہے کہ انہوں نے امام بخاری سے یہ کہہ کر فتوے دینے سے منع کیا کہ آپ اس کے اہل نہیں ہیں۔ (ابو حفص کا امام بخاری سے یہ کہنا محض نصیحتہ ً تھا، اور ان کو اس کا حق تھا اس لئے کہ امام بخاری ان کے لڑکے کے برابر اور پڑھنے میں ان کے ہم سبق اور ساتھی تھے) اس کے آگے جواہر مضیئہ میں یہ لکھا ہے کہ امام بخاری مانے نہیں، فتویٰ دیتے رہے، تاآنکہ کسی نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا جس کے جواب میں امام بخاری سے غلطی ہوگئی، غلطی نہایت واضح تھی، اس لئے اہل شہر نے ان کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔مولوی ابوالقاسم صاحب کی دیانت دیکھئے کہ انہوں نے اہل شہر کا الزام ابو حفص کے سر تھوپ دیا۔
مولوی ابوالقاسم صاحب نے اپنے اس افتراء کو (صفحہ15) میں بھی دہرایا ہے بلکہ وہاں اس کے ساتھ ایک اور افتراء بھی شامل کردیا ہے ، وہ یہ کہ امام بخاری نے فتویٰ غلط نہیں دیاتھا، ابو حفص کبیر نے ان پر افتراء کیا تھا، حالانکہ یہ سراسر بہتان ہے، مولوی صاحب نے فوائد بہیہ کا حوالہ دیا ہے، اس میں ہر گر یہ مضمون نہیں ہے، بلکہ اس میں بعینہٖ وہی بات ہے، جو جواہر مضیئہ میں ہے، ہم جواہر اور فوائد دونوں کی  عبارتیں ناظرین کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور لفظی ترجمہ بھی پیش کردیتے ہیں۔
            "قدم محمد بن اسماعیل البخاری فی زمن ابی حفص الکبیر وجعل یفتی فنھاہ ابو حفص وقال لست باھل لہ فلم ینتہ حتی سئل عن صبیین شربا من لبن شاۃ اور بقرۃ فافتی بثبوت الحرمۃ فاجتمع الناس علیہ واخر   جوہ من بخاری"[21]؎
            ترجمہ: "محمد بن  اسماعیل بخاری، ابو حفص کبیر کے زمانہ میں بخاری آئے اور فتویٰ دینے لگے، ابو حفص نے ان کو منع کیا اور    کہا کہ آپ اس کے اہل نہیں ہیں، پس وہ باز نہ آئے یہاں تک کہ ان سے دوبچوں کی نسبت جنہوں نے ایک بکری یا گائے        کا دودھ پی لیا مسئلہ پوچھا گیا انہوں نے حرمت کے ثبوت کا فتویٰ دے دیا پس لوگ ان پر اکٹھا ہو گئے اور لوگوں نے ان کو           بخاریٰ سے نکال دیا۔"
میں سمجھتا ہوں کہ مولوی ابوالقاسم صاحب کی نام لی ہوئی دونوں کتابوں کی اصل عبارت سامنے آجانے کے بعد اس میں تو اب کوئی اشتباہ نہیں رہ جاتا کہ مولوی صاحب نے سخت افتراء پردازی کی، لیکن ابھی ایک بات رہی جاتی ہے وہ یہ کہ مولوی صاحب نے یہ کیوں کیا تو یہ داستان بڑی درد ناک ہے، اور درحقیقت مولوی صاحب نے اسی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ سب جتن کئے ہیں۔
وہ داستان یہ ہے کہ محمد بن یحییٰ ذہلی مولوی ابوالقاسم صاحب کی اصطلاح میں نیشا پور کے ایک زبردست مشہور اہلحدیث تھے۔ ان سے اور امام بخاری سے ایک مسئلہ میں اختلاف ہو گیا، نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے امام بخاری کی سخت مخالفت کی اور یہاں تک کہہ اٹھے کہ وہ بدعتی ہیں، جو ان کے پاس جائے وہ ہمارے پاس نہ آئے، اور یہ کہ وہ میری موجودگی میں یہاں (نیشا پورمیں) نہیں رہ سکتے، امام بخاری خوف زدہ ہوکے وہاں سے بخارا چلے آئے[22] ؎لیکن  محمد بن یحییٰ ذہلی نے امام بخاری کو یہاں بھی چین نہ لینے دیا۔ اس کی تفصیل حافظ شمس الدین ذہبی جیسے مورخ اور حافظ حدیث نے اپنی کتاب سیراعلام النبلاء میں یہ لکھی ہے کہ ذہلی نے امام بخاری کی شکایتیں حاکم بخارا اور وہاں کے علماء کے پاس لکھ بھیجیں، حاکم نے سخت برہم ہوکر امام بخاری کے حق میں بہت برا اردہ کیا لیکن امام ابو حفص کبیر حنفی کے بیٹے محمد بن حفص کو اس کی اطلاع ہوگئی اور انہوں نے خفیہ امام بخاری کو بخارا کی کسی رباط میں پہنچادیا۔[23]؎
ناظرین نے اب خوب سمجھ لیا ہوگا کہ مولوی ابوالقاسم صاحب نے مذکورہ بالا افتراء پردازیاں کیوں کی تھیں۔ امام بخاری کو درحقیقت ایک اہلحدیث بزرگ نے بخارا سے نکلوایا اور نیشا پور میں اصحاب الحدیث (اہلحدیث) ہی میں سے ایک شخص نے مسئلہ پوچھ کر امام بخاری کے خلاف فتنہ برپا کرایا (مقدمہ صفحہ579) اور جن امام ابو حفص کو مولوی ابوالقاسم صاحب بدنام کر رہے ہیں، انہیں کے بیٹے محمد نے بخارا میں امام بخاری کی جان بچائی اور اپنی جان پر کھیل کر ان کو بخارا کی کسی رباط میں پہنچادیا۔
 اختلاف بیان
مولوی ابوالقاسم صاحب نے (صفحہ 9) میں لکھا ہے کہ "چوتھی صدی ہجری میں تقلید نے دنیا میں نیا جنم لیا تھا۔" لیکن (صفحہ 12) میں امام شافعی پر حملہ کرنے والے کو مالکی مذہب کا مقلد اور امام بخاری کو شہر بدر کرانے والے حنفی لکھ کر (صفحہ 13) میں لکھتے ہیں کہ " یہ مختصر نمونہ تھا ارباب تقلید کے سلوک کا اصحاب حدیث سے" معلوم ہوا کہ تقلید کا وجود دوسری صدی میں تھا اس لئے امام شافعی کی وفات دوسری صدی میں یعنی 204ھ میں ہوئی ہے۔ ہم کچھ نہ کہیں گے، مولوی صاحب خود بتائیں کہ اس  اختلاف بیان کی بناء پر ان پر کونسی مثل صادق آتی ہے۔
 ابن تیمیہ
ابتلائے اہلحدیث کے تحت میں ابن تیمیہ کو امام اہلحدیث لکھا ہے، حالانکہ نواب صدیق حسن خانصاحب نے ان کو امام احمد کے اتباع (مقلدین) میں شمار کیا ہے۔[24]؎اسی طرح امام مزی کو مقتدائے اہل حدیث لکھا۔ حالانکہ وہ شافعی المذہب تھے، امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں (جلد 2 صفحہ 280) میں اس کی تصریح کی ہے۔ یونہی حافظ عبدالغنی مقدسی کو "کھلا اہلحدیث" بتایا، حالانکہ ان کے حنبلی ہونے کی تصریح امام ذہبی نے تذکرہ(جلد4صفحہ160) میں کی ہے، اسی طرح سلطان اولیاء حضرت شیخ نظام الدین دہلوی کو اصحاب حدیث (اپنے اصطلاحی معنی میں) شمار کیا، حالانکہ مولوی ابوالقاسم صاحب نے تاریخ فرشتہ کے جس مقام کا حوالہ دیا ہے ، اسی جگہ مذکور ہے کہ حضرت شیخ کے مخالف شیخ سے کہا کہ تم "مردمقلد" ہو اور شیخ نے اس کی تردید نہیں کی، نیز تاریخ میں (جلد2صفحہ597) میں ہے کہ" ابوحنیفہ کی فقہ اور تفسیر اور حدیث اور اصول و کلام میں استحضار اور مہارت تام رکھتے تھے۔"
نیز اسی قبیل سے اس سلسلہ میں مولانا اسماعیل[25] شہیدؒ کا نام لینا بھی ہے۔ اس لئے مولانا بھی ترک تقلید کے حامی نہیں تھے، بلکہ تقلید مذاہب اربعہ کو بہتر سمجھتے  تھے  صراط مستقیم میں خود فرماتے ہیں " اما اتباع مذاہب اربعہ کہ رائج در تمام اہل اسلام است بہتر و خوب است" (بہرحال چاروں مذہبوں کی پیروی جو تمام اسلام میں رائج ہے بہت عمدہ اور اچھی بات ہے)۔
 مذہبی جنگ
اس کے بعد مولوی صاحب نے مذہبی جنگ کے عنوان سے مذاہب اربعہ کے ماننے والوں کے باہمی جھگڑوں کا ذکر کیا ہے ، مولوی صاحب کو اس تذکرہ سے پہلے ذرا اپنے گھر کی طرف بھی ایک نگاہ ڈال کر غور کرنا چاہئے تھا کہ جس جماعت کو پیدا ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے خود اس میں کتنے جھگڑے ہیں۔
بہت سے ناظرین کو معلوم نہ ہوگا کہ اہل حدیث ایک پارٹی مولوی عبدالوہاب صدر دہلوی کو اپنا امام مانتی ہے، دوسری مولوی ثناء اللہ صاحب کو اپنا سردار تسلیم کرتی ہے اس پارٹی میں مولوی ابوالقاسم صاحب بھی ہی ، پہلی پارٹی دوسری پارٹی کی نسبت علانیہ کہتی ہے کہ وہ جاہلیت کی موت مرے گی۔ چنانچہ مولوی ابوالقاسم صاحب اس پارٹی پر تعریض کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
            " دعوائے امامت کرکے نواب بے ملک بن گئے، اور فتویٰ دے دیا کہ جو میری بیعت نہ کرے گا اور میرے پاس زکوٰۃ کی     ساری رقم نہ بھیج دے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔"[26]؎
اور دوسری پارٹی پہلی کو ملعون قرار دیتی ہے۔ چنانچہ خود مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ جو مدعی امامت امور شرعی کو نافذ نہ کرسکتا ہو نہ قائم رکھ سکتا ہو ملعون ہے۔[27]؎
 بہتانات
اس عنوان کے ماتحت خطبۂ صدارت میں مصنفین کی بھول چوک کو بھی ذکر کرکے بہتان و اتہام سے تعبیر کیا گیا ہے، مثلاً صاحب ہدایہ نے بھول سے لکھ دیا ہے کہ امام مالک کے نزدیک متعہ جائز ہے، تو مولوی ابوالقاسم صاحب کے خیال میں صاحب ہدایہ نے امام مالک پر جھوٹا الزام لگایا ہے۔ العیاذ باللہ۔ اگر بھول چوک بھی ان کے نزدیک قابل معافی نہیں ہے تو ابن ابی شیبہ نے کتاب الردعلی ابی حنیفۃ میں جہاں جہاں امام ابو حنیفہ کا مذہب غلط نقل کیا ہے وہاں  پر اس کتاب کے ترجمہ میں مولوی ابوالقاسم صاحب نے کیوں نہیں لکھا کہ یہاں ابن ابی شیبہ نے امام پر جھوٹا الزام لگایا ہے، مثلاً ابن ابی شبیہ نے لکھ دیا کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک عشاء کا وقت بس آدھی رات تک رہتا ہےَ[28]؎ حالانکہ یہ بقول آپ کے "صرح اتہام" ہے، امام صاحب کے نزدیک صبح صادق تک عشاء کا وقت ہے۔ [29]؎ اسی طرح ابن ابی شیبہ نے لکھ دیا کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک صدقہ کھانا موالی بنی ہاشم کو درست ہے۔ [30]؎ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔[31]؎ اس کی اور بہت سی مثالیں ہیں جو بخوف تطویل نظر انداز کی جاتی ہیں۔
مولوی صاحب نے بعض صحیح باتوں کو بھی بہتان میں داخل کر دیاہے، مثلاً صاحب ہدایہ کا یہ لکھنا کہ امام شافعی کے یہاں شطرنج کھیلنا مباح ہے، مگر مولوی صاحب اپنی نادانی کی وجہ سے اس کو بہتان کہتے ہیں، ان کو شافعیوں کے مذہب کی خبر نہیں ہے۔ علامہ ابن حجر مکی شافعی زواجر میں لکھتے ہیں:
            "فمتی کان المعتمد علی الفکر والحساب فلا وجہ الا الحل کالشطرنج" [32]؎
اس سلسلہ میں سنن نسائی کی ایک حاشیہ پر بھی بڑی برہمی کا اظہار کیا ہے حالانکہ برہمی کی کوئی وجہ نہیں ہے، اس لئے کہ حاشیہ میں تو خود آپ کے ترجمہ کے  نموجب ان وہابیوں کو خارجی کہا گیا ہے جو ہمارے مردوں کا قتل اور عورتوں کی قید کرنا مباح جانتے ہیں، لہذا اگر آپ ایسے نہیں ہیں تو آپ کو برا کیوں لگتا ہے ، اور اگر آج کوئی غیر مقلد ایسا نہیں ہے، تو کیا معلوم کہ جس زمانہ میں وہ حاشیہ لکھا گیا تھا اس وقت بھی کوئی وہابی اس خیال کا نہ تھا جب تک اس کو ثابت نہ کیجئے اس حاشیہ کو بہتان نہیں کہہ سکتے، کیا محمد بن عبدالوہاب نجدی کا مسلمانوں سے لڑنا اور کشت و خون کا بازار گرم کرنا آپ کو معلوم نہیں ہے، لہذا اس زمانہ میں ہندوستان میں بھی کوئی وہابی اس طرح کا ہو تو کیا بعید ہے۔
 مسلک اہل حدیث
ان سب قصوں کو مولوی صاحب نے مسلک اہلحدیث کا بیان شروع کرتے ہوئے " علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین" کے معنی بتائے ہیں کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی روش اختیار کرنا(صفحہ 16) اور آگے وہ روش یہ بتائی ہے کہ خلفائے راشدین اختلاف کے وقت حدیث پر عمل کرتے تھے، مقصد مولوی صاحب کا یہ ہے کہ سنت صرف رسولﷺ کی ہے اور وہی تنہا قابل پیروی ہے، خلفاء کی سنت سنت نہیں نہ خلفاء کی سنت کی پیروی کا اس حدیث میں حکم ہے، اس میں تو بس عمل بالحدیث کا حکم ہے جو خلفاء کی روش ہے۔
ہم کو اس جگہ مولوی صاحب سے گزارش کرنا ہے کہ آپ اس حدیث کے یہ معنی بیان کر کے دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ رسول خداﷺ کے ہزارہا صحابہ کرام میں سے صرف چار حضرات ؓ عمل بالحدیث کرتے تھے، باقی کوئی دوسرا صحابی عامل بالحدیث نہیں تھا، اور یہ بھی باور کرارہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ باقی صحابہ کو (العیاذ باللہ) ایسا ہی سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صرف چار حضرات (خلفائے راشدین) کی روش اختیار کرنے کو کہتے ہیں، دوسرےکسی صحابی کی نہیں، عیاذ باللہ۔ مولوی صاحب  کو صحابہ کرام کی نسبت ایسی بدگمانی پھیلانے سے توبہ کرنی چاہئے، ورنہ بتانا چاہئے کہ چار ہی حضرات کی تخصیص کیوں کی گئی۔
اس کے بعد ہم کو ان سے یہ گزارش کرنا ہے کہ اگر بالفرض "سنۃ الخلفاء" سے ان کی روش ہی مراد ہو تو اس روش کی تخصیص عمل بالحدیث کے ساتھ آپ نے کس دلیل سے فرمائی ہے، اگر کہئے کہ خلفاء کی سیروسوانح حیات سے ان کی یہی روش ثابت ہوتی ہے، تو گزارش ہے کہ سروسوانح سے خلفاء کی روش صرف وہی نہیں ثابت ہوتی، بلکہ کچھ اور بھی مثلاً حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کلالہ کی نسبت محض اپنی رائے سے فرمایا کہ "اراہ ما خلا الوالد، والولد" اور مثلاً حضرت عمر فاروقؓ نے شریح کو ہدایت کی کہ جس مسئلہ میں آیت یا حدیث نہ ملے تو نیکو کاروں نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر تم بھی فیصلہ دو، جب یہ بھی نہ ملے تو خود اجتہاد کرو، نیز یہ بھی ہدایت فرمائی کہ ایک معاملہ کو دوسرے پر قیاس کرو[33]؎  اور مثلاً حضرت عمر فاروقؓ اس بات کو رد کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمائی ہو، چنانچہ کلالہ کے باب میں انہوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی پیروی کی۔[34]؎ نیز ان کی روش تھی کہ کتاب و سنت میں مسئلہ نہ ملتا اور حضرت ابوبکرؓ کا اس بابت کوئی فیصلہ مل جاتا تو اسی پر کاربند ہوجاتے۔[35]؎ اور مثلاً حضرت عثمان غنیؓ نے محض اپنی رائے سے مرض الموت کی مطلقہ کو وارث قرار دیا۔[36]؎ اور مثلاً حضرت علی المرتضیٰؓ نے محض اپنی رائے سے ام ولد کی بیع ممنوع قرار دی۔[37]؎
ان مثالوں سے ثابت ہوا کہ خلفائے راشدین کی یہ روش بھی تھی کہ جن مسائل میں کوئی آیت یا حدیث نہیں ہوتی تھی ان میں اپنی رائے سے فتویٰ اور فیصلے دیتے تھے، نیز ان کی روش یہ بھی تھی کہ وہ ایک معاملہ کو دوسرے پر قیاس فرماتے تھے۔[38]؎
پھر خلفائے راشدین کی یہ روش بھی تھی کہ ایک خلیفہ آنحضرتﷺ کے طرز رمل کے ساتھ ساتھ اپنے پیشرو خلیفہ کے طرز عمل کع بھی باوجود یکہ وہ آنحضرتﷺ کے طرز عمل سے مختلف ہوتا تھا قابل عمل پیروی قرار دیتاتھا جیسا کہ حضرت عمرؓ کے قول:
            "ان استخلف فقد استخلف من ھو خیر منی یعنی ابا بکر وان اترککم فقد ترککم من ھو خیر منی رسوللہ صلی اللہ علیہ وسلم"
            ترجمہ: یعنی اگر میں کسی کو خلیفہ بنا جاؤں تو یہ بھی مجھ سے بہتر شخص یعنی ابوبکر نے کیا ہے اور نہ بنا جاؤں تو یہ بھی مجھ سے        بہتر ہستی نے یعنی رسول اللہﷺ نے کیا ہے۔"
سے ظاہر ہے، علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اس کا حاصل یہ ہے کہ خلفیہ بنانا (طرز عمل صدیقی) اور نہ بنانا (طرز عمل نبوی) دونوں جائز ہیں۔[39]؎
جماعت اہل حدیث کی روش بقول مولوی ابوالقاسم صاحب یہ ہے کہ:
            " ہم حدیث نبوی کے مقابلہ میں کسی بڑی سے بڑی ہستی کے قول ورائے کو پر پشہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتے۔"[40]؎
مگر حضرت عمرؓ خلیفہ راشد طرز عمل نبوی کو اختیار کرنے کے باوجود طرز عمل صدیقی کو اتنی وقعت دیتے تھے کہ اس کو قابل پیروی سمجھتے تھے۔ لہذا آپ حضرت عمرؓ کی یہ روش چھوڑ کر حدیث"علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین" کے بھی تارک ہوگئے۔
نیز خود آپ کے اقرار کے بموجب خلفائے راشدین کی روش بھی تھی کہ وہ سابق خلیفہ کے طرز عمل کو بھی سنت قرار دیتے تھے ، چنانچہ آپ نے خود لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت عمرؓ کی مقرر کی ہوئی حد خمر(اسی کوڑے) کو بھی باوجودیکہ وہ عہد نبوی کی حد سے مختلف ہے، سنت کہا۔ حضرت عثمانؓ خلیفہ راشد نے بھی اس پر سکوت فرما کر اپنی رضا کا اظہار کیا[41]؎ مگر آپ لوگ سنت تو درکنار اس کو پرپشہ کے برابر بھی نہیں مانتے (العیاذ باللہ)۔
اس کے بعد ہم کو گزارش کرنا ہے کہ جب ہر معاملہ میں خلفائے راشدین کی روش اور ان کا طریقہ آنحضرت ﷺ کے قول و فعل کو تمام اقوال و افعال پر مقدم کرنا تھا تو ضروری ہے کہ ان کی روش اور سنت نبوی میں تعارض نہ ہو، پھر کیا وجہ ہے کہ مسئلہ اسخلاف میں آپ سنت نبویہ اور سنت خلیفہ راشد میں تعارض اور اختلاف مانتے ہیں۔ [42]؎ 
نیز کیا وجہ ہے کہ مسئلہ طلاق ثلاث اور مسئلہ تمتع بالحج میں حضرت عمرؓ نے جو فتویٰ اور حکم دیا اس کی نسبت آپ یہ نہیں کہتے کہ ان مسئلوں میں حضرت عمرؓ نے آنحضرت ﷺ کے قول و فعل کو مقدم کیا ہے، اگر کہئے کہ ہر معاملہ میں خلفائے راشدین کی یہ روش نہیں تھی، تو معاذ اللہ آپ خلفائے راشدین کی نسبت یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ کہیں کہیں وہ اپنے قول و فعل کو آنحضرتﷺ کے قول و فعل پر مقدم کرتے تھے، توبہ توبہ غور کیجئے کہ خلفاء پر یہ کتنا بڑا جملہ ہے۔
نیز آپ کے اس قول پر لازم آئے گا کہ آنحضرتﷺ نے دو متضاد باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا، اس لئے کہ آپ نے اپنی سنت  کو لازم بنانے کے ساتھ ساتھ خلفاء کی روش کو بھی (جو بقول آپ کے سنت نبویہ کےکہیں کہیں خلاف بھی ہے) لازم بنانے کا حکم دیا آپ جو چاہیں کہیں لیکن ہم آنحضرتﷺ کی ذات مقدس کو اس سے ارفع و اعلیٰ سمجھتے ہیں کہ آپ دو متضاد باتوں کا حکم دیں۔
اس کے بعد ہم کو یہ گزارش کرنا ہے کہ جب " علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین " میں کوئی قید یا تخصیص نہیں ہے تو آپ کو اپنی طرف سے کوئی قید یا تخصیص پیداکرنے کا کیا حق ہے؟ اور کیا ایسا کرنا اپنی رائے کو قول نبوی پر مقدم کرنا نہیں ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس حدیث کا صریح معارضہ و مقابلہ کرتے ہوئے (صفحہ 19) میں لکھا ہے کہ :
            "جو کام خلفاء راشدین نے سیاستہً یا کسی وقت ضرورت کے باعث کیا یا کرایا تھا وہ ہمارے لئے واجب الاتباع نہیں ہے۔"
ناظرین مولوی ابوالقاسم صاحب کی اس جرأت کو دیکھیں کہ آنحضرتﷺ تو بلا کسی قید اور بغیر کسی استشناء کے خلفاء راشدین کی سنت کو واجب الاتباع فرماتے ہیں، اور مولوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ نہیں سیاسی امور اور وقتی ضرورت کے کام اس سے مستشنیٰ ہیں وہ واجب الاتباع نہیں ہیں، العیاذباللہ، یہ ہے مولوی صاحب کا عمل بالحدیث اور تمسک بالسنتہ۔
پھر ہم مولوی صاحب  سے یہ بھی پوچھیں گے کہ خلفائے راشدین نے جو کام "سیاستہً یا وقتی ضرورت کے باعث کئے یا کرائے" وہ کیوں واجب الاتباع نہیں بالحدیث ان کی روش نہیں ہوئی ، اور قول وفعل کے خلاف ہیں؟  اور خلاف ہیں تو عمل بالحدیث ان  کی روش نہیں ہوئی ، اور قول و فعل نبوی کو سب سے مقدم کرنا ان کا طریقہ نہیں ہوا۔ اور اگر خلاف نہیں ہیں تو ضرور واجب الاتباع ہیں۔
اپنی ان گزارشوں کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اہلحدیث کے مسلم امام، اور اس کے خیال میں اس جماعت کے روح رواں حافظ ابن القیمؒ کی تحقیق بھی پیش کردیں، جو انہوں نے حدیث مذکور کی شرح میں لکھی ہے۔
حافظ موصوف اعلام الموقعین(صفحہ 226) میں فرماتے ہیں:
            " فقرن سنۃ خلفائہ بسنتہ وامر باتباعھا کما امر باتباع سنتہ وابلغ فی الامر بھا حتی امر بان یعض علیھا    بالنواجذ وھذا بتناول ما افتوا بہ وسنوہ للامۃ وان لم یتقدم من نبیھم فیہ سی والا کان ذلک سنتۃ"
            ترجمہ:یعنی رسول خداﷺ نے خلفاء کی سنت کو اپنی سنت کے ساتھ ذکر کیا ، اور اس کی اتباع کا بھی اسی طرح حکم دیا جس    طرح جس طرح اپنی سنت کے اتباع کا، اور اس میں یہاں تک مبالغہ کیا کہ اس کو دانت سے پکڑنے کا حکم دیا اور سنت خلفاء     شامل ہے ان فتووں کو اور اس چیز کو جو انہوں نے امت کے لئے رائج کی اگرچہ اس کی نسبت آنحضرتﷺ کا پہلے سے          کوئی حکم نہ ہو ورنہ وہ تو آنحضرتﷺ کی سنت ہوجائے گی۔
قیاس واجماع
"ہم قیاس و اجتہاد کے منکر نہیں ہیں۔۔۔۔۔ ہم کہتے ہیں کہ احادیث نبویہ کو مقیس علیہا بنانا چاہئے۔۔۔۔ اس اصل کو لوگوں نے یکسر چھوڑ دیا ہے۔" (صفحہ 21)
معلوم نہیں مولوی صاحب کو ایسی غلط باتیں لکھنے کی کس طرح جرأت ہوتی ہے، احناف و مقلدین نے اس اصل کو کہاں چھوڑا؟ اور انہوں نے کب کہا کہ احادیث نبویہ کو مقیس علیہا نہ بنانا چاہئے، احناف کے اصول کی کتابوں میں تو تصریح ہے کہ قیاس وہی معتبر ہے جو کتاب و سنت واجماع سے مستنبط ہو۔ " ھو القیاس المستنبط من ھذہ الاصول الثلاثۃ"[43]؎
باقی رہا حمل النظیر علی النظیر تو یہ احادیث کو مقیس علیہا بنانے کے نہ منافی ہے نہ قابل انکار، امام مزنی شاگرد امام شافعیؒ کا ارشاد ہے:
            " الفقھاء من عصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی یومنا وھلم جرا استعملو المقابیس فی الفقہ فی جمع الاحکام فی امر دینھم (قال) واجمعو ان نظیر الحق حق ونظیر الباطل باطل"
            ترجمہ:" یعنی آنحضرتﷺ کے زمانے سے لے کر آج تک کے فقہاء نے برابر دین کے تمام احکام میں قیاس سے کام       لیا۔۔۔ اور ان اجماع واتفاق کی نظیر حق اور باطل کی نظیر باطل ہوتی ہے۔"[44]؎
مولوی صاحب غور کریں کہ جو کاجو کے عوض کم و بیش لینا دینا حدیث کی رو سے ناجائز ہے، اب کوئی جوار کو بھی اس پر قیاس کرے تو کیا یہ حمل النظیر نہیں ہے؟ اگر ہے اور بے شک ہے تو دیکھئے کہ حمل النظیر علی النظیر حدیث کو مقیس علیہ بنانے کے لئے منافی کہاں ہوا؟
آپ نے یہاں حضرت شاہ ولی اللہ کا حوالہ تو دے دیا لیکن اگر آپ نے شاہ صاحب کا کلام اس مبحث میں سمجھ کر پڑھا ہوتا تو حمل النظیر علی النظیر کی جو مثالیں آپ نے ذکر کی ہیں ان کو ہرگز ذکر نہ کرتے۔
شاہ صاحب نے اس بحث میں تھوڑا ہی پہلے تصریح فرمائی ہے کہ مذہب حنفی کی بنیاد ان مناظرانہ استدلالوں پر نہیں ہے جو ہدایہ وغیرہ میں تشحیذ اذہان (ذہن تیز کرنے) کے لئے مذکور ہیں[45]؎ لیکن آپ نے شاہ صاحب کی اس ارشاد کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے انہیں استدلالوں کو بنیاد مان کر مسائل پر اعتراض شروع کردیا، پھر لطف یہ کہ مخالفت کے جوش میں سچ بولنے کی بھی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی طرف سے ایک مسئلہ بنا کے حنفیہ کے سر آپ نے منڈھ دیا، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
            "ایک شخص نے عورت کو زنا کے لئے بعقداجارہ رکھا اس کے بعد عورت نے وہ اجرت لے لی، گو یہ اجارہ فاسد ہے اور           اجرت کا سبب بھی فعل حرام ہے لیکن قاعدہ بن چکا ہے " اجر المثل طیب۔۔۔۔۔" اس لئے  عورت کو وہ اجرت حلال   ہے۔ (صفحہ12)
ناظرین کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ سراسر بہتان و افتراء ہے ، جو عورت زنا کے لئے بعقد اجارہ رکھی گئی اور اس نے زنا کی جو اجرت لی، اس زنا کو ہمارے تمام فقہاء حرام لکھتے ہیں، علامہ عینی حنفی شرح بخاری میں لکھتے ہیں، "لا تحل لا نہ ثمن عن محرم وقد حرم اللہ الزنا و ھذا مجمع علی تحریمہ لا خلاف بین المسلمین " یعنی (زانیہ کی اجرت اور حرام وطی کا معاوضہ حلال نہیں ہے، اس لئے کہ وہ حرام چیز کا عوض ہے، اللہ سبحانہ نے زنا کو حرام کیا ہے، اس اجرت کی حرمت پر اجماع ہے۔ اس میں مسلمانوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے)۔[46]؎  اور علامہ انور کشمیری کی تقریر ترمذی میں اجرت زانیہ کی نسبت ہے کہ "حرام عند الکل" یعنی سب کے نزدیک حرام ہے۔[47]؎
الحاصل مولوی ابوالقاسم صاحب کا یہ سمجھنا کہ:
            "احناف نے اجر المثل طیب کی بنا پر اجرت زانیہ کو حلال کہا۔ حالانکہ حدیث"مھر البغی خبیث" کی رو سے وہ حرام             ہے۔"
سراسر فریب ہے۔ بالکل غلط ہے، احناف نے بھی حرام ہی کہا ہے۔ اور اسی حدیث کی بناپر کہا ہے، چنانچہ مذکورہ بالا دونوں کتابوں میں اسی حدیث کے ماتحت اجرت زنا کو حرام لکھا ہے، اور بدائع میں ہے:
            "ولا تجوز اجارۃ الاماء للزنا لانھا اجارۃ علی المعصیۃ (الی قولہ) روی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ   وسلم انہ نھی عن مھر البغی وھوا اجر الزانیۃ علی الزنا۔"[48]؎
            یعنی  زنا کے لئے لونڈیوں کا اجارہ جائز نہیں ہے، اس لئے کہ گناہ پر اجارہ ہے ۔۔۔
آنحضرتﷺ سے مروی ہے کہ مہر البغی سے منع فرمایا ہے۔ اور مہر البغی نام ہے  زانیہ کی اجرت کا، کیا بدائع کی اس تصریح کے بعد بھی کسی کا کوئی فریب چل سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ مولوی عبدالرحمن صاحب اہلحدیث مبارک پوری کو اعتراف کرنا پڑا کہ "ھو مجمع علی تحریمہ" [49]؎ یعنی اجرت زنا کی حرمت اس مسئلہ کے لئے شامی کا حوالہ بھی دے دیا ہے مگر یہ شامی پر صریح افتراء ہے۔ اس لئے کہ شامی میں زنا کے لئے بعقد اجارہ رکھنے" کا قطعاً ذکر نہیں ہے۔
 اہلحدیث اپنے گھر کی خبر لیں
ہاں حافظ عبداللہ صاحب غازی پوری اہلحدیث نے بے شک یہ لکھا ہے کہ "رنڈی نے زنا سے مال کمایا اور اس کے بعد اس نے توبہ کرلی تو وہ مال اس کے اور تمام مسلمانوں کے لئے حلال اور پاک ہوجاتا ہے۔[50]؎
2۔ مولوی ابوالقاسم صاحب نے دوسرا مسئلہ یہ لکھا ہے کہ:
            "اگر کسی مسافر امام نے قصر نماز نہیں کی بلکہ پوری پڑھائی تو مقیم مقتدیوں کی نماز نہیں ہوئی، اس لئے مسافر پچھلی دو نوں رکعتوں میں متنفل تھا۔" (صفحہ 22،12
مولوی صاحب نے یہاں تک صحیح لکھا ہے، لیکن اس کی وجہ جو لکھی ہے "قوی کی بنا ضعیف پر نہیں ہوسکتی" (صفحہ 21) وہ ان کی طبعزاد وجہ ہے ، اس لئے کہ انہوں نے ہماری کسی  فقہی کتاب کا حوالہ نہیں دیا۔
اور اگر بالفرض وہ کوئی حوالہ دیتے بھی تو شاہ صاحب ؒ فرما چکے ہیں کہک مسائل مذہب حنفی کی بنیاد ان مناظرانہ استدلالوں پر نہیں جو ہدایہ وغیرہ میں مذکور ہیں۔
درحقیقت مسئلہ مذکورہ میں مقتدیوں کی نماز نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی، اور یہ بات خود اس حدیث سے ثابت ہے، جس کو مولوی ابوالقاسم صاحب نے نقل کیا ہے، مگر حسب عادت انہوں نے ادھوری حدیث نقل کی ہے۔
پورا واقعہ یہ ہے کہ حضرت معاذ ؓ عشا کی نما ز میں آنحضرتﷺ کے ساتھ شرکت کر کے پر اپنے محلہ میں جا کر نماز عشاء میں امامت کرتے اور خوب لمبی نماز پڑھتے، جب دربار رسالت میں اس کی شکایت ہوئی، تو آنحضرتﷺ نے انہیں ہدایت کی۔"اما ان تصلی معی واما ان تخفف علی قومک" (یعنی یاتو ہمارے ساتھ نماز پڑھو ، یا اپنی قوم کے ساتھ پڑھو، تو ہلکی پڑھو) مولوی ابوالقاسم صاحب کے اقرار بموجب "امام اہلحدیث" حافظ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ مفترض کو متنفل کی اقتداء جائز نہیں ہے، "لا نہ یدل علی انہ اذا سلی معہ امتنعت امامتہ" ( اس لئے حدیث دلالت کرتی ہے کہ جب معاذؓ آنحضرتﷺ کے ساتھ پڑھ لیں گے تو پھر وہ امامت نہیں کر سکتے۔[51]؎
جب یہ ثابت ہو گیا کہ مفترض کو متنفل کی اقتداء جائز نہیں تو چونکہ مسئلہ مذکورہ میں مسافر پچھلی دو رکعتوں میں متنفل تھا اور مقتدی مفترض اس لئے حدیث معاذ کی رو سے اس کی نماز نہیں ہوئی۔
مولوی ابوالقاسم صاحب نے اولاً پوری حدیث نہیں لکھی، پھر جتنی لکھی اس میں بھی اپنی طرف سے کچھ بڑھا کر یہ سمجھا دیا کہ احناف نے اس حدیث کے خلاف ایک قاعدہ بنا کر یہ مسئلہ نکال لیا، حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے، احناف نے اہل حدیث کے مسلم امام کی تصریح کے مطابق اسی حدیث سے یہ مسئلہ نکالا ہے۔
مولوی ابوالقاسم صاحب نے حضرت معاذؓ کی نسبت یہ جو لکھا ہے کہ "وہ آنحضرتﷺ کے پیچھے فرض عشاء پڑھ کر جاتے" یہ ان کی طبعزادبات ہے، حافظ ابن تیمیہ نے اسی حدیث سے استنباط کر کے لکھا ہے " فعلم ان الذی کان یصلیہ مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم نفل" (یعنی پس معلوم ہوا کہ حضرت معاذؓ آنحضرت ﷺ کے پیچھے جو نماز پڑھتے تھے وہ نفل تھی) اور یہ بات ایک دوسرے اہلحدیث امام (حسب اقرار مولوی ابوالقاسم صاحب دیکھو صفحہ11) علامہ قرطبی نے بھی لکھی ہے۔[52]؎
3۔ تیسری مثال مولوی ابوالقاسم صاحب نے یہ لکھی ہے کہ
            "کسی نے صبح کی نماز ایسے وقت پڑھی کہ ایک رکعت کے بعد آفتاب نکل آیا، اب وہ دوسری رکعت پڑھے گا تو نماز نہیں       ہوگی۔" (صفحہ 22)
یہ مسئلہ بھی صحیح ہے، لیکن اس کی وجہ جو بتائی ہے، غلط ہے۔ ہمارے فقہاء نے ہرگز اس کی وجہ یہ نہیں لکھی ہے کہ "ناقص  کا الحاق کامل کے ساتھ نہیں ہوسکتا" بلکہ یہ وجہ لکھی ہے کہ جو چیز کامل واجب ہوگی وہ ناقص سے ادا نہ ہوگی، پھر یہ وجہ بھی حسب ارشاد شاہ ولی اللہ تشحیذ ذہن کے لئے ہے، مسئلہ کی اصل بنیاد اس پر نہیں ہے، بلکہ اس مسئلہ کی بنیاد بھی احادیث پر ہے، توضیح اس کی یہ ہے کہ مولوی ابوالقاسم صاحب نے جو حدیث ذکر کی ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب نکلنے کی حالت میں نماز ہو جاتی ہے، لیکن دوسری بکثرت احادیث میں طلوع آفتاب کی حالت میں نماز پڑھنے کو منع فرمایا گیا ہے، اس لئے اب دوہی راہیں تھیں، یا تو پہلی حدیث کو ترجیح دی جاتی یا دوسری حدیث کو، چنانچہ امام شافعیؒ نے پہلی کو اپنے فہم و اجتہاد کی بناء پر راجح قرار دیا، اور امام ابو حنیفہؒ نے دوسری کو اپنے فہم و اجتہاد کی بناء پر ترجیح دے کر انہیں دوسری حدیثوں کی بناء پر صورت مذکورہ میں نماز کو فاسد کہا۔ بہرحال امام شافعیؒ  کی طرح امام ابو حنیفہؒ نے بھی اس مسئلہ میں اپنے قول کی بنیاد حدیثوں ہی پر رکھی ہے۔ [53]؎
 اجماع صحابہ کے علاوہ ہر اجماع سے انکار
قیاس کے بعد مولوی صاحب نے اجماع کی نسبت جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ خود ان کے لفظو میں یہ ہے کہ " دراصل اجماع جو معتبر ہے وہ صحابہ کرام کا اجماع ہے" (صفحہ 24) ناظرین ان الفاظ کو خوب اچھی طرح یاد کرلیں، اور دیکھ لیں کہ اہلحدیث کے نزدیک تابعین یا تبع ، یا دیگر مجہتدین کا اجماع بالک معتبر نہیں ہے، وہ صحابہ کے اجماع کے سوا کسی اجماع کو نہیں مانتے۔
 دفع ایراد
اخیر میں مولوی ابوالقاسم صاحب کو خیال آیا کہ میں نے بہت پہلے سے اہلحدیث کا وجود ثابت کرنے کی جو عبارتیں پیش کی ہیں ان میں اکثر عبارتوں میں تو حدیثیں روایت  کرنے والے مراد ہیں، لہذا اس کی نسبت بھی کوئی بات بنانی چاہئے، چنانچہ بہت غور وفکر کرکے یہ فرمایا۔
            "کتاب اصول الدین کی عبارت اسی طرح امام شافعیؒ وامام حمدؒ کے حال میں جو عبارتیں سنائیں ہیں، ان میں صاف مذہب       اہل الحدیث کا لفظ موجود ہے۔"
مولوی صاحب کا مطلب یہ ہے کہ اہل حدیث سے صرف حدیث روایت کرنے والے ہی نہیں مراد ہوتے، بلکہ اہل حدیث ایک مذہب بھی تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ بہرحال مولوی صاحب اس سے انکار نہیں کرسکے کہ اہلحدیث سے حدیث روایت کرنے والے مراد ہوتے ہیں، لہذا اس کو انہوں نے تسلیم کرلیا۔ اب رہا ان کا یہ کہنا کہ اہلحدیث ایک مذہب بھی تھا۔ اور دلیل میں اصول الدین کا نام لینا۔ تو جہاں اصول الدین کی عبارت پر ہم نے بحث کی ہے، وہیں ثابت کردیا ہے کہ اس عبارت سے مولوی صاحب کا مدعا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔
اب رہیں وہ عبارتیں جو امام شافعی و امام احمد کے حال میں ہیں، تو ان کی نسبت گزارش ہے کہ جب ان حضرات کا مذہب اہلحدیث تھا تو ان کے مذہب پر چلنے والے اور ان کے مذہب کو ماننے والے کل اہلحدیث ہوئے، پھر آپ ان کو اہلحدیث سے خارج کیوں قرار دیتے ہیں؟ نیز جب ان حضرات کا مذہب اہلحدیث تھا تو آپ نے ان سے الگ ایک مذہب کیوں قائم کیا؟ ان دونوں حضرات کے مذہب سے ایک الگ مذہب قائم کرنے کا تو دو ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ یا تو ان حضرات کا مذہب اہلحدیث نہ تھا، یا پھر آپ کا مذہب اہلحدیث نہیں ہے۔
اس کے بعد آپ نے قاضی عیاض کی عبارت نقل کی ہے، لیکن وہ بھی آپ کے لئے مفید ہونے کے بجائے مضر ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ امام احمد کا فرقہ ناجی فرقہ ہے، یعنی امام احمد نے اہلحدیث بول کر سنت مراد لیا ہے۔ پس آپ نے        (صفحہ 8،7) میں جو عبارتیں نقل کی ہیں، اور یہ باور کرایا ہے کہ ان عبارتوں میں اہلحدیث سے صرف آپ لوگ مراد ہیں غلط ہوگیا۔ صحیح یہ ہے کہ تمام اہلسنّت مراد ہیں۔
آپ فرمائیں گے کہ قاضی عیاض نے "اھل السنۃ والجماعۃ" کے بعد "ومن یعتقد مذھب اھل الحدیث" بھی لکھا ہے تو میں عرض کروں گا کہ آپ اس کو عطف مغائر علی المغائر مانتے ہیں تو صاف اعلان کیجئے کہ مذہب اہلحدیث اور اس کا معتقد اہل سنت سے خارج ہے، اور اگر آپ یہ اعلان نہیں کرتے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عطف تفسیری ہے، اور معطوف و معطوف علیہ دونوں سے ایک ہی گروہ مراد ہے، اور وہ تما اہلسنت کا گروہ ہے۔
اس کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ"حافظ نووی شافعی۔۔۔ اپنی شرح مسلم میں متعدد جگہ پانچ مذہبوں کا ذکر بالمقابل کرتے ہیں کہ ہمارے شافعی مذہب میں یوں ہے، اور مالکی مذہب میں یوں ہے، مذہب حنفیہ یہ ہے اور حنبلی یہ، پھر سب سے الگ اہلحدیث کا مذہب لکھتے ہیں۔[54]؎
حیرت ہے کہ مولوی ابوالقاسم صاحب منقولہ بالا اپنی عبارت کے متصل ہی یہ لکھتے ہیں کہ:
            " ہمیشہ سے اہلحدیث اسی شخص کو کہا گیا ہے جو قرأۃ خلف الامام اور رفع الیدین عندالرکوع کرتا ہے"(صفحہ25،24)
اور ظاہر ہے کہ امام شافعی ؒ اور ان کے مقلدین ، اسی طرح امام احمد اور ان کے مقلدین اہلحدیث[55]؎ حضرات کے خیال میں قرأۃ خلف الام اور رفع الیدین عند الرکوع کرتے تھے، لہذا وہ بھی اہلحدیث ہوئے پھر مولوی صاحب کو بتانا چاہئے کہ حافظ نووی نے ان دونوں کے بالمقابل اہلحدیث کا ذکر کیوں کیا؟ بلکہ حافظ نووی نے تو شرح مسلم کے مذکورہ صفحات میں خود امام احمد، امام شافعی، امام ثوری اور امام مالک وغیرہ ہم کے بالمقابل اہلحدیث کا ذکر کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام حضرات اہلحدیث نہ تھے، پس مولوی ابوالقاسم صاحب نے خطبہ صدارت (صفحہ 7،6) میں جو ان حضرات کو اہلحدیث ثابت کیا ہے لامحالہ غلط ہے۔
 دفع ایراد کے بجائے تقویت ایراد
مولوی صاحب اگر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے دفع ایراد کے  بجائے ایراد کو اور قوی کردیا اس لئے کہ:
اولاً انہوں نے اس سے انکار نہیں کیا کہ اہلحدیث سے حدیثیں روایت کرنے والے مراد ہوتے ہیں، لہذا معلوم ہوا کہ حدیثوں کی روایت کرنے والوں کو اہل حدیث کہا جاتا ہے۔
ثانیاً انہوں نے اپنے استدلال میں قاضی عیاض کی عبارت نقل کرکے ثابت کر دیا کہ اہلحدیث بول کر اہل سنت وجماعت بھی مراد لیا جاتا ہے۔
ثالثاً انہوں نے یہ کہہ کر "ہمیشہ سے اہلحدیث اسی شخص کو کہا گیا ہے جو قرأۃ فاتحہ خلف الام اور رفع الیدین عندالرکوع کرتا ہے" ثابت کردیا ہے کہ کم از کم شافعی کو اہلحدیث کہا جاسکتا ہے، لہذا ان کا فرض ہے کہ اہلحدیث کا وجود ثابت کرنے کے لئے انہوں نے جو عبارتیں پیش کی ہیں، دلائل سے ثابت کریں، کہ ان عبارتوں میں لفظ اہل الحدیث سے یہ تینوں معنی مراد نہیں ہیں۔
اہلحدیث کس کو کہتے ہیں
اصل یہ ہے کہ آج اہلحدیث اس کو کہتے ہیں جو عامی (غیر مجتہد) ہونے کے باوجود کسی امام کی تقلید واتباع کا قائل نہ ہو، ہمارا دعویٰ ہے کہ اہلحدیث کی یہ اصطلاح بالکل حادث و بدعت ہے، اس معنی میں کبھی کسی کو اہلحدیث نہیں کہا گیا، اور ایسے اہلحدیث کا وجود بجز اس دور متاخر کے اور کبھی نہ تھا۔
مولوی ابوالقاسم صاحب نے زمانہ قدیم میں جن لوگوں کا اہلحدیث ہونا دکھایا ہے ، وہ یا تو اہلحدیث بمعنی راوی وخادم تھے، یا اہلحدیث بمعنی شافعی المذہب و مالکی المذہب تھے، یا اہلحدیث بمعنی اہلسنت و جماعت تھے، لفظ اہل حدیث کا ان تینوں معنوں میں بولا جانا ، ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں، بلکہ مولوی ابوالقاسم صاحب کے بیانات سے بھی یہ ثابت ہے، لہذا اب تک انہوں نے جو محنت کی ہے وہ تو سب اکارت گئی، اب کوشش کرکے متقدمین کی کتابوں سے کوئی ایسی عبارت پیش کریں جس میں "عامی غیر مقلد" کو اہلحدیث کہا گیا ہو۔ "وھذا آخر الکلام والحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ النبی الامین وآلہ وصحبہ اتباعہ الی یوم الدین۔"
 بحوالہ:تحقیق اہلِ حَدیْث،  اثر خامہ محدثِ جلیل امیر الہند ابو المآثر حبیب الرحمٰن الاعظمی
******
[1] ۔ اہل حدیث کانفرنس کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے جن اعیان اہل حدیث کا انتقال ہوا ہے ان کا تذکرہ12
[2] خطبہ صدارت س 4
[3] ۔اہل حدیث کا مذہب ص 79
[4] ۔ لآ لی مصنوعہ ص 13
[5] ۔ میزان ذھبی
[6] ۔ و 2۔ ہم نے صرف اصحاب الحدیث کے ترجمہ کی باصول اہل حدیث تصحیح کی ہے ورنہ شنتم کا ترجمہ ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور "لا وجعنا ضرباً" کا "سخت سزا دیتے" بھی مجتہدانہ ترجمہ ہے، صحیح ترجمہ 'تم نے بدنما بنا ڈالا' اور "سخت مار مارتے" ۔ 12منہ۔
3۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل حدیث ہمیشہ سے بے ادب اور بدتمیز تھے، ان کو تھوڑا سا بھی ادب حاصل نہ تھا۔
[7] ۔مولوی ابو القاسم صاحب کی اس غلط بیانی کی بھی کوئی حد ہے کہ اصول الدین کی عبارت میں نہ کہیں صحابہ کا لفظ ہے نہ ان کے فتح ممالک کا، مگر وہ خواہ مخواہ اصول الدین کا نام لے کر بار بار یہی کہے جاتے ہیں کہ جب صحابہ نے ممالک کو فتح کیا اسی وقت سے یہاں کے لوگ اہل حدیث تھے۔ چنانچہ صفحہ 10 میں لکھتے ہیں کہ: اصول الدین کے حوالے سے آپ کو بتایا تھاکہ خلافت عثمانی میں افریقہ کو ضب صحابہ و تابعین نے فتح کیا تو وہاں کے مسلمان اہل حدیث مذہب پر قائم ہوئے۔ حالانکہ اصول الدین میں نہ خلافت عثمانی کا ذکر ہے نہ فتح افریقہ کا نہ فتح کے وقت سے مذہب اہل حدیث پر قائم ہونے کا۔ "ھاتوابرھانکم ان کنتم صادقین۔"
[8] ۔ تاریخ بغداد: 9/79
[9] ۔دیکھئے طبقات الشافعیہ
[10] ۔ بخاری شریف : 2/1087
[11] ۔حقیقۃ الققہ: ص 11
[12] ۔ سہیل لکھنا غلط ہے ، سہل صحیح ہے۔ (طبقات کبریٰ سیکی: 3/169)
[13] ۔ مقدمہ ابن خلدون: ص 374، 375
[14] ۔طبقات سبکی:3/258
[15] ۔ طبقات سبکی 3/259
[16] ۔ طبقات شافعیہ 3/198
[17] ۔ مولوی ابوالقاسم صاحب نے یہ بات مولوی عبدالحلیم شرر ناول نویس کی کتاب سے نقل کی ہے اور اس کےبعد انہوں نے ہندوستان میں اہلحدیث کی قدامت کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ بھی بجنسہ شرر ہی کی تقلید میں ہے (تاریخ سندھ شرر 2/125) منہ 12۔
[18] ۔ امام اصحاب الحدیث (طبقات سبکی 2/40) 12 منہ
[19] ۔ یوسف اور اس کابیٹا یعقوب مولوی ابوالقاسم صاحب کے اقرار کے موافق اہلحدیث بادشاہ تھے 12 منہ
[20] ۔مولوی ابوالقاسم صاھب کو یہاں وسوسہ نہ ہو کہ ہم بھی تو مجتہد ہیں، اس لئے کہ جو شخص جعلی اور غیر جعلی حدیثوں میں تمیز نہ کرسکے اس کو اجتہاد کا خواب دیکھنا زیبا نہیں۔ 12 منہ
[21] ۔ فوائد ص 18 ، جواہر : 1/67
[22] ۔ اس کی پوری تفصیل غیر مقلدین کے معتمد علیہ بزرگ ابن حجر کے مقدمہ فتح الباری ص 579 میں پڑھئے۔
[23] ۔ فوائد بھیہ : ص 19
[24] ۔ مسک الختام: ص 4
[25] ۔ نیز اسی قبیل سے ص 26 میں حضرت مرزا مظہر جان جاناں کو بھی اہلحدیث ظاہر کرنا ہے، حالانکہ مرزا صاحب پکے حنفی تھے اور دو ایک کام جو خلاف مذہب حنفی کرتے تھے اس کی نسبت ان کے خلفہ حضرت شاہ غلام علی فرماتے ہیں کہ "از انتقال در مسئلہ جزئی خلاف مذہب لازم نمی آید" (مقامات مظہری ص 119) یعنی کسی جزئی مسئلہ میں اختلاف کرنے سے مذہب کی مخالفت لازم نہیں آتی۔ اور یہ بات خود مرزا صاحب نے بھی لکھی ہے (دیکھو مکتب 16 ص 102)۔ حضرت مرزا صاحب کی ذاتی تحقیق یہ تھی کہ سری نمازوں میں مقتدی کو فاتحہ پڑھنا اچھا ہے (لازم و واجب نہیں ہے) مگر مذہب حنفی کے التزام کا ان کو انتا اہتمام تھا کہ خود امامت فرماتے تھے تاکہ بلا ضرورت حنفی مذہب سے اختلاف کی نوبت نہ آئے۔ (مقامات ص 19)
[26] ۔ خطبۂ صدارت ص 28
[27] ۔ خطبۂ صدارت ص 28
[28] ۔ کتاب الرد ص 20اور اپنا ترجمہ ص29
[29] ۔ شرح معانی الآثار : 1/94، 95
[30] ۔ کتاب الرد ص 38 اور ترجمہ ص 35
[31] ۔ طحاوی: 1/301
[32] ۔ زواجر: 2/168
[33] ۔ دیکھو حافظ ابن القیم کی اعلام الموفعین: 1/29،30
[34] ۔ اعلام : ص 73
[35] ۔ اعلام: 1/22
[36] ۔ اعلام: 1/76
[37] ۔ اعلام: 1/76
[38] ۔مزید تفصیل کے لئے اعلام الموفعین از: 1/28 تا 80 کا مطالعہ کیا جائے۔
[39] ۔نووی شریح مسلم: 2/129
[40] ۔ خطبۂ صدارت ص 20
[41] ۔ خطبۂ صدارت ص 18
[42] ۔ دیکھو خسطۂ صدارت ص 18
[43] ۔ نوارالانوار: ص 4
[44] ۔ اعلام الموقعین: 1/74
[45] ۔۔ حجۃاللہ مطبوعہ مصر ص 128
[46] ۔ شرح بخاری: 5/611
[47] ۔ تقریر ترمذی : ص 402
[48] ۔ بدائع: 4/190
[49] ۔شرح ترمذی
[50] ۔دیکھو فتویٰ حافظ عبداللہ صاحب غازی پوری مورخہ 23ربیع الآخر 1329ھ بحوالہ قطع الوتین1
[51] ۔ شامی: 1/407
[52] ۔ شامی: 1/407
[53] ۔ تفصیل کے لئے شرح معانی الآثار: 1/232 تا 234 دیکھئے۔
[54] ۔ دیکھو ج اول ص 73 اور ج ثانی ص 32
[55] ۔مولوی محمد علی صاحب مئوی کا رسالہ القول المحلی بکل زین اور مولانا عبدالرحمن صاحب مبار پوری کا رسالہ تحقیق الکلام حصہ اول پڑھئے 12

2 comments:

  1. انا اللہ و انا الیہ راجعون
    جن بھی محترم نے یہ تحریر لکھی ہے میں کہتا ہوں انہوں نے تحریر نہیں بلکہ اپنی بوکھلاہٹ لکھی ہے
    اور ان شاء اللہ یہ بوکھلاہٹ صدا رہنے والی ہے کیونکہ اہل حدیث وہ عظیم گروہ ہے جسکے بارے قرآن و سنت کے آئمہ و محدیثین کے شواہد موجود ہیں اور حآل دیکھیں بغض اہل حدیث کے بارے کہتے ہیں جی کہ وہ اہل حدیث وہ تھے جو حدیث کو پڑھتے تھے پڑھاتے تھے یاد کرتے تھے بیان کرتے تھے لیکن موجودہ اہل حدیث کا ان سے کوئی تعلق نہیں ٹھیک ہے جی مان لیتے ہیں آپکی بات ہم تو اعلی ظرف اور کھلے دل کے لوگ ہیں جناب ماں لیتے ہیں آپکی بات اگر اہل حدیث آپکے نزدیک وہ ہیں جو حدیث کو پڑھتے تھے یاد کرتے تھے پڑھاتے تھے تو جناب آپ پھر اہل حدیث کیوں نہیں بنے چلیں ہم تو حدیث نہیں پڑھاتے سناتے بقول آپکے جو کہ دعوی ہی باطل ہے آپکو تو اہل حڈیث ہونا چاہیے تھا آپ کیوں نہیں اہل حدیث آپ کیوں مقلد کہلواتے ہیں آپ کیوں شافعی مالکی حنبلی حنفی کہلواتے ہیں اہل حدیث کیوں نہیں کہلواتے اور یہی آپکی سب سے بڑی خیانت اور بوکھلاہٹ ہے اوپر ماشاء اللہ اہل حدیث کی عظمت کے دلائل بیان
    کر کے وضاحت بھی کر دی اور اہل حدیث کہلوانے سے عاری بھی ہیں کیوں ؟؟؟؟؟؟؟ خوداہل حدیث کہلوانے سے آپکو کیا چیز مانع ہے ؟؟؟؟؟؟ لیکن حقیقت کیا ہے میں عرض کیے دیتا ہوں آپ کبھی بھی لفظ اور نام اہل حدیث سے عقیدت و محبت کر ہی نہیں سکتے کیونکہ آپکا حدیث سے تعلق ہی کیا ہے آپکا خود کا مذہب حدیث کے خلاف ہے اور آپکے عقائد و مسائل حدیث مصطفی ﷺ کے خلاف ہیں ۔ خود کو اتنی توفیق بھی نہیں کہ اہل حدیث بن جائیں اہل حدیث بننا تو دور کی بات ہے اہل حدیث لفظ سے عقیدت و محبت بھی انکی قسمت میں نہیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. انا للہ وانا الیہ راجعون۔
      بیچ چوراہے میں جو بھانڈا پھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔
      جاہلیت ایک لفظ ہے اور اس لفظ کا عملی مصداق نام نہاد سلفی بزعم خود اہلحدیث۔۔۔۔۔۔۔
      اگر علم نہیں تھا تو بات مختصر کرتے اگر چپ نہیں رہا جا رہا تھا، تاکہ کم سے کم سُبقی ہوتی، کم فہمی و لاعلمی و کج فہمی اتنی ہی کم عیاں ہوتی۔

      یہاں بات ہو رہی ہے کہ لفظ "اہلحدیث" سے آج کل کے نام نہاد سلفیوں کا کوئی لینا دینا نہیں، اتنا تو جناب کو بھی بغیر قیل و قال منظور۔ بات ہی ختم۔

      بقیہ کا جواب دینا بنتا تو نہیں کہ اتنی بودی باتیں ہیں، مگر اتنا کہا کافی جانو کہ "مقلد" کہنا کوئی اہلحدیث کی طرح کا فرقہ جتانا نہیں بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ جو اہل علم جبال علم محدثین ومجتہدین یعنی اہلحدیث اماموں کی نسبت سے بولا جاتا ہے، نہ کہ کوئی گروہ یا فرقہ کا اسم یا کچھ اور، جیسا کہ نام نہاد سلفی بھی اصلا اور یقینا مقلدین جہلاء و غیر مجتہدین ہی ہیں، مانیں یا نہ مانیں۔

      اسی طرح انہی محدثین مجتہدین اہلحدیث اماموں کی نسبت سے حنفی مالکی شافعی حنبلی بولا کہا جاتا ہے، تاکہ فقہی اختلافی مسائل میں اپنا مسلک و مذہب واضح کیا جا سکے، صرف پہچان واسطے، نا کہ کوئی فرقہ جتانا مقصود ہوتا ہے، جیسا نام نہاد سلفی خود کو اہلحدیث کہہ کر کرتے ہیں، اور وہ بھی سراسر غلط۔۔۔۔۔

      اہلحدیث ہم اس لئے نہیں کہلواتے کیونکہ ہم محدثین مجتہدین اہلحدیث اماموں کے پیروکار اور مقلد یعنی "فالوورز" ہیں نہ کہ خود امام محدث مجتہد یا اہلحدیث بمعنی محدث، جیسا کہ نام نہاد سلفیوں کا وطیرہ ہے خود کو اہلحدیث کہہ کہہ کر بزعم خود کو ہر جاہل و لا علم و کم فہم بڑا محدث و مجتہد سمجھے جاتا ہے۔ فیا للعجب۔۔۔۔۔

      اہلحدیث کہلوانا کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ کسی فرقے کا نام ہے، کسی حدیث سے ثابت یہ گروہی اجتماعی نام کہ جس کے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے؟ یا بس کرنا کرانا کچھ نہیں اور نام رکھ کر رعب و دبدبہ ڈالنے کی کوشش ہے؟
      نام رکھنے سے اگر علم آ جاتا تو آج سب سے زیادہ کم فہم بلکہ کج فہم و کج علم جہلاء نام نہاد "اہلحدیث" فرقہ میں نہ ہوتے۔ جو نہ خود عالم ہیں اور نہ کسی علم والے کی تقلید کرتے ہیں۔ نام سے الفت کا پتہ تب چلتا ہے جب اس نام کے حاملین کی حقیقتا اتباع و تقلید کی جائے۔ خالی خولی دعویٰ سے کیا حاصل ہونا؟
      عمل سے ثابت کیجئے نام اگر اسی طرح رکھنا ہی کسی بات کی نشانی ہے تو پھر اہل قرآن تو آپ سے بھی زیادہ وزنی نام لے کر آئے ہیں ان کو کیا جواب دیجئے گا حضور۔۔۔۔۔؟؟؟؟ اس لئے دعویٰ جب بھی کیا کیجئے کچھ عقل حضوری کی حالت میں کیا کیجے جناب۔۔۔۔۔۔۔
      والسلام

      Delete