تازہ ترین تحریریں

Wednesday 2 September 2020

امام احمد ابن حنبل اورآیت ’’ و جاء ربک ‘‘ کی تفسیر(السعدی کی روایت سے)

امام احمد کی سوانح حیات میں جواہر المحصل کے عنوان سے ، حنبلی فقیہہ السعدی ، امام احمد کے عقیدہ کے باب میں مندرجہ ذیل کہانی بیان کرتے ہیں۔‘وہ سلف کے مذھب کے پیروکار تھے ، اللہ کو [تخلیق کی مشابہت سے] مستثنیٰ قرار دے کر اور کسی بھی مشبہہ کی نفی سے۔ یہاں تک کہ یہ بھی ہوا کہ انہوں نے کچھ حالات میں تاویل بھی کی۔ حنبل (امام احمد کے چچا کے بیٹے) نے کہا: 'ایک دن ، میں نے اپنے چچا کے بیٹے کو یہ کہتے سنا:' انہوں [معتذلہ] نے بڑے مناظرہ کے دن ، میرے خلاف بطور ثبوت اایک حدیث استعمال کی، [مندرجہ ذیل حدیث جس کا ظاہری معنی ہے]: 'فیصلے کے دن سورۃ البقرہ آئے گی ، اور سورۃ تبارک آئے گی!' 
[تشریح: معتزلہ ، ایک گمراہ گروہ ، اس حدیث کی بنیاد پر اس بات پر قائم رہا کہ اس قرآن کو پیدا کیا گیا ہے اور اسی وجہ سے یہ دلالت کی کہ الکلام اللہ کی صفت نہیں ہے، جو کفریہ عقیدہ ہے۔ امام احمد نے اس بیان کو قبول نہیں کیا، اور امام احمد کے مقدمے کی سماعت کے دن، انہوں [معتزلہ] نے یہ کہتے ہوئے اس حدیث کو بطور ثبوت استعمال کرنے کی کوشش کی کہ اگر اس میں ذکر ہوا کہ یہ 2 دو سورتیں آئیں گی، لہذا ان کے مطابق اس کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے، کہ یہ سورتیں بنائی گئی ہیں ، کیونکہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں گی]۔
میں [احمد بن حنبل] نے ان سے کہا '‘یہ اجر ہے [جو آئے گا]''، [واقعتاََ] یہ اس کی قدرت کا مظہر ہے جو آئے گا [قدرتہ]۔ قرآن استعاروں ، نصیحتوں ، احکامات ، ممانعتوں اور اسی طرح دیگر باتوں سے بھرا ہوا ہے۔ 
[تشریح: اس کا مطلب یہ ہے کہ امام احمد نے ان کو جواب دیا کہ قرآن مجید کہتا ہے کہ ’وجآء ربک‘ بھی اسی طرح ہی ہے، تو کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ بھی آئے گا اور حرکت کرے گا؟ (امام احمد جانتے تھے کہ ان کے پاس اگرچہ دوسرے غلط عقائد بھی تھے، لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ خدا حرکت کرتا ہے یا وہ پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اس طرح ہے جیسے وہ ان [لوگوں] سے کہتے: 'تم اور میں جانتے ہیں کہ یہ وہ معنی نہیں ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے) اس سے بھی آگے انہوں نے وضاحت کی کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ یہ سورتیں آئیں گی تو واقعتاََ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سورتوں کو پڑھنے کی وجہ سے ثواب آئے گا۔] 

یاد رکھنے کے لئے نکات: 
امام السعدی کا انتقال 900 ہجری کے بعد ہوا، یعنی 500 سال سے زیادہ ہوئے۔ وہ حنبلی تھے، اور یہ کتاب خاص طور پر امام احمد کی زندگی کے لئے خاص ہے۔ امام السعدی نے سلف کے عقیدے کی وضاحت کرکے ، اور اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے امام احمد سے تفسیر یعنی تاویل پیش کرنے کے ساتھ ہی امام احمد کے عقیدہ سے باب کا آغاز کیا۔ ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ امام احمد نے صرف ایک تعبیر اس لئے کی کہ ضرورت تھی، یعنی اسے کسی گمراہ گروہ کو غلط ثابت کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت تھی، اور وہ مجبور ہوئے کہ وہ آیت ’’ وجآء ربک ‘‘ کو کس طرح سمجھتے ہیں۔ دوسرے حالات میں ، سلف کے علماء نے مفصل تشریحات نہیں کیں، لیکن وہ یہ کہہ کر ایک ’عمومی‘ تشریح کر رہے تھے کہ ظاہری معنی کو دھیان میں نہیں لیا جائے۔ اس تشریح کو ابن کثیر نے بھی (یہاں) روایت کیا ہے، جس میں البیہقی کے حوالے سے کہا ہے کہ اس واقعے کی اسناد کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔


No comments:

Post a Comment