وسوسه = تبلیغی جماعت نے جو یہ چهہ نمبر {صفات} خاص کیئے هیں ، اس کا ثبوت کہیں نہیں ملتا لہذا یہ بدعت هیں ۰
جواب = یہ وسوسہ بهی گذشتہ وسوسہ سے ملتا جلتا هے ، لیکن اس وسوسہ کا مقصد یہ هوتا هے کہ خاص طور پراس اندازسے ان چهہ نمبر کا ثبوت نہیں ملتا لہذا یہ بدعت هے ، یہ وسوسہ بهی بالکل باطل هے ، کیونکہ جن چهہ صفات کی تحصیل وتعلیم کو تبلیغی جماعت نے اس زمانہ میں لوگوں کے عمومی حالات کوسامنے رکهہ کرخاص کیا هے ، خاص اس طرز کا ثبوت احادیث میں ثابت هے ، دیکهیئے جناب خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ احادیث سے ثابت هے کہ مثلا ایک صحابی نے سوال کیا کون سا عمل زیاده أفضل هے ؟ توآپ نے ایک عمل کی نشاندهی وراهنمائ فرمائ ، دوسرے وقت میں کسی صحابی نے یہی سوال کیا توآپ نے کسی دوسرے عمل کی أفضلیت کی نشاندهی وراهنمائ فرمائ ، چند احادیث اس باب میں ملاحظہ کریں
ففي الصحيح أنه صلى الله عليه وسلم سئل: "أي الأعمال أفضل؟ فقال: إيمان بالله. قال: ثم ماذا؟ قال: الجهاد في سبيل الله. قال: ثم ماذا؟ قال: حج مبرور".
وفي النسائي عن أبي أمامة قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت : مرني بأمر آخذه عنك فقال: "عليك بالصوم فإنه لا مثل له
وفي الترمذي: أي الأعمال أفضل درجة عند الله يوم القيامة؟ قال: "الذاكرين الله كثيراً والذاكرات"
إلى أن قال الشاطبي: وفي مسلم : أي المسلمين خير؟؟ قال: "من سلم المسلمون من لسانه ويده" .
وفيه سئل: أي الإسلام خير؟؟ قال: "تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف".
وفي الصحيح: "وما أعطي أحد عطاءً هو خير وأوسع من الصبر".
وفي الترمذي: " خيركم من تعلمالقرآن وعلمه".
وفيه: " أفضل العبادة انتظار الفرج "
ان احادیث سے معلوم هوا کہ آپ نے وقت کی مناسبت اورسائل کی حالت کےموافق ایک ہی سوال کے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ، لہذا اس سے معلوم هوا کہ لوگوں حالات واوقات کی مناسبت سے اصلاح وترتبیت کے لیئے مختلف وسائل واعمال کواختیارکیا جاسکتا هے ، اور اس کا مقصد یہ نہیں کہ سارا دین انهی چهہ صفات میں بند هے اور اس کے اختیارکرنے میں دیگرصفات وخصال کی نفی لازم آتی هے ، لہذا آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک نوجوان کے لیئے
ایک وقت میں اس طرح راهنمائ فرمائ " فعليه الصوم " اسی طرح بعض صحابہ کوذکرُالله ، اور تلاوت قرآن ، اورإطعامُ الطعام اور إقراءُ السلام وغیره اعمال کی
طرف راهنمائ فرمائ ، لہذا انهیں احادیث مُبارکہ کی روشنی میں تبلیغی جماعت کے أهل العلم نے اولا ان چهہ صفات حمیده کی تحصیل کوخاص کیا ، اور یہ وسائل شرعية هیں اورتربية وتعليم هے مقصد شرعي کوحاصل کرنے کے لیئے
فقط ، لہذا حضرت الامام العلامة محمد الياس الكاندهلوي رحمه الله نے اپنی جماعت میں ان چهہ صفات کی تعلیم وتحصیل وتذکیر کوخاص کیا کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کے احوال کا تقاضہ وضرورت اسی میں هے ،
اور یہ چهہ صفات عبودیت اوربندگی کوکامل کرنے اورتعلق مع الله کی عظیم دولت کوحاصل کرنے کے لیے هیں ،
( لا إله إلا الله ) الله تعالی کی سچی عبودية اوربندگی میں داخل هونے کے لیئے ، عبودية اوربندگی میں داخل هونے کے بعد اس کے صحیح راستے پرچلنے کے لیئے طريقُ العبودية حاصل کرنا هے (محمد رسول الله ) سے ، پهر عبودية اوربندگی کا صحیح طریقہ معلوم کرنے کے بعد اس کی تطبيق ضروری هے عملی طورپراس کا اظہارلازمی هے ، لہذا نمازخشوع وخضوع وغیره تمام صفات وشرائط کے ساتهہ اس عبودیت اوربندگی کی عملی تطبیق هے ، پهر یہ بهی ضروری هے کہ یہ عبودیت اوربندگی صحیح شکل میں اورسنت کے مطابق پیدا هو لہذا اس کے لیئے علم ضروری هے اوریہ علم عبودیت اوربندگی کی تصحيح کرتا هے ، اسی یہ بهی ضروری هے کہ اس عبودیت اوربندگی میں تقویت اوردوام رهے ، تو ذکرُالله اس عبودیت اوربندگی کی تقویت وپختگی کے لیئے هے ، اسی طرح بنده مومن پرلازم هے کہ اس عبودیت اوربندگی کے ثواب کی حفاظت بهی کرے پس إكرامُ المسلمين اوران کے حقوق کی ادائیگی اس عبودیت اوربندگی کی حفاظت کے لیئے هے ، اورپهر جب انسان کو عُبودية كاملة اوردیگر أعمال كثيرة کی توفیق هوجائے تو یہ جاننا ازحد ضروری هے کہ
ان تمام اعمال کی روح اخلاص هے جس کے بغیرکوئ نیک عمل مقبول نہیں هے لہذا اخلاص اور تصحيح نیت عبودیت اوربندگی کی قبولیت کے لیئے هے ،
پس جب یہ عبودیت اوربندگی بنده میں پیدا هوجائے تودیگرتمام دین پرچلنا آسان هوجاتا هے ، یہ هے اصل حقیقت ان چهہ صفات کی جن کی تحصیل وتعلیم کی تبلیغی جماعت میں کوشش ومحنت وجدوجہد کی جاتی هے ۰
جواب = یہ وسوسہ بهی گذشتہ وسوسہ سے ملتا جلتا هے ، لیکن اس وسوسہ کا مقصد یہ هوتا هے کہ خاص طور پراس اندازسے ان چهہ نمبر کا ثبوت نہیں ملتا لہذا یہ بدعت هے ، یہ وسوسہ بهی بالکل باطل هے ، کیونکہ جن چهہ صفات کی تحصیل وتعلیم کو تبلیغی جماعت نے اس زمانہ میں لوگوں کے عمومی حالات کوسامنے رکهہ کرخاص کیا هے ، خاص اس طرز کا ثبوت احادیث میں ثابت هے ، دیکهیئے جناب خاتم الانبیاء صلی الله علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ احادیث سے ثابت هے کہ مثلا ایک صحابی نے سوال کیا کون سا عمل زیاده أفضل هے ؟ توآپ نے ایک عمل کی نشاندهی وراهنمائ فرمائ ، دوسرے وقت میں کسی صحابی نے یہی سوال کیا توآپ نے کسی دوسرے عمل کی أفضلیت کی نشاندهی وراهنمائ فرمائ ، چند احادیث اس باب میں ملاحظہ کریں
ففي الصحيح أنه صلى الله عليه وسلم سئل: "أي الأعمال أفضل؟ فقال: إيمان بالله. قال: ثم ماذا؟ قال: الجهاد في سبيل الله. قال: ثم ماذا؟ قال: حج مبرور".
وفي النسائي عن أبي أمامة قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت : مرني بأمر آخذه عنك فقال: "عليك بالصوم فإنه لا مثل له
وفي الترمذي: أي الأعمال أفضل درجة عند الله يوم القيامة؟ قال: "الذاكرين الله كثيراً والذاكرات"
إلى أن قال الشاطبي: وفي مسلم : أي المسلمين خير؟؟ قال: "من سلم المسلمون من لسانه ويده" .
وفيه سئل: أي الإسلام خير؟؟ قال: "تطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف".
وفي الصحيح: "وما أعطي أحد عطاءً هو خير وأوسع من الصبر".
وفي الترمذي: " خيركم من تعلمالقرآن وعلمه".
وفيه: " أفضل العبادة انتظار الفرج "
ان احادیث سے معلوم هوا کہ آپ نے وقت کی مناسبت اورسائل کی حالت کےموافق ایک ہی سوال کے مختلف جوابات ارشاد فرمائے ، لہذا اس سے معلوم هوا کہ لوگوں حالات واوقات کی مناسبت سے اصلاح وترتبیت کے لیئے مختلف وسائل واعمال کواختیارکیا جاسکتا هے ، اور اس کا مقصد یہ نہیں کہ سارا دین انهی چهہ صفات میں بند هے اور اس کے اختیارکرنے میں دیگرصفات وخصال کی نفی لازم آتی هے ، لہذا آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک نوجوان کے لیئے
ایک وقت میں اس طرح راهنمائ فرمائ " فعليه الصوم " اسی طرح بعض صحابہ کوذکرُالله ، اور تلاوت قرآن ، اورإطعامُ الطعام اور إقراءُ السلام وغیره اعمال کی
طرف راهنمائ فرمائ ، لہذا انهیں احادیث مُبارکہ کی روشنی میں تبلیغی جماعت کے أهل العلم نے اولا ان چهہ صفات حمیده کی تحصیل کوخاص کیا ، اور یہ وسائل شرعية هیں اورتربية وتعليم هے مقصد شرعي کوحاصل کرنے کے لیئے
فقط ، لہذا حضرت الامام العلامة محمد الياس الكاندهلوي رحمه الله نے اپنی جماعت میں ان چهہ صفات کی تعلیم وتحصیل وتذکیر کوخاص کیا کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کے احوال کا تقاضہ وضرورت اسی میں هے ،
اور یہ چهہ صفات عبودیت اوربندگی کوکامل کرنے اورتعلق مع الله کی عظیم دولت کوحاصل کرنے کے لیے هیں ،
( لا إله إلا الله ) الله تعالی کی سچی عبودية اوربندگی میں داخل هونے کے لیئے ، عبودية اوربندگی میں داخل هونے کے بعد اس کے صحیح راستے پرچلنے کے لیئے طريقُ العبودية حاصل کرنا هے (محمد رسول الله ) سے ، پهر عبودية اوربندگی کا صحیح طریقہ معلوم کرنے کے بعد اس کی تطبيق ضروری هے عملی طورپراس کا اظہارلازمی هے ، لہذا نمازخشوع وخضوع وغیره تمام صفات وشرائط کے ساتهہ اس عبودیت اوربندگی کی عملی تطبیق هے ، پهر یہ بهی ضروری هے کہ یہ عبودیت اوربندگی صحیح شکل میں اورسنت کے مطابق پیدا هو لہذا اس کے لیئے علم ضروری هے اوریہ علم عبودیت اوربندگی کی تصحيح کرتا هے ، اسی یہ بهی ضروری هے کہ اس عبودیت اوربندگی میں تقویت اوردوام رهے ، تو ذکرُالله اس عبودیت اوربندگی کی تقویت وپختگی کے لیئے هے ، اسی طرح بنده مومن پرلازم هے کہ اس عبودیت اوربندگی کے ثواب کی حفاظت بهی کرے پس إكرامُ المسلمين اوران کے حقوق کی ادائیگی اس عبودیت اوربندگی کی حفاظت کے لیئے هے ، اورپهر جب انسان کو عُبودية كاملة اوردیگر أعمال كثيرة کی توفیق هوجائے تو یہ جاننا ازحد ضروری هے کہ
ان تمام اعمال کی روح اخلاص هے جس کے بغیرکوئ نیک عمل مقبول نہیں هے لہذا اخلاص اور تصحيح نیت عبودیت اوربندگی کی قبولیت کے لیئے هے ،
پس جب یہ عبودیت اوربندگی بنده میں پیدا هوجائے تودیگرتمام دین پرچلنا آسان هوجاتا هے ، یہ هے اصل حقیقت ان چهہ صفات کی جن کی تحصیل وتعلیم کی تبلیغی جماعت میں کوشش ومحنت وجدوجہد کی جاتی هے ۰
No comments:
Post a Comment