تازہ ترین تحریریں

Tuesday, 28 August 2012

کیاعصر ِحاضر کےغیر مقلدین اہلِ حدیث ہیں؟

برصغیر ہند وپاک میں تقریبا بارہ صدیوں سے اسلام آیا، یہاں اسلام لانے والے، اسلام پھیلانے والے اور اسلام قبول کرنے والے سب کے سب اہل السنتہ والجماعتہ حنفی المسلک تھے ،یہاں تمام محدثین و مفسرین، فقہاء و اولیاء کرام و سلاطین عظام حنفی المسلک تھے۔ الحمدﷲ علی ذالک۔
لیکن جب سے انگریز کے شاطروغاصب قدم یہاں آئے تو وہ یورپ سے ذہنی آوارگی، مادر پدر آزادی اور دینی بے راہ روی کی سوغات ساتھ لائے اور مذہبی آزادی اور مذہبی تحقیق کے خوشنما اور دلفریب عنوانوں سے اس ملک میں ایک خود سرفرقے کو جنم دیا۔
اس فرقے کا پہلا قدم سلف صالحین سے بدگمانی اور اس کی انتہا سلف کے خلاف بدزبانی ہے یعنی اس فرقے کا ہر شخص اعجاب کل ذی رای برایہ پر نازاں و فرحاں ہونے کے ساتھ ساتھ لعن آخر ہذہ الامتہ اولھا کا مصداق ہے۔ اس فرقے کا ہر فرد اپنے آپ کو آئمہ اربعہ بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے اعلیٰ و برتر سمجھتا ہے۔
ہم اس کے مکمل حقائق پر نہیں بلکہ جملہ حقائق میں ایک حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو ہمارا موضوع بحث ہے اور وہ اس فرقہ زائفہ کی تاریخ پیدائش ہے۔ جس کے جاننے کے بعد آپ پر جھوٹے لبادے اہلحدیث کی حقیقت آشکارا ہوجائے گی۔
اس ایک فرق کو ضرور سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ یہ فرقہ رسول اﷲ کے زمانے سے ۱۴ سو سال بعد پیدا ہوا ہے جو فرقہ رسول اﷲ کے زمانے سے اتنا بعد میں پیدا ہوا ہو وہ کیونکر علم و عمل اخلاص وللہیت اجتہاد و استنباط میں خیر القرون میں پائے جانے والے خواص تو کجا عوام کے مقابلے میں افضل ہوسکتا ہیٍ؛ چنانچہ ان کی کہانی خود انہی کی زبانی،اس محاورے کے استشہاد اور مطابقت کے لئے ملاحظہ ہو۔
 مولانا عبدالخالق اور نذیر حسین دہلوی صاحبان فرماتے ہیں:
سو بانی مبانی اس فرقہ نواحداث کا عبدالحق ہے جو چند دنوں سے بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیرالمومنین (سید احمدشہید) نے ایسی حرکات نائشہ کے باعث اسے اپنی جماعت سے نکال دیا اور علمائے حرمین معظمین نے اس کے قتل کا فتویٰ لکھا مگر کسی طرح وہ بھاگ کر وہاں سے بچ نکلا

(نتائج التقلید ص ۳ الحیات بعد الممات ص ۲۲۸)

ام المومنین کا گستاخ مولوی عبدالحق بنارسی نے برملا کہا عائشہ علی سے لڑی اگر توبہ نہ کی تو مرتد مری اور یہ بھی دوسری مجلس میں کہا کہ صحابہ کا علم ہم سے کم تھا ان میں سے ہر ایک کو پانچ پانچ حدیثیں یاد تھیں اور ہم کو ان سب کی حدیثیں یاد ہیں۔

 (کشف الحجاب ص ۴۲)

غیر مقلدین کے عالم و مجتہد مسلم نواب صدیق حسن خان فرماتے ہیں اس زمانے میں ایک ریاکار اور شہرت پسند فرقے نے جنم لیا ہے جو ہر قسم کی خامیوں اور نقائص کے باوجود اپنے لئے قرآن و حدیث کے علم اور ان پر عامل ہونے کے دعویدار ہیں حالانکہ علم اورعرفان سے اس فرقے کو دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ لوگ علوم آلیہ و عالیہ دونوں سے جاہل ہیں

(الحطہ ص ۱۵۳)

اس قسم کے بیسیوں واقعات ان کی کتب سے نقل کئے جاسکتے ہیں مگر ھکذالقدر کفیٰ باالمرء عظۃکے طور پر کافی ہیں۔
مندرجہ بالااقتباسات میں کسی قسم کا کوئی اختلاف یا ابہام نہیں ہے کہ اس کی وضاحت کی جائے۔ یہ عبارات اپنے معانی میں خود اظہر من الشمس ہیں۔ بالخصوص نواب صاحب نے تو انتہا کردی۔ خصوصی طور پر نواب صاحب کے یہ الفاظ قابل غور ہیں (ہر قسم کی خامیوں کے باوجود اپنے لئے قرآن و حدیث کے علم اور ان پر عامل ہونے کے دعویدار ہیں)
آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس فرقے کی تاریخ پیدائش کیا ہے۔ پھر غیر مقلدین کہتے ہیں کہ غیر مقلد نام تم نے ہمارا رکھا ہے۔ ورنہ ہم اہلحدیث ہیں اور یہ اصطلاح حدیث کی تدوین کے وقت سے چلی آرہی ہے لہذا ہم محدثین کے مسلک پر ہیں۔ تم ہمیں کیسے کہتے ہو کہ ہم بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر یہ بیان کیا جائے کہ اہل حدیث کی اصطلاح کتب متقدمین و متاخرین میں جو استعمال ہوئی ہے اس کا مصداق کون ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ جو حضرات حدیث کی خدمت میں روایتہ و درایتہ معروف ہوئے ہوں ایسے صاحبان علم و عمل کے لئے علماء امت اصحاب الحدیث اہل الحدیث اہل الاثر محدثین کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت ان اصطلاحات کے الفاظ میں تو اختلاف ہے معنی میں اتحاد ہے بالفاظ دیگر یہ سب باہم مترادف المعنی ہیں۔
اس دعوے کی دلیل کے لئے بجائے اصول حدیث کی کتب کے حوالے نقل کئے جائیں‘ قطع مسافت کے طور پر ایک غیر مقلد عالم مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کی کتاب تاریخ اہل حدیث سے حوالہ نقل کردیتا ہوں،ملاحظہ ہو:
بعض جگہ تو ان کا ذکر لفظ اہل حدیث سے ہوا ہے اور بعض جگہ اصحاب حدیث سے بعض جگہ اہل اثر کے نام سے اور بعض جگہ محدثین کے نام سے مرجع ہر لقب یہی ہے۔

(تاریخ اہل حدیث ص ۱۲۸)

سیالکوٹی صاحب کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصطلاحات ان کے نزدیک بھی متراف المعنی ہیں۔ بزعم خویش اہل حدیث یعنی غیر مقلدین اور انفاس قدسیہ اہل حدیث میں بچند وجوہ فرق ہے۔
جماعت یا فرقہ اسے کہتے ہیں جو اصول و فروع میں ایک نظریہ پر متفق ہیں جیسے متقدمین و متاخرین علماء کی کتب میں متعدد فرق کا ذکر ہے مثلا مرجئہ، قدریہ ،جبریہ، معتزلہ، خوارج، روافض وغیرہ ،ان فرقوں کا بطور فرقہ ذکر ہے مثلا مرجئہ بالکل اعمال کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کرتے، دخول جنت کے لئے نفس ایمان کو کافی سمجھتے ہیں تو  ایک خاص نظریہ رکھنے والے گروہ کو مرجئہ سے موسوم کیا گیا۔ جبکہ قابل غور بات یہ ہے کہ اہل حدیث اگر کوئی فرقہ ہوتا اگرچہ حقانی ہوتا تو اس طریق پر ان کا ذکر ضرور ہوتا یعنی یہ کہا جاتا کہ یہ خوارج کا مسلک ہے اور اس کے مقابلے میں اہل حدیث کا مسلک یہ ہے جبکہ ایسا نہیں تو اس طرح ذکر نہ کرنے کی وجہ یہی ہے کہ اہل حدیث کہتے ہی ایسے اشخاص و افراد کو ہیں جو خدمت حدیث میں روایتہ و درایتہ معروف ہو، قطع نظراس سے کہ اس کا اپنا فقہی مسلک کیا ہے۔
چنانچہ جب ہم محدثین کا تذکرہ دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ احناف شوافع مالکیہ حنابلہ سب ہی اہل حدیث گزرے ہیں چنانچہ ذیل میں ایسے چند افراد کا ذکر مشتے نمونہ از حروارے کے طور پر کئے دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
اہل الحدیث احناف
(۱)امام اعظم:     عبدالکریم شہرستانی نے چند افراد کے نام گنوائے ان میں سے ایک امام اعظم بھی ہیں اور آخر میں فرمایا وھوء لاء کلہم آئمۃ الحدیث ۔
اور اسی طرح علامہ ذہبی نے امام صاحب کو ان القابات سے یاد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 الامام الاعظم فقیہ العراق متورع عالم عامل متقی اور کبیر الشان ان القابات کے ذریعہ تذکرہ کرتے ہوئے آپ کو حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے (تذکرہ الحفاظ ج ۱ ص ۱۵۸)
آپ کی جلالت پر سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ ہمارا اس وقت ان فضائل  کا استیعاب مقصود نہیں ہے۔
(۲)زمربن ہزیل (۳) امام ابو یوسف (۴) قاسم بن معن (۵) علی بن مسر (۶) امام طحاوی (۷) عافیہ بن یزید (۸) عبداﷲ بن مبارک، عبداﷲ بن مبارک فرماتے ہیں:

تعلمت الفقہ الذی عندی من ابی حنیفہ

(بغدادی ج ۱۳ ص۳۸۸)

(۹)یحیی بن سعید القطان (۱۰) یحیی بن معین،یحیی بن معین فرماتے ہیں۔ القرأہ عندی قرأہ حزہ والفقہ فقہ ابی حنیفہ علی ھذا ادرکت الناس (بغدادی ج ۱۳ ص ۳۴۷)
کہ میرے نزدیک قراۃ حمزہ کوفی کی اور فقہ حضرت امام اعظم کا راجح ہے۔تلک عشرہ کاملۃ
اہل الحدیث شوافع
(۱)صاحب مذہب امام ادریس شافعی رحمتہ اﷲ علیہ (۲) امام ترمذی رحمتہ اﷲ علیہ (۳) امام مسلم رحمتہ اﷲ علیہ (۴) امام نسائی رحمتہ اﷲ علیہ (۵) ابو خضر رحمتہ اﷲ علیہ (۶) ابن حبان رحمتہ اﷲ علیہ (۷) ابو السید رحمتہ اﷲ علیہ  (۸) ابن ماجہ رحمتہ اﷲ علیہ۔
اہل الحدیث مالکیہ
(۱)امام ابو نطیب (۲) قاضی ابو طاہر زملی (۳) امام ابن الباجی (۴) امام اسماعیل القاضی۔
اہل الحدیث حنابلہ
(۱)امام المقدسی (۲) الاشرم (۳) ابن الجوزی (۴) ابن شیخ عبدالقادر جیلانی یعنی ابوبکر عبدالرزاق۔
یہ چند اسماء بطور نمونہ ذکرکئے ہیں اس میں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ مسالک اربعہ کے محدثین ہیں۔ ان سب کے محدثین اور اہل الحدیث ہونے پر اتفاق ہے مگر آپ غور تو فرمائیں۔ ان میں حنفی شافعی مالکی حنبلی کیوں ہیں جبکہ ہمارے زمانے کے نام نہاد اہل الحدیث تو نہ حنفی ہیں نہ شافعی ، مالکی حنبلی ہیں۔ اس فرق کو آپ ایک مثال سے سمجھیں۔ اگر میں آپ سے کہوں کہ زید کا مسلک کیا ہے؟ تو جواب دینے والا اگر یہ کہے کہ وہ تو اہل الحدیث ہے تو آپ انصاف سے بتائیں کہ آپ کے ذہن میں کیا آئے گا۔ لامحالہ طور پر ایک فرقے کا تصور جسے ہمارے دیار میں وہابی کا لقب ملا۔ اب بزعم خویش وہ اہل الحدیث کہلاتے ہیں۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ اس فرقہ نوپید کا نام شروع میں محمد بن عبدالوہاب نجدی کے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے وہابی کہا جانے لگا۔ بعد میں ان کے فطری حلیف انگریز سرکار نے اہل حدیث سے مسمیٰ کیا۔ چنانچہ مولانا حسین بٹالوی صاحب رقم طراز ہیں:
بخدمت جناب سیکریٹری گورنمنٹ!  میں آپ کی خدمت میں سطور ذیل پیش کرنے کی اجازت اور معافی کا خواست گار ہوں۔  ۱۸۸۶ء میں میں نے اپنے ماہواری رسالہ اشاعتہ السنہ شائع کیا تھا جس میں اس کا اظہار تھا کہ لفظ وہابی جس کو عموما باغی اور نمک حرام کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے لہذا اس لفظ کا استعمال مسلمانان ہندوستان کے اس گروہ کے حق میں جو اہل حدیث کہلائے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے سرکار انگریز کے نمک حلال اور خیرخواہ رہے ہیں اور یہ بات بار بار ثابت ہوچکی ہے اور سرکاری خط و کتابت میں تسلیم کی جاچکی ہے۔ ہم کمال ادب و انکساری کے ساتھ گورنمنٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سرکاری طور پر اس لفظ وہاب یکو منسوخ کرکے اس لفظ کے استعمال سے ممانعت کا حکم نافذ کرے اور ان کو اہل حدیث کے نام سے مخاطب کیا جاویٍ اس درخواست پر فرقہ اہل حدیث تمام صوبہ جات ہندوستان کے دستخط ثبت ہیں۔

(اشاعتہ السنہ ص ۲۴ جلد ۱۱ شمارہ ۲)

بٹالوی صاحب کی اس واضح المعنیٰ عبارت پر تبصرہ کی ضرورت نہیں، ٍ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اس اصطلاح الحدیث کی الاٹمنٹ ان کے دیرینہ یار انگریز نے بطور ہدیہ عنایت کی ہے۔ بے شک کلمتہ حق ارید بہا الباطل اس موقع کے لئے کہا گیا ہیٍ۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جو محدثین گزشتہ صدیوں میں گزرے ہیں وہ فرق میں کسی نہ کسی امام کے عیال تھے اور اگر کوئی ایسا نہ تھا تو وہ از خود فقیہ و مجتہد ہوتا تھا۔
سابق میں جو بیان ہوا یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ۔ اس فرقے کے مقابلہ میں احناف کب سے ہیں‘ ان کا تاریخی پس منظر کیا ہے۔ اس کو ملاحظہ فرمائیں۔
(۱)غیر مقلدین کا فرقہ چودھویں صدی میں عبدالحق بنارسی نے بنایا ہے جبکہ احنافد" خیر القرون قرنی ثم  الذین یلونہمد" کا مظہر ہیں اور دوسری صدی احناف کا محور اجتہاد رہا اور ابتداء ہوئی۔
(۲)امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اﷲ علیہ کبار تابعین میں سے ہیں جبکہ بانی غیر مقلدین عبدالحق بنارسی تابعی تو کیا تبع تابعی تو کیابلکہ گیارہویں صدی کے کبار علماء تک کا دیدار نہ کرسکا۔
(۳)حضرت امام صاحب رحمتہ اﷲ علیہ کے متعلق احادیث میں بشارت ہے کہ اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہو تو تب بھی ایک فارسی شخص اسے حاصل کرلے گا۔ جبکہ عبدالحق بنارسی کے لئے کوئی ایک موضوع مخترع روایت بھی موجود نہیں ہے۔ ہاں اب گڑھ لیں تو اور بات ہے۔

No comments:

Post a Comment