تازہ ترین تحریریں

Friday 4 September 2020

امام نسفی کہتے ہیں کہ خدا کو جسم یا علت سے متصف قرار دینا الحاد ہے

امام ابو البرکات عبد اللہ ابن احمد النسفی ، نے اپنی تفسیر القرآن کی جلد نمبر 2 صفحہ 164 پر لکھا ہے: 
[مندرجہ ذیل آیت کے بارے میں: 
وَلِلّهِ الأَسْمَاء الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُواْ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائه 
جس کا مطلب ہے: "اور اللہ کے کامل نام ہیں ، لہذا اس کو ان ناموں سے پکارو، اور ان ناموں کی طرف الحاد [ملحدیت] کے قائلین مجرموں سے دور رہیں"۔ سورۃ الاعراف آیت 180]۔ 
اللہ کو ایسے پکارنا الحاد ہے؛ 
‘جسم’ (جِسم) 
یا ‘بنیادی ذرہ’ (جوہر) 
یا 'سوچ / وجہ' (عقل) 
یا ’سبب‘ (علت)
یاد رکھنے کے لئے نکات: 
امام ابو البرکات النسفی کا انتقال ہجری تقویم کے 710 ھ میں ہوا ، یعنی تقریبا 700 سال پہلے۔ 
وہ ایک عظیم مثالی شخص تھے ، یعنی ایک مفسر جو قرآن کی تفسیر میں مہارت رکھتا ہے۔ ان کی تفسیر مشہور ہے۔ انہیں ایک دوسرے بڑے حنفی عالم سے سے گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیئے، جن کا نام بھی یہی تھا ، یعنی نجم الدین ابو حفص النسفی (537 ہجری) جنہوں نے کتاب العقائد لکھی ، جس پر تفتازانی نے تبصرہ کیا ہے، اور جو کتاب عقیدہ کے حوالے سے ایک حوالہ ہے، یا انہیں میمون ابن محمد النسفی سے بھی مشابہت کی وجہ سے گڈ مڈ نہ کیا جانا چاہیئے، وہ مذہبی ماہر ہیں جنہوں نے کتاب تبصرات الادلہ تصنیف فرمائی تھی۔ (متوفی 508 ھ)۔ 
اس آیت میں ’الحاد‘ کے کیا معنی ہیں اس کی وضاحت کے لئے ، امام النسفی کہتے ہیں کہ اللہ کو "جسم" یا "علت" ، یعنی 'اعضاء کا مجموعہ' یا 'سبب' کہنا ایک قسم کا الحاد ہے۔ در حقیقت ، یہ دونوں الفاظ دینی تعلیمات میں اللہ تعالی کے بیان کردہ ناموں میں شامل نہیں ہیں، اور سب سے اہم یہ کہ ان کے معنی اسلامی تعلیمات سے بالکل میل نہیں کھاتے۔ اللہ ایک جسم نہیں ہے، وہ اعضاء پر مشتمل نہیں ہے۔ اور وہ ایک ’’ وجہ یعنی سبب‘‘ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ کہنے کے مترادف ہوگا کہ اس کی مرضی نہیں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امام نسفی نے اس نام کو کفریہ فعل قرار دیا ہے۔



No comments:

Post a Comment