تازہ ترین تحریریں

Thursday 13 September 2012

فرقہ جديد نام نہاد اہل حدیث کا فقہ حنفی سے بُغض وعداوت

اس فرقہ جدید کی بنیاد ہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی سے بغض وعداوت ونفرت وتعصب پر رکھی گئی ہے ، باستثناء بعض معتدل اشخاص سب کا یہی حال ہے ، ان کے چھوٹے بڑے آئے دن وقتا فوقتا فقہ حنفی کے خلاف کچھ نہ کچھ بکواسات لکھتے اور بولتے رہتے ہیں ، اور حتی کہ ایک ناواقف جاہل شخص جب ان کی ظاہری خوشنما جال میں پھنستا ہے تو اس کو ابتدائی سبق ہی یہ پڑھایا جاتا ہے کہ " فقہ حنفی قرآن وحدیث کے بالکل خلاف ومتضاد ہے " لہذا اس کے قریب بھی نہ جانا ، اور پھر اس کو مزید گمراه کرنے کے لئے  اورامام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی سے متنفرکرنے کے لیئے چند کتب ورسائل کے پڑھنے کی تاکید کی جاتی ہے جن کو بعض جہلاء نے ترتیب دیا ہے اوران میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی کے خلاف انٹرنیشنل جھوٹ وکذب وفریب کوجمع کیا ، اب ایک ناواقف وجاہل خالی الذہن شخص یہ سب کذبات وافترآت پڑھتا ہے یا سنتا ہے اور اس کو خالص اندھی تقلید میں قبول کرتا جاتا ہے ، کیونکہ یہ شخص بوجہ اپنی جہالت کے دین کے بنیادی احکامات وفرائض کی خبرنہیں رکھتا تو فقہ حنفی کی تفصیلات کا اس کو کیا علم ہوگا ، اور اس فرقہ جدید میں شامل ہونے والے اکثرکا یہی حال ہے کہ اسی قسم کا وسوسہ کسی نے سنایا یا پڑھایا اور ان کے ساتھ ہولیا ، اب یہی شخص اس کے بعد رات دن امام اعظم ابو  حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی اورعلماء احناف کے خلاف طعن وتشنیع کرتا  رہتا ہے اوراپنی عاقبت کوخراب کرتا ہے ، اور یہ سب کام یہ شخص خالص اندهی وناجائز تقلید میں کرتا ہے ، کیونکہ خود تو اس کے اندر اتنی استعداد وصلاحیت نہیں ہے کتب فقہ کی طرف رجوع کرکے صحیح وغلط جھوٹ وسچ کی تمیز وتفریق کرسکے ، لہذا  چند جہلاء کے رسائل وکتب وبیانات پرہی آمین ولبیک کہہ دیتا ہے ، اور اس طرح ضلالت کی وادی میں پہلا قدم رکھتا ہے ، لہذا ایک عاقل شخص پرلازم ہے کہ امام اعظم ابو  حنیفہ رحمہ الله اورفقہ حنفی اورعلماء احناف کے خلاف اس فرقہ جدید کی طرف سے پھیلائے گئے وساوس واکاذیب کو ہرگز قبول  نہ کرے ، الله تعالی علماء حق علماء دیوبند کو جزاء خیردے کہ اس فرقہ جدید کی اڑائی ہوئی تمام جھوٹی باتوں کا جواب مستقل کتب ورسائل وبیانات وتقاریر کی صورت میں دے چکے ہیں اور اس فرقہ جدید پرخصوصا اوردیگرتمام لوگوں پرحُجت تمام کرچکے ہیں ، یہاں میں صرف ایک بات امام اعظم ابو  حنیفہ رحمہ الله کے اصول اجتہاد کے حوالے سے عرض کرتا ہوں ، جس کوپڑھ کرآپ اندازه کریں کہ امام اعظم نے باب اجتہاد میں کتنا عظیم اصول قائم کیا ہے ، اوراس اصول کو پڑھنے کے بعد امام اعظم اورفقہ حنفی کے خلاف اس فرقہ جدید کے پھیلائے ہوئے اکثر وساوس فنا ہوجاتے ہیں۔

امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ الله كا عظیم اجتہادى اصول :
امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ الله فرماتے ہیں:
آخذ بكتاب الله ، فما لم أجد فبسنة رسول اللهﷺ، فإن لم أجد في كتاب الله ولا سنة رسول الله ﷺ، أخذت بقول أصحابه، آخذ بقول من شئت منهم، وأدع من شئت منهم ولا أخرج من قولهم إلى قول غيرهم وأما اذا انتهى الأمر الى إبراهيم والشعبي وإبن سيرين والحسن وعطا وسعيد ابن المُسيب وعد د رجالا فقوم اجتهدوا فأجتهدُ كما اجتهدوا۔ [ تاريخ بغداد (13/368]
میں سب سے پہلے کتاب الله سے( مسئلہ وحکم ) لیتا ہوں ، اگرکتاب الله میں نہ ملے تو پھر سنت رسول الله ﷺاور احادیث کی طرف رجوع کرتا ہوں ، اور اگر كتاب الله وسنت اور احادیث رسول الله ﷺ  میں بھی نہ ملے تو پھر میں اقوال صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم  کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا ، اور جب معاملہ براهیم، والشعبی والحسن وابن سيرین وسعيد بن المسيب تک پہنچ جائے تو پھر میں بهی اجتہاد کرتا ہوں جیسا کہ انہوں نے اجتہاد کیا ۔
حافظ ابن القیم رحمہ الله اپنی کتاب {اعلام الموقعین }فرماتے ہیں کہ:
وأصحاب أبي حنيفة رحمه الله مجمعـون علـى أن مذهـب أبـي حنيفـة أن ضعيـف الحديـث عنـده أولى من القياس والرأي ، وعلى ذلك بنى مذهبـه كمـا قـدّم حديـث القهقهـة مـع ضعفه على القياس والرأي ، وقـدّم حديث الوضوء بنبيذ التمر في السفر مع ضعفه على الرأي والقيـاس .... فتقديم الحديث الضعيف وآثار الصحابةعلى القياس والرأي قوله وقول الإمام أحمد" [ اعلام الموقعین عن رب العالمين 1/77 ]
امام ابو  حنیفہ  رحمہ الله کے اصحاب کا اس بات پراجماع ہے کہ امام ابو  حنیفہ رحمہ الله کا مذہب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث بھی رائے و قیاس سےأولى ٰ وبہتر ( ومقدم ) ہے ، اور اسی اصول پر امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے مذہب کی بنیاد واساس رکھی گئی ، جیسا  قہقہہ والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام ابو حنيفہ  رحمہ الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، اور سفر میں نبیذ التمر کے ساتھ وضو والی حدیث کو باوجود ضعیف ہونے کے امام ابو  حنیفہ رحمہ الله نے قیاس ورائے پرمقدم کیا ، پس حديث ضعيف وآثارُ الصحابہ رضی اللہ عنھم  کو رائے وقیاس پرمقدم کرنا یہ امام ابو حنیفہ  رحمہ الله اور امام احمد رحمہ الله کا قول ( وعمل وفیصلہ ) ہے ۔ 
علامہ ابن حزم ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں کہ
جميع أصحاب أبي حنيفة مجمعون على أن مذهب أبي حنيفة أن ضعيف الحديث أولى عنده من القياس والرأي" [ احكام الاحكام فی اصول الاحكام 7/54]
یہ ہے امام  اعظم ابو حنیفہ  رحمہ الله اورآپ کے اصحاب وتلامذه کا سنہری وزریں اصول جس کے اوپرمذہب حنفی  کی بنیاد ہے ، امام اعظم  ابو حنیفہ  رحمہ الله کا یہ اصول اہل علم کے یہاں معروف ہے ، اب جس امام کا حدیث کے باب میں اتنا عظیم اصول ہو اوراس درجہ تعلق ہو حدیث کے ساتھ کہ ضعیف حدیث پربھی عمل کرنا ہے ، اس امام کواور اس کے اصحاب وپیروکاروں کو حدیث کا مخالف بتلایا جائے اورجاہل عوام کوگمراه کیا جائے،تواس طرزکوہم کیا کہیں جہالت وحماقت یاعداوت ومنافقت ؟؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله كا فتوى
ومن ظنّ بأبی حنيفة أوغيره من أئمة المسلمين أنهم يتعمدون مخالفة الحديث الصحيح
لقياس أو غيره فقد أخطأ عليهم ، وتكلّم إما بظنّ وإمـا بهـوى ، فهـذا أبو حنيفة يعمل بحديث التوضى بالنبيذ في السفر مع مخالفته للقياس ، وبحديث القهقهة في الصلاة مع مخالفته للقياس لاعتقاده صحتهما وإن كان أئمة الحديث لم يصححوهما"
اورجس نے بھی امام ابو  حنيفہ ؒ  یا ان کے علاوه دیگر أئمۃ المسلمين کے متعلق یہ گمان کیا کہ وه قياس یا ( رائے ) وغیره کی وجہ سے حديث صحيح کی مُخالفت کرتے ہیں تو اس نے ان ائمہ پر غلط (بہتان  وجھوٹ ) بات بولی ، اور محض اپنے گمان وخیال سے یا خواہش ہویٰ سے بات کی ، اور امام  ابو  حنيفہ ؒ    تو نبیذ التمر کے ساتھ وضو والی حدیث پر باوجود ضعیف ہونے کے اور مُخالف قیاس ہونے کے عمل کرتے ہیں الخ ۔ [ مجموع الفتاوي لابن تيمية 20/304، 305]
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ الله کا فتوی بالکل واضح ہے یعنی امام اعظم کے مُتعلق اگرکوئی یہ گمان وخیال بھی کرے کہ وه صحیح حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اپنی رائے وقیاس سے تو ایسا شخص  شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله کے نزدیک خیالات وخواہشات کا پیروکار ہے اور ائمہ مُسلمین پرجھوٹ وغلط بولنے والا ہے ۔
کیا شیخ الإسلام ابن تیمیہ ؒ کے اس فتوی کا مصداق آج کل کا جدید فرقہ اہل حدیث نہیں ہے جو رات دن کا مشغلہ ہی یہی بنائے ہوئے ہیں؟؟؟
میں نے حافظ ابن القیم رحمہ الله اور ان کے شیخ شیخ الإسلام ابن تیمیہ ؒ  کی تصریحات نقل کیں ، عجب نہیں کہ حافظ ابن القیم رحمہ الله شیخ الإسلام ابن تیمیہ ؒ کا یہ اعلان فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جُہلاء کے لئےباعث ہدایت بن جائے ۔ 
اور یہ بھی یاد رہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل جاہل نام نہاد شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لئے یہ وسوسہ پھیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی" حدیث "کے بالکل مخالف ہے ، گذشتہ سطور میں آپ نے ملاحظہ کرلیا کہ امام اعظم اورآپ کے اصحاب بالاتفاق ضعیف حدیث پرعمل نہیں چھوڑتے چہ جائیکہ صحیح حدیث کو چھوڑ دیں ، اس سلسلہ میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں ،
دیگرمُحدثین کے یہاں اور خود فرقہ جدید اہل حدیث کے یہاں بھی " مُرسَل حدیث " ضعیف اور ناقابل احتجاج ہے ، جب کہ امام اعظم اور آپ کے اصحاب " مُرسَل حدیث " کو بھی قبول کرتے ہیں ، اور قابل احتجاج سمجھتے ہیں بشرطیکہ " مُرسِل " ثقہ وعادل ہو ۔
یہاں سے آپ اندازه لگا لیں کہ امام اعظمؒ اور آپ کے اصحاب " حدیث " کو کتنی اہمیت دیتے  ہیں ، اور حدیث رسول ﷺ کے ساتھ کس درجہ شدید و قوی تعلق رکھتے ہیں ، لیکن پھر بھی عوام کو بے راه کرنے کیلئے  یہ جھوٹ و وسوسہ پھیلاتے ہیں کہ فقہ حنفی حدیث کے بالکل مخالف ہے ۔ هَـداهـُم الله فـهـُم لايـَعـلمون۔
مُرسَل حدیث کے متعلق مُحدثین کے چند تصریحات درج ذیل ہیں ، 
حكم الحديث المرسل عند أبي حنيفة :من الجدير بالذكر أن الحديث المرسل هو الحديث الذي يضيفه التابعي إلىالنبي صلى الله عليه وسلم مسقطاً الواسطة بينهما ، وقد اختلف العلماء في قول هذا المرسل أوعدم قبوله على أقوال عدة ، وكان أبو حنيفة النعمان يرى قبول الحديث المرسل والاحتجاج به بشرط أن يكون مرسِله ثقة عدلاً۔
قال الخطيب البغدادي في الكفاية : " اختلف العلماء في وجوب العمل بما هذه حاله، فقال بعضهم : إنه مقبول ويجب العمل به إذا كان المرسِل ثقة عدلاً ، وهذا قول مالك وأهل المدينة وأبي حنيفة وأهل العراق وغيرهم "[الكفاية في علم الراوية ص384] 
وقال ابن الصلاح وابن كثير : " والاحتجاج به مذهب مالك وأبي حنيفة وأصحابهما ء رحمهم الله ء في طائفة "[انظر علوم الحديث لابن الصلاح ص 50 ] 
وقال العراقي في فتح المغيث : " فذهب مالك بن أنس وأبو حنيفة النعمان بن ثابت وأتباعهما في طائفة إلى الاحتجاج به "يعني بالمرسل .[فتح المغيث في شرح ألفية الحديث ص65.]

وقال النووي في التقريب : " ثم المرسل حديث ضعيف عند جماهير المحدثين والشافعي وكثيـر من الفقهاء وأصحاب الأصول ، وقال مالك وأبو حنيفة في طائفة : صحيح [التقريب والتيسير في معرفة سنن البشير النذير ص35.] 
وقال النووي في الارشاد : " وقال مالك وأبو حنيفة رضي الله عنهما وأصحابهما وطائفة من العلماء : يُحتجّ به[إرشاد طلاب الحقائق ص81.]
وقـال السخـاوي فـي فتح المغيث : " واحتجّ به الإمام مالك بن أنس في المشهور عنه وكذا الإمام أبو حنيفة النعمان بن ثابت وتابعهما المقلدون لهما ء والمراد الجمهور من الطائفتين بل وجماعة من المحدثين والإمام أحمد في رواية حكاها النووي وابن القيم وغيرهم بالمرسل ودانوا بمضمونه أي جعل كل واحد منهم ما هو عنده مرسل ديناً يدين به في الأحكام وغيرها  [فتح المغيث شرح ألفية الحديث 1/139 ] 
وقال السيوطي : " وقال مالك في المشهور عنه وأبو حنيفة في طائفة منهم أحمد في المشهور عنه : صحيح" [تدريب الراوی 1/198 ]
**** إن أريدُ إلا الإصْــلاحَ مـَا استطعتُ وَمَا توفـِيـقـي إلابالله ****

No comments:

Post a Comment