تازہ ترین تحریریں

Thursday 22 March 2018

الاعلام المرفوعہ فی حکم الطلاقات المجموعۃ - تین طلاق کے بارے میں

 باب اول
ایک مجلس کی تین طلاقین چاہے بیک لفظ[1]؎ دی جائیں یا بالفظ متعددہ[2]؎ واقع ہوجاتی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد چاہے وہ جس طرح دی گئی ہوں رجعت کرنا شرعاً ممکن نہیں ہے۔ شریعت کا یہ وہ مسئلہ ہے جس پر اہل سنت والجماعت کے ہر چہار امام ابو حنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد رحمۃ اللہ علیہم کا اتفاق ہے اور نہ صرف یہی بلکہ دیگر اکابر ائمہ فقہ وحدیث مثلاً امام اوزاعی(امام شام) امام نخعی امام ثوری، امام اسحٰق امام ابوثور امام بخاری کا بھی یہی قول ہے بلکہ جمہور صحابہ و تابعین و جمہور ائمہ وخلف اسی کے قائل ہیں چنانچہ امام نووی شرح مسلم (جلد1صفحہ478) میں لکھتے ہیں۔" وقد اختلف العلماء فی من قال لا مراتہ انت طالق ثلاثا فقال الشافعی و مالک و ابو حنیفہ و احمد و جماھیر العلماء من السلف والخلف یقع الثلث[3] ؎" اور شیخ امام ابن الہمام فتح القدیر(جلد 3صفحہ 25) میں فرماتے ہیں "وذھب جمھور من الصحابۃ والتابعین ومن بعد ھم من ائمۃ المسلمین الی انہ یقع الثلاث[4]؎"
اور علامہ عینی شرح بخاری(جلد 20 صفحہ 233) میں لکھتے ہیں "ومذھب جماھیر العلماء من التابعین ومن بعدھم منھم الاوزاعی، النخعی والثوری، وابوحنیفہ واصحابہ وامالک والشافعی واصحابہ واحمد اصحابہ واسحق وابو ثور وابو عبید واٰخرون علی ان من طلق امراتہ ثلثا وقعن ولکنہ یاثم [5]؎ " اور علامہ ابن رشید ہدایۃ المجتہد (جلد 2 صفحہ 57) میں لکھتے ہیں "جمھور فقھاء الامصار علی ان الطلاق بلفظ الثلاث حکمہ حکم الطلقۃ الثالثۃ [6]؎ "اور حافظ ان القیم زادالمعاد میں فرماتے ہیں: "واماالمسألۃ الثانیۃ وھی وقع الثلث بکلمۃ واحدۃ فاختلف الناس فیھا علی اربعۃ مذاھب احد ھا انہ یقع و ھذا قول الائمۃ الاربعۃ وجمھور التابعین وکثیر من الصحابۃ "[7]؎
اس قسم کے اقوال وعبارات کا اگر استقصاء کیا جائے تو بہت تطویل ہوگی اس لئے اتنے ہی پر اکتفاء کرتا ہوں اور اب مسئلہ کے دلائل پیش کرتا ہوں۔
حدیث اول: صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے "ان رجلا طلق امراتہ ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول قال لا حتی یذوق عسیلتھا کما ذاق الاول"[8]؎ یعنی ایک شخص نے اپنی بی بی کو تین طلاقیں دے دی۔ آنحضرتﷺ سے پوچھا گیا کہ اب پہلے کے لئے حلال ہوگی یا نہیں، فرمایا نہیں تاوقتیکہ دوسرا شوہر پہلے کی طرح لطف اندوز صحبت نہ ہو پہلے کے لئے حلال نہیں ہوسکتی۔
کوئی یہ نہ کہے کہ تین طلاقوں میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ تینوں تین طہر میں دی گئی ہوں گی اس لئے کہ یہ احتمال خلاف ظاہر ہے علامہ عینی نے عمدۃ القاری اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری (جلد9 صفحہ 469) میں لکھا ہے " فالتمسک بظاھر قولہ طلقھا ثلاثا فانہ ظاھر فی کونھا مجموعۃ یعنی طلقھا ثلاثا " تینوں طلاقوں کے بیک وقت ہونے میں ظاہر ہے لہذا ظاہر کو چھوڑ کر بلاوجہ اور بلا قرینہ غیر ظاہر کو اختیار نہیں کیا جاسکتا اور لطف یہ ہے کہ امام بخاری نے بھی " طلقھا ثلاثا " سے ہر سہ طلاق کا بیک لفظ یا بیک مجلس ہونا ہی سمجھا ہے اس لئے کہ وہ حدیث مذکورہ بلا کو"  باب من اجاز طلاق ثلاث " کے ماتحت لائے ہیں یعنی وقوع[9]؎ ثلاث مجموع کی دلیل اس حدیث کو قرار دیا ہے، اسی طرح یہ شبہ بھی نہ کرنا چاہئے، کہ حدیث مذکور میں رفاعہ قرظی کا واقعہ مذکور ہے اس لئے کہ یہ محض بے دلیل بات ہے اور واقعے یقیناً متعدد ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے خود فتح الباری میں اس پر متنبہ فرمایا ہے تو خواہ مخواہ رفاعہ کے قصے پر حمل کرنا تحکم ہے۔
حدیث دوم: ابن ابی شیبہ بیہقی اور دار قطنی نے حضرت ابن عمر ؓ کے طلاق کے مشہور قصہ میں روایت کیا ہے " فقلت (القائل ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یا رسول اللہ ارایت لو انی طلقتھا ثلاثا کان یحل لی ان اراجعھا قال لا کانت تبین منک وتکون معصیۃ " یعنی ابن عمرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! فرمائیے، اگر میں نے تین طلاقیں دی ہوتیں تو میرے لئے رجعت کرنا حلال ہوتا یا نہیں؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا نہیں، وہ تم سے بائنہ ہوجاتی اور ایسا کرنا گناہ ہوتا، سنن دار قطنی میں اس کی اسناد یوں ہے " حدثنا علی بن محمد بن عبید الحافظ نا محمد بن شاذان الجوھری نامعلی بن منصور نا شعیب بن رزیق ان عطاء الخراسانی حدثھم عن الحسن قال حدثنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ " اس حدیث میں شعیب بن رزیق ایک روانی ہیں ان کو حافظ ابن القیم نے ضعیف کہا ہے اور انہیں کی وجہ سے اس حدیث کی تضعیف کی ہے لیکن انصاف یہ ہے کہ حافظ ابن القیم کا شعیب کو ضعیف قرار دینا بالکل بے جا ہے اس لئے کہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے کسی نے ان کی تضعیف نہیں کی ہاں ابوالفتح ازدی نے بے شک ان کو لین کہا ہے مگر یہ بہت نرم اور اور کمزور جرح ہے علاوہ بریں ابو الفتح کی جرحیں بالکل ناقابل اعتبار ہیں اولاً اس لئے کہ وہ خود ضعیف و صاحب مناکیر وغیرہ مرضی ہیں۔ ثانیاً وہ بے سند وبے وجہ جرح کیا کرتے ہیں جیسا کہ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال (جلد1صفحہ4) اور (جلد 3 صفحہ 46) میں اور حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب جلد اول ترجمہ احمد بن شبیب میں لکھا ہے۔
باقی بعض لوگ ابن حرم کی جرح کا ذکر کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابن حزم ائمہ جرح وتعدیل میں سے نہیں ہیں اس کے علاوہ ان کی زبان درازی کی بڑے بڑے محدثین نے شکایت کی ہے اور ان کی جرحوں کو ناقابل التفات قرار دیا ہے اس لئے کہ ان کی زبان سے ترمذی اور ابوالقاسم بغوی اور بڑے بڑے ائمہ بھی نہیں بچ سکے ہیں چنانچہ حافظ ذہبی نے ذکرۃ الحفاظ (جلد 3 صفحہ328) میں اور علامہ سخاوی نے فتح المغیث میں اور مولانا عبد الحئی نے الرفع والتکمیل(صفحہ19) میں اس کی تصریح کی ہے اور اس پر مزید یہ کہ ازدی وابن حزم دونوں کی جرحیں مبہم ہیں۔ اور جرح مبہم اصول حدیث کے رو سے ساتط الاعتبار ہوتی ہے۔
اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ شعیب ضعیف نہیں بلکہ وہ لاباس بہ ہیں جیسا کہ دحیم نے کہا، بلکہ وہ ثقہ ہیں جیسا کے دار قطنی نے فرمایا۔[10]؎
اس سند کے دوسرے راوی جن میں بعض لوگوں نے کلام کیا ہے۔ عطاء خراسانی ہیں کہا جاتا ہے کہ بخار ی و بہیقی وشعبہ وابن حبان وعقیلی اور سعد بن المسیب نے ان میں کلام کیا ہے لیکن یہ محض بے تحقیق بات ہے میں ان میں سے ہر ایک کا کلام نقل کر کے حقیقت حال کو ظاہر کردینا چاہتا ہوں۔
امام بخاریؒ نے فرمایا ہے کہ میں نے مالک کا کوئی استاد ایسا نہیں پایا جو متروک ہونے کا مستحق ہو سوائے عطاء خراسانی کے اس کلام کو امام ترمذی نے کتاب العلل میں نقل کیا ہے اور خود اپنے استاذ امام بخاری کی تردید کردی ہے"عطاء فقۃ روی عنہ مالک و معمر ولم اسمع احداً من المتقدمین نکلم فیہ" یعنی عطاء ثقہ معتبر ہیں ان سے مالک و معمر نے حدیث سنی ہے اور میں نے سنا ہی نہیں کہ بخاری سے پہلے کے حفاظ و نقاد میں سے کسی نے عطاء کے بارے میں کلام کیا ہو۔ حافظ ذہبی نے میزان میں بخاری کا کلام اور ترمذی کا جواب دونوں نقل کیا ہے۔
بہیقی نے عطاء کی نسبت کہا ہے"لیس بالقوی وتکلم فیہ اھل الحدیث" یعنی وہ قوی نہیں ہیں اور محدثین نے ان میں کلام کیا ہے یہ دونوں جرحیں مبہم ہیں اور میں بتا چکا ہوں کہ جرح مبہم مقبول نہیں ہوتی، مولوی عبدالرحمن صاحب مبارک پوری ابکار المنن(صفحہ74) میں لکھتے ہیں "لیس بالقوی ایضا غیر قادح فانہ مجمل یعنی لیس بالقوی" راوی کے حق میں کچھ مضر نہیں ہے اس لئے کہ یہ مبہم جرح ہے۔
شعبہ نے عطاء کی نسبت کہا ہے "کان نسیاً۔" (بھولنے والے تھے) یہ جرح بھی مضر نہیں ہے بھول سے کون خالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ شعبہ نے عطاء سے روایت بھی کی ہے ۔ معلوم ہوا کہ خود ان کے نزدیک بھی ان کی جرح مضر نہیں ہے اور نہ وہ اتنا بھولتے تھے کہ ان کی حدیثوں کو ناقابل اعتبار قرار دے دیا جائے۔
ابن حبان نے ان میں جو کلام کیا ہے حافظ ذہبی نے میزان میں اس کو نقل کر کے یو ں فرمایا ہے"فھذا القول من ابن احبان فیہ نظر[11]؎ " یعنی ابن حبان کے اس کلام میں نظرو اعتراض ہے۔ علاوہ بریں ابن حبان کی سختی حد اعتدال سے بڑھی ہوئی ہے اس لئے ان کی جرحیں محدثین کے نزدیک معتبر نہیں ہیں دیکھو الرفع والکمیل (صفحہ 18،19) اور القول المسدد اور میزان (جلد1صفحہ127)، (جلد2صفحہ85) اور (جلد3صفحہ221) عقیلی نے عطاء کو ضعفاء میں صرف سعید بن المسیب کی حکایت کی وجہ سے شمار کیا ہے وہ حکایت آگے آئے گی اور وہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس حکایت کی وجہ سے عطاء کی تضعیف جائز نہیں ہو سکتی اس کے علاوہ عقیلی سے اس باب میں سند پکڑنا غلط ہے اس لئے کہ محدثین ان کی تضعیف کا اعتبار نہیں کرتے۔ ان کا تو یہ حال ہے کہ انہوں نے امام بخارؒ کے جلیل القدر استاد علی بن المدینی کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر دیا، حافظ ذہبی اس پر نہایت برہم ہوئے اور میزان میں عقیلی کو یوں رد کیا "فمالک عقل یا عقیلی اتدری فیمن تکلم وانما تبعناک فی ذکر فی ھذا النمط لنذب عنھم ولنزیف ماقیل فیھم کانک لا تدری ان کل واحد من ھولاء اوثق منک بطبقات بل واوثق من ثقات کثیر بن لم توردھم فی کتابک فھذا معالا یرتاب فیہ محدث وانما اشتھی ان تعرفنی من ھو الثقۃ الثبت الذی ما غلط ولا انفرد بما لا یتابع [12] ؎" یعنی اے عقیلی تم کو عقل نہیں تم کچھ سمجھتے بھی ہو کہ کس شخص کے بارے میں کلام کر رہے ہو اور ہم جو تمہارے اتباع میں ان کا ذکر کررہے ہیں تو صرف اس لئے کہ ان کی طرف سے جواب دیں ان میں جوکلام ہوا ہے اس کو کمزور ثابت کریں گویا تم کو معلوم ہی نہیں کہ ان میں سے ہر ایک تم سے بدرجہا زیادہ ثقہ ہے بلکہ بہت سے ان ثقات سے بھی زیادہ ثقہ ہے جن کو تم نے اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے یہ ایسی بات ہے جس میں کسی محدث کو شک نہیں ہوسکتا میں تو تم سے صرف اس کی خواہش رکھتا ہوں کہ ذرا تم مجھے کوئی ایسا ثقہ پہنچوادو جس نے کبھی غلطی نہ کی ہو یا کسی چیز کی روایت کرنے میں منفرد ہوتا ہے اور کوئی دوسرا اس کی تائید نہیں کرتا پس اس کی وجہ سے اگر تضعیف کر دی جائے تو دنیا میں کوئی ثقہ نہ بچے گا۔
سعید بن المسیب کی حکایت یہ ہے، کسی نے سعید سے کہا کہ عطاء کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن المسیب نے فلاں حدیث یوں بیان کی سعید نے کہا کذب عطاء یعنی عطاء نے غلط کہا میں نے ان سے یوں نہیں بلکہ یوں بیان کیا ہے آپ خود غورکیجئے کہ اس حکایت کی بناء پر عطاء کی تضعیف کیونکر جائز ہو سکتی ہے ابھی بھی حافظ ذہبی کی زبانی آپ سن چکے ہیں کہ کوئی ثقہ راوی ایسا نہیں ہے جس سے غلطی نہ ہوجاتی ہو ہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سعید بن مسیب کے قول"کذب عطاء" میں کذب بمعنی نسی یا غلط ہے اس لئے کہ اہل مدینہ میں یہ محاورہ بہت شائع وذائع تھا۔[13]؎ نیز سعید بن مسیب جیسے جلیل القدر تابعی اور امام فقہ و حدیث سے نہایت متعبد ہے کہ غلطی و نسیان کا احتمال ہوتے ہوئے کسی عالم کو جھوٹا کہہ دیں۔
اس تفصیل سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ عطاء کے بارے میں کوئی جرح ایسی نہیں ہے جو ان کی ثقاہت وعدالت میں قادح ہو اور یہی وجہ ہے کہ اکابر حدیث وماہرین رجال و ائمہ مسلمین نے ان سے روایت کی ہے بلکہ ان کے شاگردوں میں ایسے حضرات بھی ہیں جس کا کسی سے روایت کر لینا اس کی ثقاہت کی کافی سند ہے جیسے شعبہ ، و مالک اور کے علاوہ امام ابو حنیفہ، معمر سفیان ثوری اما اوزاعی نے بھی ان سے روایت کی ہے اور ماہرین رجال میں سے وہ لوگ جن کی شرطیں بہت سخت ہیں ان لوگوں نے عطاء کی توثیق کی ہے مثلاً اما م نسائی نے ان کو "لا باس بہ" کہا ہے اور ابو حاتم نے "ثقۃ محتج بہ" (یعنی معتبر اور ان سے حجت پکڑنا جائز) کہا ہے۔ ان حضرات کے علاوہ امام احمد اور ابن معین اور عجلی نے کہا ہے ثقۃ اور یعقوب بن شیبہ نے کہا ہے "ثقہ معروف بالفتویٰ والجھاد" (معتبر ہیں فتویٰ اور جہاد میں مشہور ہیں) اور دار قطنی نے کہا "ثقۃ فی نفسہ الا انہ لم یدرک ابن عباس" (بجائے خود ثقہ ہیں مگر انہوں نے ابن عباس کو نہیں پایا۔) اور ترمذی نے کہا "عطاء ثقۃ روی عنہ مالک و معمر ولم اسمع احدا من المتقدمین تکلم فیہ" اور ترمذی نے ان کی بعض احادیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے بھی القول المسدد (صفحہ 45) میں عطاء کی ایک روایت کو قوی کہا ہے۔ بخاری کے سوا جملہ اصحاب صحاح نے ان کی روایتیں لی ہیں اور امام مسلم نے احتجاج بھی کیا ہے، اور ابو داؤد نے ان کی روایت کے مقابلے میں ابوالزبیر کی ایک روایت کو مرجوع وشاذ قرار دیا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حدیث مذکور کی اسناد قوی ہے اور اس حدیث سے احتجاج صحیح ہے اور بعض لوگوں نے اس کی اسناد میں جو کلام کیا ہے نہایت لغو اور اصول محدثین سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔
حدیث سوم: اما م شافعیؒ، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ و ابن حبان و حاکم و دارقطنی وغیرہ نے حضرت رکانہ سے روایت کیا ہے"انہ طلق امرأتہ البتۃ فاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ما اردت قال واحدۃ قال اللہ قال اللہ قال ھو علی ما اردت" یعنی حضرت رکانہ نے اپنی بی بی کو لفظ بتہ کے ساتھ طلاق دی اس کے بعد آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور ﷺ نے پوچھا کہ اس لفظ سے تم نے کیا ارادہ کیا ہے انہوں نے کہا ایک طلاق کا اپ نے کہا بخدا؟ انہوں نے کہا بخدا! آپﷺ نے فرمایا کہ جو تم نے ارادہ کیا وہی ہے، اس حدیث کے دوسرے طریق میں ہے کہ آپﷺ نے ان سے تین بار قسم لی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی واقع ہوجاتی ہیں ورنہ رکانہ سے باربار قسم دے کر یہ پوچھنے کی کیا ضرورت تھی کہ "اللہ ما اردت الا واحدۃ" خدا کی قسم کھا کر کہو کہ ایک کے سوا اور کچھ ارادہ نہیں کیا ہے یہ سوال تو جب ہی درست ہوسکتا ہے جب ایک کا ارادہ کرنے سے ایک اور تین کا ارادہ کرنے سے تین واقع ہوں اور اگر دونوں صورتوں میں ایک ہی طلاق واقع ہتی ہو تو ایک اور تین میں سے ایک کی تعین کرنا بے معنی بات ہوگی "وحاشا جنابہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ذالک" ابو داؤد نے اس حدیث کو ذکر کر کے فرمایا "ھذا اصح من حدیث ابن جریج" (یعنی یہ حدیث ابن جریج کی حدیث سے اصح ہے) ارو دار قطنی نے اس کو ذکر کرکے لکھا ہے "قال ابو داؤد ھذا حدیث صحیح" (یعنی ابو داؤد نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے) اور ابن ماجہ نے (صفحہ 149) میں اس کو ذکر کر کے لکھا ہے "سمعت ابا الحسن علی بن محمد الطنافسی یقول ما اشرف ھذا الحدیث" (یعنی میں نے اپنے استاذ طنافسی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ حدیث کتنی شریف وبہترہے) اور حافظ ابن حجر نے تلخیص (صفحہ 319) میں لکھا ہے:" صححہ ابو داؤد وابن حبان والحاکم" (یعنی اس حدیث کو ابو داؤد اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے) ابو داؤد ابن ماجہ ودارقطنی میں اس حدیث کی مشترک اسناد یو ں ہے"جریر بن حازم عن الزبیر بن سعید عن عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانۃ عن ابیہ عن جدہ" جریر بن حازم سے اصحاب صحاب ستہ نے حجت پکڑی ہے۔[14]؎ زبیر بن سعید کی ابن معین نے توثیق کی ہے، ہاں نسائی نے ان کی تضعیف کی ہے مگر اولاً تو ان کی جرح مبہم ہے۔ دوسرے وہ متعنت (متشدد) ہیں لہذا ان کی تضعیف نامعتبر ہے۔
عبداللہ بن علی بن یزید کی ابن حبان نے توثیق کی ہے (خلاصہ) پس معلوم ہوا کہ اسناد صحیح و قابل احتجاج ہے۔ اس حدیث کی دوسری اسناد یوں ہے"الشافعی حدثنا عمی محمد بن علی بن شافع عن عبداللہ بن علی بن السائب عن نافع بن عجیر بن عبدیزید ان رکانۃ بن عبد یزید طلق الخ[15] ؎ " امام شافعی کی ثقاہت وعدالت میں کلام ہی نہیں اور محمد بن علی بن شافع اور عبداللہ بن علی بن السائب کی امام شافعی نے توثیق کی ہے۔[16]؎ اور نافع بن عجیر کو بغوی وغیرہ نے صحابہ میں شمار کیا ہے اور ابن حبان نے ثقات تابعین میں ذکر کیا ہے پس یہ اسناد بھی بے تامل صحیح و حجت ہے۔ حضرت کانہ کے واقعہ طلاق سے متلق ایک دوسری روایت جو مسند احمد میں ہے اس کی سند ضعیف ومجروح اورروایت مرجوع ہے اس کی تفصیل باب دوم میں ملاحظہ ہو۔
حدیث چہارم: دار قطنی نے بروایت عائشہ صدیقہؓ مرفوعاً ذکر کی اہے"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا طلق الرجل امراتہ ثلاثا فلا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ ویذوق کل واحد منھما عسیلۃ الآخر[17] ؎" یعنی جب کوئی شخص اپنی بی بی کو تین طلاقیں دے دے تو جب تک وہ عورت کسی دوسرے سے نکاح کر کے ہم صحبت نہ ہولے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوسکتی اس حدیث کی اسناد یوں ہے "حدثنا احمد بن علی بن العلاء حدثنا ابو عبیدۃ بن ابی السفرنا ابو اسامۃ عن زائدۃ بن قدامۃ عن علی بن زید عن ام محمد عن عائشہ" بعض لوگوں نے علی بن زید میں کلام کیا ہے مگر وہ مسلم وسنن اربعہ کے رجال میں سے ہیں اور ترمذی نے ان کو صدوق (بہت راست گو) کہا ہے اور ان کی حدیث کی ایک جگہ تصحیح اور دوسری جگہ تحسین کی ہے۔ حافظ ذہبی نے ان کو حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے اور دار قطنی نے کہا ہے کہ وہ متروک نہیں ہیں ہاں کچھ نرمی ان میں ہے۔ بہرحال ان کی حدیث اگر صحیح نہیں تو حسن ضرور ہے اور حدیث حسن بھی حجت ہوسکتی ہے۔
حدیث پنجم: دار قطنی نے روایت کیا ہے کہ حضرت حسن بن علی نے اپنی بی بی عائشہ خشعمیہ کو اس لفظ سے طلاق دی"اذھبی فانت طالق ثلاثا" یعنی تو چلی جا تجھ کو تین طلاق ہے۔ عائشہ چلی گئیں بعد میں حضرت حسن کو معلوم ہوا کہ عائشہ کو جدائی کا بڑا رنج ہے تو رودیئے اور فرمایا "لولاانی سمعت اور حدثنی ابی انہ سمع جدی بقول ایما رجل طلق امراتہ ثلثا مبھمۃ او ثلاثا عند الاقراء لم تحل حتی تنکح زوجا غیرہ لراجعتھا [18]؎ " یعنی اگر میں نے اپنے جد امجد حضورﷺ سے نہ سنا ہوتا یا یوں فرمایا کہ اگر میں نے اپنے والد سے اور انہوں نے میرے جد امجد آنحضرتﷺ سے نہ سنا ہوتا کہ جو شخص اپنی بی بی کو تین مبہم (یعنی بیک لفظ) طلاق دے دے یا تین طہروں میں تین طلاقیں دے تو جب تک وہ عورت دوسرے سے نکاح نہ کرے پہلے کے لئے حلال نہیں ہوسکتی تو میں عائشہ رجعت کرلیتا۔
اس حدیث کی اسناد کو دو راویوں پر بعض حضرات نے کلام کیا ہے۔ ایک سلمۃ بن الفضل دوسرے عمرو بن ابی قیس پر لیکن انصاف یہ ہے کہ ان دونوں راویوں پر کوئی ایسی جرح نہیں کی گئی ہے جس کی وجہ سے ان کو متروک قرار دیا جائے چنانچہ سلمۃ ابن الفضل کی جہاں بعض لوگوں نے تضعیف کی ہے دوسرے لوگوں نے توثیق بھی کی ہے ۔ مثلاً ابن معین نے کہا ہے کہ میں نے خود ان سے حدیثیں لکھی ہیں اور ان سے روایت کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے، ابو حاتم نے کہا ہے"محلہ الصدق" ابن سعد نے کہا ہے "کان ثقۃ صدوقا" اور جرحوں کا یہ حال ہے کہ بعض مبہم ہیں اور کوئی متشدد شخص کی جرح ہے اور کوئی کسی دوسری وجہ سے غیر مضر ہے۔ اور ان سے زیادہ خفیف عمرو بن ابی قیس پر کلام ہے چنانچہ حافظ ابن حجر وغیرہ نے ان کی نسبت لکھا ہے"صدوق لہ اوھام" یعنی راست گو ہیں کچھ وہم بھی ان کو ہوتا ہے اور مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبارک پوری نے ابکار المنن میں تصریح کی ہے کہ "صدوق" کے بعد "لہ اوھام" کہنے سے راوی کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا اور ابو داؤد نے ان کی نسبت "لا باس بہ" کہا ہے اور ابن حبان نے ان کی توثیق کی ہے غایۃ مافی الباب یہ کہ یہ حدیث بھی حسن سے کم نہیں ہے لہذا یہ بھی حجت ہوسکتی ہے خصوصاً جب کہ سنن دار قطنی میں یہ حدیث ایک دوسری اسناد سے بھی مروی ہے جس سے اس کی تائید و متابعت حاصل ہوتی ہے۔
حدیث ششم: دارقطنی میں حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے "قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من طلق فی بدعۃ واحدۃ اوثنتین او ثلاثا الزمناہ بدعتہ" یعنی جو شخص بدعی طریقے پر طلاق دے گا چاہے ایک طلاق (مثلاً بحالت حیض) دے یا دو یا تین طلاق بیک لفظ دے تو ہم اس کی بدعت اس کے ساتھ لازم کردیں گے یعنی ان سب صورتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی۔
اس حدیث کی اسناد میں اسمٰعیل بن امیہ واقع ہوئے ہیں یہ اسمٰعیل بن امیہ دارع بصری ہیں اور ان کو ابن حبان  نے ثقات میں ذکر کیا ہے بعض حضرات نے ان کو اسمٰعیل بن ابی امیہ قرشی یا کوفی سمجھ کر کلام کر دیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ بہرحال یہ حدیث بھی قابل احتجاج ہے اور اس کی موید ایک دوسری حدیث ہے جو سنن دار قطنی میں بروایت علیؓ مروی ہے اس کی اسناد ضعیف ہے لیکن مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبار ک پوری نے القول السدید میں لکھا ہے کہ جو حدیث کسی دوسری حدیث کی تائید کے لئے پیش کی جائے وہ اگر ضعیف بھی ہو تو کچھ حرج نہیں۔
حدیث ہفتم:  دار قطنی و مصنف عبدالرزاق وغیرہ میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے اپنی بی بی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں اس کے لڑکوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ بیان کیا اور پوچھا کہ اب کوئی مخلص ہے یا نہیں حضورﷺ نے فرمایا کہ تمہارا باپ اللہ سے ڈرتا ہوتا تو اللہ اس کے لئے کوئی مخلص نکالتا (جاؤ) اس  کی بی بی تین طلاقوں سے بائن ہوگئی اور نو سو ستانوے طلاقوں کا گناہ تمہارے باپ کی گردن پر رہا۔
اس حدیث کی ایک اسناد یوں ہے "محمد بن عیینۃ عن عبیداللہ الوصافی وصدقۃ ابن ابی عمر ان عن ابراھیم بن عبیداللہ بن عبادۃ بن الصامت عن ابیہ عن جدہ" اس سند پر یہ کلام ہے کہ عبید اللہ و صافی مجروح ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو ان کی بعض حدیثوں کی ترمذی نے تحسین کی ہے دوسرے وہ اس روایت میں منفرد نہیں ہیں بلکہ صدقہ بن ابی عمران نے ان کی متابعت و تائید کی ہے اور صدقہ ثقہ و معتبر راوی ہیں اس سند پر ایک کلام یہ بھی ہے کہ ابراہیم اور ان کے باپ مجہول ہیں ا سکا جواب یہ ہے کہ ابراہیم کو مجہول کہنا اصول حدیث سے ناواقفیت کی دلیل ہے، اصول یہ ہے کہ جس شخص سے دوشخصوں نے روایت کی ہو وہ مجہول نہیں رہتا۔ اور ابراہیم سے وصافی اور صدقہ دو شخصوں نے روایت کی ہے لہذا وہ مجہول نہیں ہے ہاں عبیداللہ بن عبادہ سے صرف ان کے بیٹے روایت کرتے ہیں لیکن اولاً تو صحابہ کی اولاد میں دروغ بیانی رائج نہ تھی[19]؎ ۔ ثانیاً عبیداللہ کی تائید و متابعت داؤد نے کی ہے جیسا کہ حدیث کی دوسری سند سے معلوم ہوگا اس لئے اصطلاحی طور پر عبیداللہ بن عبادہ کا مجہول ہونا مضر نہیں۔
دوسری اسناد اس حدیث کی یوں ہے" عبید اللہ بن الولید الوصافی عن داؤد عن عبادۃ بن الصامت " اس سند کا ایک راوی داؤد معروف نہیں لیکن اس کامجہول ہونا مضر نہیں اس لئے اس سند کو میں نے پہلی اسناد کی تائید و تقویت کے لئے پیش کیا ہے اور پہلے بتا چکا ہوں کہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبارک پوری نے فرمایا ہے کہ شواہد کا ضعیف ہونا مضر نہیں ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ حدیث ضعیف اپنے شواہد ومویدات سے ملکر مقبول و قابل احتجاج ہو سکتی ہے۔[20]؎
حدیث ہشتم: یہ حدیث ابن ماجہ نے سنن میں ذکر کی ہے اور انہوں نے خود اس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع پر استدلال کیا ہے انہوں نے ایک باب کا عنوان یہ رکھا ہے " باب من طلق ثلاثا فی مجلس واحد " (یعنی یہ باب ہے اس شخص کے بارے میں جس نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں) اور اس باب کے ماتحت یہ حدیث ذکر کی ہے۔ " عن عامر الشعبی قال قلت لفاطمۃ بنت قیس حدثینی عن طلاقک قالت طلقنی زوجی ثلاثا وھو خارج الی الیمین فاجاز ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" یعنی شعبی کہتے ہیں میں نے فاطمہ بنت قیس سے کہا کہ مجھ سے اپنے طلاق کا قصہ بیان کیجئے انہوں نے کہا میرے شوہر یمن گئے ہوئے تھے وہیں سے انہوں نے مجھ کو تین طلاقیں بھیج دیں۔ آنحضرت ﷺ نے ان تینوں طلاقوں کے واقع ہوجانے کا فتویٰ دیا۔[21]؎ اس روایت کے علاوہ صحاح و خارج صحاح کی متعدد روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ فاطمہ کو ان کے شوہر نے تین طلاقیں ایک ہی وقت میں دی تھی جن کی تفصیل کی گنجائش اس مختصر میں نہیں ہے۔[22]؎
 آثار صحابہ

اثر ابن عمر ؓ بخاری ومسلم میں مذکور ہے " کان ابن عمر اذا سئل عمن طلق ثلاثا قال لو طلقت مرۃ اومرتین فان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امرنی بھذا فان طلقتھا ثلاثا حرمت علیک حتی تنکح زوجاغیرک" یعنی جب کوئی شخص تین طلاق دے کر حضرت ابن عمر سے فتویٰ پوچھتا تو وہ فرماتے کہ اگر تم نے ایک بار یا دوبار طلاق دی ہوتی (تو رجعت کرسکتے تھے اس لئے کہ) رسول اللہﷺ نے مجھ کو اسی کا حکم کیا تھا لیکن اگر تم نے تین طلاقیں دے دیں ہیں تو وہ تم پر حرام ہوگئی جب تک دوسرے سے نکاح نہ کرے تمہارے لئے حلال نہیں ہوسکتی۔ حضرت ابن عمر سے وقوع ثلاث کا فتویٰ مصنف عبدالرزاق وسنن دار قطنی میں بھی مذکور ہے عبدالرزاق والی روایت جوہر[23]؎(جلد2صفحہ11) میں ہے۔
اثر عبداللہ بن مسعودؓ: موطاء مالک (جلد 2صفحہ 79) میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعودؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے اپنی بی بی کو آٹھ طلاقیں دے دیں آپ نے فرمایا کہ تو لوگ(یعنی صحابہ کرام) کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ میری بی بی بائن ہوگئی، ابن مسعود نے فرمایا وہ لوگ سچ کہتے ہیں حکم شرع ایسا ہی ہے جیسا وہ کہتے ہیں اور سنن سعید بن منصور میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بی بی کو ننانوے طلاقیں دے ڈالیں، اس نے ابن مسعود سے مسئلہ پوچھا تو فرمایا " بانت منک بثلاث وسائر ھن عدوان" (ترجمہ) وہ تین طلاقوں سے بائن ہوئی اور باقی طلاقیں تعدی اور زیادتی ہیں۔ اس اثر کی سند یہ ہے " سعید قال نا ابو معاویۃ قال نا الاعمش عن ابراھیم عن علقمۃ" (باب التعدی فی الطلاق)[24] ؎
اثر عبداللہ بن عباسؓ: موطاء مالک (جلد2صفحہ79) شرح معانی الآثار (جلد2صفحہ33) دار قطنی(صفحہ43) میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بی بی کو یکبارگی سو طلاقیں دے ڈالیں حضرت ابن عباسؓ سے مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا تین طلاقوں سے اس کی بی بی اس پر حرام ہوجائے گی اور باقی طلاقوں کا بارگناہ اس پر ہوگا جن کے ذریعہ اس نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ ٹھٹا کیا ہے۔[25]؎ حضرت ابن عباسؓ سے وقوع ثلاث کا فتویٰ مندرجہ ذیل تابعیوں نے روایت کیا ہے سعید بن جبیر، مجاہر، مالک بن الحارث، محمد بن ایاس البکیر، ابو سلمہ، عطاء اور عمروبن دینار۔
اثر عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ: موطااور شرح معانی الآثار میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا کہ کوئی اپنی بی بی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دے تو کیاحکم ہے؟ حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے فرمایا کہ اس کی عورت ایک طلاق سے بائنہ ہوجائے گی اور تین سے ایسی حرام ہوجائے گی کہ جب تک دوسرا شوہر نہ کرے گی حلال نہ ہوگی۔سنن سعید بن منصورمیں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص کے ساتھ حضرت ابو ہریرہؓ و حضرت ابن عباسؓ کا یہ فتویٰ مروی ہے کہ جو غیر مدخولہ کو تین طلاقیں دے دے، اس کے لئے وہ اس وقت تک حلال نہیں ہوسکتی جب  تک کسی دوسرے سے نکاح نہ کر لے۔
اثر حضرت فاروق اعظم عمر بن الخطاب ؓ: شرح معانی الآثار میں ہے کہ حضرت عمر  ؓ نے فرمایا کہ جو شخص غیر مدخولہ عورت کو تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ دوسرے سے نکاح نہ کرے، دار قطنی میں بھی ایک اثر فاروق اعظمؓ کا ہے جس سے مدخولہ وغیر مدخولہ کا اس حکم میں یکساں ہونا ثابت ہے۔
اثرحضرت انسؓ:شرح معانی الآثار میں ہے کہ حضرت انس ؓ مطلقہ ثلاث کی نسبت یہ فتویٰ دیتے تھے کہ وہ جب تک دوسرے کسی سے نکاح نہ کرے پہلے کے لئے حلال نہیں ہوسکتی۔
اثر حضرت ابوہریرہؓ: موطا اور شرح معانی الآثارمیں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس و ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بی بی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دیں ہیں حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ ایک طلاق اس کو بائنہ کرنے کے لئے کافی ہے اور تین سے تو ایسی حرام ہوجائے گی کہ جب تک دوسرا نکاح نہ کرے پہلے کے لئے حلال نہیں ہوسکتی۔
یہ آٹھ حدیثیں اور سات صحابہ کرام کے مبارک فتوے میں نے پیش کئے جن سے مجلس واحد کی تین طلاقوں کا وقوع ثابت ہوتا ہے ان کے علاوہ اور دلائل بھی پیش کئے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عثمان ؓ وحضرت علیؓ (کے فتوی ٰ فتح القدیر میں مذکورہیں۔[26]؎ اور حضرت علیؓ و عائشہؓ کا یہی مذہب صاحب سبل السلام اہل حدیث نے ذکر کیا ہے۔ ایک طالب ہدایت کے لئے میں کافی سے زیادہ دلائل  ذکر کردیئے ہیں۔ باقی معاندے کے لئے تو ایک دفتر بھی ناکافی ہوگا۔ پندرہ دلیلیں [27]؎آپ نے ملاحظہ کیں اب سولہویں دلیل ذکر کر کے اس کو اس باب کا مسک الختام قرار دیتا ہوں۔

وقوع ثلاث پر صحابہ کرام کا اجماع
شرح معانی الآثار (جلد2صفحہ33)، فتح الباری(جلد9صفحہ293)، اعلام الموقعین(جلد2صفحہ27) وغیرہ میں مذکور ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں صحابہ کرام کے مجمع میں فرمایا کہ لوگوں کے واسطے طلاق کے معاملہ میں بڑی گنجائش اور خاصی مہلت تھی کہ ایک طہر میں ایک طلاق دیتے اس صورت میں ان کے لئے رجعت کا کافی موقع ملتا لیکن لوگوں نے جلد بازی کی اور ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے لگے لہذا ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور رجعت جائز نہ ہوگی۔ صحابہ کرام میں سے کسی نے حضرت عمرؓ کی مخالفت نہ کی بلکہ سب نے موافقت کی چنانچہ امام طحاوی لکھتے ہیں۔
            " فخاطب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بذالک الناس جمیعا وفیھم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ   وسلم ورضی عنھم الذین قد علمواماتقدم من ذالک فی زمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلم ینکرہ   علیہ منھم منکر ولم یدفعہ دافع"
            ترجمہ:حضرت عمرؓ نے اس کے ساتھ سب لوگوں کو خطاب کیا ان میں وہ صحابہ کرام بھی تھے جو اس بات سے واقف تھے کہ مطلقہ ثلاث کا عہد نبوی میں کیا حکم تھا پھر بھی ان میں سے کسی نے انکار نہ کیا اور حضرت عمرؓ کے ارشاد کو رد نہیں کیا۔"
اور حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں:
            " فالراجع فی الموضعین تحریم المنعۃ ایقاع الثلاث للاجماع الذی انعقد فی عھد عمر علی ذلک ولم    یحفظ ان احدا فی عھدہ خالفہ فی واحدۃ منھما وقد دل اجماعھم علی وجود ناسخ وان کان خفی عن بعضھم قبل ذلک حتی ظھر لجمیعھم فی عھد عمر فالمخالف بعد ھذا الاجماع منابذلہ والجمھور علی عدم اعتبار من احدث الاختلاف بعد الاتفاق "
            ترجمہ:"پس راجح دونوں مقام میں (یعنی بحث متعہ اور طلاق ثلاث میں) متعہ کی حرمت اور تین طلاقوں کا وقوع ہے اس اجماع کی وجہ سے جو حضرت عمرؓ کے زمانے میں منعقد ہوا اور کسی کو یاد نہیں کہ ان میں سے کسی مسئلہ میں کسی نے   ان کے زمانے میں مخالفت کی ہو صحابہ کا اجماع دلالت کرتا ہے کہ ضرور کوئی ناسخ تھا جو اس سے پہلے اگرچہ بعض لوگوں پر مخفی رہا ہو لیکن حضرت عمر ؓ کے زمانے میں سب پر ظاہر ہوگیا پس اس اجماع کے بعد جو مخالفت کرے وہ اجماع کا مخالف ہے اور جمہور اتفاق کے بعد اختلاف پیدا کرنے والے کا قطعاً اعتبار نہیں کرتے۔"
اور حافظ ابن القیم اعلام الموقعین میں  لکھتے ہیں:
            " وعلم الصحابۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھم حسن سیاسۃ عمر وتادیبہ لرعیتہ فی ذلک فوافقوہ علی ما الزم بہ وصر حوالمن استفتاھم بذالک"
            ترجمہ:" اور صحابہ نے حضرت عمر ؓ کی خوبی سیاست وتادیب رعیت جان لی پس جس چیز کو انہوں نے لازم کیا اس میں انہوں نے حضرت عمرؓ کی موافقت کی اور جس نے صحابہ سے فتویٰ پوچھا اس کو بصراحت یہی بتایا۔"
پھر لکھتے ہیں:
            " فالصحابۃ رضی اللہ تالٰی عنھم مقدمھم عمر بن الخطاب لما رأوا الناس استھانو ا بامر الطلاق (الی) فالزموھم بما التزموہ وامضوا علیھم ما اختاروہ لا نفسھم فلما رکب الناس الا حموقۃ (الی)    اجری اللہ علی لسان الخلیفۃ الراشد والصحابۃ معہ شرعاً وقدراً الزامھم مذلک وانفقادہ علیھم "
            ترجمہ:"پس جب صحابہ نے اور ان میں سے سب سے آگے حضرت عمر تھے جب دیکھا کہ لوگوں نے طلاق کے معاملہ میں اسخفاف کیا تو طلاق دینے والوں پر وہ چیز لازم کردی گئی جس کا انہوں نے التزام کیا اور جس چیز کو انہوں نے اپنے لئے پسند کیا پس جب لوگ حماقت کے مرتکب ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے خلفہ راشد اور ان کے ساتھ صحابہ کرام کی   زبانوں پر ازروئے شرع وقدر اس کے لازم ونافذ ہونے کو جاری کردیا۔"
اور علامہ ابن تیمیہ کے جد امجد ابوالبرکات عبدالسلام مثقی الاخبار(صفحہ 237) میں فرماتے ہیں:
            " و ھذا کلہ یدل علی اجماعھم علی صحۃ وقوع الثلث بالکلمۃ الواحدۃ "
            ترجمہ:"اور یہ سب دلالت کرتا ہے کہ تین طلاق بیک لفظ کے واقع ہوجانے پر صحابہ کا اجماع ہوا۔"
باب دوم
جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کی رجعی قرار دیتے ہیں وہ دلیل میں دو حدیثیں ذکر کرتے ہیں ان دونوں حدیثوں کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ہیں، میں چاہتا ہوں کہ مخالفین کی ان دلیلوں کا حال بھی ظاہر کردوں تاکہ مسئلہ بالکل صاف ہوجائے۔
پہلی حدیث مسلم شریف کے حوالے سے نقل کی جاتی ہے اس حدیث کا پورا مضمون یہ ہے کہ ابو الصہباء نے حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عہد نبوی اور عہد صدیقی میں اور عہد فاروقی کے ابتدا میں تین طلاق ایک تھی حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ ہاں لیکن جب لوگوں نے بکثرت طلاق دینا شروع کی تو حضرت عمر ؓ نے تینوں کو نافذ کردیا۔
جواب اس کا یہ ہے کہ حدیث قابل استدلال نہیں ہے اولاً اس لئے کہ یہ روایت وہم وغلط ہے۔ چنانچہ بڑے جلیل القدر حافظ و محدث ابن عبدالبر نے فرمایا " ھذہ الروایۃ وھم وغلط " یعنی یہ روایت وہم و غلط ہے[28]؎ ثانیاً یہ روایت شاکر و منکر ہے، چنانچہ امام احمد بن حنبل اور بہیقی نے یہی فرمایا کہ ابن عباس ؓ کے جملہ شاگرد اس کے خلاف روایت کرتے ہیں۔[29]؎
ثالثاً علامہ ابن العربی مالکی شارح ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی صحت میں کلام ہے پس وہ اجماع پر کیسے ترجیح پاسکتی ہے۔[30]؎
رابعاً امام شامعی ونودی وغیرہما نے فرمیا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے۔[31]؎
خامساً، اس روایت کا مدار طاؤس پر ہے اور ان کی نسبت علامہ ابو جعفر الخاس نے کتاب الناسخ والمنسوخ میں لکھا ہے کہ طاؤس اگرچہ مرد صالح ہیں مگر ابن عباسؓ سے ان کی کئی روایتیں منکر و نامقبول ہیں۔ سادساً روایت کا مضمون غور سے پڑھئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے خود اس کا جواب دے دیا ہے کہ کبھی کسی وجہ سے ایسا ہوتا تھا لیکن حضرت عمر کے زمانے میں اس کے خلاف پر اجماع ہوگیا لہذا اب تینوں طلاقوں کے بعد رجعت جائز نہیں ہے۔ سابعاً علامہ قرطبی نے فرمایا ہے کہ یہ روایت مضطرب ہے۔[32]؎
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس روایت کو نقل کر کے اس کے آٹھ جواب دیئے ہیں ان میں سے چار میں نے نقل کئے ہیں بقیہ چاروں وہیں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔ پھر بہت زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ طاؤس نے حضرت ابن عباسؓ سے یہ روایت نقل کیا ہے اور خود ابن عباسؓ نے اس کے خلاف فتوے دیئے ہیں۔ میں نے ان کے فتوے کا ذکر پہلے کیا ہے ان میں سے بعض کے نام بھی بتائے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہ روایت کسی راوی کا وہم ہے جیسا کہ ابن عبدالبر کا خیال ہے یا پھر منسوخ ہے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ فتوائے نبوی کا علم رکھتے ہوئے اس کے خلاف فتویٰ دے دیں پھر اس بڑھ کر یہ کہ ابو الصہباء (جس کی شخصیت بالکل مجہول ہے اور بالکل یقینی ہے کہ وہ صحابی نہیں ہے اس) کو تو معلوم تھا کہ عہد نبوی وعہد صدیقی میں طلاق ثلث ایک تھی لیکن صحابہ کا جم غفیر اس حکم سے واقف نہ تھا ورنہ کیا وجہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے  تینوں کو نافذ اور اس کا اعلان فرمایا تو کسی صحابی نے نہ ٹوکا۔ کسی نے مخالفت نہ کی کسی نے نہ بتایا کہ عہد نبوی و عہد صدیقی کے خلاف ہے اور اگر کسی نے مخالفت کی ہوتو کوئی صاحب ہمت کر کے ذرا ان کا نام لیں اور ثابت تو کریں۔
دوسری حدیث مسند احمد کے حوالے سے ذکر کی جاتی ہے ، اس حدیث کا مضمون یہ ہے کہ حضرت رکانہ اپنی بی بی کو تین طلاق دے کر بہت پچھتائے آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ تم نے کیسی طلاق دی ہے انہوں نے کہا تین۔ آپ نے پوچھا کہ ایک جلسے میں؟ کہاں ہاں! آپ نے فرمایا کہ وہ ایک ہی ہے اگر تمہارا جی چاہے تو رجعت کر لو، کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث حسن و صحیح دونوں طریق سے مروی ہے مگر درحقیقت یہ مغالطہ ہے آپ کو یاد ہوگا میں حضرت رکانہ کا واقعہ طلاق نہایت صحیح طریقے سے بیان کر چکا ہوں اور یاد ہوگا کہ حضرت رکانہ نے تین طلاق نہیں دی تھی بلکہ لفظ بتہ کے ساتھ طلاق دی تھی، اور ذکر کر چکا ہوں کہ پانچ زبردست محدثوں نے میری ذکر کی ہوئی حدیث کی تصحیح کی ہے۔ پس آپ خود سمجھئے کہ مسند احمد والی حدیث کیسے صحیح یا حسن ہوسکتی ہے، جب رکانہ کا لفظ بتہ کے ساتھ طلاق دینا محدثین کے نزدیک صحیح واقعہ ہے تو پھر اسی واقعہ میں تین طلاق کا ہونا کون صحیح کہہ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی محدث نے مسند احمد والی حدیث کی تصحیح یا تحسین نہیں کی ہے بلکہ محدثین نے اس کو حد درجہ کمزور بتایا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر نے تلخیص میں اس حدیث کو ذکر کرکے فرمایا ہے "وھو معلول ایضا" یعنی مسند احمد والی حدیث بھی بہت مجروح [33]؎   و ضعیف ہے[34]؎ اور حافظ ذہبی نے بھی اس کو داؤد بن الحصین کے مناکیر میں شمار کیا ہے پس اس حالت میں اگر اس کی اسناد حسن یا صحیح بھی ہو تو استدلال نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اسناد کی صحت استدلال کی صحت کو مستلزم نہیں ہے۔
چونکہ اس مقام پر بعض اجلہ علماء نے بھی غلطی کی ہے اس لئے تھوڑی تفصیل مناسب ہوگی۔ بات یہ ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی حدیث کی اسناد بہت ٹھیک ہوتی ہے لیکن اس کے مضمون میں کوئی ایسی باریک علت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ نامقبول ہوجاتی ہے ایسی حدیث کو اصطلاح میں معلول کہتے ہیں لہذا اسناد کے رجال کے ساتھ ایک محدث کی نظر اس پر بھی ہونی چاہئے کہ مضمون حدیث میں کوئی علت خفیہ تو نہیں ہے لیکن نہ ہر شخص کو یہ سلیقہ ہوتا ہے نہ ہر شخص اس کا لحاظ ہی کرتا ہے۔ یہی حال مسند احمد کی حدیث کا ہے کہ علامہ ابن القیم نے صرف اس کی اسناد دیکھی اور یہ دیکھا کہ یہی سند ایک دوسری حدیث کی بھی ہےاور اس جگہ اس سند کو امام احمد نے صحیح اور ترمذی نے حسن کہا ہے لہذا یہ سند بھی صحیح ہے اور جب سند صحیح ہے تو یہ حدیث حجت ہے لیکن علامہ ابن القیم نے یہ خیال نہ کیا کہ صرف اسناد کے صحیح ہونے سے کام نہ چلے گا بلکہ متن کا بھی علت سے خالی ہونا ضروری ہے اور یہ بھی نہ سوچا کہ جہاں پر اس اسناد کو امام احمد نےصحیح کہا ہے، وہاں متن میں کوئی خرابی نہ ہوگی اس لئے اس حدیث کو قابل عمل کہا ہے تو کچھ ضرور نہیں کہ ہر حدیث جو اس اسناد سے مروی ہو قابل عمل ہوجائے یہ اصول حدیث کا ایسا بدیہی اور مشہور مسئلہ ہے کہ اس کے لئے میں کسی خاص حوالہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا البتہ مولوی عبدالرحمٰن صاحب مبار ک پوری کی بعض تصریحات پیش کرتا ہوں جن سے ثابت ہوجائے گا کہ اسناد کی صحت مضمون کی صحت کو مسلتزم نہیں ہے فرماتے ہیں"لا یلزم من ثقۃ الرجال صحۃ الحدیث حتی ینتفی منہ الشذوذ والعلۃ  [35]؎" یعنی رجال اسناد کے معتبر ہونے سے حدیث کی صحت لازم نہیں آتی  جب تک کہ حدیث سے شذوذوعلت کی نفی نہ ہو اور (صفحہ 94) میں لکھتے ہیں"لا یلزم من کون رجالہ رجال الصحیح صحتہ" یعنی اس کے رجال کے رجال صحیح ہونے سے حدیث کی صحت لازم نہیں آتی اور مقدمہ ابن الصلاح میں ہے"قد یقال ھذا صحیح الاسناد ولا یصح الحدیث لکونہ شاذ او معللا" یعنی کبھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے باوجودیکہ خود بوجہ شاذ یا معلل ہونے کے صحیح نہیں ہوتی۔
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ صرف اسناد کی صحت استدلال کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ متن کا بھی علت سے خالی ہونا ضروری ہے پس اگر اس حدیث کی اسناد صحیح بھی ہو تو چونکہ حافظ ابن حجر نے اس کو معلول کہا ہے اس لئے اس سے استدلال جائز نہیں ہوسکتا۔
یہ سب اس وقت ہے جب کہ حدیث کی اسناد کو صحیح یا حسن تسلیم کر لیا جائے لیکن ابھی اسی میں بہت گفتگو ہے کہ اسناد بھی صحیح ہے یا نہیں رجال اسناد میں محمد بن اسحٰق واقع ہیں ان میں بہت زیادہ کلام ہے اور محدثین نے نہایت سخت سخت جرحیں ان پر کی ہیں حافظ ذہبی نے ان کی جرح وتعدیل کے اقوال ذکر کرکے اپنا فیصلہ یہ لکھا ہے کہ ان کے حافظہ میں کچھ خرابی ضرورہے، اور یہ کہ جس چیز کی روایت کرنے میں وہ تنہا ہوں وہ منکر ہے، دوسرے راوی اس اسناد کے داؤد بن الحصین ہیں ان میں بھی بہت زیادہ کلام ہے اور محدثین کی ان پر مختلف جرحیں  ہیں اگر ان سب جرحوں سے قطع نظر بھی کرلیا جائے تو کم از کم اتنا ضرور ماننا پڑے گا کہ ان کی وہ روایتیں جو عکرمہ سے لاتے ہیں منکر ہوتی ہیں امام بخاری کے استاد علی بن المدینی نے فرمایا ہے"ما رواہ عن عکرمۃ فمنکر" یعنی انہوں نے عکرمہ سے جو روایتیں کی ہیں وہ منکر ہیں اور امام ابو داؤد صاحب سنن کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ ان کی اور حدیثیں تو ٹھیک ہیں لیکن عکرمہ سے جو روایتیں لاتے ہیں وہ منکر ہوتی ہیں۔[36]؎ اور مسند احمد والی حدیث داؤد نے عکرمہ ہی سے سنی اور بیان کی ہے لہذا امام بخاری کے استاد اور ابو داؤد کے فیصلہ کے مطابق بھی یہ منکر ہے۔
اس کے بعد سنئے کہ حضرت رکانہ کے واقعہ طلاق کے متعلق دو روایٹیں کتابوں میں ملتی ہیں ایک روایت خود حضرت رکانہ سے مروی ہے جو باب اول میں آچکی ہے دوسری روایت حضرت ابن عباسؓ سے اور وہی اس وقت زیر بحث ہے۔ حضرت  رکانہ کی روایت کے جملہ طریقوں میں یہ مذکور ہے کہ انہوں نے لفظ بتہٗ سے طلاق دی اور حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں یہ ذکر ہے کہ رکانہ نے تین طلاقیں دیں ان دونوں مختلف و متضاد باتوں میں اجلہ محدثین کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے لفظ بتہّ سے طلاق دی چنانچہ امام ترمذی یا بخاری نے فرمایا کہ "اصحھا انہ طلقھا البتۃ وان الثلاث ذکرت فیہ علی المعنی" یعنی صحیح تر بات یہ ہے کہ رکانہ نے لفظ بتہّ سے طلاق دی اور تین کا ذکر روایت بالمعنی ہے اس کو خود ابن القیم نے زاد المعاد میں اور مولوی شمس الحق صاحب اہل حدیث نے تعلیق مغنی میں ذکر کیا ہے اور امام ابو داؤد نے سنن میں دو جگہ اپنا یہ فیصلہ لکھا ہے کہ اس واقعہ میں اصح بات یہی ہے کہ رکانہ نے لفظ بتہّ سے طلاق دی۔[37]؎
اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں مسند احمد کی یہ حدیث ذکر کر کے ابو داؤد کا کلام نقل کیا ہے اور اس کی موافقت و تائید کی ہے ان کے الفاظ یہ ہیں "ان اباداؤد رجح ان رکانۃ انما طلق امراتہ البتۃ کما اخرجہ ھو من طریق اٰل بیتہ و ھو تعلیل قوی" یعنی ابوداؤد نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس کے سوا کوئی اور بات نہیں کہ رکانہ نے اپنی بی بی کو لفظ بتہّ سے طلاق دی جیسا کہ انہوں نے خود رکانہ کے اہلِ بیت سے روایت کی ہے اور یہ قوی تعلیل ہے۔[38]؎
اور علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے"اثبت ما روی فی قصۃ رکانۃ انہ طلقھا البتۃ لا ثلاثا" یعنی سب سے زیادہ صحیح و ثابت روایت رکانہ کے قصے میں یہ ہے کہ انہوں نے لفظ"بتۃ" سے طلاق دی ، اور حافظ ابن حجر نے مسند احمد کی یہی روایت ذکر کر کے بلوغ المرام میں لکھا ہے "وقد روی ابو داؤد من وجہ اخر احسن من ان رکانۃ طلق امراتہ سھیمۃ البتۃ" یعنی ابو داؤد نے ایک دوسرے سے جو مسند احمد کے طریقہ سے بہتر ہے روایت کیا  ہے کہ رکانہ نے اپنی بی بی سہیمہ کو لفظ "بتۃ" سے طلاق دی اور یہی وجہ ہے کہ ابو داؤد ابن حبان، حاکم، دارقطنی اور طنافسی نے "بتۃ" والی حدیث کی تصحیح کی ہے اور حدث مسند کی کسی محدث نے تصحیح نہیں کی ہاں صرف ابو ایعلی کا نام لیا جاتا ہے کہ انہوں نے تصحیح کی ہے لیکن یہ نقل کچھ مفید نہیں ہے تاوقتیکہ یہ نہ ثابت ہو کہ ابو یعلی نے صرف اسناد کی نہیں بلککہ متن کی بھی تصحیح کی ہے۔"ودونہ خرط القتاد"

باب سوم
چونکہ مخالفین کے پاس دلائل نہیں ہیں اور وہ خود اپنے مسلک کی کمزوری محسوس کرتے ہیں اس لئے اس پر پردہ ڈالنے کے لئے غلط بیانیوں سے کام لیتے ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان غلط بیانیوں کو بھی ظاہر کردوں تاکہ ناواقف حضرات فریب میں نہ آئیں۔
پہلی غلط بیانی یہ ہے کہ اپنے مسلک کی قوت ظاہر کرنے کے لئے کہہ دیا جاتا ہے کہ حضرت علی و ابن مسعود عبدالرحمٰن بن عوف و ابو موسیٰ اشعری و زبیر رضی اللہ عنہا اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کرام یہی فرماتے ہیں (یعنی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک کہتے ہیں) مجھے نہایت افسوس ہے کہ ایسی صریح غلط بیانی کی جرأت لوگوں کو کیوں کر ہوئی جب کہ مخالفین کے امام مقبول ومتبوع علامہ ابن القیم نے اغاثۃ اللہفان میں نہایت صفائی کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کے سوا اور کسی صحابی سے اس قول کی نقل صحیح ہم کو معلوم نہیں ہوئی اسی وجہ سے ہم نے اس کو اختلاف کی وجہوں میں شمار نہیں کیا۔[39]؎ ناچیز کہتا ہے کہ ابن عباسؓ سے بھی اس قول کی نقل صحیح نہیں ہے جیسا کہ عنقریب معلوم ہوجائے گا لہذا ان کا استثناء بھی علامہ کا تخیل ہی تخیل ہے۔ بہر حال یہاں یہ بحث نہیں ہے مجھ کو تو یہاں یہ دکھانا ہے کہ مخالفین جس کے بل بوتے پر اکڑتے پھرے ہیں وہ خود ہی لکھ رہا ہے کہ نہ علی ؓ سے اس کی نقل صحیح معلوم ہوسکی نہ ابن مسعودؓ سے اور ابن عوفؓ سے نہ ابو موسیٰؓ سے اور نہ زبیر ؓ سے نہ جابرؓ سے نہ کسی دوسرے صحابی سے مخالفین نے صرف ان ناموں پر بس نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ دیگر بڑے بڑے صحابہ کی  طرف بھی نسبت کر دی اور جب غلط بیانی ہی پر اتر آئے تھے تو اسی پر بس کیوں کرتے انہوں نے اس کے لئے فتح الباری کا حوالہ بھی دے ڈالا اور اس کا کچھ خیال نہ کیا کہ ان کو خدا کے پاس جانا ہے اور ہر بات کا جواب دینا ہے آخر اس غلط بیانی کا کیا جواب ہوگا؟ خیر اس کو وہ جانیں کہ خدا کو کیا جواب دیں گے لیکن مجھ کو یہ بتائیں کہ میرے ان سوالات کا ان کے پاس کیا جواب ہے (1) کیا آپ بہ حلف شرعی کہہ سکتے ہیں کہ ابو موسیٰ اشعریؓ کا یہی مذہب فتح الباری میں لکھا ہے؟ (2) کیا آپ بہ حلف شرعی کہہ سکتے ہیں کہ جابرؓ کا یہی مذہب فتح الباری میں بتایا ہے؟ (3) کیا آپ کسی ضعیف سے ضعیف اسناد سے حضرات کا مذکورہ بالا کا قول یا فتویٰ پیش کر سکتے ہیں؟ (4) کیا آپ کسی نا معتبر سے نامعتبر کتاب میں یہ لکھا ہوا دکھا سکتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت جابرؓ صحابی کا یہی مذہب تھا؟(5) کیا آپ بحلف شرعی کہہ سکتے ہیں کہ حافظ ابن حجرؒ یا کسی محدث نے کسی حدیث و آثار کی کتاب کے حوالے سے ان حضرات کا یہ فتویٰ نقل کیا ہے اگر جواب اثبات میں ہے تو اس محدث کا نام لکھئے اور اس کا محدث ہونا ثابت کیجئے پھر حدیث و آثارکی اس کتاب کا نام لیجئے جس سے فتویٰ نقل کیا گیا ہے؟ آخریہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم سے تو ہر ہر بات کی سند مانگی جاتی ہے اور جب اپنی باری آتی ہے تو سند پیش کرنے کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔
دوسری غلط بیانی یہ ہے کہ بڑے وثوق ویقین سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کا یہی مذہب ہے، جس کا صاف و صریح مطلب یہ ہے کہ ابن عباسؓ کا اس مسئلہ میں اس کے سوا کوئی دوسرا فتویٰ نہیں ہے، حالانکہ امام المخالفین علامہ ابن القیمؒ نے بھی باوجود اس تشدد و تصلب کے جوان کو اس مسئلہ میں تھا ابن عباس ؓ کے اس فتویٰ کا(کہ ایک مجلس کی تین طلاقین تین ہیں اور ان کے بعد رجعت جائز نہیں ہے) انکار نہیں کیا بلکہ اس فتویٰ کے بے شک و شبہہ ثابت ہونے کا صاف اقرار کیا ، لکھتے ہیں "فقد صح بلاشک عن ابن مسعود و علی ابن عباس الالزام بالثلاث ان اوقعھا جملۃ" یعنی بہ تحقیق حضرت ابن مسعود و علی و ابن عباس رضی اللہ عنہم سے اکٹھی تین طلاقوں کا لازم کرنا بے شک و شبہہ ثابت ہے۔[40]؎ اور ایسا ہی اعلام الموقعین میں بھی ہے اس سےت ظاہر ہوگیا کہ حضرت ابن عباس ؓ کے فتوائے ایقاع ثلاث کے انکار کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے اب یہ دیکھنا ہے کہ ابن عباسؓ سے اس کے خلاف بھی کوئی فتویٰ ثابت ہے یا نہیں تو ابن القیم کی رائے یہ ہے کہ ثابت ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں اور وہ دوسرے فتویٰ کے ثبوت میں یہ روایت پیش کرتے ہیں "حسن بن مسلم عن ابن شھاب ان ابن عباس قال اذا طلق الرجل امراتہ ثلاثا ولم یجمع کن ثلاثا قال فاخبرت طاؤسا فقال اشھد ماکان ابن عباس یراھن الاواحدۃ" یعنی حسن بن مسلم ابن شہاب سے ناقل ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جب مرد اپنی بی بی کو طلاق دے اور ان تینوں کو ایک لفظ میں جمع نہ کرے (بلکہ یوں کہے کہ تجھ کو طلاق ہے تجھ کو طلاق ہے، تجھ کو طلاق ہے) تو تین طلاقیں ہوں گی۔ حسن بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے اس کا ذکر طاؤس سے کیا تو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ابن عباسؓ ان کو ایک ہی سمجھتے تھے۔
لیکن انصاف یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے ایقاع ثلاث کے خلاف کوئی فتویٰ ثابت نہیں ہے۔ رہی طاؤس کی روایت کا تو اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ ابو جعفر بن النحاص نے اس کو منکر کہا ہے فرماتے ہیں :" وطاؤس وان کان رجلا صالحا فعندہ عن ابن عباس مناکیر یخالف علیھا ولا یقبلھا اھل العلم منھا انہ روی عن ابن عباس انہ قال فی رجل قال لا مراتہ انت طلاق ثلاثا انما تلزمہ واحدۃ ولا یعرف ھذا عن ابن عباس الا من روایتہ والصحیح عنہ و عن علی ابن ابی طالب انھا ثلاث" یعنی طاؤس اگرچہ مرد صالح ہیں لیکن حضرت ابن عباسؓ سے ان کی کئی روایتیں منکر ہیں جن میں ان سے مخالفت کی جاتی ہے اور اہل علم ان کو قبول نہیں کرتے ، انہیں منکر روایتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کر تے ہیں کہ انہوں نے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی بی بی کو یو کہا "انت طالق ثلاثا" فرمایا کہ بس اس پر ایک طلاق لازم ہوگی اور یہ فتویٰ ابن عباسؓ کا بجز طاؤس کے اور کسی کی روایت سے معلوم نہیں ہوتا بلکہ ابن عباسؓ اور حضرت علی ؓ کی صحیح روایت یہ ہے کہ تین طلاقیں لازم ہوں گی اور امام احمد بن حنبلؒ نے حدیث ابی الصہباء کا جو جواب دیا ہے اس سے بھی ابن النحاس کے کلام کی تایہد ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں"کل اصحاب ابن عباس رووا عنہ خلاف ما قال طاؤس [41]؎" یعنی ابن عباسؓ کے شاگردوں نے طاؤس کے خلاف روایت کی ہے۔
تیسری غلط بیانی یہ کی کہ کہا جاتا ہے، امام ابو حنیفہ سے اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں ایک وہی جو مشہور ہے دوسری یہ کہ مجلس کی تین طلاق ایک رجعی ہوتی ہے حالانکہ فقہ حنفی کی کسی کتاب میں اس دوسری روایت کا کوئی نشان نہیں ہے اور نہ صرف امام اعظم بلکہ ان کے تلامذہ میں سے بھی کسی کا یہ مسلک نہیں ہے۔ اصلیت یہ ہے کہ علماء حنفیہ میں ایک بزرگ محمد بن مقاتل رازی ہیں بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ تین طلاق کو ایک کہتے تھے، مخالفین اسی کو لے اڑے اور کہنے لگے کہ امام صاحب سے اس مسئلہ میں دوروایتیں ہیں حالنکہ قول مذکور محمد بن مقاتل کی ذاتی رائے ہے نہ یہ کہ وہ اس کو امام صاحب سے نقل کرتے ہیں۔ مخالفین کو معلوم ہونا چاہئے کہ مذہب امام یا روایت امام وہی چیز ہوسکتی ہے جو امام سے منقول ہو۔ کسی حنفی عالم کی ذاتی رائے کو امام کا مذہب یا امام کی روایت کہنا جھوٹ ہے اس کے بعد یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ محمد بن مقاتل امام صاحب کے شاگرد نہیں ہیں بلکہ ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں لہذا وہ بلا واسطہ امام صاحب سے کوئی چیز نقل نہیں کرسکتے پس یہ دوسرا جھوٹ ہے کہ محمد بن مقاتل نے اس قول کو امام صاحب سے نقل کیا ہے اور اس کے لئے اغاثۃ اللہفان کا حوالہ دینا تیسرا جھوٹ ہے اغا ثۃ میں ہرگز مذکور نہیں ہے کہ محمد بن مقاتل نے امام سے نقل کیا ہے بلکہ اس میں صرف اتنا ہے کہ مازری نے اس کو محمد بن مقاتل سے نقل کیا ہے جو پیروان امام ابو حنیفہ میں سے ہیں اس سے صاف دوسری جگہ لکھا ہے۔
            "الوجہ الثانی عشرانہ مذھب مقاتل الرازی حکاہ عنہ المازری[42]؎" یعنی بارہویں وجہ یہ ہے کہ وہ مقاتل رازی کا مذہب ہے اس کو مازری نے ان سے نقل کیا ہے۔
اسی طرح بے تردد یہ لکھ جانا بھی صحیح نہیں کہ امام مالک کے دو قولوں میں سے ایک قول یہ بھی ہے اس لئے کہ خود اسی اغاثۃ میں بتصریح مذکور ہے کہ مالکیہ میں سے تلمسانی وغیرہ نے اس کو مالک کے دو قولوں میں سے ایک قول کہا ہے مگر دوسرے مالکیہ نے کہا ہے کہ یہ مالک کا قول نہیں بلکہ مشائخ مالکیہ میں سے بعض کا قول ہے اور وہ بھی شاذ[43]؎  اسی طرح بعض اصحاب امام احمد کا ذکر بھی ابلہ فریبی ہے اس لئے کہ خود ابن القیم کے جد امجد مراد ہوں تو ہوں ورنہ میں نے کسی اور حنبلی کا یہ قول نہیں پایا اور علامہ ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ ہمارے دادا پوشیدہ طور پر کبھی کبھی یہ فتویٰ دیتے تھے۔[44]؎  اے سبحان اللہ! اپنی کتاب مثقی میں تو تین کے تین ہونے پر صحابہ کا اجماع بتایا ہے اور خود پوشیدہ طور پر اس کے خلاف فتویٰ دیتے تھے یا للعجب۔ [45]؎
چوتھی غلط بیانی یہ ہے کہ نہایت بے باکی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ حضرت عمر نے تین طلاق کو جاری کردیا لیکن جب اس ترکیب سے طلاق میں کمی نہیں ہوئی تو بہت پچھتائے اور اس سے رجوع کرلیا جیسا کہ حدیث کی بہت بڑی کتاب مسند اسماعیلی میں ہے "قال عمر ماندمت علی شیء ندامتی علی ثلث ان لا اکون حرمت الطلاق الخ [46]؎" یعنی حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے تین مسئلوں میں بڑی ندامت ہوئی ان میں سے ایک یہ مسئلہ بھی ہے۔ (انتہی)
مجھے مخالفین کی اس بے باکانہ غلط بیانی پر جتنا افسوس ہے اتنا اور کسی غلط بیانی پر نہیں ہے میں اگر اس غلط بیانی پر پوری طور سے روشنی ڈالوں تو کلام بہت طویل ہو جائے گا اس لئے اختصار کے ساتھ چند باتیں لکھتا ہوں۔
(1)            ہمارے مخالفین جب اپنے کسی دعوے کے ثبوت میں کوئی روایت پیش کرتے ہیں تو شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی روایت سے استدلال اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے جب کہ وہ روایت صحیح بھی ہو لہذا وہ پیش کردہ روایت کی نسبت کسی محدث کی تصیح یا کم ازکم کتب رجال سے اسناد کے راویوں کی توثیق نقل کرنا ضروری ہے چنانچہ یہاں بھی یہی ہوا کہ صرف روایت کا ایک ٹکڑا نقل کردیا نہ کسی محدث کی تصحیح پیش کی نہ رجال اسناد پر کوئی گفتگو کی ۔ پس مخالفین سے میرا یہ مطالبہ ہے کہ کم از کم اس روایت کے رجال کی توثیق پیش کریں۔
(2)             روايت کے ترجمہ میں انتہائی بے باکی ساتھ خیانت کی گئی ہے بالکل لفظی ترجمہ روایت کا یوں ہے "حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں نادم ہوا میں کسی چیز پر مثل میرے نادم ہونے کے تین باتوں پر ایک یہ کہ نہ ہوا میں کہ حرام کرتا طلاق کو" یعنی ایک بات یہ ہے کہ میں نے طلاق کو حرام کیوں نہ کیا "علی ما یستفاد من کلام ابن القیم" مخالفین بتائیں کہ اس عبارت میں کہاں یہ ذکر ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے ایک طلاقوں کے نافذ کردینے کا مسئلہ بھی ہے۔
(3)             بفرض محال اس روایت میں مذکور بھی ہوکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین کے نافذ کرنے پر اظہار ندامت کیا تو اتنے سے انکار جوع کیونکر ثابت ہوسکتا ہے جب کہ کبھی اپنے سابق فتویٰ اور فیصلے کے خلاف کوئی فتویٰ نہیں دیا نہ اس کے خلاف فیصلہ کیا اور کم از کم جس طرح امضائے ثلاث کا مجمع صحابہ میں اعلان کیا تھا اسی طرح ندامت کا اعلان بھی ضروری تھا لیکن اس کا کچھ ثبوت نہیں۔
(4)             اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رجوع کر لیا ہوتا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ابوالصہباء کے جواب میں صرف اتنا کہہ کر ہرگز خاموشی اختیار نہ کرتے کہ جب طلاق کے واقعے بکثرت ہونے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو نافذ کردیا، بلکہ اس کے بعد رجوع کا واقعہ بھی ضرور ذکر رکتے اس لئے کہ اس سلسلہ کی وہ نہایت ضروری کڑی تھی اور حضرت ابن عباس کی شان اس سے بالا تر ہے کہ اس ضروری حصے کو چھوڑ کر لوگوں کو اس کی غلط فہمی میں مبتلا کریں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہی رائے آخری لمحۂ حیات تک رہی اور واقعہ اس کے خلاف ہواگر غلط فہمی سے قطع نظر کیجئے تو بھی اس کو کوئی ادنیٰ درجہ کا دیندار جائز قرار نہیں دے سکتا کہ اس آخری حصے کو حذف کر دے جس طرح کہ کوئی اس کو جائز نہیں کہہ سکتا کہ صرف یوں کہے کہ "رسول خداﷺ نے متعہ کی اجازت دی" تاوقتیکہ اس کے ساتھ یہ بھی نہ کہے پھر اس کو منسوخ فرمادیا۔"
(5)             میں نے علامہ ابن القیمؒ کی عبارتوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم کی موافقت کو مسئلہ امضائے ثلاث میں تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صحابہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حسن سیاست کے معتقد تھے اس لئے انہوں نےبھی ان کے امضائے ثلث کے فیصلے کو تسلیم کیا اور ان کے قول سے اتفاق کیا، پس میں پوچھتا ہوں کہ جب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلے سے رجوع کر لیا تو کیا وجہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اسی پہلی بات پر اڑے رہے انہوں نے کیوں رجوع نہیں کرلیا اور کیوں حضرت عمر ؓ کے بعد بھی وقوع ثلاث کا برابر فتویٰ دیتے رہے۔
اس کے بعد یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ خود علامہ ابن القیم نے اس روایت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رجوع ثابت کرنے کے لئے نہیں پیش کیا نہ انہوں نے اس سے رجوع کرنا سمجھا ہے اور نہ وہ اس بات کے قائل ہی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رجوع کیا بلکہ یہ سب مخالفین زمانہ کی طبع زاد باتیں ہیں جس کا منشاء بجز کم سوادی کے اور کچھ نہیں ہے ، علامہ ابن القیمؒ نے روایت کو جس غرض سے پیش کیا اس کو سمجھنے کے لئے ضرورت ہوگی کہ میں پورا سلسلہ کلام نقل کردوں۔ سنئے بات یہ ہے کہ جب موصوف اپنے زعم میں تین طلاقوں کا ایک ہونا ثابت کر چکے تو ان کو یہ مشکل پیش آئی کہ جب تین طلاقیں ایک کے حکم میں ہیں اور ان کے بعد رجعت جائز ہے تو خلیفہ راشد حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کیوں ان کو تین قرار دیا اور ان کے بعد رجعت کو ممنوع کہا تو علامہ موصوف نے اس مشکل کا حل یہ تجویز کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کو سیاست پر حمل کیا جائے چنانچہ کہہ دیا کہ حضرت عمر ؓنے طلاقوں کو سیاستہً نافذ کر دیا اور تین طلاق دینے والوں کی یہی سزا قرار دے دی کہ ان سے ان کی بیبیوں کو جد ا کر دیا جائے اور عذاب فراق اور داغ مجہوری کا مزہ ان کو چکھایا جائے لیکن اس حل پر خود علامہ کو اطمینان نہ ہوا اور انہوں نے خود ہی اس پر اعتراض کیا کہ جب سیاست و عقوبت ہی منظور تھی تو اس کی کیا ضرورت تھی کہ تین طلاقوں کو نافذ کرکے (بخیال علامہؒ) عہد نبوی و عہد صدیقی کے فیصلوں کی مخالفت کے مرتکب ہوتے یہی کیوں نہ کیا کہ تین طلاق دینے کو حرام کر دیتے اور اعلان کرادیتے کہ جو ایسا کرے گا وہ سخت سزا کا مستحق ہوگا، بہر حال سیاست اسی میں تو منحصر نہ تھی کہ تین طلاقوں کا نفاذ کر دیا جاتا بلکہ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ تین طلاقوں کو حرام کردیا جاتا اور دوسری تعزیرات نافذ کر کے ایقاع ثلاث کو بند کیا جاتا، اس کے جواب میں ابن القیم نے کہا ہے کہ بے شک حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے لئے سیاست کی موخر الذکر صورت ممکن تھی لیکن انہوں نے نہ کیا اور اس نہ کرنے پر نادم ہوئے چنانچہ مسند عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ندامت تھی کہ انہوں نے  طلاق کو حرام کیوں نہ کیا بس یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ابن القیم نے روایت اسماعیلی کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تین اکھٹی طلاقوں کے واقع کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
اس تفصیل سے خوب واضح ہوگیا کہ ابن القیم نے اس روایت کو اس کا ثبوت دینے کے لئے نہیں پیش کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اکٹھے تین طلاقوں کو حرام قرار نہ دینے پر نادم تھے پس اس ندامت سے اگر رجوع ثابت ہوسکتا ہوگا تو یہ ثابت ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاق کو جائز کہنے سے رجوع کرلیا یعنی تین طلاق کو حرام کہنے لگے لیکن تین طلاقوں کے حرام ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اگر کوئی اس کا ارتکاب کرے تو واقع بھی نہ ہوں گی۔ دیکھئے حالت حیض میں طلاق دینا ناجائز ہے لیکن حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے رجعت کرائی بہرحال ابن القیم کے کلام سے بھی کسی طرح ظاہر نہیں ہوتا کہ اس روایت کا کوئی تعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رجوع سے ہو۔
اس مقام پر پہنچ کر میں یہ ظاہر کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ ابن القیم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے جو اعتذار پیش کیا ہے وہ حد درجہ کمزور اور بودا بلکہ واقعات کے بالکل خلاف ہے۔
اولاً امضائے ثلث[47]؎      کو سیاست و عقوبت کہنا خلاف واقعہ ہونے کے علاوہ خود ابن القیم کے قول کے بھی خلاف ہے اس لئے کہ آپ ابھی معلوم کر چکے ہیں کہ ابن القیم کی تحقیق میں حضرت عمررضی اللہ تین اکٹھی طلاقیں دینے کو جائز سمجھتے تھے  پھر میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد موصوف اس جائز فعل پر تعزیر وعقوبت کو کس قانون شرعی کے مطابق جائز ثابت کریں گے خود ابن القیم ؒ نے اعلام الموقعین (جلد1 صفحہ32) میں لکھا ہے "وکثیر من الفقھاء لا یری تحریمہ فکیف یعاقب من لم یرتکب محرما عند نفسہ" یعنی آج تین طلاقیں دینے والے کو سزا دینا ممکن نہیں ہے اس لئے کہ بہت سے فقہاء اس کو حرام نہیں جانتے تو جب وہ مرتکب حرام نہیں ہوا تو اس کی سزا کیسی ہوسکتی ہے مجھے حیرت ہے کہ علامہ موصوف امضائے ثلث کو عقوبت کہتے وقت یہ بات کیسے بھو ل گئے اور یہ پوچھتے ہوئے تو میرا کلیجہ کانپ اٹھتا ہے کہ کسی جائز فعل پر تعزیر و عقوبت کی نسبت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی طرف کرنے کے لئے کون سا دل وجگر پیدا کریں گے۔
ثانیاً علامہ موصوف نے حدیث ابو الصہباء کے ان الفاظ "ان الناس قد استعجلو ا فی شیء کانت لھم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیھم" (یعنی لوگوں نے ایسی چیز میں جلد بازی کر ڈالی جس میں ان کو دیر کرنا چاہئے تھی پس کاش ہم اس کو ان پر نافذ کردیتے) کو نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ الفاظ گویا صراحۃً دلالت کر تے ہیں کہ تین طلاقیں مجموعی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک حرام نہ تھیں بلکہ جائز تھیں اس لئے انہوں نے ان کو نافذ کر دیا میں کہتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے یہ تقریر کر کے تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کا حکم و فتویٰ دیا اور اس تقریر سے گویا صراحۃً ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ثلاث مجموع کو جائز سمجھ کر ایسا کیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک متنفس نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو متنبہ نہ کیا کہ ثلث مجموع حرام ہیں لہذا آپ ان کو نافذ تو کیجئے لیکن للہ ایک حرام چیز کو جائز نہ سمجھئے میں حیرت میں ہوں کہ ابن القیم کے دل میں اس اعتراض کا خطرہ باوجود اس کے وضوح وظہور کے کیونکر پیدا ہوا؟  اور یہ خطرہ گزرا تو انہوں نے کس طرح یہ جائز رکھا کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ، ابن عمر، ابن عباس، ابن عمرو بن العاص، ابوہریرہ، علی عثمان، عمران بن حصین وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین کے سامنے ایک حرام چیز کو کہا گیا ہے اور ان تمام حضرات نے خاموشی اختیار کی حالانکہ ان حضرات کی شان تو بہت بڑی ہے اس وقت کی عورتیں بھی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ٹوک دیتی تھیں۔
ثالثاً حیرت ہے کہ علامہ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی جانب تین یکجائی طلاقوں کے جائز رکھنے کی نسبت کس طرح کی جب کہ وہ خود اس اغاثۃ اللہفان (صفحہ 174) میں لکھ چکے ہیں کہ جب تین طلاق دینے والا ان کے پاس لایا جاتا تھا تو درد پہچانے والی سزا دیتے تھے اور اس کی بی بی کے حرام ہونے کا فتویٰ دیتے تھے سوال یہ ہے کہ جائز کام پر سزا کیسی؟
رابعاً اس پریشان کلامی کی بھی کوئی حد ہے کہ یہاں تو لکھ دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تین طلاقوں کو جائز سمجھتے تھے اور زاد المعاد و اعلام الموقعین میں اس کے بالکل خلاف لکھا اعلام (جلد 2صفحہ 26) میں لکھتے ہیں کہ جب لوگوں نے اللہ سے ڈرنا چھوڑدیا اور کتاب اللہ سے کھیل کرنے لگے اور غیر شرعی طلاق دینے لگے تو جس چیز کا لوگوں نے التزام کیا اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر لازم کردیا ان کو سزا دینے کے لئے الخ اور زاد المعاد (جلد 7 صفحہ191) برہامشن زرقانی میں لکھتے ہیں "لم یخالف عمر اجماع من تقدمہ بل رأی الزامھم بالثلاث عقوبۃ لھم لما علموا انہ حرام وتتابعوافیہ" یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم کے  اجماع کی مخالفت نہیں کی بلکہ انہوں نے تین طلاق کے لازم  کرنے کو لوگوں کے سزا کے لئے مناسب خیال کیا بدیں وجہ کہ لوگ اس کو حرام جانتے ہوئے پے بہ پے اس کے مرتکب ہوئے یہ عبارتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تین طلاق حرام تھی ان کا واقع کرنا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کرنا تھا یہ طریقہ طلاق غیر شرعی تھا  اس لئے ان کو سزا دی ایسا صریح تعارض وتہافت علامہ ابن القیم کے کلام میں محل تعجب ہے، کیا ہمارے مخالفین بتا سکتے ہیں کہ ان دونوں میں کون سی بات صحیح ہے۔
خامساً اگر کہا جائے کہ ابن القیم کی دوسری بات تحقیقی ہے  یعنی یہ کہ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ یکجائی تین طلاقوں کو حرام سمجھتے تھے تو یہ درست ہے لیکن اس کے بعد میں پوچھوں گا کہ ثلث مجموع کی حرمت کے باوجود اگر کوئی شخص ایسی طلاق دیتا تھا تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سیاسی حکم قطع نظر کرکے فتویٰ کیا دیتے تھے یعنی ثلث مجموع کو ازروئے فتویٰ (مع قطع النظر عن السیاسۃ) ثلاث مشروع کا حکم دیتے تھے۔ یا ایک رجعی کا اگر کہئے کہ ثلاث مشرع کا حکم دیتے تھے تو آپ نے ہمارے مسلک کو علی الرغم تسلیم کرلیا اور آپ نے ابن القیم کے اس قول کی کہ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے سے پہلے صحابہ رضی اللہ عنہم کی مخالفت نہیں کی) تغلیظ کر دی اس لئے کہ اس صورت میں تو (بخیال مخالفین) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ متقدمین کی صریح مخالفت کی اور اگر کہئے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تنی طلاقوں کو حرام سمجھتے تھے اور کوئی ایسی طلاق دے دے تو اس کو از روئے فتویٰ ایک رجع کے حکم میں قرار دیتے تھے لیکن سیاستہً و تعزیراً تنیوں کو نافذ کردیتے تھے تو یہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تصریح کے خلاف ہے چنانچہ امام المخالفین علامہ ابن القیم نے خود اغاثۃ اللہفان میں یہ روایت بسند صحیح نقل کی ہے۔ "قال سعید بن منصور حدثنا سفیان عن شقیق سمع انسا یقول قال عمر فی الرجل یطلق ثلاثا قبل ان ید خل بھا ھی ثلاث لا تحل لہ حتی تنکح زوجا وکان اذا اتی بہ اوجعہ" یعنی حضرت انسؓ راوی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کے بارے میں جو اپنی بی بی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دے یہ فرماتے تھے کہ یہ طلاقیں تین ہی ہیں (ایک نہیں) اور عورت اس کے لئے حلال نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ دوسرا شوہر نہ کرے اور جب ایسا شخص ان کے پاس لایا جاتا تو درد پہنچاتے (یعنی سزا دیتے)۔[48]؎   اس روایت میں صراحۃً موجود ہے کہ ثلاث مجموع حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تین ہی ہیں اور یہ کہ اس کے بغیر نکاح ثانی شوہر اول کے لئے عورت حلال ہی نہیں، پس یہ کہنا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ تین طلاقوں کو ایک رجعی کا حکم دیتے تھے غلط ہوگیا۔ اسی طرح یہ بھی غلط ہوگیا کہ ثلاث مجموع کو نافذ کردینا سیاسۃً و تعزیراًً تھا اس لئے کہ روایت میں تصریح ہے کہ مطلقۂ ثلاث شوہر اول کے لئے حلال نہیں۔
اور اس اثر کی تائید ایک اور اثر سے ہوتی ہے جو دار قطنی (صفحہ 428) میں مذکور ہے اس کا مضمون یہ ہے کہ ایک شخص بحالت حیض اپنی بی بی کو بتہّ طلاق دے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا (یہ واضح رہے کہ مولوی شمس الحق صاحب اہل حدیث نے التعلیق المغنی (صفحہ 450) میں لکھا ہے کہ اہل مدینہ تین طلاقوں کو بتہّ کہتے ہیں) اور عرض حال کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے اپنے خدا کی نافرمانی کی اور تہماری بی بی تم سے جدا ہوچکی، اس نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو اپنی بی بی کو طلاق دی تھی تو آنحضرتﷺ نے رجعت کرادی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان کو رجعت کا اختیار اس لئے ملا تھا کہ انہوں نے کل طلاقیں نہیں دے ڈالی تھیں (بلکہ صرف ایک دی تھی دو طلاقیں باقی رکھی تھیں) الخ۔ اس اثر سے بھی صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ ثلاث مجموع کو موجب حرمت زوجہ اور از روئے فتویٰ شرعی اس صورت میں رجعت کو ناممکن سمجھتے تھے۔
سادساً امضائے ثلاث کو سیاسی وتعزیری حکم اس لئے بھی نہیں کہا جاسکتا کہ بلا شبہ خلفاء ائمہ کو سیاست وتعزیر کے بہت وسیع اختیارات حاصل ہیں لیکن کسی خلیفہ یا امام کو یہ حق ہرگزحاصل نہیں ہے کہ کوئی ایسی سیاست و تعزیر جاری کرے جس سے کسی حکم منصوص شرعاً کا ابطال یا تغیر لازم آئے اور امضائے ثلاث کو سیاست وتعزیر کہنے کی صورت میں مخالفین کے مسلمات سے لازم آئے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سیاست کو جاری کر کے ایک حکم منصوص شرعاً کو بدل ڈالا(العیاذ باللہ) اس اجمال کی تصیل یہ ہےکہ:
1۔        مخالفین کے نزدیک تین یکجائی طلاقیں ایک رجعی کے حکم میں ہیں اور۔
2۔        مخالفین کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہی خیال تھا [49]؎  اور
3۔        مخالفین اس سے بھی انکار نہیں کر سکتےکہ ایک یا دو طلاق کے بعد بنص قرآنی شوہر کو رجعت کا استحقاق حاصل ہے ارشاد ہوا "وبعولتھن احق بردھن فی ذلک" پھر۔
4۔        مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تین مجموعی طلاقوں کو جو ایک رجعی کے حکم میں ہیں سیاسۃً تین قرار دے کر شوہر سے بی بی کو جدا کر دیا اور استحقاق رجعت کو باطل کردیا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے سیاسی حکم سے (جس کی نسبت ابن القیمؒ نے تصریح کی ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے و قیاس تھا) اس استحقاق کو جو بنص قرآنی ثابت تھا باطل کردیا اور اس آیت قرآنی کے حکم کو بدل دیا " نعوذ باللہ من ذلک و حاثا جناب الفارق ان یفعل کذلک "
سابعاً علامہ ابن القیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ صحابہ کرام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس سیاسی حکم سے اتفاق کیا اور سب نے اس کو پسند کیا لیکن معلوم نہیں وہ اور ان کے  متبعین اس کا کیا جواب دیں گے کہ جس سیاست سے بنا بر مسلمات مخالفین کسی حکم قرآنی کی تغیر یا ابطال لازم آتا ہو اس سے اس جماعت نے کس طرح اتفاق کر لیا جس کی دینداری و پرہیز گاری جن کے کمال ایمان و خلوص اور جن کے تورع و دیانت کی شہادتیں قرآنی کریم دے رہا ہے۔
ثامناً امضائے ثلث کو محض سیاست و تعزیر کہنا اس لئے بھی باطل ہے  کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس سیاست سے راضی و متفق الرائے بتایا جاتا ہے ان میں سے بہتوں کے فتوے آج بھی ہمارے پیش نظر ہیں۔ جو بہ ندائے بلند پکار رہے ہیں کہ امضائے ثلث تعزیری حکم نہیں ہے بلکہ تشریعی حکم ہے اور "فیما بینھم و بین اللہ" یہی ان کا اعتقاد و فتویٰ ہے میں نے باب اول میں کئی صحابیوں کے فتوے نقل کئے ہیں اور خود ابن القیم نے اثاثۃ (صفحہ 173و 174) میں بہت سے صحابہ کے فتوے درج کئے ہیں۔ ان کو ملاحظہ کر کے میرے بیان کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ میں نمونے کے دو فتوے یہاں نقل کرتا ہوں۔
اغاثۃ (صفحہ 147) میں بہیقی کے حوالہ سے مذکور ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمران بن حصینؓ کے پاس مسجد میں حاضر ہو کر بیان کیا کہ ایک شخص نے اپنی بی بی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں۔ حضرت عمران ؓ نے فرمایا"اثم بربہ وحرمت علیہ امرأتہ" (یعنی بخدا اس نے گناہ کیا اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی) اس شخص نے ابو موسیٰ اشعری سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابو نجید (یعنی عمران) کے ایسے بہت سے لوگ پیدا کردے۔
اور اغاثۃ (صفحہ 173) میں بحوالہ  بہیقی مذکور ہے کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ بن شعبہ  ؓ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بی بی کو سو طلاقیں دے دیں تو کیا حکم ہے؟ فرمایا ، "ثلاثۃ تحرم و سبع و تسعون فضل" (یعنی تین طلاقیں اس کی بی بی کو اس پر حرام کردیں گی اور ستانوے طلاقیں فالتو ہیں)۔
ان دونوں فتوؤں کو بغور پڑھئے ان میں صراحتہً مذکور ہے کہ تین طلاقوں سے بی بی حرام ہوجاتی ہے، علامہ ابن القیمؒ کے متبعین سے میں کہتا ہوں کہ آپ کے خیال میں مجموعی طلاقوں کے بعد رجعت جائز ہے اور یہ تینوں ایک کے حکم میں ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محض سیاستہً تین کو نافذ کردیا تھا، اور صحابہ نے بھی ان کی موافقت کی تھی، نہایت بجا، اور بالکل درست لیکن مہربانی کر کے ذرا یہ بھی ارشاد ہو کہ کیا کسی حلال و جائز کو سیاستہً حرام و ناجائز بھی کہا یا کیا جاسکتا ہے؟ کیا سیاست و تعزیر کے وسیع اختیارات میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی حلال و جائز شئے کو حرام و ناجائز کردیا جائے؟
دوستو! ساری خرابیاں صرف اس لئے لازم آتی ہیں کہ تم نے امضائے ثلث کو سیاسی حکم کہا ہے          ؎
خشت  اول  چوں  نہد  معمار  کج
تا    ثریا     میرو د   دیوار    کج
تنبیہ
مجھے اندیشہ ہے کہ مخالفین زمانہ میرے مؤاخذات سے گھبرا کر کہیں یہ نہ کہہ بیٹھیں کہ امضائے ثلث کو سیاسی و تعزیری حکم قرار دینا علامہ ابن القیم کی ذاتی رائے ہے اور ہم کو ان کی اس رائے سے اتفاق نہیں ہے۔علامہ ابن القیم کی یہ رائے غلط ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہی فتویٰ تھا کہ تین یکجائی طلاقیں تین ہی ہیں، اور اس کے بعد رجعت جائز نہیں ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ میں خطائے اجتہادی سرزد ہوئی ہے۔ اس لئے میں پہلے ہی سے ان کو متنبہ کردینا چاہتا ہوں کہ وہ اس بے باکی کا خطرہ بھی اپنے دل میں نہ لائیں۔ اور ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ امضائے ثلث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ منفرد نہیں بلکہ سارے صحابہ رضی اللہ عنہم ان  کے ساتھ تھے۔ اور سب نے ان کی موافقت و تائید کی(جیسا کہ ابن القیم کی تصریحات سے ثابت کیا جا چکا ہے) لہذا (معاذ اللہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخطبی کہنے سے سارے صحابہ کا اجتماع و اتفاق لازم آجائے گا اور اس کے قائل ہونے کے بعد معاملہ بڑی خطرناک حد تک نازک ہوجائے گا اور نہ معلوم کتنی گتھیاں پڑ جائیں گی جن کے سلجھانے  سے آپ کی پوری جماعت قاصر رہ جائے گی، اور یہی نہیں بلکہ بہت سی چیزوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا میں اثارہ فتنہ کے خوف سے ان باتوں کو عام نہیں کرنا چاہتا۔ اہل علم کے لئے اتنا اشارہ بہت کافی ہے۔
اس کے علاوہ مخالفین کو اس نکتہ سے بھی آشنا کردوں کہ خلفائے راشدین کی حیثیت دیگر صحابہ کی حیثیتوں سے بہت بلند قرار دی گئی ہے۔ مجھے یہاں ان کی جملہ حیثیات سے بحث نہیں بلکہ یہاں صرف ان کی مفتیانہ حیثیت کو واضح کرنا مقصود ہے اور اس کی نسبت مجھے یہ کہنا ہے کہ حضرات خلفاء کی مفتیانہ حیثیت کی عظمت کا اظہار احادیث نبویہ میں بتصریح مذکور ہے لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم کے ارشادات میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ خلفائے راشدیں اپنے عہد خلافت میں جن احکام کو جاری کردیں اور جن امور کی ترویج فرمادیں و سب دین پسندیدۂ الہٰی میں داخل اور معروف شرعاً کے مصداق ہیں۔
چنانچہ حضرت شاہ والی اللہ صاحب محدث دہلویؒ اپنی عدیم النظیر کتاب ازالۃ الخفاء مقصد اول (صفحہ 19) میں تحریر فرماتے ہیں:
          دوم آنکہ ازباب عقائد و عبادات و معاملات و مناکحات و احکام خراج وآنچہ در عصر مسخلفین ظاہر شودووایشاں باہتمام تمام سعی در اقامت آں کنند دین مرتضی است، پس الحال قضاء مسخلفین در مسئلہ یا فتویٰ ایشاں در حادثہ ظاہر شود، آں دلیل شرعی باشد کہ مجتہد بآں تمسک نماید زیراکہ آں دین مرتضی است کہ تمکین آں واقع شد ہر چند اجتہاد ہر مجتہدے "ولو کان صحایا" احتمال خطا دار دو نزدیک کسے کہ میگو "کل مجتھد مصیب" تعدد جواب در ہر حادثہ محتمل است و نزدیک کسے کہ میگوید "المصیب واحد الآخر معذور غیر آثم" احتمال خطا در ہر دو جانب ممکن است لیکن ایں ہمہ ظنون ظہور حقیقت آنچہ در زبان ایشان و بسعی ایشان شائع شدہ برنمی وارد۔
اور (صفحہ 23) میں فرماتے ہیں:
            باز مفہوم "اقاموا واٰتوا وامروا ونھوا" آن است کہ ہر چہ از ممکنین درایام تمکین ایشان ازیں ابواب ظاہر شود ہمہ معتدبہ خواہد بود شرعاً
اور (صفحہ 116) میں فرماتے ہیں:
            واما آنکہ قول خلیفہ حجت است چو آنرا امضاکندوآں قول ممکن شود در مسلمین وآں بالاترازقیاس است وایں خصلت ثابت است دریں بزرگواراں پس ثابت است بطریق بسیار "قال اللہ تعالیٰ :
    ٭ ولیممکنن لھم دینھم الذی ارتضٰی لھم۔ وقال عزوجل: الذین ان مکنھم فی الارض اقاموا الصلوٰۃ وٰا توا الزکٰوۃ وامروا بالمعروف ونھو ا عن المنکر وللہ عاقبۃ الامور٭"
ان تمام عبارات کا ماحصل یہ ہے کہ قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عقائد و عبادات و معاملات و مناکحات جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں ان کی کوشش سے رائج یا جاری ہوئے وہ سب پسندیدہ الہٰی ہیں آج اس عہد کا جو فتویٰ یا فیصلہ ان امور کے متعلق ملے وہ حجت و دلیل شرعی ہے اور خطائے اجتہادی کا احتمال ان فتوؤں یا فیصلوں کی حقیقت یا حجیت پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا بلکہ حق وحجت ہی رہیں گے۔
اس مسئلے میں اب چند باتیں اور رہی جاتی ہیں، دل تو چاہتا ہے کہ ان کو بھی لکھ ہی دیا جائے، لیکن چونکہ یہ تحریر بہت طویل ہوتی جارہی ہے اس لئے اس صحبت میں اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں۔ اگر ضرورت سمجھی گئی تو کسی دوسری صحبت میں بقیہ مباحثہ کا اضافہ کردیا جائے گا۔
تمت الرسالۃ والحمداللہ رب العالمین والصلوۃ
والسلام علی سیّد المرسلین وعلی الہ وصحبہ اجمعین۔




[1] ۔ مثلاً یو ں کہے کہ میں نے تجھ کو تین طلاقیں دیں۔

[2] ۔مثلاً یوں کہے کہ میں نے تجھ کو طلاق دی۔ میں نے تجھ کو طلاق دی۔ میں نے تجھ کو طلاق دی 12منہ

[3] ۔جو اپنی عورت سے کہے کہ تجھ کو تین طلاقیں ہیں تو اس بارے میں اماموں کا اختلاف ہے۔ امام شافع، امام مالک، امام ابو حنیفہ امام احمد اور اگلے پچھلے جو ق در جوق علماء کہتے ہیں کہ تین طلاقیں واقع ہوں گی۔

[4] ۔ جمہور صحابہ وتابعین اور ان کے بعد کے ائمہ اسلام اس طرف گئے ہیں کہ تینوں واقع ہوجائیں گے۔

[5] ۔ تابعین اور تابعین کے بعد جمہور علماء مثلاً اوزاعی، نخعی، ثوری، ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب شافعی اور ان کے اصحاب اور احمد اور ان کے اصحاب نیزا سحاق، ابو ثور، ابو عبید اور دوسرے بہت سے لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ جو اپنی بی بی کو تین طلاقیں دے گا تو وہ واقع ہوجائیں گی لیکن وہ گناہ گار ہوگا۔

[6] ۔ تمام بلا د اسلامیہ کے جمہور فقہاء اس پر ہیں کہ تین کے لفظ سے طلاق دینے کا وہی حکم ہے جو تیسری طلاق کا ہے۔

[7] ۔رہا دوسرا مسئلہ اور وہ یکجائی تین طلاق واقع  ہونے کا مسئلہ ہے تو لوگ اس میں چار طرف گئے ہیں ایک مذہب یہ ہے کہ تین واقع ہوجائیں گی اور یہ قول چاروں اماموں کا اور جمہور تابعین کا اور بہت سے صحابہ کا ہے۔(زادالمعاد ص 164 بر حاشیہ زرقانی: ج7)

[8] ۔ بخاری: 2/791 و مسلم: 1/463

[9] ۔ یکجائی تین طلاقوں کے واقع ہونے کی۔

[10] ۔ میزان ذھبی

[11] ۔ میزان: 2/199

[12] ۔ میزان الاعتدال: 2/221

[13] ۔ مقدمہ فتح الباری 12منہ

[14] ۔ مقدمہ فتح الباری

[15] ۔ دارقطنی: ص 438، ابوداؤد

[16] ۔ خلاصہ

[17] ۔ ص438

[18] ۔ ص 437

[19] ۔ مولانا شمس الحق اہل حدیث نے التعلیق المغنی میں لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کے غلاموں کی اولاد میں دروغ بیانی رائج نہ تھی، اور ابن القیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ تابعین میں جھوٹ بولنا ظاہر نہ تھا (ازہار مربوعہ ص 108دیکھئے۔

[20] ۔ القول السدید: ص 15

[21] ۔ ابن ماجہ: ص 147

[22] ۔ جن روایتوں سے فاطمہ کے شوہر کا بیک وقت تین طلاقیں دینا ثابت ہوتا ہے، ان کو ازہار مربوعہ ص 114 میں ملاحظہ فرمائیے ابن حزم نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ اور جن روایتوں سے اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے ان کا جواب دیا ہے۔ (محلی: 10/171و 172)

[23] ۔ جوہر سے مراد الجواہر التقی ہے، اب مصنف عبدالرزاق زیور طبع سے آراستہ ہو کر شائع ہو چکی ہے لہذا خود مصنف سے وہ روایت سند ومتن کے ساتھ نقل کی جارہی ہے " عبدالرزاق عن الشوری عن ابن ابی لیلی عن نافع ان رجلا طلق امراتہ وھو حائص ثلاثا، فسال ابن عمر فقال: عصیت ربک وبانت منک لا تحل لک حتی تنکح زوجا غیرک"(6/311) یعنی نافع کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں تین طلاقیں دے دیں پھر ابن عمر سے فتویٰ پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ تونے اپنے رب کی نافرمانی کی ، اور تیری بیوی تجھ سے بائن (جدا) ہوگئی، جب تک تیرے علاوہ کسی اور سے نکاح نہ کرے تب تک وہ تیرے لئے حلال نہ ہوگی، حضرت ابن عمر کا یہ اثر مصنف ابن ابی شیبہ میں بایں الفاظ مذکور ہے۔ "من طلق امراتہ ثلاثا فقد عصی ربہ، ویانت منہ امراتہ۔" (دیکھو5/11) طبع بمبئی

[24] ۔ سنن سعید بن منصور کی ایک جلد کا قلمی نسخہ کتب خانہ محمد پاشا کوبرولو۔ اتنبول میں محفوظ ہے۔ ہم نے یہ اثر اس کے عکسی نسخہ سے نقل کیا ہے۔ یہ عکسی نسخہ مجلس علمی ڈابھیل کے اہتمام میں انشاء اللہ بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔ (حاشیہ طبع دوم) ناشرکہتاہے یہ بے نظیر کتاب اب دوبارہ چھپ کر شائع ہوچکی ہے مصنف اعلام ہی نے اس کی تحقیق کی ہے اور پر حواشی لکھے ہیں وہ پہلی بار 1354ھ/ 1935ء میں طبع ہوئی ہے۔

[25] ۔اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ایک شخص نے ابن عباس سے آکر کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو طلاقیں دے دیں۔ انہوں نے فرمایا، تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی تو اللہ نے اس کو پشیمان کیا، پس اس کے لئے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بتایا، اس کی سند بھی صحیح ہے۔ (دیکھو ابن ابی شیبہ طبع بمبئی 5/11)

[26] ۔ غیر مدخولہ کے حق میں تین یکجائی طلاقوں کا طلاق مغلظ ہونا(جس کے بعد رجعت نہیں ہوسکتی) حضرت علیؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ سے سنن سعید بن منصور میں مروی ہے اور ایسا ہی فتویٰ عبداللہ بن معقل مزنی کا بھی سعید بن منصور نے روایت کیا ہے۔

[27] ۔حضرت عثمانؓ حضرت علیؓ حضرت عائشہؓ کے آثار اور فتووں کو بھی شامل کرلیا جائے تو اٹھارہ دلیلیں ہوجاتی ہیں اور انیسویں دلیل زید بن ثابت کا اثر ہے جس کا ذکر حاشیہ میں ہے اس حساب اب جس کو سولہویں دلیل آگے لکھا گیا ہے وہ بیسیوں دلیل قرار پائے گی۔

[28] ۔ الجوھر النقی: ص 113

[29] ۔ نیل الاوطار:6/157، اعلام الموقعین: 2/26، فتح الباری: ص 291

[30] ۔فتح الباری: 9/291

[31] ۔فتح الباری: 9/291

[32] افتح الباری: 9/292

[33] ۔اس کو لفظی ترجمہ نہ سمجھئے بلکہ لفظی ترجمہ کا یہی حاصل و نتیجہ ہے۔

[34] ۔ تلخیص: ص 319

[35] ۔ ابکار المفن: ص 244

[36] ۔میزان ذھبی

[37] ۔ سنن: ص 218، 219

[38] ۔ فتح الباری : 9/290

[39] ۔اغاثہ: ص 179

[40] ۔ اغاثۃ : ص 179

[41] ۔ نیل الاوطار: 6/157

[42] ۔ اغا ثۃ اللھفان: ص 36

[43] ۔ اغا ثۃ : ص 176

[44] ۔ اغاثۃ: ص 177

[45] ۔ایک غلط بیانی یہ بھی ہے کہ کل اہل بیت کا یہی مذہب تھا، حالانکہ جعفر صادق کا صریح فتویٰ دار قطنی ص 444میں موجود ہے کہ تین طلاقوں کے بعد بلا نکاح ثانی پہلے شوہر کے لئے عورت حلال نہیں ہوسکتی۔ 12 منہ

[46] ۔ اغاثۃ : ص 181، 182

[47] ۔ یعنی تین طلاقوں کا نافذ کرنا 12 منہ

[48] ۔ اغاثۃ: ص 173


[49] ۔ زاد المعاد

No comments:

Post a Comment