تازہ ترین تحریریں

Wednesday, 12 August 2020

کتاب: امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث

کتاب: امام اعظم ابوحنیفہ اور عمل بالحدیث

مصنف: عمار خان ناصر

اردو میں اپنی طرز کی پہلی کتاب جس میں امام ابوبکر ابن ابی شیبہ علیہ رحمہ کے ایک سو پچیس اعتراضات کے مکمل جوابات دئے گئے ہیں۔

Sunday, 15 March 2020

کتاب وساوس غیر مقلدین

خوشخبری

اب اس ویب سائیٹ پر موجود وساوس غیر مقلدین کتابی شکل میں آپ کے سامنے۔

ڈاوّنلوڈ لنک

Sunday, 12 January 2020

Friday, 6 September 2019

تفقہ فی الدین

عقل وخرداورفہم وفراست خداتعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہےجسن کی قدرومنزلت کوصرف وہی انسان سمجھ سکتے ہیں جن کورب قدیرکی طرف سےاس دولت عظمی سے کچھ نصیبہ حاصل ہوا ہو-بےعقل عقل کی کیا قیمت جانے؟اوربےخرد،خرد کی شان کیا سمجھے!حقیقت یہ ہے کہ عقل وفہم اک روشن چراغ ہے،اورقرآن وحدیث اس کےلیےمصفی روغن ہےجوروشنی دینے میں چراغ کاممدومعاون ہے،اوراس خالص روغن کے بغیرچراغ ایک بے کارظرف ہےجس کی سرے سے کوئی وقعت ہی نہیں جیساکہ فلاسفہ و مناطقہ اوراس قسم کےدجاجلہ وابالسہ اورملاعنہ ومراتدہ کی عقل وحی الہی کے روغن سےحرماں نصیب ہو کروادئِ ضلالت میں بھٹک رہی ہے،اوریہ حقیقت ہے کہ انسانی ہدایت کے لیےچراغ وروغن دونوں ہی کی ضرورت ہوتی ہےاوررشدواصلاح کے لیےدونوں ہی لازم وملزوم ہیں اوروحی الہی اورعقل صحیح میں کوئی مخالفت اور تضاد نہیں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عقل بینائی ہے،اوروحی الہی روشنی ہےجس طرح بغیربینائی کے روشنی کام نہیں دیتی اِسی طرح روشنی کااحساس اورشعوربھی بغیر بینائی کےنہیں کیا جاسکتااور صریح قسم کے دلائلِ شرعیہ سےتفقّہ وتدبّراورتعقّل کی بڑی تعریف ثابت ہے،اورفہم ورفراست کی تعریف قرآن وحدیث سے ہویدا ہے اوراس امر میں کوئی شک وشبہ نہیں کیا جا سکتاکہ قرآن وحدیث کے ٹھوس ومربوط مضامین اور محکم وقوی دلائل و براہین کی باریکیوں سے بھلا ایک نِرالایعقل ،بیوقوف یاایک سطحی اور خام عقل والاکیا فائدہ اٹھاسکتا ہے؟ان کی تہ اورِلم تک تو سرف وہی حضرات رسائی کرسکتے ہیں جن کو قسّام ازل نےفہم و عقل اوربصیرت کی نعمت سے نوازا ہےجوقرآن وحدیث کے بحرِبیکراں میں غوطہ زنی کرکےتفقّہ فی الدین کے انمول موتیوں اورجواہر ریزوں سےامّت مرحومہ کی جھولیاں بھرتے رہے ہیں اور انقلابِ زمانہ کی انتہائی نزاکتوں اورنامساعدحالات میں وہ اپنے اس چراغ کوروشن ہی کرتے رہے ہیں؎
ہوا ہے گوتندوتیزلیکن چراغ اپناجلا رہا ہے
وہ مردِدرویش جس کوحق نے دئیے ہیں اندازِخسروانہ

Thursday, 22 March 2018

علم کلام میں امام ابوحنیفہؒ کی تصانیف اور مقام

سب  سے پہلے تو یہ بات جاننے کی ضرورت ہے کہ علم کلام کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت یا ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہی اس علم کلام پر کام کرنے اور اس میں کتابیں تسنیف کرنے والوں کی قدر و منزلت اور ان کی محنت کا مقصد سمجھ میں آ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے جس شخصیت کا قول نقل کیا جا رہا ہے ان کا نام ہے ابوالسیر بزدویؒ، وہ اپنی کتاب اصول دین میں وضاحت فرماتے ہیں:
علم کلام دراصل ان مسائل کا نام ہے جن کی حیثیت اسلام میں اسول دین کی ہے اور جن کا سیکھنا فرض عین ہے امام ابوحنیفہؒ نے یہ علم حاصل کیا ہے اور اس کے ذریعے معتزلہ اور تمام اہل بدعت سے مناظرہ کیا ہے۔ آغاز میں آپ اپنے اصحاب کو اس کی تعلیم بھی دیتے تھے اور اس علم  میں آپ نے کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے کچھ تک ہماری رسائی ہوئی ہے اور کچھ کو اہل بدعت نے خورد برد کر دیا۔ جو کتابیں امام اعظمؒ کی ہم کو ملی ہیں ان میں العالم والمتعلم اور الفقہ الاکبر ہے۔ العالم والمتعالم میں امام اعظمؒ  نے یہ بات کھول کر سمجھائی ہے کہ علم کلام پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے چنانچہ اسی کتاب میں ہے کہ متعلم کہتا ہے کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علم کلام نہ پڑھنا چاہئے کیونکہ صحابہ کرامؓ نے یہ علم نہیں پڑھا ہے۔ عالم کہتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ ہاں ٹھیک ہ ہمیں  بھی علم کلام نہیں پڑھنا چاہیئے جیسے صحابہ کرامؓ نے نہیں پڑھا لیکن تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ ہمارے اور صحابہؓ کے معاشرے میں کیا فرق ہے؟ جن حالات سے ہمیں دین کی زندگی میں دوچار ہونا پڑ رہا ہے ان سے صحابہؓ دوچار نہیں تھے ہمارا ایسے معاشرے  سے سابقہ پڑا ہے جن کی زبانیں مسلک حق کے خلاف چھوٹ اور بے لگام ہیں۔ جن کے یہاں ہمارا خون روا ہے کیا اس ذہن کے گردوپیش  میں ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ راست رو اور غلط کار میں ایک حد فاصل اور خط تمیز قائم کر یں۔

الاعلام المرفوعہ فی حکم الطلاقات المجموعۃ - تین طلاق کے بارے میں

 باب اول
ایک مجلس کی تین طلاقین چاہے بیک لفظ[1]؎ دی جائیں یا بالفظ متعددہ[2]؎ واقع ہوجاتی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد چاہے وہ جس طرح دی گئی ہوں رجعت کرنا شرعاً ممکن نہیں ہے۔ شریعت کا یہ وہ مسئلہ ہے جس پر اہل سنت والجماعت کے ہر چہار امام ابو حنیفہ، مالک ، شافعی اور احمد رحمۃ اللہ علیہم کا اتفاق ہے اور نہ صرف یہی بلکہ دیگر اکابر ائمہ فقہ وحدیث مثلاً امام اوزاعی(امام شام) امام نخعی امام ثوری، امام اسحٰق امام ابوثور امام بخاری کا بھی یہی قول ہے بلکہ جمہور صحابہ و تابعین و جمہور ائمہ وخلف اسی کے قائل ہیں چنانچہ امام نووی شرح مسلم (جلد1صفحہ478) میں لکھتے ہیں۔" وقد اختلف العلماء فی من قال لا مراتہ انت طالق ثلاثا فقال الشافعی و مالک و ابو حنیفہ و احمد و جماھیر العلماء من السلف والخلف یقع الثلث[3] ؎" اور شیخ امام ابن الہمام فتح القدیر(جلد 3صفحہ 25) میں فرماتے ہیں "وذھب جمھور من الصحابۃ والتابعین ومن بعد ھم من ائمۃ المسلمین الی انہ یقع الثلاث[4]؎"

تحقیق اہلِ حدیث

فرقۂ غیر مقلدین دوسرے فرقوں کی بہ نسبت ایک نومولود فرقہ ہے۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو سال قرار دی جاسکتی ہے، لیکن یہ ایک عجیب بے بسی بلکہ بد نصیبی ہے کہ اب تک اس فرقہ کے افراد، اپنی تمام کوشش و کاوش کے باوجود، کوئی ایسا نام یا لقب نہیں دریافت کرسکے، جو ان کی حرکات وسکنات کو دیکھتے ہوئے پوری طرح اس پر منطبق ہوسکے، چنانچہ اپنے روز پیدائش سے لے کر اب تک اس جماعت نے اپنے لئے جتنے القاب اختیار کئے اور جتنے لبادے اوڑھے، وہ باوجود افسوس ناک ہونے کے ایک  حیرت انگیز داستان ہے۔
غیر مقلدین کا سب سے بڑا دعویٰ عمل بالحدیث کا ہے ، جس کی مناسبت سے وہ خود کو اہل حدیث کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو حدیث رسول ﷺ کا سرمایہ دار سمجھ کر تمام دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم راہ راست پر ہیں اور جہاں کے تمام مسلمان راہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں، لیکن واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے ، حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے علم و فہم اور اس پر عمل کی بابت ان کی حرماں نصیبی قابل رحم ہے ، یہ جماعت اپنے کو اہل حدیث ثابت کرنے کے لئے مختلف قسم کی چالبازیاں دکھاتی رہی ہے، چنانچہ وہ علماء و محدثین کی کتابوں میں جہاں کہیں، "اصحاب الحدیث" یا " اہل الحدیث" وغیرہ الفاظ دیکھتی ہے ، اپنے اوپر چسپاں کر کے غرور و نخوت کا مظاہرہ کرتی پھرتی ہے، حالانکہ ان الفاظ سے مراد وہ اہل علم ہوتے ہیں جن کا شب و روز کا مشغلہ حدیثوں کا بیان کرنا اور ان کا پڑھنا پڑھانا ہوتا تھا، جس سے اس جماعت کو دور کابھی واسطہ نہیں۔

Tuesday, 20 March 2018

امام ابو الحسن اشعری اور امام ابو منصور ماتريدی کے بعد لوگ اپنے آپ کو اشعری وماتریدی کیوں کہنے لگے؟


اس سوال کا جواب چوتھی صدی ہجری کے عالم اور امت مسلمہ کے مستند ومعتبرامام وفقیہ ومحدث ومفسر حفظ واتقان وضبط میں سب سے فائق مرجع العوام والخواص تمام علوم الشرعیۃ کے بے مثل امام ، میری مراد امام حافظ ابو بكر احمد بن حسین  بہیقی رحمہ الله تعالى ہیں ،جن کے متعلق حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ذہبی اس طرح تبصره کرتے ہیں ، کہ اگر امام بہیقی چاہے تو اپنا ایک مستقل اجتہادی مذہب ومسلک بنا لیتے کیونکہ اجتہاد پرقادرتھے اورعلوم میں وسعت رکھتے تھے اور اختلاف کی معرفت رکھتے تھے ۔ یعنی امام بیہقی میدان اجتہاد کے شہسوار تھے لیکن باوجود اس اہلیت وکمال کے دین میں امام شافعی کی راہنمائی وتقلید کا دامن پکڑا ، خیر میں نے یہ چند کلمات اس لئے عرض کئے تاکہ امام بہیقی کا مرتبہ پہلے ذہن نشین ہوجائے ، اب میں مذکوره سوال کا جواب اسی امام کی زبانی نقل کرتا ہوں ،
وقال الحافظ أبو بكر البيهقي رحمه الله تعالى
إلى أن بلغت النوبة إلى شيخنا أبي الحسن الأشعري رحمه الله فلم يحدث في دين الله حَدَثاً، ولم يأت فيه ببدعة، بل أخذ أقاويل الصحابة والتابعين ومن بعدهم من الأئمة في أصول الدين فنصرها بزيادة شرح وتبيين،الخ (تبیین كذب المفتری 103، الطبقات الكبرى للتاج السبكی 3/397)

Friday, 18 December 2015

اعتراض : فرائض و سنت و نوافل وغیرہ کی جو تقسیم کی گئی ہے یہ غیر شرعی اور فضول ہے اور ایجاد اور بدعت ہے

احکامِ شرعیہ کا مدار دلائل پر ہوتا ہے، شریعت کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے کہ اس کی بنیاد دلیل شرعی پر نہ ہو، بلکہ شریعت کا جو بھی حکم آپ دیکھیں گے اس کا مدار کسی نہ کسی دلیل پر ہوگا، اور یہ بات واضح ہے کہ دلائل سب کے سب برابر درجہ کے نہیں ہیں، بلکہ ثبوت ودلالت کے اعتبار سے دلائل باہم متفاوت ہیں، چنانچہ اس اعتبار سے دلائل کے چار درجے ہیں: 
  1. وہ دلائل جو ثبوت ودلالت دونوں اعتبار سے قطعی ویقینی ہوں جیسے قرآن کریم کی وہ آیات جو محکم اور واضح الدلالة ہیں، اسی طرح وہ آیات جن کی تفسیر خود قرآن کریم میں مذکور ہے، یا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفسیر کردی ہے، اسی طرح اس قسم میں وہ احادیث بھی شامل ہیں جو تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور ان کے مفاہیم بھی قطعی ہیں۔