وسوسه = قرآن وحدیث پرعمل کرنے کے لیئے کسی امام کی تقليد كى کوئ ضرورت نہیں هے بلکہ ازخود هرشخص مطالعہ وتحقیق کرکے قرآن وحدیث پرعمل کرےجواب = یہ باطل وسوسہ عوام الناس کومختلف انداز سے سمجهایا جاتا هے ، اور مقصد اس کا یہ هوتا هے کہ عوام کو دین میں آزاد بنا دیا جائے ، اور سلف صالحین وعلماء حق کی اتباع سے نکال کر درپرده چند جاهل لوگوں کی اتباع پران کو مجبور کیا جائے ، یہ وسوسہ درحقیقت بڑا خطرناک وگمراه کن هے ،
کیا صرف مطالعہ کے ذریعہ علوم دینیہ کوحاصل کیا جاسکتا هے ؟؟؟کیا صرف مطالعہ کے ذریعہ قرآن وحدیث کا علم وسمجهہ حاصل کیا جاسکتا هے ؟؟؟یہ ایک انتہائ اهم سوال هے کون نہیں جانتا کہ هرعلم وفن میں کمال ومہارت حاصل کرنے کے لیئے اس علم وفن کے ماهر ومستند لوگوں کی طرف رجوع کرنا پڑتا هے اور اس اس علم وفن کے تمام شروط ولوازم اصول وقواعد کی پابندی لازمی هوتی هے هر علم وفن کے اندر کچهہ خاص محاورات واصطلاحات هوتے هیں اور اتارچڑهاو کا ایک خاص انداز هوتا هے جس کا سمجهنا بغیرکسی ماهراستاذ کے ممکن نہیں هے اور تو اور دنیوی فنون کو دیکهہ لیجیئے کہ بزور مطالعہ کسی بهی فن میں مہارت ناقابل قبول سمجهی جاتی هے جب دنیوی فنون کا یہ حال هے جوانسانوں کی اپنی ایجاد کرده هیںتو الله ورسول کے کلام کو پڑهنے وسمجهنے کے لیئے صرف ذاتی مطالعہ کیونکر کافی هوگا جب کہ الله ورسول کے بیان کرده احکامات اور کلام وحی سے متعلق هے جس میں انسانی عقل وسمجهہ کو کوئ دخل نہیں هےاسی لیئے ابتداء سے هی الله تعالی نے انبیاء ورسل کا سلسلہ مبارکہ جاری فرمایا اور یہ سلسلہ مبارکہ جناب محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم كى بعثت مباركه پرهمیشہ همیشہ کے لیئے ختم هوچکا هے اگر صرف انسانی مطالعہ هی کافی هوتا تو الله تعالی بجائے نبی ورسول بهیجنے کے صرف کتابیں نازل کرتا اور انسان اس کی مد د سے ازخود الله تعالی کی معرفت اور الله تعالی کے کلام کی مراد ومقصود کی فہم حاصل کرتا لیکن تاریخ اور کتاب وسنت کی صریح نصوص سے یہ بات ثابت هوچکی هے کہ الله تعالی نے کوئ ایسی کتاب نازل نہیں کی جس کے ساتهہ مُعلم یعنی نبی کو نہ بهیجا هو " تورات " کے ساتهہ حضرت موسی " انجیل " کے ساتهہ حضرت عیسی " زبور " کے ساتهہ حضرت داود اور اسی طرح " صُحُف " حضرات ابراهیم کے ذریعہ لوگوں کو پہنچےصلوات الله وسلامه علیهم اجمعین ،اورقرآن مجید جوسید الکتب هے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم پرنازل کی گئ ، کیا ان کتب الهیہ کے تصور کوبغیر انبیاء ورسل کے کوئ کامل ومکمل تصور کہا جاسکتا هے ؟ یقینا کوئ بهی سنجیده انسان اس بات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ، اگر صرف کتابوں کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن هوتا اور خود هی کتاب پڑهہ کر الله تعالی کی مُراد ومقصود حاصل کرنا ممکن هوتا تو ان انبیاء صلوات الله وسلامه علیهم اجمعین کی بعثت کیوں ضروری تهی ؟ قرآن مجید خاتم الکتب هے جو خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے واسطہ سے هم تک پہنچا اگر صرف کتاب کے ذریعہ صحیح نتیجہ تک پہنچنا ممکن هوتا توخاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کے فرائض منصبی میں سے ایک اهم فرض تلاوت آیات اور تعلیم کتاب کیوں لازم کیا گیا ؟ آپ كى بعثت مبارکہ کیوں ضروری تهی اور اس قدر اذیت وتکلیف ومشقت کی تاریخ کیوں مرتب کی گئ ؟ کیا اهل مکہ عربی زبان نہیں سمجهتے تهے ؟ قرآن کسی ذریعہ سے نازل کردیا جاتا اور عوام وخواص اس کو پڑهہ کر ازخود سمجهنے کی کوشش کرتے ، اسی طرح حضرت جبریل علیہ السلام کو درمیان میں کیوں واسطہ بنایا گیا خود براه راست خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم تک قرآن مجید پہنچا دیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس میں واضح تعلیم هے کہ بغیراستاذ ومُعلم صرف کتابوں کے ذریعہ قرآن وحدیث کا مقصد ومطلب وحقیقی مراد پالینا ممکن نہیں هے ۰اسی " سُنة الله " کے تناظرمیں یعنی کتاب کے ساتهہ مُعلم کا هونا ضروری هے علماء حق علماء دیوبند کا یہی مسلک هے کہ دین صرف کتابی حروف ونقوش کا نام نہیں هے اور نہ دین کو محض کتابوں سے سمجها جاسکتا هے ، الله تعالی نے همیشہ کتاب کے ساتهہ رسول کو مُعلم بنا کر اس لیئے بهیجا تاکہ وه اپنے قول وفعل وعمل سے کتاب کی تفسیر وتشریح کرے ، چنانچہ ایسی مثالیں توملتی هیں کہ دنیا میں رسول بهیجے گئے مگرکتاب نہیں آئ ، لیکن ایسی مثال ایک بهی نہیں هے کہ صرف کتاب بهیج دی گئ هو اور اس کے ساتهہ رسول مُعلم بن کر نہ آیا هو ، الله تعالی کی یہ سنت بتلاتی هے کہ دین کو سمجهنے سمجهانے اور پهیلانے پہنچانے کا راستہ وطریقہ صرف کتاب نہیں هے بلکہ اس کے ساتهہ وه اشخاص وافراد بهی هیں جو کتاب کا عملی پیکربن کراس کتاب کی تشریح وتفسیر کرتے هیں ، لہذا دین کوسمجهنے کے لیئے " کتابُ الله اور رجالُ الله " لازم وملزوم کی حیثیت رکهتے هیں ، ان میں سے ایک کودوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ، لہذا " کتاب الله " کو جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح کی روشنی میں اور سنت وحدیث رسول الله صلى الله عليه وسلم کو صحابہ کرام وتابعین وتبع تابعین وسلف صالحین کی تفسیر وتشریح وتحقیق کی روشنی میں هی ٹهیک ٹهیک سمجها جاسکتا هے ، اس کے بغیر دین کی اور قرآن وحدیث کی تعبیروتشریح کی هرکوشش گمراهی کی طرف هی جاتی هےتمام صحابہ کرام اهل لسان تهے عربی ان کی مادری زبان تهی مگر مقاصد قرآن سمجهنے کے لیئے جناب خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی تفسیر وتشریح وتعلیم کے محتاج تهے اورآپ کی طرف هی رجوع کرتے تهے اپنی سمجهہ وفہم کوانهوں نے کافی نہیں سمجها ، اورصحابہ کرام اهل لسان هونے کے ساتهہ ساتهہ فصاحت وبلاغت اورتمام دیگرصفات میں اعلی مقام رکهتے تهے لیکن اس کے باوجود قرآن سمجهنے کے لیئے خاتم الانبیاء محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف هی رجوع کرتے تهے ،تومعلوم هوا کہ صرف عربی لغت پڑهہ لینا بهی کافی نہیں اور نہ صرف مطالعہ کافی هے اورتاریخ وتجربہ شاهد هے کہ جس شخص نے بهی اساتذه وماهرین کی مجلس میں بیٹهہ کر باقاعده تمام اصول وقواعد کی روشنی میں علم دین حاصل نہیں کیا ، بلکہ قوت مطالعہ کے ذریعے کتاب وسنت سمجهنے کی کوشش کی توایسا شخص گمراهی سے نہیں بچا ، اسی طرح جس شخص نے اپنے ناقص عقل وفہم پراعتمادکیا اور کسی ماهر مستند استاذ ومُعلم سے باقاعده علم حاصل نہیں کیا توایسا شخص خود بهی گمراه هوا اور دیگر لوگوں کو بهی گمراه کیا ۰اورآج کے اس پرفتن دور میں لوگ اردو کے ایک دو رسالے پڑهہ کر اور قرآن وحدیث کا اردوترجمہ پڑهہ کر بڑے فخرکرتے هیں کہ اب هم کو کسی امام ومعلم کی کوئ ضرورت نہیں هے اب هم بڑے کامل هوچکے هیں ایسے جاهل لوگ اپنے ناقص عقل وفہم کی مدح سرائ کرتے هوئے تهکتے نہیں هیں ،اور آج کل جاهل عوام یہ وبا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی جانب سے پهیلائ جارهی هے هرجاهل ومجهول کو مُجتهد کا درجہ دیا هوا هے اور فی زمانہ وسائل اعلام ( میڈیا کے ذرائع ) کی کثرت کی بنا پر اس فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل هرکس وناکس انتہائ دلیری کے ساتهہ اپنی جہالت وحماقت وضلالت کو هرممکن ذریعہ سے پهیلا رها هے ،اسی لیئے احادیث صحیحہ میں ایسے شخص کے لیئے جہنم کی سخت وعید وارد هوئ هے کہ جوشخص اپنی خیال ورائ سے یا بغیر علم کے قرآن میں کوئ بات کرتا هے ،چند احادیث مبارکہ ملاحظہ کریں
1 = عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من قال في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار .2 = عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار3 = عن جندب بن عبد الله البجلي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " من قال في القرآن برأيه فأصاب فقد أخطأ4 = عن ابن عباس قال : من تكلم في القرآن برأيه فليتبوأ مقعده من النار .(( تفسير البغوي الجزء الأول ))5 = عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : (( من قال في القرآن بغير علم فليتبوأ مقعده من النار٠( رواه الترمذي، كتاب تفسير القرآن باب ما جاء في الذي يفسر القرآن برأيه، )
خلاصہ ان روایات کا یہ هے کہ جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے وخیال سے بات کی یا بغیرعلم کے کوئ بات کی تو وه شخص اپنا ٹهکانہ جہنم بنا لے یا قرآن میں اپنی رائے سے کوئ بات کی اوربات صحیح بهی نکلے تب بهی اس نے خطا اور غلطی کی ۰یقینا اتنی سخت وعید سننے کے بعد ایک مومن آدمی قرآن میں اپنی رائے وخیال سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا ، اوران احادیث کی روشنی میں فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث کی حالت کوملاحظہ کریں کہ هرجاهل مجهول آدمی کو قرآن میں رائے زنی کا حق دیا هوا هے جب کہ اس فرقہ شاذه میں شامل اکثری لوگوں کی حالت یہ هے کہ قرآن کے علوم ومعارف پر دسترس تو کجا قرآن کی صحیح تلاوت بهی نہیں کرسکتے ،همارے اسی زمانہ کے فتنوں کے سد باب اور روک تهام کے لیئے هی حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما دیا تهاعن معاوية رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من يرد الله به خيراً يفقهه في الدين"(رواه في الصحيحين )وإنما العلم بالتعلم ، یعنی علم سیکهنے سے هی حاصل هوتا هےحافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے هیں ( وإنما العلم بالتعلم ،) مرفوع حدیث هے جس کو ابن أبي عاصم اور طبراني نے حضرت معاویہ رضي الله عنه سے ان الفاظ کے ساتهہ روایت کیا ( يا أيها الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم والفقه بالتفقه ومن يرد الله به خيرا يفقهه في الدين ) . إسناده حسن .( فتح الباري ج 1 ص 147 )حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله فرماتے هیں کہوالمعنى ليس العلم المعتبر إلا الماخوذ من الأنبياء وورثتهم على سبيل التعلم( فتح الباري ج 1 ص 148 )یعنی معنی اس حدیث (يا أيها الناس تعلموا إنما العلم بالتعلم الخ ) کا یہ هے کہ معتبر ومستند علم وهی هے جو انبیاء اور ان کے ورثاء یعنی علماء سے بطریق تعلیم وتعلم حاصل کیا جائے ۰یہاں سے یہ مسئلہ بالکل واضح هوگیا کہ جو لوگ اردو کے چند رسائل پر یہ سمجهتے هیں کہ اب هم مجتهد وامام بن چکے هیں اب همیں کسی امام کی تقلید کی کوئ ضرورت نہیں هے اب هم نے خود هی قرآن وحدیث کو سمجهنا هے، ایسے لوگ درحقیقت بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا هیں اورایسے لوگوں کے ساتهہ شیطان اس طرح کهیلتا هے جس طرح بچے گیند کے ساتهہ کهیلتےهیں ،لہذا لائق اعتماد اورقابل عمل وهی علم هے جو انبیاء علیهم السلام سے بطور اسناد حاصل کیا گیا هو ، یہی وجہ هے اهل حق کے یہاں مدارس ومکاتب میں آج تک یہی مبارک طریقہ رائج هے اور عہد نبوی سے لے کرآج تک منزل بہ منزل اس کا باضابطہ سلسلہ چلا آرها هے اور اهل حق کے یہاں علم حدیث کی تعلیم کے لیئے " اجازت " کی ضرورت لازم هوتی هے ، ایسا نہیں هے کہ هرشخص جاهل ومجهول اپنے آپ کو مُحدث ، مُفسر ، فقیہ وغیره القابات سے یاد کرے اور بغیرپڑهے لکهے اجتهاد وامامت کا دعوی کرے ،تاریخ میں ایسے افراد کی کئ مثالیں موجود هیں جنهوں نے اپنے عقل و فہم اور قوت مطالعہ پراعتماد کرکے قرآن وحدیث کو سمجهنے کی کوشش کی تو خود بهی گمراه هوئے اور اپنے ساتهہ ایک خلق کثیر کوگمراه کیا ،اور اس باب میں ان لوگوں کےسینکڑوں واقعات هیں جنهوں نے بغیراستاذ ومُعلم فقط ترجمہ یا ظاهری الفاظ کوپڑهہ کر راهنمائ حاصل کرنے کی کوشش کی تو وه صحیح مفہوم کو نہ پاسکے بلکہ صحیح مفہوم ومراد کواسی وقت پہنچے جب کسی اهل علم کی رجوع کیا ،حاصل کلام یہ هے کہ گذشتہ تفصیل سے یہ بات خوب واضح هوگئ اور یہ حقیقت بالکل عیاں هوگئ کہ کسی بهی علم وفن کے حصول کے دو طریقے هیں1 = مطالعہ کے ذریعے بذات خود چند اردو یا عربی کتب ورسائل پڑهہ کر2 = دوسرا طریقہ یہ هے کہ کسی بهی باکمال وماهراستاذ ومُعلم کی مجلس میں باقاعده حاضر هوکر بالمشافه تمام شروط وآداب کی رعایت کرتے هوئے سبقا سبقا اس علم کو پڑها جائے ،یقینا ان دونوں طریقوں میں پہلا طریقہ بالکل غلط اور گمراه کن هےیقینی طور پرتحصیل علم کا مفید اور کامیاب اورقابل اعتماد طریقہ وه دوسرا طریقہ هے اسی طریقہ کی طرف حضورصلى الله عليه وسلم نے هماری راهنمائ فرمائ هے تاریخ اورسلف صالحین کا عمل شاهد هے کہ کسی بهی زمانہ اس کا خلاف نہیں کیا گیا ، لہذا بطون کتب سے کوئ بهی قرآن وحدیث کو نہیں سمجهہ سکتا ، صحيح البخاري میں حضرت رضی الله عنہ کا قول هے ،باب الاغتباط في العلم والحكمة وقال عمر تفقهوا قبل أن تسودوا) علم حاصل کرو فقہ حاصل کرو سردار وقائد بنائے جانے سے پہلے ، امام أبو عبيد نے اپنی کتاب (غريب الحديث ) میں فرمایا کہ معنی اس قول کا یہ هے کہ بچپن میں علم اورفقہ حاصل کرو قَبل اس کے کہ تم سردار ورئیس بن جاو توپهرتم اپنے سے کم مرتبہ سےعلم حاصل کرنے عارمحسوس کروتواس طرح تم جاهل ره جاو گے ۰اس کے بعد امام بخاری رحمہ الله نے فرمایاوقد تعلم أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بعد كبرسنهمیعنی صحابہ کرام نے بڑی بڑی عمر میں علم حاصل کیا ۰الله تعالی عوام وخواص اهل اسلام کو صحیح سمجهہ دے اورکتاب وسنت کو اس کے اهل لوگوں سے پڑهنے سمجهنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق دے ۰
تازہ ترین تحریریں
Monday, 27 August 2012
قرآن وحدیث پرعمل کرنے کے لیئے کسی امام کی تقليد كى کوئی ضرورت نہیں ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment