تازہ ترین تحریریں

Thursday, 13 September 2012

حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی بعد کی پیداوار ہیں

یہ وسوسہ بھی عام آدمی کوبڑا وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل یہ وسوسہ بھی باطل ہے ، الحمد لله ہم اہل سنت والجماعت ہیں اور اہل سنت کے چاربڑے مکاتب فکرہیں حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، یہ چار مسالک ایک دوسرے کے ساتھ باہمی محبت ومودت رکھتے ہیں،  ایک دوسرے کے ساتھ استاذ وشاگرد کی نسبت رکھتے ہیں، ایک دوسرے کو کافر و مشرک و گمراه نہیں کہتے ،صرف فروعی مسائل میں دلائل کی بنیاد پراختلاف رکھتے ہیں۔ اصول وعقائد میں اختلاف نہ توصحابہ کے مابین تھا اور نہ ائمہ اربعہ کے درمیان ۔ غیرمنصوص مسائل میں ان ائمہ کرام نے اجتہاد کیا اسی وجہ سے فروعی مسائل میں ان ائمہ کرام کے مابین اختلاف موجود ہے ، اور یہ اختلاف بمعنی جنگ وفساد نہیں ہے جیسا کہ فرقہ جدید اہل حدیث کا پروپیگنڈه ہے بلکہ یہ علمی اختلاف دلائل وبراہین کی بنیاد پر ہے ، جوکہ امت مرحومہ کے لئے  رحمت ہے ، اور پھر یہ فروعی اختلاف صحابہ کرام کے مابین بھی تھا اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی سب اہل سنت والجماعت ہیں ، اور ہمارا یہ نام ولقب حدیث سے ثابت ہے ، حضور ﷺ نے قول باری تعالی[‏يوم تبيض وجوه وتسود وجوه‏] کی تفسیر میں فرمایا کہ وه اہل سنت والجماعت ہیں

وأخرج الخطيب في رواة مالك والديلمي عن ابن عمر عن النبي ﷺ في قوله تعالى ‏{‏يوم تبيض وجوه وتسود وجوه‏}‏ قال‏:‏ ‏"‏تبيض وجوه أهل السنة، وتسود وجوه أهل البدع‏"‏‏. 
وأخرج أبو نصر السجزي في الإبانة عن أبي سعيد الخدري ‏"‏أن رسول اللهﷺ  قرأ ‏{‏يوم تبيض وجوه وتسود وجوه‏}‏ قال‏:‏ تبيض وجوه أهل الجماعات والسنة، وتسود وجوه أهل البدع والأهواء‏"‏‏.
وأخرج ابن أبي حاتم وأبو نصر في الإبانة والخطيب في تاريخه واللالكائي في السنة عن ابن عباس في هذه الآية قال ‏{‏تبيض وجوه وتسود وجوه‏}‏ قال ‏"‏تبيض وجوه أهل السنة والجماعة، وتسود وجوه أهل البدع والضلالة‏۔
تو اہلسنت والجماعت  ہی فرقہ ناجیہ  اور طائفہ منصورة ہے ، اور جن کی صفت حضور ﷺ نے یہ بیان کی کہ وه میرے اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم  کے طریق پرہوں گے ،
اس باب میں وارد شده چند احادیث صحیحہ ملاحظہ کریں
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله ﷺ يقول: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة أو اثنتين وسبعين فرقة، والنصارى مثل ذلك، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة) قال الحاكم: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجه (1/44.) وجاء في سنن أبي داود (4/197)
 عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: (افترقت اليهود على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفرقت النصارى على إحدى أو اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة۔  (وجاء في صحيح ابن حبان (6247)
 عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: (افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، وافترقت النصارى على اثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة۔
ان مذکوره بالا احادیث سے تویہ معلوم ہوا کہ اس امت میں افتراق ( فرقے ) واقع ہوں گے ، لیکن ان روایات میں ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب فرقہ ) کی تعیین نہیں کی گئی ، بلکہ دیگر احادیث صحیحہ میں ناجی فرقہ کی تعیین کی گئی ہے جودرج ذیل ہیں ۔
حديث أنس بن مالك رضي الله عنه الذي أخرجه الإمام أحمد حديث رقم (12229)
 عن النبي ﷺ أنه قال: (إن بني إسرائيل قد افترقت على اثنتين وسبعين فرقة، وأنتم تفترقون على مثلها، كلها في النار إلا فرقة۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان فرقوں میں سے ایک ہی فرقہ کامیاب وناجی ہوگا ، اب وه ناجی فرقہ کون سا ہے ؟؟
وبيَّن النبي ﷺ في الحديث الذي أخرجه الطبراني في الكبير (8/152)
 عـن أبي الدرداء وأبي أمامة وواثلة بن الأسقع وأنس بن مالك أن من شرط الفرقة الناجية: عدم تكفير أحد من أهل القبلة، فقـال: (ذَرُوا المِرَاء،فإن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة، والنصارى على اثنتين وسبعين فرقة، و تفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، كلهم على الضلالة إلا السَّواد الأعظم، قالوا: يا رسول الله ومَن السَّواد الأعظم؟ قال: مَن كان على ما أنا عليه وأصحابي، الخ
حديث حسن أخرجه الترمذي وغيره۔
قال ﷺ : " إن بني إسرائيل افترقوا على إحدى وسبعين فرقة ، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة ، كلها في النار إلا واحدة " فقيل له : ما الواحدة ؟ قال : " ما أنا عليه اليوم وأصحابي۔
ان مذکوره بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ناجی فرقہ ( نجات والی کامیاب جماعت ) وه ہے جو حضور ﷺ  کی سنت پرعمل پیرا ہوگی 
یعنی " أهل السنة " اسی کو حدیث میں " ما أنا عليه " فرمایا ، اور " والجماعة "یعنی سنت رسولﷺ  پرعمل  کرنے کے ساتھ ساتھ سنت صحابہ پربھی وه جماعت عمل کرے گی ، اسی کو حدیث میں " وأصحابی " فرمایا۔ 
تواس عظیم الشان بشارت کی حامل جماعت ایک ہی ہے اور وه اہل السنت والجماعت ہے ، اور حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی چاروں مسالک اہل السنت والجماعت اسی اصول پر قائم ہیں ، توکامیابی ونجات کا معیار ومیزان سنت رسول ﷺ اور سنت صحابہ  رضی اللہ عنھم ہے ، اب ہم اس میزان میں فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کو پرکهتے ہیں تو وه بظاہر سنت پرتو عمل کا دعوی کرتے ہیں لیکن ناجی فرقہ کی دوسری صفت یعنی جماعت صحابہ کی اتباع نہیں کرتے ، حتی کہ ان کے ہاں صحابی کا قول فعل فہم کوئی حجت ودلیل نہیں ہے ، صرف یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے اجماعات کی بھی مخالفت کرتے ہیں ( مثلا بیس رکعت تراویح ، طلاق ثلثہ ، جمعہ کے دن اذان ثانی وغیره ) اجماعی مسائل میں صحابہ کی مخالفت کرتے ہیں ، یہاں سے ایک عاقل آدمی فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کی حقیقت کومعلوم کرلیتا ہے ،اور پھر فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث کسی ایک فرقہ کا نام نہیں ہے بلکہ وقت گذرنے کے ساتھ بیسیوں فرقے اس کی پیٹ سے نکل چکے ہیں ، بطورمثال وعبرت چند بڑے فرقوں کا نام ملاحظہ کریں ۔
1.    فرقہ غرباء اہل حدیث ۔
2.     کانفرنس اہل حدیث ( ۱۳۲۸ ه
3.    امیرشریعت صوبہ بہار ( ۱۳۳۹ ه
4.     فرقہ ثنائیہ ( ۱۹۳۹ ه)۔
5.   فرقہ عطائیہ ( ۱۹۲۹ ه)۔
6.    فرقہ شریفیہ ( ۱۳۴۹ ه)۔
7.    فرقہ غزنویہ ( ۱۳۵۳ ه)۔
8.    جمیعت اہل حدیث ( ۱۳۷۰ ه)۔
9.    انتخاب مولوی محی الدین ( ۱۳۷۸ ه)۔
10.   جماعت المسلمین۔ 
پھران فرقوں کا آپس میں اختلاف مسائل وعقائد اتنا زیاده ہے کہ آدمی حیران وپریشان ره جاتا ہے ، ایک دوسرے پرکفروشرک کے فتوے بھی لگائے ،لیکن ایک عام آدمی کو چونکہ اس فتنہ کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا ، لہذا وه بہت جلد ان کے وساوس سے متاثرہوجاتا ہے ، اگراس کو ان کے اندر کے فرقوں اور آپس میں دینگہ مشتی  کا حال معلوم ہوجائے توکبھی ان کے قریب بھی نہ جائے ۔

No comments:

Post a Comment