تازہ ترین تحریریں

Monday 27 August 2012

مجتہدين كے فتاوى عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى طرح ہيں

امام شاطبی رحمہ الله بہت بڑے جلیل القدر امام ہیں سيدُ القراء ہیں ، قراأت ورسم ونحو وصرف وفقه وحديث کے یگانہ روزگارامام ہیں اندلس میں " الشاطبية " مقام کے رہنے والے تهے حافظ أبو عمرو بن الصلاح رحمہ الله نے " طبقات الشافعية " میں شمارکیا ہے علماء مالکیہ نے ان کو مالكيُ المذهب ، لکها ہے ، اورامام شاطبی کے اپنے طرز واسلوب سے بهی یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ وه اپنی کتب میں امام مالك رحمہ الله کے أقوال اہتمام سے ذکر کرتے ہیں ،
امام شاطبی رحمہ الله کی ایک انتہائ بہترین علمی وتحقیقی کتاب { الموافقات } ہے ، یہ کتاب أصول الفقه و أصول الشريعة میں ہے ،اهل علم اس کتاب کی قدرومنزلت خوب جانتے ہیں ، اورعلامہ شاطبی رحمہ الله نے اس کا نام " التعريف بأسرار التكليف " رکها ، کیونکہ اس کتاب میں شریعت مطہره کے رموز واسرار تكليفيہ بیان کیئے گئے ، امام شاطبی رحمہ الله کے ایک شیخ نے ان کے متعلق ایک خواب دیکها تها تو اس خواب کی بناء پرامام شاطبی نے اس کا نام " الموافقات " رکهہ دیا ۰


اوپرمیں نے جوعنوان قائم کیا ہے ، یہ درحقیقت امام شاطبی رحمہ الله کے فرمان سے ہی ایک اقتباس ہے ، امام شاطبی رحمہ الله اپنی کتاب " الموافقات " میں فرماتے ہیں کہ 

فتاوى المجتهدين بالنسبة إلى العوام كالأدلة الشرعية بالنسبة إلى المجتهدين ، والدليل عليه أن وجود الأدلة بالنسبة إلى المقلدين وعدمها سواء ، إذ كانوا لا يستفيدون منها شيئا ، فليس النظر في الأدلة والاستنباط من شأنهم ، ولا يجوز ذلك لهم ألبتة ، وقد قال تعالى : ( فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون ) ، والمقلد غير عالم ، فلا يصح له إلا سؤال أهل الذكر ، وإليهم مرجعه في أحكام الدين على الإطلاق ، فهم إذًا القائمون له مقام الشارع ، وأقوالهم قائمة مقام الشارع "الموافقات" (4/292 انتهى
يعنى مجتھدين كے فتاوى جات عام لوگوں كى بنسبت شرعى دلائل كى مانند ہيں، اس كى دليل يہ ہے كہ مقلدين كے ليے دلائل كا ہونا يا نہ ہونا برابر ہے، كيونكہ وہ اس سے مستفيد نہيں ہو سكتے، كيونكہ دلائل كو ديكھنا اور ان سے مسائل كا استنباط كرنا ان پڑھ لوگوں كا كام نہيں، اور ان كے ليے بالكل يہ جائز نہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون 
اگر تمہيں علم نہيں تو تم اہل علم سے دريافت كر ليا كرو : اور مقلد چونکہ عالم نہیں ہے ، اس ليے اس كے ليے اہل علم سے دريافت كرنے كے علاوہ كچھ صحيح نہيں، اور مطلقا اہل علم ہى احكام دين ميں مرجع ہيں، كيونكہ وہ شارع كے قائم مقام ہيں، اور ان كے اقوال شارع كے قائم مقام ہيں " انتہى
امام شاطبی رحمہ الله کا بیان بالکل واضح ہے کہ وه مسلمان جو اجتہاد کی اہلیت وصلاحیت سے محروم ہیں ، تو وه دین میں مُجتہدین کرام کے اقوال وفتاوی پرعمل کریں گے ، اس عمل کو اصطلاح میں تقلید کہا جاتا ہے ، اورایسے شخص کو مُقلد کہا جاتا ہے ، اوراس عمل کی وجہ سے وه (معاذالله ) مشرک وبدعتی وجاہل وگمراه نہیں کہلائیں گے ، بلکہ امام شاطبی رحمہ الله کے بقول کہ مُجتہدین کرام کے فتاوی جات (اوراقوال واجتہادات) مُقلدین کے لیئے شرعى دلائل کی طرح ہیں ، لہذا مجتہدین کے فتاوی واقوال پرعمل شریعت پرہی عمل ہے ۰ سبحان الله ، فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی خوش قسمتی ہے کہ یہ فرقہ امام شاطبی رحمہ الله کے زمانہ میں نہیں تها ، ورنہ امام شاطبی رحمہ الله اس فرقہ جدید کا بهی خوب رد کرتے ، کیونکہ یہ فرقہ جدید تو بوجہ جہالت وحماقت کے مُجتہدین کرام کے فتاوی واقوال کی تقلید کو جہالت وضلالت وحرام وشرک ٹهہراتا ہے ، جب کہ امام شاطبی رحمہ الله مُجتہدین کرام کے فتاوی جات (اوراقوال واجتہادات) مُقلدین کے لیئے شرعى دلائل کی طرح کہتے ہیں ،
اب دونوں نظریوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے ، ایک جلیل القدرومستند امام یہ کہتا ہے کہ مجتہدین کے اقوال وفتاوی مقلد کے لیئے بمنزلہ شرعی دلائل ہیں ، جب کہ ہندوستان میں پیدا شده فرقہ جدید اہل حدیث کے علمبردار کہتے ہیں کہ مجتہدین کی تقلید شرک وبدعت وضلالت ہے ،
بات کس کی صحیح ہے عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے ؟؟
الله تعالی عوام کواس فرقہ جدید کے وساوس سمجهنے اوران سے بچنے کی توفیق دے ٠

اسى طرح علامہ ابن قـُدامَہ ألحنبلي رحمہ الله بہت جلیل القدرامام ہیں ، شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
لم يدخل الشام بعد الأوزاعي فقيه أعلم من موفق الدين "
یعنی ملک شام میں امام اوزاعی کے بعد موفق الدين (علامہ ابن قـُدامَہ ألحنبلي رحمہ الله ) سے بڑا فقیہ داخل نہیں ہوا ۰
امام ذهبی رحمہ الله نے ان کی تعریف اس طرح کی
كان من بحور العلم وأذكياء العالم .
علامہ ابن رجب الحنبلي نے ان کے بارے فرمایا کہ

الفقيه الزاهد الإمام شيخ الإسلام وأحد الأعلام ، وقال أيضا : هو إمام الأئمة ومفتي الأمة خصه الله بالفضل الوافر والخاطر الماطر ، طنّت في ذكره الأمصار وضنّت بمثله الأعصار .

امام ذهبی رحمہ الله نے امام الضياء المقدسي رحمہ الله سے یہ بات نقل کی فرمایا کہ میں نے المفتي أبا بكر محمد بن معالي بن غنيمة رحمہ الله سے سنا وه کہتے تهے کہ " ما أعرف أحدا في زماننا أدرك درجة الإجتهاد إلا الموفق "
یعنی میں نہیں جانتا کہ ہمارے زمانہ میں کوئ درجہ اجتہاد کوپہنچا ہے مگر الموفق یعنی ابن قـُدامَہ ألحنبلي رحمہ الله ۰ 
یہ تهوڑی تفصیل توان کی شخصیت ومرتبہ کے بارے تهی ، اب ان کا ایک فیصلہ اورفتوی ملاحظہ کریں ، فرماتے ہیں کہ 
" وأمـا التـقـليـد في الفـُروع فهُـو جـائـز إجـمـاعًــا "
یعنی فروعی مسائل میں (مجتہدین ) کی تقلید بالاجماع جائز ہے ۰ 
یہ نہیں فرمایا کہ میرے نزدیک یا فلاں شیخ وامام کے نزدیک تقلید جائز ہے ، بلکہ تقلید کے جواز پرإجـمـاع نقل کر رہے ہیں ، اوریہ اجماع بهی چهٹی صدی میں نقل کر رہے ہیں ، اور مزید فرماتے ہیں کہ 
" فلهذا جـاز التقليد فيـها، بل وجب علـى العـامـي ذلك "
لہذا فروعی مسائل میں (مجتہدین ) کی تقلید نہ صرف یہ کہ بالاجماع جائز ہے ،
بلکہ عـَامـي شخص پر تقلید واجب ہے ۰ [ انظر الروضة ص 206 }اب فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کے وساوس کو دیکهیں ان کی جہالت وسفاہت کو دیکهیں کہ ہروقت عوام کو گمراه کرنے کے لیے یہی راگ الاپتے ہیں کہ تقلید شرک وبدعت وضلالت ہے ، جب کہ جلیل القدرائمہ اسلام نہ صرف تقلید کوجائزبلکہ عوام پرواجب ولازم ہونے کا حکم دے رہے ہیں ، اب عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ فرقہ جدید کے وساوس قبول کرکے گمراہی کی طرف جانا ہے یا جلیل القدرائمہ اسلام وعلماء امت کی بات وفیصلہ قبول کرنا ہے ؟؟۰ 
اسى طرح شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں کہ 
" وتقـليـد العـاجـز عن الاستدلال للعـالم يجـوز عند الجمهور "
اور استدلال (واجتہاد) سے عاجز شخص کے لیئے جمہور علماء کے نزدیک عالم کی تقـليـد جائز ہے ۰ { انظر مجموع فتاوى ابن تيمية جـ 19 ص 262 اب فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کے جہلاء کا طرز دیکهیں کہ عوام کے سامنے بڑے زور وشور سے شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کی تعریف وتوصیف کرتے تهکتے نہیں ہیں ، لیکن درحقیقت یہ فرقہ شیخ الاسلام کا نام بهی محض دهوکہ وفریب کےلیئے لیتے ہیں ، جیسا کہ شیخ الاسلام کے مذکوره بالا قول کو دیکهیں اور پهرفرقہ جدید کے طرز وروش کو دیکهیں ،
الله تعالی عوام کواس فرقہ جدید کے وساوس سمجهنے اوران سے بچنے کی توفیق دے ٠ 
مجتہدین کی تقلید کے اوپرعلماء امت کا اجماع ہے ، حتی وهابی ونجدی حضرات جوعموما کئ مسائل بہت شدت کرتے ہیں ، لیکن تقلید کا انکار انهوں نے بهی نہیں کیا ، الشيخ حمد بن ناصر بن معمرالنجدي شیخ محمد بن عبد الوهاب کے شاگرد ہیں ، وه فرماتے ہیں کہ 
من كان من العوام الذين لا معرفة لهم بالفقه والحديث، ولا ينظرون في كلام العلماء، فهؤلاء لهم التقليد بغير خلاف، بل حكى غير واحد إجماع العلماء على ذلك اهـ 
وه عام لوگ جن کو فقہ وحدیث کی معرفت حاصل نہیں ہے ، اور علماء کے کلام میں نظر ( واستدلال وتطبیق وغیره ) کی صلاحیت نہیں رکهتے ، توان لوگوں کے لیئے بلا اختلاف تقلید جائز ہے ، بلکہ تقلید کے جواز پر ایک سے زائد علماء نے اجماع نقل کیا ہے ۰ 
{ انظر مجموعة الرسائل والمسائل النجدية ، رسالة الاجتهاد والتقليد جـ2 ص 7 و ص 21 و ص 6 }
شیخ محمد بن عبد الوهاب نجدی کے بیٹے شیخ حسين، وشیخ عبد الله فرماتے ہیں کہ ، جب آدمی کو حدیث اورکلام علماء اوراقوال کے ترجیح کی معرفت حاصل نہ ہو تو اس کا وظیفہ اور ذمہ داری أهلُ العلم کی تقلید ہے ۰ 
إذا كان الرجل ليس له معرفة بالحديث، وكلام العلماء، وترجيح الأقوال، فإنما وظيفته : تقليد أهل العلم، قال الله تعالى{ فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون} سورة النحل: 43." الدرر السنية 4/ 14 ، 15 ٠
بغرض فائده ائمہ اسلام وعلماء عظام واکابرین امت کے چند مزید اقوال ملاحظہ کریں ، جس میں تقلید کے جوازاوراس پرامت کے اجماع اورعوام اوراجتہاد سے عاجزعلماء کو مجتہدین کی تقلید کرنے کی انتہائ صراحت و وضاحت وتاکید سے تصریح ہے ۰ 
وقال الإمام الغزالي : مسألة العامي يجب عليه الاستفتاء وإتباع العلماء وقال قوم من القدريه يلزمهم النظر في الدليل او اتباع الإمام المعصوم
المصتصفى للأمام الغزالي ج2 ص432
وقال في فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت : غير المجتهد المطلق ولو كان عالما يلزمه التقليد لمجتهد فيما لا يقدر عليه لا فيما يقدر عليه بناء على تجزى الاجتهاد ويلزمه التقليد مطلقا فيما يقدر وفيما لا يقدر عليه بناء على نفي القول بالتجزى .
فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ج2 ص446
قال ابن قدامه المقدسي : وأما التقليد في الفروع فهو جائز إجماعا فكانت الحجه فيه الاجماع .
وذهب بعض القدريه الى ان العامه بلزمهم النظر في الدليل في الفروع ايضا وهو باطل باجماع الصحابه .
روضه الناضروجنه المناظر للمقدسي ج2 ص 382
قال اللآمدي في الاحكام : العامي ومن ليس له أهليه الاجتهاد وان كان محصلا لبعض العلوم المعتبره في الاجتهاد يلزمه اتباع قول المجتهدين والاخذ بفتواهم عند المحققين من الاصوليين ومنع من ذلك بعض معتزله بغداد ٠
الاحكام لللآمدي ج 4 ص132
وقال الأمام الرازي : يجوز للعامي ان يقلد المجتهد في فروع الشرع خلافا لمعتزله بغداد ٠
وقال ابن السبكي : ويلزم غير المجتهد عاميا كان او غيره التقليد ٠
وقال الشيخ زكريا الانصاري :ويلزم غير المجتهد المطلق عاميا كان اوغيره التقليد في غير العقائد للمجتهد في الاصح ٠
وقال أحمد بن علي الجصاص رحمه الله (في الفصول.. 4/181):" إذا ابتلي العامي الذي ليس من أهل الاجتهاد بنازلة، فعليه مساءلة أهل العلم عنها،وذلك لقول الله تعالى : (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) .
وَقَالَ تعالى : (فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إذَا رَجَعُوا إلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ) .
فأمر من لا يعلم: بقبول قول أهل العلم فيما كان من أمر دينهم من النوازل، وعلى ذلك نصت الأمة من لدن الصدر الأول، ثم التابعين، إلى يومنا هذا، إنما يفزع العامة إلى علمائها في حوادث أمر دينها ٠ 
وقال أبو الوليد سليمان بن خلف الباجي رحمه الله (في إحكام الفصول.. 727):إن فرض العامي الأخذ بقول العالم، وإنما نسميه تقليداً على سبيل المجاز والاتساع، وإلا فهذا فرضه والذي إذا فعله فقد أدى الواجب عليه ٠ 
وقال القرطبي – رحمه الله – (في تفسيره 2/211) عند قوله تعالى : (وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا...): "تعلق قوم بهذه الآية في ذم التقليد لذم الله الكفار باتباعهم لآبائهم في الباطل، واقتدائهم بهم في الكفر والمعصية، وهذا في الباطل صحيح، أما التقليد في الحق فأصل من أصول الدين، وعصمة من عصم المسلمين، يلجأ إليها الجاهل المقصر عن درك النظر٠
وقال بدر الدين الزركشي (في البحر المحيط 6/282):" وأما وجوبه على العامة ، فلقوله تعالى : (فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) وَقَوْلُهُ: (فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ)،فأمر بقبول قول أهل العلم فيما كان من أمر دينهم، ولولا أنه يجب الرجوع إليهم لما كان لِلنِّذَارَةِ معنى، ولقضية الذي شُج فأمروه أن يغتسل، وقالوا: لسنا نجد لك رخصة فاغتسل ومات، فقال النبي عليه السلام: «قَتَلُوهُ قَتَلَهُمْ اللَّهُ، إنَّمَا كَانَ شِفَاءُ الْعِيِّ السُّؤَالَ»، فبان بذلك جواز التقليد قال أبو حامد، ولأنه لا خلاف أن طلب العلم من فروض الكفاية التي إذا قام بها البعض سقط عن الباقين، ولو منعنا التقليد لأفضى إلى أن يكون من فروض الأعيان.
ونقل غير واحد إجماع الصحابة فمن بعدهم عليه، فإنهم كانوا يفتون العوام، ولا يأمرونهم بنيل درجة الاجتهاد؛ ولأن الذي يذكره المجتهد له من الدليل، إن كان بحيث لا يكفي في الحكم فلا عبرة به، وإن كان يذكر له ما يكفي، فأسند إليه الحكم في مثل ذلك التزمه قطعاً، وقال القاضي أبو المعالي عزيزي بن عبد الملك، في بعض مؤلفاته: لو وجب على الكافة التحقيق دون التقليد أدى ذلك إلى تعطيل المعاش وخراب الدنيا، فجاز أن يكون بعضهم مقلداً وبعضهم معلماً وبعضهم متعلماً، ولم ترفع درجة أحد في الجنان لدرجة العلماء والمتعلمين ثم درجة المحبين وقال: المصير في الموجب لتقليد العامي للعالم، عدم آلة الاستنباط وتعذرها عليه في الحال، والتماس أصول ذلك، فلو تركه حتى يعلم جميعها، ويستنبط منها لتعطلت الفرائض من العالم حتى يصيروا كلهم علماء، وهذا فاسد، فرخص له في قبول قول العالم الباحث، ولا يجوز له قبول قول من هو مثله٠
وقال القرافي رحمه الله (في الذخيرة ص132): قاعدة: انعقد الإجماع على أن من أسلم فله أن يقلد من شاء من العلماء بغير حجر٠ 
قال الشيخ أحمد بن عبدالله المرادوي الحنبلي رحمه الله تعالى في كتابه (اللالئ البهية في شرح لا مية شيخ الإسلام ابن تيمية):ص /179
وعلى ذلك نص كثير من العلماء عن إجماع هؤلاء الأئمة الأربعة حجة واختلافهم رحمة لأن الحق لايخرج عنهم لقوله صلى الله عليه وسلم : (اختلاف أمتي رحمة) فيجب تقليدهم في الفروع لا سيما في زماننا هذا بل يحرم الإجتهاد ولتعذر معرفة شروطه.
قلت ، أي الشيح أحمد المرداوي، هذا في المقيد وأما في المطلق فلا ولا قائل به الآن ومن ادعاه في هذه الأزمنة كذب لأنه نادر والنادر لا حكم له مع أنا نقول أن الأرض لاتخلو من قائم لله بالحجة للحديث انتهى.
آخرمیں إمام أهل السنة الإمام أحمد بن حنبل رحمہ الله کا قول وفیصلہ نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں ، فرماتے ہیں کہ 
من زعم أنه لا يرى التقليد ، ولا يقلد دينه أحدًا : فهو قول فاسق عند الله ورسوله صلى الله عليه وسلم ، وإنما يريد بذلك إبطال الأثر ، وتعطيل العلم والسنة ، والتفرد بالرأي والكلام والخلاف " 
یعنی إمام أحمد بن حنبل رحمہ الله فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ زعم کرے کہ وه 
تقلید کوجائزنہیں کہتے ، تو یہ قول الله ورسول صلى الله عليه وسلم کے نزدیک فاسق ہے ، وه شخص اپنے اس قول کے ذریعہ سے اثر یعنی حدیث کو باطل کرنے کا اراده کرتا ہے ، اورعلم وسنت کو معطل کرنے کا اراده کرتا ہےالخ
{أنظر طبقات الحنابلة ج1ص31 }





إن أريدُ إلا الإصْــلاحَ مـَا استطعتُ وَمَاتوفـِيـقـي إلابالله ۰

No comments:

Post a Comment