کسی بهی جاهل وعامی شخص کوجب ایک مسئلہ درپیش آتا هے اوراس کواس کاحکم معلوم نہیں هوتا کہ یہ جائزهے یا ناجائز ؟ ( جیسا کہ ایک عامی شخص کی تمام دینی مسائل میں یہی حالت هوتی هے ) تولازمی طورپراس کوکسی عالم دین کی طرف رجوع کرنا پڑے گا تاکہ اس سے صحیح مسئلہ وحکم معلوم کرسکے ، اور رجوع کرنے سے پہلے یہ شخص ضرور سوچے گا کہ میں ایسے عالم سے یہ مسئلہ دریافت کروں جوکہ علوم شریعت میں کامل وماهرهو ،

اورمتقی وپرهیزگارونیک صالح وباعمل هو ، کیونکہ عالم میں اگرعلم کامل نہیں توجاهل سے کیا جواب بن سکے گا اورایسا هوگا کہ ایک جاهل شخص جاهل سے مسئلہ دریافت کرتا هے توظاهرهے اس کا نتیجہ سوائے خرابی ونقصان کے اورکیا هوگا ، اسی طرح اگروه عالم باعمل ومتقی ومتصف بصفات حمیده نہیں هے توپهربهی کسی وجہ سے غلطی کا احتمال هے ، اورجب علوم شریعت میں کامل وماهر ومتقی وصالح وباعمل عالم مل جائے اوراس سے کوئ شرعی مسئلہ دریافت کرکے اس پرعمل کرے تواسی کا نام "" تـقـلـیـد "" هے ،
اورایک عالم کامل وماهر پراعتقاد پختہ هوجائے اوراس سے مسئلہ دریافت کرے تو تواسی کا نام "" تـقـلـیـد شـخـصـی "" هے ، اوراگرمتعد د کاملین وماهرین علماء سے پوچهتا هے تو یہ "" تـقـلـیـد غیرشـخـصـی "" هے ،
اورناواقف وعامی شخص کا اهل علم کی رجوع اوران سے مسئلہ دریافت کرکے عمل کرنے کا حکم قرآن وحدیث کی نصوص میں مذکور هے 
قال الله تعالى :: فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون :: سورة الأنبياء 
امام العلامہ الشاطبي رحمه الله فرماتے هیں کہ
سائل کے لیئے یہ صحیح (جائز) نہیں هے کہ وه اس آدمی سے سوال کرے جس کا جواب شریعت میں معتبرنہیں هے (جیسا کہ فی زمانہ میں بعض لوگوں نے ڈاکٹر، پروفیسر وغیره جاهل لوگوں کوشیخ کے نام سے مشہورکردیا ) 
کیونکہ یہ معاملہ کو نا اهل کے سپرد کرنا هے ، اوراس طرزعمل کے غلط هونے پراجماع هے ، بلکہ واقعہ اورحقیقت میں بهی یہ ممکن نہیں هے ، کیونکہ سائل نا اهل آدمی کوکہتا هے جب وه اس سے سوال کرتا هے کہ تومجهے خبردے اس مسئلہ کے بارے میں جوتونہیں جانتا اورمیں اپنا معاملہ تیرے سپردکرتاهوں اس مسئلہ میں جس میں هم برابرکے جاهل هیں ، اوریقینا اس قسم کا شخص عُقلاء کے زُمره میں داخل نہیں هوسکتا ۰ 
( العلامہ الشاطبي رحمه الله نے بڑی خوبصورت بات لکهی ، آج کل ائمہ مجتهدین کی اتباع وتقلید کے منکرلوگوں کا یہی حال هے )
قال الشاطبي رحمه الله : (ذلك أن السائل لا يصح أن يسأل من لا يعتبر في الشريعة جوابه، لأنه إسناد الأمر إلى غير أهله، والإجماع على عدم صحة مثل هذا، بل لا يمكن في الواقع؛ لأن السائل يقول لمن ليس بأهل لما سئل عنه: أخبرني عما لا تدري، وأنا أسند أمري لك فيما نحن بالجهل به على سواء، ومثل هذا لا يدخل في زمرة العقلاء) الموافقات 4/262
علامہ بیضاوی رحمه الله فرماتے هیں کہ
وفي الآية دلالة على وجوب المُراجعة إلى العلماء فيما لايعلم ٠ 
اس آیت میں یہ دلالت هے کہ جن مسائل واحکام کاعلم نہ هو توعلماء کرام کی طرف رجوع کرنا واجب هے ۰ 
(کیا ائمہ اربعہ کے علماء بلکہ سیدالعلماء هونے میں کسی کوکوئ شک هوسکتا هے ؟ جواهل اسلام دین کےمسائل واحکام سمجهنے کے لیئے ائمہ اربعہ کی طرف رجوع کرتے هیں ، کیا ان کا یہ طرزعمل اس آیت مبارکہ عین مطابق نہیں هے ؟ )


لوگوں کی فلاح ونجات علماء کے وجود میں منحصر هے ، اورجب علماء نہیں رهیں گے تولوگ جاهل لوگوں کو اپنے سردار (وشیخ وامام ) بنالیں گے ، پس ان سے سوال کیا جائے گا (شیخ صاحب میرا یہ سوال هے وه سوال هے الخ ) پس وه بغیرعلم فتوی دیں گے خود بهی گمراه اور لوگوں کوبهی گمراه کریں گے ۰ 
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ء قال: سمعت رسول الله ء صلى الله عليه وسلم ء يقول: (إن الله لا يقبض العلم انتزاعًا ينزعه من العلماء ولكن يقبض العلم بقبض العلماء حتى إذا لم يُبْق عالما، اتخذ الناس رؤوسًا جهالاً فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلوا) رواه البخاري. 
علماء شریعت وائمہ مجتهدین کی اطاعت واجب هے


قال تعالى : يا أيها الذين آمنوا أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولو الأمر منكم سورة النساء الآية 59.
ابن عباس رضي الله عنه فرماتے هیں کہ یعنی أهل الفقه والدين وأهل الله جو لوگوں کو ان کے دین کے معانی ( مسائل واحکام ) سکهاتے هیں ، اور ان کو امربالمعروف ونہی عن المنکرکرتے هیں ، پس الله تعالی نے ان (أهل الفقه والدين وأهل الله ) کی اطاعت کوبندوں پرواجب کردیا هے ۰ 
قال ابن عباس رضي الله عنه : (يعني أهل الفقه والدين وأهل الله الذين يعلمون الناس معاني دينهم، ويأمرونهم بالمعروف وينهونهم عن المنكر فأوجب الله طاعتهم على عباده) رواه الطبري في تفسيره 5/941 ، ويقول الإمام بن كثير عند تفسير الآية: (والظاهر والله أعلم أنها عامة في كل أولي الأمر من العلماء والأمراء) ابن كثير 1/815
مسألة: مفسرشهیرامام قُرطبی رحمہ الله فرماتے هیں کہ
عوام پرعلماء کی تقلید واجب هونے پر علماء کا کوئ اختلاف نہیں هے ، اورالله تعالی کے فرمان " فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون " میں یہی علماء هی مراد هیں ، علماء کا اس بات پراجماع هے کہ نابینا آدمی پرجب قبلہ کی سمت مشتبہ هوجائے تواس کے لیئے ایک ثقہ آدمی کی تقلید ضروری هے ،( تاکہ وه اس کوقبلہ کی صحیح سمت بتلائے ) اسی طرح جس کے پاس دین پرچلنے کے لیئے علم نہیں هے (یعنی جاهل هے ) تواس کے لیئے عالم (کامل وماهر) تقلید ضروری هے ، اسی طرح علماء کا اس بات پربهی اتفاق هے کہ عام لوگوں کے لیئے یہ جائزنہیں کہ وه فتوی دیں ۰ 
مسألة: لم يختلف العلماء أن العامة عليها تقليد علمائها، وأنهم المراد بقول الله عز وجل: "فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون" أجمعوا على أن الأعمى لا بدله من تقليد غيره ممن يثق بميزة بالقبلة إذا أشكلت عليه؛ فكذلك من لا علم له ولا بصر بمعنى ما يدين به لا بد له من تقليد عالمه، وكذلك لم يختلف العلماء أن العامة لا يجوز لها الفتيا؛ لجهلها بالمعاني التي منها يجوز التحليل والتحريم.
( تفسير القرطبي ، سورة الأنبياء )

{ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ }

قرآن مجید میں یہ قاعدة واصول وحکم دو مقامات پرذکرهوا هے

1 = سورة النحل، يقول تعالى: {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (43) بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ} [النحل: 43، 44].
2 = سورة الأنبياء، يقول سبحانه وتعالى: { وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [الأنبياء: 7].

چند فوائد اس آیت مبارکہ کی روشنی میں




1 = اهل العلم کی مدح وتعریف وعظمت وعلومرتبہ ۰
2 = جاهل وناواقف شخص کے لیئے اهل العلم کی طرف رجوع لازم هے ۰
3 = اسی طرح سوال واستفسارأهل الذكر ( قرآن وسنت کے ماهروکامل ) علماء سے هوگا نہ کہ جاهل شخص سے ۰
4 = اس میں واضح دلیل هے کہ تمام لوگوں پراجتهاد واجب نہیں هے بلکہ کچهہ مجتهد هوں گے صاحب اجتهاد واستنباط هوں گے باقی لوگ ان سے پوچهہ کراوران کی پیروی وتقلید میں قرآن وحدیث پرعمل کریں گے ۰
5 = اور أهل الذكر یعنی علماء سے سوال کا قرآنی حکم واضح وروشن دلیل هے کہ لوگ ان سے سوال کریں گے ان کی تقلید کریں گے لہذا ان عوام لوگوں کا فریضہ سوال هوگا نہ کہ اجتهاد ، یہ توشریعت کا اورقرآن کا واضح فیصلہ هوا ، باقی عقل بهی اس کے موافق هے کیونکہ سب لوگوں كا مجتهد بن جانا خارج ازامکان هے ۰
6 = اور أهل الذكر ( قرآن وسنت کے ماهروکامل علماء ) هیں اورجولوگ علوم قرآن وسنت تودرکنار بلکہ عربی عبارت تک نہ پڑهہ سکتے هو ان سے کوئ سوال واستفسارجائزنہیں هے(جیسا کہ آج کل کے فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل نام نہاد شیوخ کا حال هے ) ۰


یہ حقیقت بهی ذهن میں رهے کہ سائل ( قرآن وسنت کے ماهروکامل ) عالم وامام مجتهد سے کسی بهی مسئلہ ومعاملہ میں الله ورسول کا حکم دریافت کرتا هے ، عالم وامام سے اس کی اپنی خواہش ومرضی دریافت نہیں کرتا ،
لہذا دلائل بالا سے عوام کے لیئے تقلید کی ضرورت ثابت هوگئ ، اوریاد رهے کہ عوام سے مراد هروه شخص هے جواجتهاد سے عاجزوقاصر هے ،
سوال = اگرعالم سے مسئلہ کے دلائل بهی پوچهہ لے تواچها هے تاکہ تقلید سے نکل جائے یعنی پهرتقلید کا ارتکاب لازم نہیں آئے ۰

جواب = پہلی بات تویہ هے کہ کیا مسئلہ کے ساتهہ دلیل مانگنا بهی ضروری هے ؟؟ جولوگ ضروری سمجهیں توپهران پرلازم هے کہ طلب دلیل کی فرضیت کوقرآن وحدیث سے ثابت کریں اوریہ کہ جاهل وعامی شخص کا عالم وامام سے بغیرطلب دلیل کے مسئلہ پوچهنا حرام هے ؟؟
دوسری بات یہ هے کہ اگرجاهل وعامی شخص دلیل پوچهہ بهی لے ، توبهی اس کے لیئے عالم کے قول پراعتماد کے بغیرچاره نہیں هے ، حتی کہ دلیل کے دلیل بنتے تک جاهل وعامی کو پهربهی تقریبا چهہ امور میں عالم کی تقلید کرنا هوگی۰


1 = یہ آیت یا حدیث جوعالم نے پڑهی واقعی آیت یا حدیث هے ، خود ایک جاهل عامی شخص یہ بهی نہیں جان سکتا ۰ 
2 = پهر اس آیت یا حدیث کے ترجمہ اورمطلب میں بهی عالم کی تقلید کرنا هوگی ، کیونکہ جہالت کی وجہ سے ایک عامی شخص صحیح وغلط ترجمہ کی تمیزبهی نہیں کرسکتا ۰ 
3 = یہ حدیث یا آیت منسوخ تونہیں 
4 = یہ کسی دوسری دلیل سے مُعارض تونہیں هے 
5 = یہ حدیث صحیح یا ضعیف یا موضوع تونہیں هے 
6 = قرآن وحدیث کے پورے ذخیرے میں اس دلیل سے زیاده راجح یا قوی دلیل کوئ موجود نہیں هے وغیره ذالک 
ایک مسئلہ میں تقلید سے بهاگے توچهہ مقامات پرتقلید کرنا پڑی ، بارش سے بهاگے پرنالہ کے نیچے کهڑے هوگئے ،
معلوم هوا جولوگ عوام الناس کومختلف وساوس اورحیلوں بہانوں سے ائمہ مجتهدین کی تقلید سے منع کرتے هیں اورتقلید کوشرک وبدعت وغیره مذموم الفاظ سے یاد کرتے هیں ، یہ لوگ درحقیقت عوام الناس کوائمہ مجتهدین وسلف صالحین کی تقلید سے نکال کر اپنی تقلید عوام سے کرواتے هیں ، آج جتنے عوام الناس فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل هیں سب کا یہی حال هے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ الله کی تقلید سے نکل کر جُہلاء کی اندهی تقلید کرتے چلے جارهے هیں ، لیکن بوجہ جہالت کے یہ بے چارے نہیں سمجهتے ،
خوب یاد رکهیں عامی وجاهل شخص کو تقلید کے بغیرکوئ چاره نہیں هے فرق صرف اتنا هے کہ تمام مسلمانان عالم بمطابق حکم قرآن حقیقی أهل الذكر ( یعنی ائمہ اربعہ ) کی تقلید کرتے هیں ، اور ایک شرذمہ قلیلہ (مختصر جماعت ) حقیقی أهل الذكر ( یعنی ائمہ اربعہ ) کو چهوڑ کر چند جُہلاء کی تقلید کرتے هیں۰