تازہ ترین تحریریں

Thursday 13 September 2012

امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ؟؟

یہ وسوسہ بہت پرانا ہے جس کو فرقہ اہل حدیث کے جہلاء نقل درنقل نقل کرتے چلے آرہے ہیں ، اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو ( لعنة الله علی الکاذبین ) ہے ، یہ انهوں نے (کتاب تاریخ ابن خلدون ) سے لیا ہے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی ہے کہ ہمارے اصول صرف قرآن وسنت ہیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض ہے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سے بهی ملے وه سر آنکھوں پر، اس کے لئے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئی ضرورت نہیں اگرچہ کسى مجہول آدمی کا جھوٹا قول ہی کیوں نہ ہو ۔یہی حال ابن خلدون کے نقل کرده اس قول کا ہے ، تاریخ ابن خلدون میں ہے۔
فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها
1. فرقہ اہل حدیث کے جاہل شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیے اس کا ترجمہ کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره ( 17 ) احادیث یاد تھیں ، حالانکہ اس عبارت کا یہ ترجمہ بالکل غلط ہے ، بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ابوحنیفہ رضی الله عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی روایت ( یعنی مَرویات ) ستره ( 17) تک پہنچتی ہیں، اس قول میں یہ بات نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تھیں ، ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول مجہول کا مطلب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے جواحادیث روایت کیں ہیں ان کی تعداد ستره ( 17) ہے ، یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( 17 ) احادیث پڑھی ہیں ، اور اہل علم جانتے ہیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئی عیب ونقص نہیں ہے ، حتی کہ خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم ہیں ۔
2. تاریخ ابن خلدون جلد ۱ صفحہ ۳۷۱ پر جو کچھ ابن خلدون رحمہ الله نے لکھا ہے ، وه اگربغور پڑھ لیا جائے تواس وسوسے اوراعتراض کا حال بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
3. علامہ ابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول ( یُقال ) بصیغہ تَمریض ذکرکیا ہے ، اور علماء کرام خوب جانتے ہیں کہ اہل علم جب کوئی بات ( قیل ، یُقالُ ) سے ذکرکرتے ہیں تو وه اس کے ضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره ہوتا ہے ،مطلب یہ ہے کہ یہ علامہ ابن خلدون رحمہ الله کا اپنا قول نہیں ہے ، بلکہ مجہول صیغہ سے ذکرکیا ہے ، جس کا معنی ہے کہ ( کہا جاتا ہے ) اب یہ کہنے والا کون ہے، کہاں ہے، کس کوکہا ہے ؟؟ کوئی پتہ نہیں ، پھر علامہ ابن خلدون رحمہ الله نے کہا ( اونَحوِها ) یعنی ان کوخود بھی نہیں معلوم کہ ستره ہیں یا زیاده۔
4. علامہ ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام ہیں لیکن ان کو ائمہ کی روایات کا پورا علم نہیں ہے ، مثلا وه کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات (موطا) میں تین سو ہیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے ہیں کہ (موطا مالک) میں ستره سو بیس (1720) احادیث موجود ہیں ۔
5. اس وسوسہ کی تردید کے لئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو ہی دیکھ لینا کافی ہے ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی ہیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی ہیں ، اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمہ الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ میں ہزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئی ہیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے (کتاب الآثار) میں تقریبا نوسو ( 900 ) احادیث جمع کی ہیں ، جس کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا۔
6. امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا ہے ، عالم اسلام کے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذہبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا ہے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا ہے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا ہے جس کو کم ازکم ایک لاکھ احادیث متن وسند کے ساتھ یاد ہوں اور زیاده کی کوئی حد نہیں ہے ، امام ذہبی رحمہ الله تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور انگریزی دور کا نومولود فرقہ اہل حدیث کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یاد تھیں ، ( تذکرۃ الحُفَّاظ ) سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ترجمہ درج ذیل ہے:
تذكرة الحفاظ/الطبقة الخامسة۔ ابو حنيفة
الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة، رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير. وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفة أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود : إن أبا حنيفة كان إماما۔
وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنة خمسين ومائة۔
أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد

No comments:

Post a Comment