وسوسه = دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید شرک وبدعت وجهالت هے لهذا اس تقلیدی روش کو چهوڑ کرهی کامیابی وفلاح ملے گی ، اوراس کی ایک هی صورت هےکہ " جماعت اهل حدیث " میں شامل هوجاو جن کے صرف اور صرف دو هی اصول هیں قرآن اورحدیث ۰
جواب = أئمه أربعه کی تقلید کے منکر درحقیقت فی زمانہ وه لوگ هیں جوامام ابوحنیفہ اور مذهب احناف سے عداوت ومخالفت کی وجہ سے اور دین میں آزادی اور بے راه روی کوفروغ دینے کے جذبہ سے مختلف وساوس استعمال کرتے هیں ، جن میں سے چند کا تذکره گذشتہ سطور میں هوچکا هے ، اصل میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کا کوئ اصول وموقف نہیں هے بلکہ ظاهری طورپر تقلید ائمہ کوشرک وبدعت وغیره کہ کرمحض عوام الناس کو اتباع سلف سے دورکرنا اور متنفروباغی کرکے اپنی تقلید ان سے کروانا یہ ان کا اصل مقصد هے ، 

اب عوام الناس علم وفہم سے محرومی کی وجہ سے ان کے اس چکروفریب کونہیں سمجهتے ورنہ اگرتهوڑا سا غور وخوض کیا جائے توان کا جهوٹ وفریب بالکل عیاں هوجائے ،
مثال کے طورپرایک عام آدمی کوکہتے هیں کہ آپ امام ابوحنیفہ کے مقلد هیں اوردین میں توتقلید ناجائز هے لہذا آپ کوتقلید سے توبہ کرنی چائیے اورقرآن وسنت کواپنانا چائیے اب وه عامی شخص جب یہ وسوسہ قبول کرتا هے توپهراس کویہی وساوس پڑهائے جاتے هیں اور ساتهہ ساتهہ اس کے ذهن میں یہ بات ڈال دیتے هیں کہ اب دین پرعمل کرنے اور قرآن وسنت سیکهنے کے لیئے فلاں شیخ کی کتاب پڑهو فلاں شیخ کا رسالہ پڑهو فلاں شیخ کے بیانات سنو اب اس آدمی کوائمہ مجتهدین کی تقلید سے نکال کر چند جاهل لوگوں کی تقلید کروائ جارهی هے لیکن اس آدمی کو بوجہ جہل کے یہ سمجهہ نہیں آرها ، اور تقریبا تمام وه لوگ جو اپنے آپ کو" غیرمُقلد یا اهل حدیث " کے نام سے پکارتے هیں سب کا یہی حال هے ،
اور جو لوگ بظاهر تقلید کے مُنکر کہلاتے هیں اپنے آپ کو" غیرمُقلد " کہتے هیں ، حقیقت میں یہ لوگ دنیامیں سب بڑے اندهے مُقلد هیں ، اوراس فرقہ جدید میں شامل عوام کوجہالت وجهوٹ ودهوکہ کی تقلید کروائ جاتی هے ، اگرچہ کثرت جہل وقلت عقل کی وجہ سے وه یہ نعره لگاتے هیں کہ تقلید جہالت وبدعت کا نام هے ،
خوب یاد رکهیں کہ تقلید کے نام نہاد منکربهی درحقیقت دین میں بغیرتقلید کے ایک قدم بهی آگے نہیں چل سکتے ، مثال کے طور پر
ایک آدمی یہ کہے کہ " یہ حضورصلی الله علیہ وسلم کا فرمان هے " هم اس سے پوچهتے هیں کہ کیا تو نے یہ فرمان حضورصلی الله علیہ وسلم سے سنا هے ؟؟ یقینا اس کا جواب هوگا کہ میں نے حضورصلی الله علیہ وسلم سے نہیں سنا ، پهر هم پوچهتے هیں کہ کہاں سے توحضورصلی الله علیہ وسلم کا یہ قول نقل کر رها هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ فلاں آدمی نے فلاں سے روایت کیا هے ، پهر هم پوچهتے هیں کہ کیا تو نے ان فلاں اور فلاں راویوں کودیکها هے اوران کوازخود پرکها هے کہ وه عادل وثقہ هیں اور ان میں روایت کے تمام شرائط پائے جاتے هیں ؟؟ یقینا اس کا جواب هوگا کہ فلاں اور فلاں نے کہا هے اور لکها هے کہ یہ سب راوی عادل وثقہ ومعتبرهیں ، اب هم پوچهتے هیں کہ یہ فلاں آدمی جوان راویوں کوثقہ کہ رها هے کیا اس نےان تمام راویوں کودیکها هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ نہیں بلکہ بعض نے ان کوپرکها پهراس کے بعد آنے والے ایک دوسرے کے قول پراعتماد کرتے رهے ،
پهر هم پوچهتے هیں کہ اس قائل کے پاس اس قول کی صحت کی کوئ دلیل هے ؟؟ لازمی طور پراس کا جواب هوگا کہ کوئ دلیل نہیں سوائے حسن ظن کے ،اب سوال یہ هے کہ تمام احادیث میں اسی طرح کا حسن ظن کرکے ان کوبیان کیا جاتا هے ، تو اس طرح ایک دوسرے کی تقلید کرکے حضورصلی الله علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنا جائزهے ؟؟ اور حدیث همارا دین هے کیا کوئ هے جوحدیث پر بغیرتقلید کے عمل کا دعوی کرسکے ؟؟ جب ائمہ فقہ کی تقلید ناجائزهے تو یہ تقلید کیوں جائز هوگئ ؟؟ 
خوب یاد رکهیں حدیث کے میدان میں تقلید کے بغیر کوئ شخص ایک قدم بهی نہیں چل سکتا ، گذشتہ مثال ایک عقل مند کے لیئے کافی هے ،
مزید وضاحت کے ساتهہ دیکهیں مثلا ایک نام نہاد غیرمقلد یہ حدیث پڑهے 
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( خيركم من تعلم القرأن و علمه )
اب اس نے حضورصلى الله عليه و سلم کی طرف یہ قول منسوب کرکے فرمایا ،
هم پوچهتے هیں دلیل دو ؟ وه جوابا کہے کہ بخاری نے روایت کیا هے ،
هم پوچهتے هیں بخاری کس سے یہ حدیث بیان کرتا هے ؟؟ مثلا وه جوابا کہے کہ ‏حجاج بن منهال سے اس نے ‏شعبة سے اس نے ‏علقمة بن مرثد سے اس نے ‏سعد بن عبيدة ‏ سے اس نے ‏أبي عبد الرحمن السلمي سے اس نے حضرت ‏عثمان ‏ ‏رضي الله عنه سے اس روایت کوبیان کیا هے ، 
اب سوال یہ هے کہ ‏حجاج بن منهال کون هے ؟؟
‏شعبة کون هے ؟؟
‏علقمة بن مرثد کون هے ؟؟
‏سعد بن عبيدة کون هے ؟؟
‏أبي عبد الرحمن السلمي کون هے ؟؟
ان تمام سوالوں کا جواب سوائے حسن ظن اور تقلید کے کوئ نہیں دیکهہ سکتا ،
مثال کے طورپراس حدیث کے ایک راوی شعبة کولے لیجیئے اس کے پورے حالات واوصاف جاننے کے لیئے سوائے تقلید کے اور کوئ چاره نہیں هے ، اوریہی حال ذخیره احادیث کوروایت کرنے والے تمام راویوں کا هے ، کیونکہ کسی بهی راوئ حدیث کے احوال جاننے کے لیئے " كتب رجال ورُواة " كى طرف رجوع کیا جائے گا اور جوکچهہ ائمہ اسلام نے ان کے احوال لکهے هیں اسی کو ماننا پڑے گا ، اور پهر خیر سے رجال کی تمام کتابیں جن ائمہ نے لکهی هیں وه سب کے سب مُقلد بهی هیں ، اور پهر کسی بهی راوی کے حالات کے ساتهہ کوئ دلائل نہیں لکهے هوئے کہ مثلا فلاں راوی بہت بڑا امام ثقہ عادل تها اس کی دلیل یہ هے وغیره بس محض حسن ظن وتقلید کے ساتهہ هی ائمہ رجال کے تحقیقات وتبصروں کوتسلیم کیا جاتا هے ،
اب تمام اهل اسلام مسائل اجتهادیہ میں ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے هیں اور یہ تقلید بهی دلیل وبرهان کی بنیاد پرهے کیونکہ مسائل فرعیہ اجتهادیہ کے دلائل کتابوں میں مفصل طور پرموجود هیں ، تواس عمل کو چند جاهل لوگ شرک وبدعت کہتے هیں ، اب سوال یہ هے ائمہ اربعہ کی تقلید فروعی مسائل میں ناجائزهے حالانکہ هرمسئلہ کی دلیل بهی موجود هے تو پهر یہی تقلید حدیث کے میدان میں کیوں جائز بلکہ واجب هوجاتی هے ؟؟؟
ایسے هی جن لوگوں نے محض عوام کو دهوکہ دینے کے لیئے یہ اصول بنایا هے کہ دین میں هرمسئلہ اور هربات كى دلیل قرآن وحدیث سے دینا ضروری هے ،
ایسے لوگ اپنے بنائے هوئے اصول کے مطابق حدیث کے میدان میں مشرک وجاهل بن جاتے هیں ، جس کی مختصر تشریح آپ نے اوپرملاحظہ کی ،
اور مزید یہ کہ حدیث کے تمام انواع و اقسام اجتهادى هیں ،مثلا 
((الحديث الصحیح ، صحیح لغیره ، المتواتر ،الغريب ،المنقطع،المتصل، الضعيف ، المرسل ، المرسل ، المسند ، صحيح لغيره ، الحسن ، حسن لغیره ، المقلوب،المنكر،
المشهور ، المعلق ، المعنن و المؤنن ، المتروك ، الافراد أو الآحاد ، المعضل ،المبهم ،المسلسل ، المطروح ، الموقوف ، المستفيض ، المدلس ، العالى ، الموضوع ، المقطوع ، العزيز ، المرسل الخفى ، النازل ،التابع ،الشاهد،المدبج،السابق واللاحق،المتفق والمفترق،المؤتلف والمختلف،رواية الأكابر عن الأصاغر،))
وغیرذالک حدیث کے یہ چند اقسام واسماء بطور مثال ذکرکردیئے هیں محدثین نے اصول حدیث کی کتابوں میں بالتفصیل لکهے هیں اور کوئ بهی طالب حدیث ان اقسام وانواع واسماء کو پڑهے بغیر علم حدیث کے میدان میں قدم هی نہیں رکهہ سکتا ،
اور یہ سب انواع واسماء اجتهادی هیں قرآن وحدیث سے کہیں ثابت نہیں هیں بعد میں آنے والے ائمہ حدیث نے اپنے ظن واجتهاد سے لکهے هیں اورساری دنیا کے مسلمان مُحدثین کی تقلید میں اس کوپڑهتے پڑهاتے چلے آرهے هیں ،
اسی طرح جرح وتعدیل کے احکام ومراتب واصول وقواعد سب محدثین کے اجتهاد کا ثمره هیں ، اورساری دنیا کے مسلمان مُحدثین کی تقلید میں هی ان کا تعلیم وتعلم کرتے هیں ، 
اسی طرح علم حدیث میں کتب وتصانیف کے انواع واسماء سب اجتهادی هیں جیسا محدثین نے اپنی اجتهاد سے نام رکهے هیں ساری دنیا ویسا هی وه نام تقلیدا استعمال کرتے هیں ، مثال کے طور پر
(( الجوامع ،المسانيد ،السنن، المعاجم ،العلل ، الأجزاء ، الأطراف ، المستدركات ، المستخرجات ، الناسخ والمنسوخ ، مختلف الحديث ، الجرح والتعديل ، أصول الحديث ، غريب الحديث ، الأنساب والألقاب والكنى والأوطان والبلدان ، ))
وغیره ذالک


حاصل کلام یہ هے کہ ائمہ اربعہ کی تقلید هو یا مُحدثین کی تقلید هو 
یہ " تقلید فی الدین " کے قبیل هے ، اور جمیع اهل اسلام ائمہ اربعہ کی تقلید کے ساتهہ محدثین کی بهی تقلید کرتے هیں ، لیکن فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث دین میں ائمہ اربعہ کی تقلید اورخصوصا امام اعظم کی تقلید کوشرک وبدعت وممنوع کہتے هیں ، اب یہی لوگ حدیث کے میدان میں محدثین کی تقلید کرتے هیں اور جو کچهہ ناجائز الفاظ ائمہ اربعہ کے مقلدین کے لیئے استعمال کرتے هیں حدیث کے میدان میں یہ لوگ خود ان الفاظ ولعن طعن کے مستحق بن جاتے هیں کیونکہ حدیث کے میدان میں بغیر تقلید کے کوئ آدمی ایک قدم بهی نہیں چل سکتا ۰ 
الله تعالی عوام الناس پرفرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کے ان وساوس کی حقیقت کهول دے ۰