ائمہ مجتھدین وفقہاء اسلام
کے مابین اختلافات کے چند اہم اسباب
گذشتہ سطور میں ائمہ مجتهدین
کے اختلاف کی حقیقت ونوعیت اوراس کے کچھ اسباب واقسام کا تذکره ہوا ، اب مزید چند
اسباب کا تذکره پیش خدمت ہے۔
1 = لغت عربيہ کی اسالیب
اورالفاظ کا معانی پردلالت میں اختلاف
جیسا کہ معلوم ہے کہ لغت
عرب لغة القرآن الكريم اورلغة الحديث النبوي الشريف ہے اور پهرعربی زبان دنیا کی
سب سے بڑی فصیح وبلیغ و وسیع وأدق ترین زبان ہے عربی زبان میں مُؤوَّل ومُشترك ،حقیقت ومجاز ،عموم وخصوص ، صریح وکنایہ وغیره اصطلاحات بکثرت استعمال ہوتے ہیں اسی بناء پراجتہاد
واستنباط بهی مختلف ہوجاتا ہے ، مثال اس کی جیسا کہ الله تعالی کا فرمان مبارک ہے وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ البقرة:، اب اس آیت میں ائمہ مجتھدین وفقہاءاسلام کا لفظ ( قُرُوءٍ ) میں اختلاف ہوا ہے قُرُوءٍ جمع ہے قرءَ کی اورلغت میں ( القرء ) کا نام حيض وطہر ( پاکی ) دونوں کے لیئے استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہاں آیت میں کون سا معنی مراد ہے ؟؟ تو ائمہ مجتهدین کا اس میں اختلاف ہے احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں (القرء) سے مراد حیض ہے اور شوافع فرماتے ہیں کہ یہاں (القرء) سے مراد طہر (پاکی) ہے ، اسی طرح عورت کو چهونے سے وضوء کے ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کا اختلاف ہے احناف یہ فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء نہیں ٹوٹتا لیکن شوافع فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، اختلاف کی اصل وجہ اس آیت مبارکہ (أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوّاً غَفُوراً) (النساء:) میں وارد لفظ (المَسّ) ہے ، شوافع یہ فرماتے ہیں کہ آیت میں لفظ (مَسّ) یعنی چهُونے سے مراد لغوی معنی ہے یعنی صرف چهُونا، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ )مَسّ) سے لغوی حقیقت مُراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد (المباشَرة الفاحشة) یعنی انتشارکے ساتهہ دونوں کی شرمگاہوں کا ایک دوسرے کوچهُونا مراد ہے ، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء نہیں ٹوٹے گا ، ان دونوں مسائل میں دونوں طرف کے دلائل وقرائن کتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔
واستنباط بهی مختلف ہوجاتا ہے ، مثال اس کی جیسا کہ الله تعالی کا فرمان مبارک ہے وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ البقرة:، اب اس آیت میں ائمہ مجتھدین وفقہاءاسلام کا لفظ ( قُرُوءٍ ) میں اختلاف ہوا ہے قُرُوءٍ جمع ہے قرءَ کی اورلغت میں ( القرء ) کا نام حيض وطہر ( پاکی ) دونوں کے لیئے استعمال ہوتا ہے ، لیکن یہاں آیت میں کون سا معنی مراد ہے ؟؟ تو ائمہ مجتهدین کا اس میں اختلاف ہے احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں (القرء) سے مراد حیض ہے اور شوافع فرماتے ہیں کہ یہاں (القرء) سے مراد طہر (پاکی) ہے ، اسی طرح عورت کو چهونے سے وضوء کے ٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کا اختلاف ہے احناف یہ فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء نہیں ٹوٹتا لیکن شوافع فرماتے ہیں کہ عورت کو چهونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، اختلاف کی اصل وجہ اس آیت مبارکہ (أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوّاً غَفُوراً) (النساء:) میں وارد لفظ (المَسّ) ہے ، شوافع یہ فرماتے ہیں کہ آیت میں لفظ (مَسّ) یعنی چهُونے سے مراد لغوی معنی ہے یعنی صرف چهُونا، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ، احناف یہ فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ )مَسّ) سے لغوی حقیقت مُراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد (المباشَرة الفاحشة) یعنی انتشارکے ساتهہ دونوں کی شرمگاہوں کا ایک دوسرے کوچهُونا مراد ہے ، لہذا عورت کو صرف چهُونے سے وضوء نہیں ٹوٹے گا ، ان دونوں مسائل میں دونوں طرف کے دلائل وقرائن کتب فقہ میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔
2= کسی حدیث یا کسی راوی
کی صحت وضعف پر اختلاف
جیسا کہ معلوم ہے کہ قرآن
الكريم کے بعد سنت مُطہرة اسلام کی دوسری بڑی بنیاد واساس ہے اور یہ سنت مُطہرة
واحادیث مبارکہ ہماری طرف مختلف رجال کے واسطہ سے پہنچے ہیں ، اور یہ سب چونکہ بشر
وانسان تهے بشری تقاضوں سے ماوراء نہیں ہے، اورحدیث وسنت ہمارا دین ہے،اس لیئے
علماء امت نے انتہائی سختی کے ساتهہ ایسے حضرات کی جانچ پڑتال کی جوحدیث وسنت
روایت کرتے ہیں اوراس باب میں انتہائی سخت شرائط واصول وقواعد متعین کیئے اور
یہ شرائط واصول چونکہ اجتہادی تهے اس لیئے محدثین کے مابین اس باب میں اختلاف واقع
ہوا ، مثلا ایک امام کسی راوي کو ثقہ سمجهتا ہے اوراس کی روایت قبول کرتا ہے تو
دوسرا امام اس راوي سے مطمئن نہیں ہوتا لہذا اس کی روایت قبول نہیں کرتا ، اسی طرح
بعض ائمہ حدیث کے قبول کرنے میں بعض مسائل میں ایسے شروط لگاتے ہیں جو دوسرے ائمہ
نہیں لگاتے ، اسی طرح حدیث کے انواع واقسام بهی اجتہادی ہیں تو اس وجہ سے بهی
اختلاف واقع ہوا مثلا حديث مُرسَل ہے احناف اس کولیتے ہیں اوراس سے استدلال کرتے
ہیں جبکہ شوافع اس کو ضعیف سمجهتے ہیں اوراس سے استدلال نہیں کرتے اوربعض حديث
مُرسَل کومُطلقا قبول کرتے ہیں اوربعض بالکل قبول نہیں کرتے اوربعض کچھ شرائط کے ساتهہ
قبول کرتے ہیں ، وغیرذالک اور " الحديث المُرسَل
" اس حدیث کوکہا جاتا ہے "
ما
رواه التابعي عن النبي صلى الله عليه وسلم
" جس میں تابعی کسی صحابی کے واسطہ کے بغیر کہے : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم
3= افہام وعُقول وعلوم میں تفاوت کا اختلاف
جیسا کہ ظاہر ہے کہ یہ ایک طبعي أمر ہے کہ لوگ علم وفہم وعقل وسمجهہ کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ، ایسا ہی ائمہ اسلام وعلماء امت کا حال ہے لہذا اسی وجہ سے دلائل شرعیہ سے أحکام مُستنبَط کرنے اوراجتہاد کرنے میں اختلاف واقع ہوا ، اوراس کی ایک مثال بني قريظة میں عصر کی نماز کے حوالے سے صحابہ کا اختلاف جس کی تفصیل اوپر گذر چکی)لا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ ...) أخرجه البخاري ومسلم
ایک جماعت نے عصر کی نماز
راستے میں پڑهی اور دوسری جماعت نے بني قريظة میں پڑهی ، اور دونوں کا اجتهاد صحیح
ودرست ہے
4= ظني نص یعنی غير قطعي نص کا مطلب ومراد سمجهنے
میں اختلاف
یعنی کبهی کسی نص ظني (
قرآن وسنت کے کسی حکم ) کا معنی پوشیده ہوتا ہے یا تاویل کا احتمال رکهتا ہے تو یہ
بهی أئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف کا سبب ہے ، اور یاد رہے کہ الله تعالی نے أحكام
شرعية کے تمام دلائل کو قطعي نہیں بنایا بلکہ أكثرأحكام شرعية کو ظنيُ الدلالة بهی
بنایا ہے تاکہ لوگوں کے لیئے مُكلفين کے لیئےآسانی اور وسعت حاصل ہو ، اوراجتهاد
واستنباط کی صلاحیت رکهنے والے افراد کے لیئے میدان ومَجال وسیع ہو ، اور اس میں
أفهام وعُقول میں تفاوت کا احترام و رعایت بهی ہے
5= بعض مَصادرُ التشريع ودلائل كےتعین میں اختلاف
یعنی جب کسی مسئلہ میں
كتاب الله یا حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم سے کوئ نص قاطع کوئ واضح دلیل
موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں أئمہ مجتهدین کے مابین اختلاف واقع ہوا ہے ،
جیسے استحسان ، مصالح
المُرسَلة ، قولُ الصحابي ، عمل أهل المدينة ، وغیره ذالک ، ان میں سے بعض کو بعض أئمہ
مجتهدین حجت ودلیل مانتے ہیں اور بعض نہیں مانتے ، جیسا کہ کتب أصول الفقه میں
پوری تفصیل موجود ہے۔
6= مختلف نصوص ودلائل کے
مابین جمع وترجیح میں اختلاف
کبهی ایسا ہوتا ہے کہ ایک
نص ثابت ہوتا ہے اورعلماء کا اس کے ثبوت پراتفاق ہوتا ہے لیکن اختلاف واعتراض اس
وقت ہوتا ہے جب ظاہری طور پر اس نص کے مُعارض ومُخالف کوئ دوسری صحیح نص موجود ہو ، تو پهر اس صورت
میں أئمہ مجتهدین وفقہاءاسلام کے مابین جمع وترجیح کے طریقوں میں اختلاف واقع
ہوجاتا ہے ، یعنی مثلا دو صحیح دلائل آپس میں بظاہر مُتعارض ہوں توان کے درمیان
جمع وترجیح کے مختلف طریقے ہیں ، جیسے عام وخاص، ومُطلق ومُقيد، وناسخ ومَنسوخ
،امر ونهي، وغیره ذالک کی دلالت کا اختلاف ، جیسا کہ کتب أصول الفقه میں پوری
تفصیل موجود ہے .
7= قواعد ومَبادئ الأصوليه میں اختلاف
7= قواعد ومَبادئ الأصوليه میں اختلاف
یعنی وه قواعد واصول جن کو
أئمہ مجتهدین نے اپنے اجتهادات سے وضع کیا ہے جس کی بناء پرمجتهدین کی مختلف آراء
ہوتے ہیں لہذا یہ بهی اختلاف کا سبب ہے
اوریاد رہے کہ ان سب امور میں اختلاف بهی شرعی دلائل سے ثابت ہے اورجن مذکوره بالا چند اہم اسباب کا تذکره ہوا ان کے علاوه کئ اوراسباب بهی ہیں جس کا تفصیلی ذکرعلماء امت نے اپنی کتب میں کیا ہے جیسا کہ حضرت الامام شاه ولی الله دهلوی رحمه الله نے اپنی کتاب "الإنصاف في أسباب الاختلاف" میں اوراسی طرح کئ اورعلماء نے بهی مستقل بحث کی ہے ، مثلا ایک کتاب ہے " أسباب اختلاف العلماء" للشيخ على الخفيف ، رفعُ الملام عن الأئمة الأعلام ، للشیخ ابن تيمية ، أثرالحديث في اختلاف الأئمة ، للشیخ محمد عوامة ، جزيل المواهب في اختلاف المذاهب ، للشیخ السیوطی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی
اوریاد رہے کہ ان سب امور میں اختلاف بهی شرعی دلائل سے ثابت ہے اورجن مذکوره بالا چند اہم اسباب کا تذکره ہوا ان کے علاوه کئ اوراسباب بهی ہیں جس کا تفصیلی ذکرعلماء امت نے اپنی کتب میں کیا ہے جیسا کہ حضرت الامام شاه ولی الله دهلوی رحمه الله نے اپنی کتاب "الإنصاف في أسباب الاختلاف" میں اوراسی طرح کئ اورعلماء نے بهی مستقل بحث کی ہے ، مثلا ایک کتاب ہے " أسباب اختلاف العلماء" للشيخ على الخفيف ، رفعُ الملام عن الأئمة الأعلام ، للشیخ ابن تيمية ، أثرالحديث في اختلاف الأئمة ، للشیخ محمد عوامة ، جزيل المواهب في اختلاف المذاهب ، للشیخ السیوطی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی
No comments:
Post a Comment