تازہ ترین تحریریں

Monday 27 August 2012

مقلدین خلفاء راشدین کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟


وسوسه = مقلدین ائمہ اربعہ کی تقلید کرتے هیں اور اپنے آپ کو حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی کہتے هیں ، اور حضرات خلفاء راشدین کا علم ومرتبہ ائمہ اربعہ 
سے بہت زیاده هے تو پهر مقلدین خلفاء راشدین کی تقلید کیوں نہیں کرتے ؟ اور ابوبکری ، عمری ، عثمانی ، علوی ، کیوں نہیں کہلاتے ؟
حالانکہ یہ ائمہ اربعہ تو حضور صلى الله تعالى عليه وسلم کے زمانہ کے بعد آئے هیں ، اسی طرح ان مقلدین نے قیاس اور ائمہ کی رائے کو پکڑ لیا اور الله تعالی کے دین میں وه کچهہ داخل کردیا جو اس میں نہیں تها ، احکام شریعت میں تحریف کردی ، اور چار مذاهب بنا لیئے جو حضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام کے زمانہ میں نہیں تهے ، صحابہ کرام کے اقوال کو چهوڑدیا اور قیاس کو اختیارکرلیا حالانکہ صحابہ کرام نے قیاس کو چهوڑنے کی تصریح کی هے ، اور انهوں نے فرمایا أول من قاس إبليس سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا تها
جواب = یہ وسوسہ کئ وساوس کا مجموعہ هے جیسا کہ ظاهر هے ، اور ممکن هے آپ نے یہ وساوس کئ مرتبہ سنے بهی هوں ، لیکن آپ کو یہ سن کرحیرانگی هوگی کہ ان تمام وساوس کو سب سے پہلے پیش کرنے والے شیعہ وروافض تهے ، اور ان تمام وساوس کا جواب آج سے آٹهہ سو ( 800 ) سال پہلے اهل سنت والجماعت کی طرف سے شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله بڑی تفصیل کے ساتهہ دے چکے هیں ، اور آج کل یہ وساوس شیعہ وروافض سے چوری کرکے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء پهیلا رهے هیں ،

فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء کی خوش قسمتی هے کہ یہ فرقہ جدید شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کے زمانہ میں نہیں تها ورنہ ان کا بهی خوب رد کرتے جس طرح کہ روافض کا رد کیا ،

شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اپنی کتاب (( منهاج السنة النبوية )) میں ان مذکوره بالا وساوس کا تفصیلی اور منہ توڑ جواب دیا هے

اور یہ " كتاب منهاج السنة النبوية " روافض وشیعہ کی رد میں ایک عظیم کتاب هے ، میرے پاس یہ کتاب چار جلدوں میں هے ، اولا میں شيخ الإسلام کے جوابات کا خلاصہ ذکرکرتا هوں پهر شيخ الإسلام کی اصل عبارت ذکرکروں گا ،
شيخ الإسلام نے پہلے " قال الرافضي " کہ کر اس کے وساوس نقل کیئے جس کا ذکراوپرهوچکا ، لہذا میں مختصرا شيخ الإسلام کے جوابات نقل کرتا هوں
1 = رافضى وسوسه ) یہ مذاهب حضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم کے زمانہ میں موجود نہیں تهے ؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
حضرات ائمہ اربعہ رحمهم الله کے مسائل وهی هیں جو حضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم سے نقل درنقل هوتے چلے آرهے هیں ، باقی یہ بات کہ ائمہ اربعہ حضور صلى الله تعالى عليه وسلم کے زمانہ میں نہیں تهے تو اس میں کیاحرج هے ، امام بخاری امام مسلم امام ابوداود امام حفص یا امام ابن کثیر اور امام نافع وغیرهم ائمہ کرام بهی حضور صلى الله تعالى عليه وسلم کے زمانہ میں نہیں تهے ٠
2 = رافضى وسوسه ) مقلدین نے اقوال صحابہ کوچهوڑدیا اور قیاس کوپکڑلیا؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
یہ رافضی کا جهوٹ هے مذاهب اربعہ کی کتابوں کودیکهہ لیجیئے کہ وه اقوال صحابہ سے بهری پڑی هیں لہذا وه ائمہ اربعہ اور جمیع أهل السنّة صحابہ کرام رضی الله عنهم کے اقوال سے باقاعده استدلال کرتے هیں ، اور ان کے اقوال کو اپنے لیئے حجت ودلیل سمجهتے هیں اور ان پرعمل کرتے هیں ،
اور اهل سنت کے نزدیک صحابہ کرام کے اجماع سے خروج ومخالفت جائزنہیں هے ، حتی عام ائمہ مجتهدین نے یہ تصریح کی هے همارے لیئےاقوال صحابہ کرام سے بهی خروج ومخالفت جائزنہیں هے۰
( جب کہ اس کے برعکس فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نام نہادغیرمقلدین کا مذهب یہ هے کہ صحابی کا قول ، فعل ، فہم ، حجت ودلیل نہیں هے ، لہذا اهل سنت کے طریق پرکون هوا فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث یا مذاهب اربعہ ؟؟؟ )
3 = رافضى وسوسه ) مقلدین نے چارمذاهب گهڑلیئے جوحضور صلى الله تعالى عليه وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنهم کے زمانہ میں نہیں تهے ؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
اگر رافضی کی مراد یہ هے کہ ائمہ أربعة نے یہ مذاهب گهڑ لیئے هیں اورصحابہ کرام کی مخالفت کی تویہ رافضی کا جهوٹ هے ائمہ أربعة پر بلکہ ان ائمہ میں سے هرایک نے کتاب وسنت کی اتباع کی دعوت هی دی هے۰
(کیا کتاب وسنت کے داعی کی تقلید واتباع کرنے والا ( معاذالله ) مشرک وبدعتی هوتا هے ؟؟؟
4 = رافضى وسوسه ) مقلدین اپنے آپ کو ابوبکری ، عمری ، وغیره نہیں کہتے یعنی مذهب أبي بكر وعمر کیوں اختیار نہیں کرتے ؟؟
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
سبب اس کا یہ هے ابوبکر وعمر وغیرهما رضی الله عنهم نے دینی مسائل کو کتابی شکل میں جمع نہیں کیئے ، بخلاف ائمہ اربعہ کے کہ خود انهوں نے اور ان کے معتمد ومعتبر شاگردوں نے ان کے بیان کرده تمام مسائل واجتهادات کو کامل طور پرجمع کردیا ، اس لیئے ان مسائل کی نسبت ائمہ اربعہ کی طرف هوگئ اور ان مسائل میں ان ائمہ کی تقلید واتباع کرنے والے حنفی شافعی وغیره کہلائے ۰
( یہاں سے شیخ الاسلام نے فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل بعض جہلاء کا یہ وسوسہ بهی کافور کردیا کہ لوگوں نے بعد میں نے یہ مسائل امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کرلیئے هیں یہ ان کے اپنے مسائل نہیں هیں )
5 = جس طرح بخاری ، مسلم ، أبي داود وغیره کتب امام بخاری امام مسلم امام ابوداود نے مرتب ومُدَوَّن وجمع کیئے هیں ، اورانتهائ امانت ودیانت کے ساتهہ انهوں احادیث رسول صلى الله تعالى عليه وسلم کوجمع کیا هے اس لیئے ان کتب کی نسبت انهی کی طرف کی جاتی هے ، یہ نسبت ایسی نہیں هے کہ ( معاذالله ) ان کتب میں ان کی اپنی اختراعی وایجاد کرده باتیں هیں ، جیسے کتاب صحیح بخاری کوامام بخاری کی طرف منسوب کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں درج شده احادیث امام بخاری کے اپنے اقوال وآراء هیں احادیث نہیں هیں ،
اسی طرح حضرات ائمہ اربعہ کی طرف مسائل کی نسبت سے هرگزیہ لازم نہیں آتا کہ وه رسول صلى الله تعالى عليه وسلم وحضرات صحابہ کرام کے آثارنہیں هیں ، جس طرح امام بخاری نے سولہ ( 16 ) سال کی کمال محنت ومشقت کے ساتهہ ان احادیث کوجمع کرنے پرلگائے ، اسی طرح مسائل فقہ کی جمع وتدوین حضرات ائمہ اربعہ وغیرهم مجتهدین نے انتهائ کوشش ومحنت کی هے ، اسی وجہ سے ان مسائل کی نسبت ان کی طرف هوئ ، اس لیئے نہیں کہ یہ ان کی اپنی ایجاد واختراع هے ۰
6 = اسی طرح امام حفص یا امام ابن کثیر اور امام نافع وغیرهم قُراء کرام کی قراآت ان کی اپنی ایجاد نہیں هے بلکہ ان قُراء کرام کی قراآت توخود حدیث صحیح سے ثابت هیں ، (قال صلى الله عليه وسلم: "إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرؤوا ما تيسر منه" أخرجه البخاري ومسلم عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، وأخرجه البخاري من حديث ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "أقرأني جبريل على حرف فراجعته فلم أزل أستزيده ويزيدني حتى انتهى إلى سبعة أحرف.)
اور حضرات صحابہ سے تواترسے منقول هوتی چلی آرهی هیں ، لہذا ان قراآت کی نسبت حضرات قُراء کرام کی طرف هونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قراآت توان کی اپنی ایجاد هیں ، اسی فقہ اورمذاهب اربعہ کی ائمہ کی طرف نسبت سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ فقہ ومسائل فقہ تو ائمہ کی اپنی ایجاد هیں ،
7 = رافضى وسوسه ) صحابہ کرام نے قیاس کو چهوڑنے کی تصریح کی هے ، اور انهوں نے فرمایا أول من قاس إبليس سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا تها٠
( جواب از شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله )
جمہورعلماء قیاس کا اثبات کرتے هیں اور انهوں نے فرمایا کہ صحابہ کرام سے اجتهاد بالرأي اور قیاس ثابت هے ، جیسا کہ ان سے قیاس کی مذمت بهی ثابت هے ، لہذا دونوں قول صحیح هیں ، پس مذموم قیاس وه هے جوکسی نص کے مخلف ومعارض هو جیسے ان لوگوں کا قیاس جنهوں نے کہا ( إنما البيع مثل الربا ) الخ ۰
( لہذا ائمہ اربعہ ودیگرائمہ مجتهدین کا قیاس کسی نص کے مخالف نہیں هوتا )
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله
کی جوابات کا خلاصہ وتعبیر وتشریح بتغیریسیر آپ نے ملاحظہ کیا ، یہاں سے آپ کو یہ بهی پتہ چل گیا کہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث نے یہ سب وساوس شیعہ سے چوری کیئے هیں ، اور عقل مند آدمی کے لیئے اس میں یہ سبق وعبرت بهی واضح هے کہ یہ سب باطل وساوس هیں جس کو فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں شامل جاهل شیوخ گردانتے رهتے هیں ، اگران وساوس میں کوئ وسوسہ حق وسچ هوتا تو شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے جوابا یہ کیوں نہیں کہا کہ اے رافضی تیرا فلاں وسوسہ حق هے مثال کے طور پر رافضی کا وسوسہ کہ ( مقلدین نے چارمذاهب گهڑلیئے هیں )
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله نے اس کے جواب میں یہ کیوں نہیں کہا کہ
اے رافضی تیرا یہ اعتراض بالکل صحیح وحق هے ؟؟؟
اوراسی طرح دیگروساوس کا جواب ( تصدیق ) میں کیوں نہیں دیا ؟؟؟
تمام وساوس کو باطل وفاسد کیوں قرار دیا ؟؟؟
 بغرض امانت وثبوت ودلیل شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله کی اصل عبارات درج ذیل هیں
قال الرافضي : (( وذهب الجميع منهم إلى القول بالقياس ، والأخذ بالرأي ، فأدخلوا في دين الله ما ليس منه ، وحرّفوا أحكام الشريعة ، وأحدثوا مذاهب أربعة لم تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا زمن صحابته ، وأهملوا أقاويل الصحابة ، مع أنهم نصُّوا على ترك القياس ، وقالوا : أول من قاس إبليس ))
فيقال الجواب عن هذا من وجوه :
أحدها : أن دعواه على جميع أهل السنة المثبتين لإمامة الخلفاء الثلاثة أنهم يقولون بالقياس دعوى باطلة ، قد عُرف فيهم طوائف لا يقولون بالقياس ، كالمعتزلة البغداديين ، وكالظاهرية كداود وابن حزم وغيرهما ، وطائفة من أهل الحديث والصوفية .وأيضا ففي الشيعة من يقول بالقياس كالزيدية . فصار النزاع فيه بين الشيعية كما هو بين أهل السنة والجماعة .
الثاني : أن يقال : القياس ولو قيل : إنه ضعيف هو خير من تقليد من لم يبلغ في العلم مبلغ المجتهدين ، فإن كل من له علم وإنصاف يعلم أن مثل مالك والليث بن سعد والأوْزاعي وأبي حنيفة والثَّوري وابن أبى ليلى ، ومثل الشافعي وأحمد إسحاق وأبى عبيد وأبى ثَوْر أعلم وأفقه من العسكريين أمثالهما وأيضا فهؤلاء خير من المنتظر الذي لا يعلم ما يقول ، فإن الواحد من هؤلاء إن كان عنده نص منقول عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم فلا ريب أن النص الثابت عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم مقدَّم على القياس بلا ريب ، وإن لم يكن عنده نص ولم يقل بالقياس كان جاهلا ، فالقياس الذي يفيد الظن خير من الجهل الذي لا علم معه ولا ظن ، فإن قال هؤلاء كل ما يقولونه هو ثابت عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم كان هذا أضعف من قول من قال كل ما يقوله المجتهد فإنه قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، فإن هذا يقوله طائفة من أهل الرأي ، وقولهم أقرب من قول الرافضة ، فإن قول أولئك كذب صريح .وأيضا فهذا كقول من يقول : عمل أهل المدينة متلقى عن الصحابة وقول الصحابة متلقى عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، وقول من يقول : ما قاله الصحابة في غير مجاري القياس فإنه لا يقوله إلا توقيفا عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، وقوله من يقول : قول المجتهد أو الشيخ العارف هو إلهام من الله ووحي يجب اتباعه .
فإن قال : هؤلاء تنازعوا .قيل وأولئك تنازعوا ، فلا يمكن أن تدَّعي دعوى باطلة إلا أمكن معارضتهم بمثلها أو بخير منها ولا يقولون حقًّا إلا كان في أهل السنة والجماعة من يقول مثل ذلك الحق أو ما هو خير منه ، فإن البدعة مع السنة كالكفر مع الإيمان . وقد قال تعالى : ]وَلاَ يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلاَّ جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيراً
الثالث : أن يقال الذين أدخلوا في دين الله ما ليس منه وحرّفوا أحكام الشريعة ، ليسوا في طائفة أكثر منهم في الرافضة ، فإنهم أدخلوا في دين الله من الكذب على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ما لم يكذبه غيرهم ، وردّوا من الصدق ما لم يرده غيرهم ، وحرّفوا القرآن تحريفاً لم يحرّفه أحد غيرهم مثل قولهم : إن قوله تعالى : ]إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُون نزلت في عليّ لما تصدق بخاتمه في الصلاة .
وقوله تعالى : َمرَجَ الْبَحْرَيْنِ : علي وفاطمة ، َيخرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَان : الحسن والحسين ، وَكُلُّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِين
علي بن أبي طالب إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيم وَآلَ عِمْرَانَ
هم آل أبي طالب واسم أبي طالب عمران ، َفقاتلوا أَئِمَّةَ الْكُفْر:طلحة والزبير، وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآن هم بنو أمية ، إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُم أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَة:عائشة و َلئنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ :لئن أ شركت بين أبي بكر وعلي في الولاية
وكل هذا وأمثاله وجدته في كتبهم . ثم من هذا دخلت الإسماعيلية والنصيرية في تأويل الواجبات والمحرّمات ، فهم أئمة التأويل ، الذي هو تحريف الكلم عن مواضعه ، ومن تدبر ما عندهم وجد فيه من الكذب في المنقولات ، والتكذيب بالحق منها والتحريف لمعانيها ، مالا يوجد في صنف من المسلمين ، فهم قطعا أدخلوا في دين الله ما ليس منه أكثر من كل أحد ، وحرّفوا كتابه تحريفا لم يصل غيرهم إلى قريب منه .
الوجه الرابع : قوله : ((وأحدثوا مذاهب أربعة لم تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا زمن صحابته ، وأهملوا أقاويل الصحابة )).
فيقال له : متى كان مخالفة الصحابة والعدول عن أقاويلهم منكراً عند الإمامية ؟ وهؤلاء متفقون على محبة الصحابة وموالاتهم وتفضيلهم على سائر القرون وعلى أن إجماعهم حجة ، وعلى أنه ليس لهم الخروج عن إجماعهم ، بل عامة الأئمة المجتهدين يصرّحون بأنه ليس لنا أن نخرج عن أقاويل الصحابة ، فكيف يطعن عليهم بمخالفة الصحابة من يقول : إن إجماع الصحابة ليس بحجة ، وينسبهم إلى الكفر والظلم ؟فإن كان إجماع الصحابة حجة فهو حجة على الطائفتين ، وإن لم يكن حجة فلا يحتج به عليهم .وإن قال : أهل السنة يجعلونه حجة ، وقد خالفوه قيل : أما أهل السنة فلا يتصور أن يتفقوا على مخالفة إجماع الصحابة ، وأما الإمامية فلا ريب أنهم متفقون على مخالفة إجماع العترة النبوية ، مع مخالفة إجماع الصحابة ، فإن لم يكن في العترة النبوية –بنو هاشم – على عهد النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رصى الله عنهم من يقول بإمامة الاثنى عشر ولا بعصمة أحد بعد النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ، ولا بكفر الخلفاء الثلاثة ، بل ولا من يطعن في إمامتهم ، بل ولا من ينكر الصفات ، ولا من يكذب بالقدر فالإمامية بلا ريب متفقون على مخالفة إجماع العترة النبوية ، مع مخالفتهم لإجماع الصحابة ، فكيف ينكرون على من لم يخالف لا إجماع الصحابة ولا إجماع العترة ؟ .
الوجه الخامس : أن قوله : (( أحدثوا مذاهب أربعة لم تكن على عهد رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم )). إن أراد بذلك أنهم اتفقوا على أن يحدثوا هذه المذاهب مع مخالفة الصحابة فهذا كذب عليهم ، فإن هؤلاء الأئمة لم يكونوا في عصر واحد ، بل أبو حنيفة توفى سنة خمسين ومائة ومالك سنة تسع وسبعين ومائة ، والشافعي سنة أربع ومائتين ، وأحمد بن حنبل سنة إحدى وأربعين ومائتين ، وليس في هؤلاء من يقلد الآخر ، ولا من يأمر باتّباع الناس له ، بل كل منهم يدعو إلى متابعة الكتاب والسنة ، وإذا قال غيره قولا يخالف الكتاب والسنة عنده رده ،ولا يوجب على الناس تقليده وإن قلت ان هذه المذاهب اتّبعهم الناس ، فهذا لم يحصل بموطأة ، بل اتفق أن قوما اتّبعوا هذا ، وقوما اتبعوا هذا ، كالحجاج الذين طلبوا من يدلهم على الطريق ، فرأى قوم هذا الدليل خبيراً فاتّبعوه ، وكذلك الآخرون.وإذا كان كذلك لم يكن في ذلك اتفاق أهل السنة على باطل ، بل كل قوم منهم ينكرون ما عند غيرهم من الخطأ ، فلم يتفقوا على أن الشخص المعيّن عليه أن يقبل من كل من هؤلاء ما قاله ، بل جمهورهم لا يأمرون العاميّ بتقليد شخص معيّن غير النبي صلى الله تعالى عليه وسلم في كل ما يقوله.والله تعالى قد ضمن العصمة للامة ، فمن تمام العصمة أن يجعل عدداً من العلماء إن أخطأ الواحد منهم في شيء كان الآخر قد أصاب فيه حتى لا يضيع الحق ، ولهذا لما كان في قول بعضهم من الخطأ مسائل ، كبعض المسائل التي أوردها ، كان الصواب في قول الآخر ، فلم يتفق أهل السنة على ضلالة أصلا ، وأما خطأ بعضهم في بعض الدين ، فقد قدّمنا في غير مرة أن هذا لا يضر ، كخطأ بعض المسلمين . وأما الشيعة فكل ما خالفوا فيه أهل السنة كلهم فهم مخطئون فيه ، كما أخطأ اليهود والنصارى في كل ما خالفوا فيه المسلمين .
الوجه السادس : أن يُقال : قوله : (( إن هذه المذاهب لم تكن في زمن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا الصحابة ))إن أراد أن الأقوال التي
لهم لم تنقل عن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم ولا عن الصحابة ، بل تركوا قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم والصحابة وابتدعوا خلاف ذلك ، فهذا كذب عليهم ، فإنهم لم يتفقوا على مخالفة الصحابة ، بل هم – وسائر أهل السنة – متبعون للصحابة في أقوالهم ، وإن قدّر أن بعض أهل السنّة خالف الصحابة لعدم علمه بأقاويلهم ، فالباقون يوافقون ويثبتون خطأ من يخالفهم ، وإن أراد أن نفس أصحابها لم يكونوا في ذلك الزمان ، فهذا لا محذور فيه . فمن المعلوم أن كل قرن يأتي يكون بعد القرن الأول
الوجه السابع : قوله : (( وأهملوا أقاويل الصحابة )) كذب منه ، بل كتب أرباب المذاهب مشحونة بنقل أقاويل الصحابة والاستدلال بها ، وإن كان عند كل طائفة منها ما ليس عند الأخرى . وإن قال : أردت بذلك أنهم لا يقولون : مذهب أبي بكر وعمر ونحو ذلك ، فسبب ذلك أن الواحد من هؤلاء جمع الآثار وما استنبطه منها ، فأضيف ذلك إليه ، كما تضاف كتب الحديث إلى من جمعها ، كالبخاري ومسلم وأبي داود ، ، وكما تضاف القراأت إلى من اختارها ، كنافع وابن كثير .
وغالب ما يقوله هؤلاء منقول عمن قبلهم ، وفي قول بعضهم ما ليس منقولا عمن قبله ، لكنه استنبطه من تلك الأصول . ثم قد جاء بعده من تعقب أقواله فبيّن منها ما كان خطأ عنده ، كل ذلك حفظا لهذا الدين ، حتى يكون أهله كما وصفهم الله به َيأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر فمتى وقع من أحدهم منكر خطأ أو عمداً أنكره عليه غيره وليس العلماء بأعظم من الأنبياء ، وقد قال تعالى : وَدَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْم وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِين . فَفَهَّمْناهَا سُلَيْمَانَ وَكُلاًّ آتَيْنَا حُكْماً وَعِلْمًا وثبت في الصحيحين عن ابن عمررضي الله عنهما أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم قال لأصحابه عام الخندق : ((لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة ، فأدركتهم صلاة العصر في الطريق ، فقال بعضهم:لم يُرد منا تفويت الصلاة ، فصلُّوا في الطريق . وقال بعضهم : لا نصلي إلا في بني قريظة ،فصلوا العصر بعد ماغربت الشمس،فما عنّف واحدة من الطائفتين )) فهذا دليل على أن المجتهدين يتنازعون في فهم كلام رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم ، وليس كل واحد منهم آثماً .
الوجه الثامن : أن أهل السنة لم يقل أحد منهم إن إجماع الأئمة الأربعة حجة معصومة ، ولا قال : إن الحق منحصر فيها ، وإن ما خرج عنها باطل ، بل إذا قال من ليس من أتباع الأئمة ، كسفيان الثوري والأوزاعي واللَيْث بن سعد ومن قبلهم ومن بعدهم من المجتهدين قولا يخالف قول الأئمة الأربعة ، رُدَّ ما تنازعوا فيه إلى الله ورسوله ، وكان القول الراجح هو القول الذي قام عليه الدليل
الوجه التاسع : قوله : (( الصحابة نصوا على ترك القياس )) . يقال [له] : الجمهور الذين يثبتون القياس قالوا: قد ثبت عن الصحابة أنهم قالوا بالرأي واجتهاد الرأي وقاسوا ، كما ثبت عنهم ذم ما ذموه من القياس . قالوا: وكلا القولين صحيح ، فالمذموم القياس المعارض للنص ، كقياس الذين قالوا : إنما البيع مثل الربا ، وقياس إبليس الذي عارض به أمر الله له بالسجود لآدم ، وقياس المشركين الذين قالوا: أتأكلون ما قتلتم ولا تأكلون ما قتله الله ؟ قال الله تعالى : وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُم المُشْرِكُون وكذلك القياس الذي لا يكون الفرع فيه مشاركا للأصل في مناط الحكم، فالقياس يُذم إما لفوات شرطه ،وهو عدم المساواة في مناط الحكم، وإما لوجود مانعه ، وهو النص الذي يجب تقديمه عليه ، وإن كانا متلازمَيْن في نفس الأمر ، فلا يفوت الشرط إلا والمانع موجود ، ولا يوجد المانع إلا والشرط مفقود .فأما القياس الذي يستوي فيه الأصل والفرع في مناط الحكم ولم يعارضه ماهو أرجح منه ، فهذا هو القياس الذي يتبع .ولا ريب أن القياس فيه فاسد ، وكثير من الفقهاء قاسوا أقيسة فاسدة ، بعضها باطل بالنص ، وبعضها مما اتفق على بطلانه ، لكن بطلان كثير من القياس لا يقتضي بطلان جميعه ، كما أن وجود الكذب في كثير من الحديث لا يوجب كذب جميعه .
(( منهاج السنة النبوية ألمجلد الثاني ألصفحة 128 ، 129 ،130 ،131 ،132 ، 133
ألطبعة دارالكتب العلمية بيروت لبنان ))

No comments:

Post a Comment