تازہ ترین تحریریں

Sunday, 16 September 2012

مذاہب أربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین اختلافات کے اسباب ، اورکیا آئمہ مجتہدین کا فروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟


مذاہب أربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین اختلافات کے اسباب ، اورکیا آئمہ مجتہدین کا فروعی مسائل میں اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟
مذکوره بالا عنوان کے تحت انتہائ اختصارکے ساتهہ چند اہم باتیں ذکرکروں گا تاکہ ایک عام مسلمان جان سکے کہ مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین اورفقہاء اسلام کے مابین مسائل میں اختلاف کی وجوہات کیا ہیں اور کیا یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے اورآپس میں جنگ وجدل وحسد وبغض کی وجہ سے ہے یا کسی اور جائز ومقبول ومعقول امور کی وجہ سے ہے ؟؟ مذاهب اسلاميه ومذاهب أربعه کا فروعی مسائل میں اختلاف امت کے لیئے رحمت ویُسر وآسانی ہے اوریہ الله تعالى کا فضل وکرم ہے کہ مذاهب مُعتبره مذاهب أربعه یعنی مالكيه وحنفيه وشافعيه وحنابله کے مابین عقائد وأصول الدين میں کوئ اختلاف نہیں ہے بلکہ فروعی مسائل میں ایک جُزئي اورغیرمُضراختلاف ہے اوریہ اختلاف بهی شرعی دلائل وبراہین کی بنیاد پرہے اورتاريخ الإسلام میں کبهی یہ نہیں سنا گیا کہ مذاهب أربعه کا اختلاف محض جهگڑا ونزاع وفساد ہے ، معاذالله

الإمام السيوطي رحمه الله نے اپنے رسالہ جزيل المواهب في اختلاف المذاهب میں بڑی بہترین بات لکهی ہے فرمایا خوب جان لو کہ مذاهب (أربعه ) کا اختلاف ملت اسلام میں ایک بڑی نعمت ہے اورایک عظيم فضیلت ہے اوراس اختلاف کا ایک لطيف وباریک راز ہے جس کا ادراک علماء کو ہے جُہلاء اس لطيف وباریک راز کے ادراک وسجهہ سے اندهے ہیں حتی کہ میں نے بعض جُهال سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم ایک شریعت لے کرآئے تو یہ مذاهب أربعه کہاں سے آگئیں ؟؟ . الإمام السيوطي رحمه الله کی طرح دیگربے شمارعلماء امت نے بهی اسی طرح کا کلام کیا ہے اورالإمام السيوطي رحمه الله کی تصریح کے مطابق جولوگ مذاهب أربعه اوران کے علماء وفقہاء کوبرا وغلط کہتے ہیں ایسے لوگ جاہل اورکوڑمغزہیں شریعت کے اسرارولطائف سے بے خبر ہیں ، جیسا کہ معلوم ہے کہ فی زمانہ کچهہ جاہل لوگ عوام الناس کو دین میں آزاد وبے باک بنانے کے لیئے مختلف قسم کے وساوس پهیلا کر لوگوں کو بے راه کرتے ہیں من جملہ ان وساوس کے ایک وسوسہ یہ بهی پهیلایا جاتا ہے کہ مذاہب اربعه اور آئمہ اربعه کے درمیان بڑا اختلاف وجهگڑا پایا جاتا ہے لہذا دین کے معاملہ میں ان چاروں مذاهب کو چهوڑنا ازحد ضروری ہے ، یاد رہے کہ نصوص کی سمجهہ وفہم میں اختلاف (یعنی مختلف آراء) صحابة کرام رضي الله عنهم کے مابین اورپهران کے بعد علماء امت کے مابین موجود چلا آرہا ہے اوراس بات کا انکار کوئ بڑاجاہل اورعقل وعلم وحس سے محروم شخص ہی کرے گا ، اور پهر فروعی مسائل میں آئمہ مجتہدین کے مابین اختلاف جنگ وفساد نہیں (معاذ الله ) بلکہ امت کے لیئے رحمت ہے اوراس امت مرحُومہ پر الله تعالی کی بے شماراحسانات میں سے ایک اہم احسان یہ بهی ہے کہ اس امت کے علماء کے اتفاق کو الله تعالی نے حُجة قاطعه بنایا ہے اوران کے اختلاف کورحمت و وسعت بنایا ہے، اور پهرفروعی مسائل میں اختلاف صرف مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین ہی نہیں بلکہ صحابہ کرام کے مابین بهی موجود تها اورصحابہ کرام جودین اسلام اورقرآن وسنت کے اولین راوی وناقل وحامل جماعت ہے ہم تک سارا دین انهی مقدس ومحترم شخصیات کے واسطے سے پہنچا ہے لہذا جب ان کے مابین فروعی مسائل میں اختلاف موجود تها تو لازم ہے کہ ان کے بعد آنے والے تابعین وتبع تابعین وعلماء امت کے درمیان بهی یہ اختلاف موجود ہو اورایسا ہی ہوا کہ بعد کے آئمہ مجتہدین وعلماء اسلام کے مابین یہ اختلاف موجود چلا آرہا ہے



اختلاف کی تعریف واقسام



خلاف کی لغوی تعریف ہے ، الاختلاف والمخالفة ، یعنی ایک شخص حال یا قول میں دوسرے کے مخالف رائے ومَنہج اختیارکرے

اورخلاف کی اصطلاحی تعریف ہے ، کہ کسی کے ساتهہ قول یا رأي یا حالت یا هيئت یا مُوقف میں مخالف کرنا
یعنی خلاف یہ ہے کہ طرفين میں سے ہرایک دوسرے کے مخالف ہو



اختلاف کے اقسام



علماء کرام نے اسلام میں رد وقبول کے اعتبار سے اختلاف کی دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں ، پہلی قسم ہے اختلاف تـَنـَوُّع ، دوسری قسم ہے اختلاف تـَضـَاد



1 = اختلاف تـَنـَوُّع ، تـَنـَوُّع ، کا مطلب یہ ہے کہ کوئ چیز متعدد ہو لیکن حقیقت میں متفق ہو، یعنی ہروه اختلاف جس میں کئ وجوہات جائز ہوں ، اوراس اختلاف میں مُنافات نہیں ہوتا یعنی ایک قول دوسرے کی نفي وإبطال نہیں کرتا بلکہ ہرقول دوسرے کا ایک نوع ہوتا ہے ضد نہیں ہوتا ، اوراس میں تمام اقوال صحیح ہوتے ہیں ، اور پهر یہ کئ قسم پرہوتا ہے مثلا ایک یہ کہ دونوں فعل اوردونوں قول جائز وحق ہوں جیسا کہ قرآن کی قراأت کہ صحابہ کے مابین ان میں اختلاف ہوا ، وعن ابن مسعود قال : سمعت رجلا قرأ ، وسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ خلافها فجئت به النبي صلى الله عليه وسلم فأخبرته ، فعرفت في وجهه الكراهة ، فقال : كلاكما محسن فلا تختلفوا الخ رواه البخاري 
ابن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو قراءت کرتے ہوئے سنا حالانکہ میں نے نبی صلى الله عليه وسلم سے اس کے برخلاف پڑهتے ہوئے سنا تها یعنی جو قراءت یہ آدمی پڑهہ رہا تها نبی صلى الله عليه وسلم سے میں نے اس طرح نہیں سنا لہذا میں نے اس کو نبی صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضرکیا اورمیں نے نبی صلى الله عليه وسلم کو اس اختلاف کی خبردی ، پس میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کے چہره ( مبارک ) پرناپسندیدگی کے آثار دیکهے ، اورنبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تم دونوں درست ہو، یعنی قراءت کی روایت میں ، علامہ طيبي رحمه الله فرماتے ہیں کہ وه آدمی اپنی قراءت میں درست ہے اور ابن مسعود رضی الله عنہ نے جو نبی صلى الله عليه وسلم سے سنا وه اس میں درست ہے

اسی طرح دو مختلف معانی کسی قول سے لیئے جائیں لیکن دونوں متضاد نہ ہوں بلکہ دونوں قول باوجود مختلف ہونے کے صحیح ہوں اوریہ اکثراختلافی مسائل میں موجود ہے اوراس طرح کا اختلاف خود رسول الله صلى الله عليه وسلم کے عہد مبارک میں واقع ہوا ہے اورآپ نے دونوں اقوال کو درست قراردیا ، مثال اس کی یہ ہے : غزوة الأحزاب : کے بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ « من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يصلين العصر إلا في بني قريظة » (رواه البخاري ومسلم وغيرهما). یعنی جوشخص الله پراورآخرت کے دن پرایمان رکهتا ہے وه عصرکی نمازنہ پڑهے مگر بَنی قریظہ میں ، اب جب غروب کا وقت قریب ہوگیا تو رسول الله صلى الله عليه وسلم کے اس قول مبارک کے سمجهنے میں صحابہ کرام کے مابین اختلاف واقع ہوگیا ، اب بعض صحابہ نے یہ سمجها کہ مراد اس قول سے سرعت اورجلدی ہے اوراگرنمازکا وقت راستے میں آجائے تو راستے میں پڑهہ لی جائے لہذا انهوں نے عصرکی نماز راستے میں ہی پڑهہ لی ، لیکن بعض صحابہ نے راستے میں نماز نہیں پڑهی اوراس قول کا مطلب یہ سمجها کہ ہم عصرکی نماز بني قريظة میں ہی پڑهیں گے اگرچہ غروب کے بعد ہی کیوں نہ ہو ، رسولُ الله صلى الله عليه وسلم نے کسی ایک پر بهی انکار نہیں فرمایا بلکہ دونوں کو صحیح قرار دیا ، اوراس طرح کے اختلاف میں دونوں فریق بلاشک مُصیب اوردرست ہیں ، اوریاد رہے کہ اسی قسم کا اختلاف مذاہب اربعه اور آئمہ مجتہدین کے مابین بهی بکثرت موجود ہے، کیا کوئ عقل مند شخص مذکوره بالا حدیث پڑهنے کے بعد یہ کہ سکتا ہے کہ معاذالله یہ اختلاف تفرقہ بازی ہے ؟؟ یقینا نہیں اورہرگزنہیں بلکہ یہ بات توایک جاہل ومجہول علم وعقل سے کوسوں دور شخص ہی کرے گا ،

یادرہے کہ تمام فروعی اختلافی مسائل اسی قسم کے تحت آتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ اختلاف جائز ومقبول ومحمود ہے اورائمہ اربعہ کا اختلاف اذان واقامت ، واستفتاح ، وتشهد ، وغیره کے الفاظ میں اسی طرح صلاة الخوف ، وتكبيرات العيد، وتكبيرات الجنازة ، وفاتحة خلف الامام ، رفع یدین وعدم رفع یدین ، وآمین بالجهر وغیره مسائل میں اختلاف اسی قبیل سے ہیں الخ
میں پهرعرض کرتا ہوں کہ یہ اختلاف معاذالله ضد وفساد وتفرقہ بازی وبائیکاٹ نہیں ہے بلکہ اس فروعی اختلاف کے باوجود سلف صالحین وعلماء اسلام آپس میں انتہاء درجہ محبت وعقیدت رکهتے تهے اورایک دوسرے کو گمراه اورغلط وباطل نہیں کہتے تهے اس بارے میں سلف صالحین کی سیرتوں میں بے شمار واقعات ومثالیں موجود ہیں ، میں صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں إمام دار الهجرة إمام مالك بن أنس رحمه الله نے أهل المدينه یعنی أولاد صحابه سے علم حاصل کیا اوراسی علم کواپنی کتاب مُوطأ میں جمع کیا ، إمام الشافعي رحمه الله نے إمام مالك بن أنس رحمه الله سے شرف تلمذ حاصل کیا اوران سے علم حاصل کیا اوران کی احادیث کو روایت کیا ، لیکن اس سب کچهہ کے باوجود إمام الشافعي رحمه الله نے بہت سارے اجتہادی مسائل میں إمام مالك بن أنس رحمه الله کی مخالفت کی ، لیکن کبهی بهی إمام مالك رحمه الله کے اجتہاد کوغلط نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا کہ ، أنا مجتهد وهو مجتهد ولكل مجتهد نصيب ، یعنی میں بهی مجتہد ہوں اور إمام مالك بهی مجتهد ہے اورہرمجتهد کا اپنا نصیب وحصہ ہے

اور جب إمام الشافعي رحمه الله سے یہ کہا گیا کہ کیا ہم إمام مالك کے مُقلد کے پیچهے نماز پڑهہ سکتے ہیں ؟؟ تو إمام الشافعي رحمه الله غصہ ہوئے اور فرمایا کہ ألستُ أصلي خلف مالك ؟ کیا میں إمام مالك کے پیچهے نماز نہیں پڑهتا ؟
یعنی إمام مالك تو میرا شیخ واستاذ ہے لہذا میں ان کے پیچهے نماز پڑهتا ہوں اگرچہ میں نے بعض أمور اجتهاديه میں ان کی مخالفت کی ہے ، مثلا إمام مالك رحمه الله فاتحه اور سورت میں بسم الله جهرا (اونچی آوازسے ) پڑهنے کے قائل نہیں ہیں ، لیکن إمام الشافعي رحمه الله بسم الله جهرا پڑهنے کے قائل ہیں

وغیره ذالک اور یہی حال دیگر تمام ائمہ مجتهدین کا ہے ، رحمهم الله تعالی 
حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله اپنی کتاب حجة الله البالغة میں اختلاف الصحابة في الأحكام كثير عنوان کے تحت فرماتے ہیں کہ صحابہ تابعین اوران کے بعد کے علماء میں بعض بسم الله پڑهتے تهے اور بعض نہیں پڑهتے تهے ، اوربعض بسم الله (نمازمیں) جهرا پڑهتے تهے اور بعض جهرا نہیں پڑهتے تهے ، اور بعض فجرکی نمازمیں قنوت پڑهتے تهے اور بعض نہیں پڑهتے تهے ، اور بعض حجامت ( سینگی لگانے ) اورنکسیر اورقيء کے بعد وضوء کرتے تهے اور بعض نہیں کرتے تهے ، اور بعض مَس ذكر اور عورت کو شہوت کے ساتهہ چهونے کے بعد وضوء کرتے اور بعض نہیں کرتے تهے ، اوربعض آگ سے پکی ہوئ چیز کهانے کے بعد وضوء کرتے تهےاور بعض نہیں کرتے تهے ، اوربعض اونٹ کا گوشت کهانے کے بعد وضوء کرتے تهےاور بعض نہیں کرتے تهے ، پهر حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله نے فرمایا کہ ائمہ کا یہ اختلاف اندهی تعصب کی وجہ سے نہیں تها ( بلکہ شرعی دلیل کی بنیاد پرتها ) لہذا باوجود اس اختلاف وه ایک دوسرے پیچهے نمازپڑهتے تهے جیسے امام أبو حنيفة اوران کے أصحاب اورامام شافعي وغيرهم رضي الله عنهم مدینہ کے مالكي مذهب کے ائمہ کے پیچهے نمازپڑهتے تهے اگرچہ وه نماز میں بسم الله سراً اور جهراً نہیں پڑهتے . اور هارون الرشید نے سینگی لگانے کے بعد نماز پڑهائ اور الإمام أبو يوسف حنفی نے ان کی امامت نماز پڑهی اورنماز کا اعاده نہیں کیا ، الإمام أحمد بن حنبل سینگی اورنکسیر آنے کے بعد وضوء کے قائل تهے ، ان سے کہا گیا کہ اگرامام کا خون نکل گیا اور وضوء نہیں کیا توآپ اس کے پیچهے نمازپڑهتے ہیں ؟؟ توفرمایا کیوں نہیں میں الإمام مالك وسعيد بن المسيب کے پیچهے نمازپڑهتا ہوں ، اور روایت کیا گیا ہے کہ امام أبويوسف وامام محمد عیدین میں ابن عباس رضی الله عنهما کی تکبیر کہتے تهے کیونکہ هارون الرشيد اس تکبیر کو پسند کرتے تهے ، اورامام الشافعي رحمه الله نے امام أبي حنيفة رحمه الله کی مقبره کے قریب صبح کی نماز پڑهی تو امام أبي حنيفة رحمه الله کی ادب کی وجہ سے نماز میں قنوت نہیں پڑها،

اورامام الشافعي رحمه الله نے یہ بهی فرمایا کہ کئ دفعہ ہم أهلُ العراق کے مذهب کو بهی لیتے ہیں الخ


یاد رہے کہ حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله نے اس باب میں ایک مستقل کتاب بنام ( ألانصاف في بيان أسباب الاختلاف ) لکهی ہے ، یہ کتاب حجم میں تو اتنی بڑی نہیں ہے لیکن معارف وحقائق سے بهرپور ہے اور تاريخ التشريع اور فقهی اختلافات کے اسباب وعلل وغیره مسائل پر مشتمل انتہائ اہم کتاب ہے اهل علم اس کتاب سے استفاده کرسکتے ہیں ، اسی طرح الإمام السيوطي رحمه اللَّه نے اس باب میں جزيلُ المَواهِب في اختلاف المَذاهب کے نام سے ایک رسالہ لکها ہے ، اوربہت سارے علماء امت نے اس باب میں کتب ورسائل ومستقل ابحاث لکهی ہیں ،


وقال الشيخ شاه ولي الله الدهلوي تحت عنوان اختلاف الصحابة في الأحكام كثير ، ما نصه :[ وقد كان في الصحابة والتابعين ومن بعدهم من يقرأ البسملة ومنهم من لا يقرؤها ومنهم من يجهر بها ومنهم من لا يجهر بها وكان منهم من يقنت في الفجر ومنهم من لا يقنت في الفجر ومنهم من يتوضأ من الحجامة والرعاف والقيء ومنهم من لا يتوضأ من ذلك ومنهم من يتوضأ من مس الذكر ومس النساء بشهوة ومنهم من لا يتوضأ من ذلك ومنهم من يتوضأ مما مسته النار ومنهم من لا يتوضأ من ذلك ومنهم من يتوضأ من أكل لحم الإبل ومنهم من لا يتوضأ من ذلك .ثم قال الشيخ الدهلوي : ما كان خلاف الأئمة تعصباً أعمى : ومع هذا فكان بعضهم يصلي خلف بعض مثل ما كان أبو حنيفة وأصحابه والشافعي وغيرهم رضي الله عنهم يصلون خلف أئمة المدينة من المالكية وغيرهم وإن كانوا لا يقرؤون البسملة لا سراً ولا جهراً . وصلى الرشيد إماماً وقد احتجم فصلى الإمام أبو يوسف خلفه ولم يعد . وكان الإمام أحمد بن حنبل يرى الوضوء من الرعاف والحجامة فقيل له : فإن كان الإمام قد خرج منه الدم ولم يتوضأ هل تصلي خلفه ؟ فقال : كيف لا أصلي خلف الإمام مالك وسعيد بن المسيب . وروي أن أبا يوسف ومحمداً كانا يكبران في العيدين تكبير ابن عباس لأن هارون الرشيد كان يحب تكبير جده . وصلى الشافعي رحمه الله الصبح قريباً من مقبرة أبي حنيفة رحمه الله فلم يقنت تأدباً معه وقال أيضاً : ربما انحدرنا إلى مذهب أهل العراق … وفي البزازية عن الإمام الثاني وهو أبو يوسف رحمه الله أنه صلى يوم الجمعة مغتسلاً من الحمام وصلى بالناس وتفرقوا ثم أخبر بوجود فأرة ميتة في بئر الحمام فقال : إذاً نأخذ بقول إخواننا من أهل المدينة إذا بلغ الماء قلتين لم يحمل خبثاً ] حجة الله البالغة 1/295،296 
حضرت الامام الشيخ شاه ولي الله الدهلوي رحمه الله کا یہ کلام پڑهنے کے بعد یہ بات کتنی واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ائمہ مجتهدین وسلف صالحین کے مابین فروعی واجتہادی مسائل میں اختلاف شرعی دلیل وبرہان کی بناء پرتها ضد وتعصب وحسد ونفرت کی بنیاد پرنہیں تها ، اورپهراس اختلاف کے باوجود وه ایک دوسرے پر غلط وباطل ہونے کا فتوی نہیں لگاتے بلکہ آپس میں باہم شیر وشکرتهے اورایک دوسرے کے اجتہادات کا احترام کرتے تهے اور آپس میں حد درجہ احترام وعقیدت کا رشتہ رکهتے تهے اورادب واحترام کے اتنے اونچے مقام پرفائز تهے کہ بعض دفعہ دوسرے کسی مجتهد کے قول کے خاطر اپنے اجتہادی قول پرعمل بهی چهوڑ دیتے جیسا اوپر امام الشافعي رحمه الله کی بات ذکرہوئ کہ انهوں نے امام اعظم أبي حنيفة رحمه الله کی ادب کی وجہ سے صبح کی نماز میں قنوت نہیں پڑها حالانکہ ان کا قول واجتہاد قنوت پڑهنے کا ہے ، حاصل یہ کہ ان اکابراعلام واسلاف امت کے اس طرح واقعات واحوال بکثرت موجود ہیں ، لیکن بدقسمتی سے ہمارے اس دور میں کچهہ ایسے جاہل لوگ بهی پیدا ہوئے جن کا مقصد عوام ُالناس کو دین میں آزاد وشتربے مہار کرنا ہے ایسے جاہل لوگوں نے عوام ُالناس کو بے راه کرنے کے لیئے بڑے خوبصورت حیلے بہانے اور وساوس تیار کر رکهے ہیں ، ان وساوس میں سے ایک وسوسہ یہ بهی تیارکیا کہ ائمہ مجتهدین اور مذاهب اربعه کے مابین اختلاف ہے اور فتنہ وفساد ہے لہذا ان کو خیرباد کہنا ضروری ہے اوراس طرح ایک عامی شخص یہ وسوسہ اگرقبول کرلیتا ہے اور ائمہ مجتهدین سے بدظن ومتنفرہوجاتا ہے اور ان کی برائ وتحقیر شروع کردیتا ہے تو یہ شخص گمراہی کی وادی میں قدم رکهہ لیتا ہے اور پهر جتنا آگے بڑهتا ہے علم وهدایت سے دور چلا جاتا ہے ، معاذالله
2 = اختلاف تـَضـَاد ، تـَضـَاد لغت میں ضد کوکہتے ہیں جمع اس کی أضداد آتی ہے اور لغت میں ضِدُّ الشَيء کسی چیزکے مخالف ومُبائن اورالٹ چیزکوکہا جاتا ہے اور دو مَتضَاد چیزیں وه ہوتی ہیں جوآپس میں جمع نہیں ہوسکتے جیسے دن اور رات یعنی دو چیزوں میں اختلاف تـَضـَاد کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا اجتماع ناممکن ہو ، بعض علماء نے اختلاف تـَضـَاد کی تعریف ألقـَولان المُتنـَافِيَـان سے کی ہے ، اور پهر یہ اختلاف اصول میں ہوتا ہے اور یقینا اهل سنت کے مابین اصول دین میں کوئ اختلاف نہیں ہے لہذا یہ اختلاف مذموم و ناجائز ہے ، مثال اس کی جیسا کہ أهل حق أهل سنت والجماعت کا اختلاف فِرَق باطلہ وضالہ وأهل البدع کے ساتهہ اصول دین میں
كمـا قـال تعـالى : فَذَلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمُ الحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ ، يونس: 32، وقـال تعـالى : وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ ، يونس: 36.

والله تعـالى أعلـم وعلمـه أتـم وأحكـم

No comments:

Post a Comment