تازہ ترین تحریریں

Sunday, 16 September 2012

شیخ الاسلام ابن تیمیه اوران کے شاگردوں کی تصوف اسلامی کے ساتهہ موافقت

شیخ الاسلام ابن تیمیه اوران کے شاگردوں کی
تصوف اسلامی کے ساتهہ موافقت


بعض لوگ جو اپنے آپ کو سلفی منهج کی طرف منسوب کرتے هیں یه لوگ تصوف کواسلام کے مقابل اورمخالف ایک الگ مذهب تصور کرتے هیں تصوف کو کفر شرک وبدعت سمجهتے هیں اور بڑے زورشور سے تمام ذرائع نشر واشاعت استعمال کرکے لوگوں کویه باورکراتے هیں که صوفیه اورتصوف کا سلسله ایک شرکیه کفریه بدعیه اور خرافات پر مبنی سلسله هے اورصوفیه کرام دین اسلام کے دشمن اور باطل عقائد رکهنے والے لوگ هیں .اوریه بعض لوگ اپنے سلفی منهج کی بنیاد شیخ الاسلام ابن تیمیه رح اوران کے شاگرد ابن قیم رح کی تعلیمات وتحقیقات پر رکهتے هیں اور لوگوں کویه کهتے هیں که ان دو حضرات کا منهج ومسلک قرآن وسنت کے عین مطابق هے لیکن درحقیقت یه لوگ اپنے اس دعوے میں جهوٹےهیں کیونکه شیخ الاسلام ابن تیمیه رح اور ابن قیم رح جن کی تقلیدواتباع کا یه لوگ دعوی کرتے هیں وه تو تصوف اور صوفیه کرام کی تعریف
وتوصیف میں رطب اللسان هیں وه تو صوفیه کو ائمه هدی ائمه حق ائمه اسلام کهتے هیں اور ان کی اتباع کو باعث سعادت ونجات سمجهتے هیں. قول وفعل کے اس تضا د کو هم کیاکهیں منافقت یا جهالت یا محض ضد وتعصب ؟ وه تمام امورجن کی وجه سے یه لوگ علماء دیوبند کو اور دیگر صوفیه کو کافرمشرک کهتے هیں وه سب باتیں بلکه اس سے کهیں زیاده ابن تیمیه رح اور ابن قیم رح کی کتابوں میں موجود هیں . مختصرطورپرچند حوالے ملاحظه فرمائیں .

تصوف کے بارے میں ابن تیمیه رح کی شهادت


سب سے پهلے صوفی کا نام ابو هاشم الکوفی کو حاصل هوا یه کوفه میں پیدا هوئے اور اپنی زیاده زندگی شام میں گزاری اور (160 هہ ) میں ان کی وفات هوئ اور سب سے پهلے تصوف کی نظریات کی تعریف وشرح ذوالنون المصری نے کی جو امام مالک کے شاگرد هیں اور سب سے پهلے جنید بغدادی نے تصوف کو جمع اور نشر کیا ۰


صوفی کی تعریف ابن تیمیه رح کے نزدیک

صوفی حقیقت میں صدیقین کی ایک قسم هے وه صدیق زهد وعبادت کے ساتهہ مشہور هو اس طریقه پر جس پر دیگر صوفیه نے عبادت وریاضت کی تو ایسے آدمی کو اهل طریق کے یهاں صدیق کها جائے گا جیسے کها جاتا هے صدیقوآلعلماء صدیقوآلاُمراء یعنی علماء میں صدیق اور امراء میں صدیق الخ. مجموع الفتاوى 11ـ 17


لفظ فقراورتصوف کی تشریح

لفظ فقر اورتصوف میں جوالله ورسول کے پسندیده امور داخل هیں ان پرعمل کا حکم دیاجائے گا ، اگرچہ ان کانام فقر وتصوف هو،کیونکہ کتاب وسنت ان اعمال کے استحباب پر دلالت کرتے هیں لهذا یہ اعمال استحباب سے خارج نهیں هوں گے نام بدلنے کی وجہ سے۰ جیساکہ فقروتصوف میں اعمال قلوب یعنی باطنی اعمال توبہ صبر شکر رضا خوف رجاء محبت اور اخلاق محمودہ یعنی اچہے اخلاق بهی داخل هیں.
مجموع الفتاوى 11ــ 28 ـ 29


اولیاء الله کی تعریف

اولیاء الله وه مومنین متقین هیں چاهے کوئ ان کو فقیر یا صوفی یا فقیه یا عالم یا تاجر یا فوجی یا کاریگر یا امیر یا حاکم وغیرہ کهے مجموع الفتاوى جلد 5

اعمال قلوب کی تشریح

وه اعمال قلوب جن کا نام بعض صوفیہ احوال ومقامات یا منازل السائرین الی اللہ یا مقامات العارفین وغیره رکہتے هیں اس میں سب وہ اعمال هیں جن کو الله ورسول نے فرض کیئے هیں بعض وہ اعمال هیں جو فرض تو نهیں لیکن پسندیده هیں لهذا ان پر ایمان مستحب اور اول پر ایمان فرض جس نے فرض اعمال پر اکتفاء کیا وه اَبراریعنی نیک لوگوں میں سے اور اصحاب الیمین میں سے هے اور جس نے دونوں کو جمع کیا وه مقرّبین سابقین میں سے هے الخ. مجموع الفتاوى جلد 7 صفحه 190

ابن تیمیہ رح اور آئمه تصوف کی تعریف وتزکیہ

سالکین میں سے صراط مستقیم پرچلنے والے جیسے جمهورمشائخ سلف میں سے فُضیل بن عیاض اور ابراہیم اَدہم اور ابوسلیمان دارانی اور معروف کرخی اورسِرّی سقطی اورجنید بن محمد وغیرہم رحمہم اللہ هیں یہ سب بزرگ پہلے زمانے کے هیں اور ان کے بعد کے زمانے کے بزرگوں میں شیخ عبدالقادر جیلانی شیخ حماد شیخ ابی البیان وغیرہم هیں . یہ سب بزرگ سالک کیلئے یہ جائز نهیں سمجہتے تہے که وه امر ونهی سے باهر نکل جائے اگرچه سالک ہوا میں اڑے یا پانی پر چلے بلکه سالک کیلئے مرتے دم تک مامورات پر عمل کرنا اور محظورات کو چہوڑنا فرض هے . اور یہی وه حق ہے جس پر قران وسنت اور اجماع سلف دلالت کرتے هیں اور اس طرح کی نصیحتیں ان بزرگوں کی کلام بہت زیادہ هیں .مجموع الفتاوى جلد 10 صفحه 516 ـ 517

ابن تیمیه رح کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی اور شیخ جنید بغدادی تصوف کے امام هیں

آئمہ تصوف میں سے اور پہلے زمانے کے مشہور مشائخ میں سے جنید بغدادی اور ان کے پیروکارهیں اور شیخ عبد القادر جیلانی اور ان جیسے دیگر بزرگ یہ بزرگ امر ونہی کو سب سے زیاده لازم پکڑنے والے تہے اور لوگوں کو بهی اس کی وصیت کرتے تهے الخ مجموع الفتاوى جلد 8 ــ 369
ابن تیمیه رح فرماتےهیں که جنید بغدادی اور ان جیسے دیگر شیوخ آئمہ هدی هیں اور جو اس بارے میں ان کی مخالفت کرے وه گمراه هے ۰
مجموع الفتاوى جلد 5 صــ 321 .
اور اپنی کتاب اَلفرقان میں بهی شیخ الاسلام نے جنید بغدادی کو ائمہ هدی میں کها الفرقان صفحه 98

اورشیخ عبد القادر جیلانی کے بارے میں کها که وه اتباع شریعت میں اپنے زمانه کے سب بڑے شیخ تهے . مجموع الفتاوى جلد 10 صــ 884

اور فرمایاکه صوفیہ میں سے جو بہی شیخ جنید بغدادی کے مسلک پر چلے گا وه هدایت ونجات وسعادت پائے گا ) مجموع الفتاوى جلد 14 ص 355 ابن تیمیہ رح کے نزدیک علماء تصوف مشائخ اسلام اور ائمہ هدایت هیں مجموع الفتاوى جلد 2 ص 452ـ

فقیر افضل هے یا صوفی ؟

شیخ الاسلام فرماتے هیں که اس بارے میں اختلاف هواهے که صوفی افضل هے یا فقیر ایک جماعت نے صوفی کو ترجیح دی جیسے ابوجعفر سهروردی وغیره نے اور ایک جماعت نے فقیر کو صوفی پر ترجیح دی اور تحقیقی بات یہ هے کہ جوان دونوں زیادہ متقی هے وه افضل ہے الخ
مجموع الفتاوى جلد 11 ص 22
شیخ الاسلام فرماتے هیں صوفیہ کرام کے الفاظ و اصطلاحات ان کے علاوہ اور کوئ نہیں جانتا - مجموع الفتاوى جلد 5 ص 79

صوفیه کے کلام کی تشریح

صوفیه کے کلام کچہه عبارات ظاهری طور پر سمجهہ میں نهیں آتی بلکہ بعض مرتبہ تو بهت غلط عبارت نظر آتی هے لیکن اس کو صحیح معنی پر حمل کیا جا سکتا هے لهذا انصاف کا تقاضہ یہ هے که ان عبا رات سے صحیح معنی مراد لیا جائے جیسے فناء، شہود،اورکشف وغیرہ
مجموع الفتاوى جلد ص 337

ابن تیمیہ رح کے نزدیک فناء کے اقسام

فناء کی تین 3 قسمیں هیں ایک قسم کاملین کی هے انبیاء اور اولیاء میں سے دوسری قسم هے قاصدین کی اولیاء وصالحین میں سے اور تیسری قسم هے منافقین وملحدین کی الخ شیخ نےاس کے بعد ان تینوں اقسام کی تعریف وتفصیل ذکر کی دیکہئے . مجموع الفتاوى جلد 10 ص 219

صوفیہ کرام کی طرف لوگوں نے باطل عقائد بہی منسوب کئے هیں

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ اهل معرفت صوفیہ میں سے کسی ایک کا بهی یہ عقیده نهیں هے کہ الله تعالی اس میں یا اس کے علاوه دیگر مخلوقات میں حلول واتحاد کر گیاهے ، اور اگر بالفرض اس طرح بات ان اکابر شیوخ کے بارے میں نقل کی جائے تو اکثر اس میں جہوٹ هوتاہے ، جس کو اتحاد وحلول کے قا ئل گمراہ لوگوں نے ان صو فیہ کرام کی طرف منسوب کیاہے ، صوفیہ کرام اس قسم کے باطل عقائد سے بری هیں .. مجموع الفتاوى جلد 11 ص 74 - 75

صوفیہ کرام عقیدہ حلول سے بری هیں

صوفیہ کرام جو امت کے نزدیک مشہور هیں وه اس امت سچے لوگ هیں وه حلول و اتحاد وغیرہ کا عقیده نهیں رکہتے بلکه لوگوں کو اس سے منع کرتے هیں اور اهل حلول کی رد میں صوفیہ کرام کا کلام موجودهے ، اور حلول کے عقیده کو ان نا فرمان یا فاسق یا کافر لوگوں نے اختیار کیا جنہوں نے صوفیہ کرام کے ساتهہ مشابہت اختیارکی اور ظاہری طور پر ولایت کے دعوے کیئے الخ مجموع الفتاوى جلد 15 ص 427

صوفیہ کرام کفر سے بری هیں

اگر ان لوگوں کی تکفیر کی جائے تو لازم آئے گا بهت سارے شافعی مالکی حنفی حنبلی اشعری اہل حدیث اهل تفسیر اور صوفیہ کی تکفیر حالانکہ باتفاق مسلمین یہ سب لوگ کافر نهیں تہے .. مجموع الفتاوى جلد 35 ص 101

شیخ الاسلام کے شاگرد رشید حافظ صوفی ابن القیم رح کا کلام تصو ف کے بارے میں

علم تصوف بندوں کے اشرف وافضل علوم میں سے ہے علم توحید کے بعد اس سے زیاده اشرف کوئ نہیں ہے اور یہ علم تصوف شریف نفوس کے ساتهہ هی مناسبت رکہتا ہے.. طريق الهجرتين ص 260-- 261

صوفیہ کے اقسام

صوفیہ کی تین 3 قسمیں هیں 1 صوفیہ اَرزاق ،2 صوفیہ رسوم ،3 اور صوفیہ حقائق ، پهلے دو2 فریق جوهیں سنت وفقہ کا علم رکهنے والے لوگ ان کی بدعات کو جانتے هیں ، اور جہاں تک تعلق صوفیہ حقائق کا تو صوفیہ حقائق وہ لوگ هیں جن کے سامنے فقهاء ومتکلمین کے سر جهکے هوئے هیں اور حقیقت میں صوفیہ حقائق هی علماء اور حکماء هیں .. شرح منازل السائرين ..

صوفیہ و فقراء کے اقسام صوفی ابن القیم رح کے نزدیک

پهر ان کی دو2 قسمیں هیں صوفیہ اور فقراء پهر اس میں اختلاف هے کہ صوفیہ کو فقراء پر ترجیح هے یافقراء کو صوفیہ پریا دونوں برابر هیں ، اس بارے میں تین 3 اقوال هیں . 1 ایک جماعت نے صوفی کو ترجیح دی اور یہ اکثر اهل عراق کا قول هے اور صاحب کتاب ، العوارف ، کابهی یہی قول هے ، اور انهوں نے کها کہ فقیر کی جهاں انتهاء هوتی هے وهاں سے صوفی کی ابتدا هوتی هے .. 2 ایک جماعت نے فقیر کو ترجیح دی ، اور فقر کو تصوف کا لُب لباب اور ثمره قرار دیا اور اکثر اهل خراسان کاقول هے ..3 اور ایک جماعت کی رائے یہ هے کہ فقر اور تصوف ایک هی چیز هے ، اور اهل شام کا قول هے .. مدارج السالكين ج 2 ص 368

عارف بالله کی تعریف

بعض سلف نے کها که عارف کی نیند بیداری هوتی هے ، اس کے سانس تسبیح هوتی هے ، اور عارف کی نیند غافل کی نماز سے افضل هے ،عارف کی نیند بیداری کیوں هوتی هے؟ اس لیئے که اس کا دل زنده اور بیدار هوتاهے اور اس کی آنکهیں سوئی هوتی هیں اور اس کی روح عرش کے نیچے اپنے رب اور خالق کے سامنے سجده ریز هوتی هے جسم اس کا فرش پر هوتاهے اور دل اس کا عرش کے ارد گرد هوتا هے..مدارج السالكين ج 3 ص 335

سبحا ن الله عا رف کی یہ حالت وتعریف زندگی میں پهلی مرتبہ صوفی ابن القیم رح کی کتا ب میں دیکهی ۰ فجزاه الله خیرالجزاء علی هذه الفوائد الرائعہ

صوفیہ کی عبارات و اصطلاحات کو جا ننا هر کس و نا کس کا کام نهیں

صوفی ابن القیم رح فرماتے هیں خوب جان لو کہ صوفیہ کرام کی زبان میں جو استعارات هوتے هیں اتنے کسی اور جماعت کی زبان میں نهیں هیں ، عام بول کر خاص مراد لینا، لفظ بول کر اس کا اشاره وکنایہ مراد لینا حقیقی معنی مراد نہ لینا وغیره، اس لیئے صو فیہ کرام فرماتے هیں کہ هم اصحاب اشاره هیں اصحاب عباره نهیں هیں ، لهذا ایک جماعت نے ان صوفیہ کرام کی ظاهری عبارات کو لیا اور ان کو بدعتی و گمراه قرار دیا ، اور ایک جماعت نے ان عبارات و اشارات کے اصل روح ومغز ومقاصد کو دیکها اور ان کو صحیح قرار دیا ۰ مدارج السالكين ج 3 ص 330

صوفیہ کرام نے مجمل ومتشابہ الفاظ بول کر صحیح معانی مراد
لیئے هیں لیکن جاهل لوگوں نے ان الفاظ کےسمجهنےمیں غلطی کی

خبردار هو کر خوب جان لو کہ صوفیہ کرام کی اصطلاح میں جو مجمل ومتشابہ الفاظ واقع هوئے هیں وه اصل آزمائش هے ، کم علم اور ضعیف معرفت والا آدمی جب وہ الفاظ سنتاهے، تو وه اس کو حلول اتحاد وشطحات سمجهہ لیتا هے ، حالانکہ صوفیہ عارفین نے اس قسم کے الفاظ بول کر فی نفسہ صحیح معانی مراد لیئے هیں، جاهل و ان پڑه لوگوں نے ان کی صحیح مطلب ومراد سمجهنے میں غلطی کی ، اور صوفیہ کرام کو ملحد و کا فر قرار دیا . مدارج السالكين ج 3 ص 151

صوفی ابن القیم رح کے نزدیک فناء کی تعریف

فناء کا لفظ جو صوفیہ کرام استعمال کرتےهیں ، اس کا مطلب یہ هے کہ بنده کی نظروں سے سب مخلوقات دور هو جائیں اور افق عدم میں غائب هو جائیں جیسا کہ پیدا هونے سے پهلے تهیں ، اور صرف حق تعالی کی ذات اس کی نظروں میں باقی رهے ،پهر تمام مشاهدات کی صورتیں بهی اس کی نظروں سے غائب هو جائیں ، پهر اس کا شهود بهی غائب هو جائے ،اور صرف حق تعالی کا مشاهده کرے . حقیقت اس کی یہ هے کہ هر وه چیز جو پهلے موجود نهیں تهی اس کی نظروں سے فناء هو جائے اور صرف حق تعالی عزوجل ولم یزل کی ذات عالی اس کی نظروں کے سامنے رهے ۰ اور خوب جان لو کہ اس فناء سے ان کی مراد یہ نهیں هے کہ الله تعالی کے سوا هر چیز کا وجود خارج میں حقیقتََا فناء هو جائے ،
بلکہ مطلب یہ هے کہ اس بنده کے حِس اورنظروں سے یہ سب چیزیں غائب هو جائیں فقط مدارج السالكين ج 1


علم لَدُنّی کی تعریف

علم لدنی عبودیت ، اتباع ،صدق مع الله ،اخلاص ،علوم نبوت حاصل کرنے میں کو شش ،اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع کا ثمره هے ، ایسے بنده کیلیئے کتاب وسنت کی فهم کا خصوصی دروازه کهول دیا جاتاهے الخ مدارج السالكين ج 2 ص 457

فراست کی تعریف

فراست ایک نور هے جس کو الله تعالی بنده کے دل میں ڈالتا هے ، جس کے ذریعه سے بنده حق و باطل ، حالی و عاطل ، صادق و کاذب کے درمیان فرق کرتا هے الخ مدارج السالكين ج 2 ص 483
ابن تیمیہ رح تبرک کو جائز کهتےهیں اور اس کو امام احمد بن حنبل رح کی طرف منسو ب کرتے هیں
فرمایاکہ امام احمد وغیره نے منبر نبوی اور رُمّانہ نبوی صلی الله علیه وسلم سے تبرک کو جائز قرار دیا ۰ اقتضاء الصراط المستقيم ابن تیمیہ رح قرآن اور آثار النبی صلی الله علیہ وسلم کے ساتهہ تبرک کو جائز کهتے هیں
اگرکوئ آدمی کسی برتن یا تختی پر کچهہ قرآن یا ذکر لکهہ دے اور اس کو پانی وغیره سے مٹاکر پی لے ، تو اس میں کوئ حرج نهیں هے ، امام احمد وغیره نے بهی اس بات کی تصریح کی هے ، اور ابن عباس رضی الله عنهما سے منقول هے که وه قرآن و ذکر کے کلمات لکهتے تهے اور بیمار لوگوں کو پلانے کا حکم کرتے تهے ، اس میں دلیل هے برکت کی ،اور وه پانی بهی بابرکت هے جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم وضو فرمایا اور حضرت جابر رض پر چهڑک دیا کیوں کہ وه بیمار تهے ،اور سب صحابہ کرام رض اس سے تبرک حاصل کرتے تهے
مجموع الفتاوى ج 12 ص 599


ابن تیمیہ رح سُبحہ یعنی دانوں والی تسبیح استعمال کرنے کو جائز اور صحابہ رض کا عمل بتلاتے هیں
انگلیوں کے ساتهہ تسبیح شمار کرنا سنت هے ،اور کهجوروغیره کی گٹهلیوں اورکنکریوں وغیره کے ساتهہ بهی تسبیح پڑهنا جائزهے ،بعض صحابہ رض بهی اس طرح کرتے تهے ،اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُم المومنین کو کنکریوں کے ساتهہ تسبیح پڑهتے دیکها تو آپ نے اس کی تائید کی منع نهیں کیا ،اور حضرت ابو هریره رض کے بارے میں روایت هے کہ وه بهی اس کے ساتهہ تسبیح پڑهتے تهے ،اور وه تسبیح جو دهاگے میں دانے وغیره ڈال کر بنائ جاتی هے ، بعض نے اس کو مکروه کها هے اوربعض نے مکروه نهیں کها ،شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ اگر نیت اچهی هو تویہ تسبیح یعنی دهاگے میں دانے وغیره ڈال کر جو بنائ جاتی هے یہ جائزهے مکروه نهیں هے .. مجموع الفتاوى ج 22 ص 6
ابن تیمیہ رح نماز میں بهی سُبحہ یعنی تسبیح استعمال کرنے کو جائز کهتے هیں

سوال ۰ ایک آدمی نمازمیں قرآن پڑهتاهے اور تسبیح کے ساتهہ شمار کرتا هے کیا اس کی نماز باطل هو گی یا نهیں ؟
جواب ۰ اگر سوال سے مراد یہ هے که وه آیات شمار کرتاهے یا ایک هی سورت مثال کے طور قل هوالله احد کا تکرارشمار کرتاهے تسبیح کے ساتهہ تو یہ جائز هے اس میں کوئ حرج نهیں هے ، اور اگر سوال سے کچهہ اور چیز مراد هو تو اس کو بیان کردیں ۰ والله اعلم
مجموع الفتاوى ج 22 ص 625

میت کے لیئے ایصا ل ثواب جا ئز هے

سوال۰ اگر میت کو تسبیح تحمید تهلیل تکبیر کا ثواب هدیہ کر دیاجائے تواس کو ثواب پہنچتا هے یا نهیں ؟
جواب ۰ میت کو اگر اس کے اهل وعیال وغیره تسبیح تکبیر اور تمام اذکا ر کا ثواب هدیہ کردیں تو وه اس کو پہنچ جاتاهے والله اعلم ۰ مجموع الفتاوى ج 24 ص 324-321
میت کیلئے کلمہ طیبہ 70 هزار مرتبہ پڑهنا جائز هے

سوال۰ کیامیت کیلئے کلمہ طیبہ 70 هزار مرتبہ پڑهہ کر اس کو بخش دیا جائے تو اس کو جہنم سے براءت حاصل هو جائے گی یہ حدیث صحیح هے یا نهیں ؟
اور اگر اس کا ثواب میت کو بخش دے تو اس کو پہنچتا هے یا نهیں ؟


جواب ۰ اگر اس طرح 70 هزار دفعہ یا کم یا زیاده پڑهہ کر میت کو بخش دیا جئے تو اس کو ثواب پہنچتا هے اور الله تعالی میت کو اس سے نفع دیتے هیں ، باقی یہ حدیث نہ صحیح هے نہ ضعیف یعنی حدیث نهیں هے والله اعلم ۰ مجموع الفتاوى ج 24 ص 324

هر قسم کے نیک اعما ل کا ثواب میت کو پہنچتا هے

قرآن مجید کی تلاوت اور صدقہ وغیرها نیک اعمال کا جهاں تک تعلق هے تو علماء اهل سنت کا اس میں کوئ اختلاف نهیں کہ عبادات مالِیّہ جیسے صدقہ ، عتق وغیره کا ثواب اس کو پہنچتا هے ، جیسا کہ دعا اور استغفار اور نماز جنازه اور اس کے قبر کے پاس دعا کا ثواب بهی اس کو پہنچتاهے . هاں عبادات بدنِیّہ روزه نماز قراءت کی ثواب میں اختلاف هواهے ، لیکن صواب اور صحیح با ت یہ هے کہ تمام نیک اعما ل کا ثواب میت کو پہنچتا هے ، اور هر مسلمان کی طرف سے چاهے وه میت کا رشتہ دار هو یا غیر هو میت کو جو کچهہ بخشا جا تا هے میت کو اس سے نفع هو تا هے ، جیسا کہ اس پر نماز جنازه پڑهنے اور اس کے قبر کے پا س دعا کرنے سے اس کو نفع هوتا هے ۰۰
مجموع الفتاوى ج 24 ص 367-366

ابن تیمیہ رح اور با طنی علم

علم باطن قلوب کے ایمان و معارف واحوال کا علم هے اوروه علم هے با طنی ایمان کے حقائق کا اور یہ باطنی علم اسلام کے ظا هری اعمال سے افضل واشرف هے . ألفرقان ص 82

اور صوفیہ میں بعض حضرت علی رض کو علم با طنی میں فضیلت دیتے هیں جیسا شیخ حربی اوردیگر کا طریقہ هے اور یہ لوگ دعوی کرتے هیں کہ حضرت باطنی علوم کے سب سے بڑے عا لم هیں اور حضرت ابو بکر رض ظاهری علوم کے سب سے بڑے عالم هیں ، اِن لوگوں کی رائے محققین و ائمہ صوفیہ سے مختلف هے ، کیونکہ محققین صوفیہ کا اتفاق هے کہ باطنی علوم کے سب بڑے عالم ابوبکر صدیق رض هیں ، اور اهل سنت والجماعت کا اتفاق هے کہ ابوبکر صدیق رض امت میں ظاهری وباطنی علوم کے سب سے بڑ ے عالم هیں اور اس کے اوپر ایک سے زائد علماء نے اجماع نقل کیا هے ..
مجموع الفتاوى ج 13 ص 237

اولیاء کے کرامات و مکاشفات

فرماتے هیں کہ اهل سنت والجماعت کے اصول میں سے هے اولیاء الله کی کراما ت کی تصدیق کرنا اور جو کچهہ ان کے هاتهو ں پر خوارق عادات صادر هوتے هیں مختلف علوم ومکا شفات میں اور مختلف قدرت و تا ثیرات میں ان کی تصدیق کرنا الخ مجموع الفتاوى ج 3 ص 156
اولیاء کی ایک کرامت مردوں کو زنده کرنا هے

شیخ الاسلام فرماتے هیں کہ کبهی مردوں کو زنده کرنا انبیاء کے متبعین یعنی اولیاء کے هاتهہ پر بهی هوتا هے ، جیسا کہ اِس امت کی ایک جماعت کی هاتهوں پر یہ کرامت صادر هوئ الخ كتا ب النبوات ص 298 اسی کتاب میں فرماتے هیں کہ مردوں کو زنده کرنا تو اس میں بهت سارے انبیاء وصلحاء شریک هیں كتا ب النبوات ص 218

ایک آدمی کا گدها راستے میں مر گیا اُس کے ساتهیوں نے اُس کو کها کہ آ جاوء هم اپنی سواریوں پر تیرا سامان رکهتے هیں اُس آدمی نے اپنے ساتهیوں کو کہا تهوری دیر کیلئے مجهے مهلت دو، پهر اُس آدمی نے اچهے طریقہ سے وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑهی ، اور الله تعالی سے دعا کی تو الله نے اس کے گدهے کو زنده کر دیا پس اس آدمی نے اپنا سامان اس پر رکهہ دیا ۰ مجموع الفتاوى ج 11 ص 281

شیخ الاسلام اور سماع موتی

سوال۰ کیا میت قبر میں کلام کرتاهے؟
جواب ۰ جی هاں میت قبر میں کلام کرتاهے ، اور جو اس سے با ت کرے تو سنتا بهی هے جیسا که صحیح حدیث میں هے، انهم یسمعون قرع نعالهم ، اور صحیح حدیث میں هے کہ میت سے قبر میں سوال کیا جاتا هے اور اس سے کها جاتا هے مَن ربُّک ؟ وما دینُک ؟ ومَن نبیُّکَ ؟ الخ
مجموع الفتاوى ج 4 ص 273

کبهی میت کهڑا هوتا هے ، اور چلتا هے ، اور کلام بهی کرتا هے ،اور چیخ بهی مارتا هے ، اور کبهی مرده قبر سے با هر بهی دیکها جا تا هے الخ مجموع الفتاوى ج 5 ص 526

شیخ الاسلام کے شا گرد ابن مُفلِح فرماتے هیں کہ همارے شیخ یعنی ابن تیمیہ نے فرمایا کہ اس با رے میں بهت ساری احادیث آئ هیں کہ میت کے جو اهل وعیال و اصحاب دنیا میں هوتے هیں اُن کے احوال میت پر پیش هوتے هیں اور میت اس کو جانتا هے ،اور اس بارے میں بهی آثار آئ هیں کہ میت دیکهتا هے ، اور جو کچهہ میت کے پاس هوتا هے اس کو وه جانتا هے ، اگر اچها کام هو تو اس پر میت خوش هوتا هے اور اگر برا کا م هو تو میت کو اذیت هو تی هے ۰ كتا ب الفروع ج 2 ص 502
موت کے بعد خواب میں شیخ الاسلام کا مشکل مسائل حل کر نا

ابن القیم رح فرماتے هیں کہ مجهے ایک سے زیاده لوگوں نے بیان کیا جو کہ شیخ الاسلام کی طرف مائل بهی نهیں تهے ، انهوں نے شیخ الاسلام کو موت کے بعد خواب میں دیکها اور فرائض وغیره کے مشکل مسائل کے بارے میں سوال کیا تو شیخ الاسلام نے ان کو درست و صحیح جواب دیا ، اور یہ ایسا معاملہ هے کہ اِس کا انکار وُهی آدمی کرے گا جو کہ اَرواح کے احکام واعمال سے لوگوں سب سے بڑا جاهل هو ۰ كتا ب الروح ص 69

تنبیه

کتاب الروح ، ابن القیم رح کی کتا ب هے اس کتا ب میں ارواح واموات کے جو حالات وواقعات بیان هوئے هیں کسی اور کتاب میں اتنی تفصیل آپ کو نهیں ملے گی ، اور اس کتاب وه سب کچهہ هے جس کی وجہ سے نام نهاد اهل حدیث اور سلفی دیگر علماءکو مشرک وبدعتی کهتے هیں ، اسی لیئے تو حید وسنت کے ان نام نهاد علمبرداروں نے جب اس کتاب کو دیکها تو اس کا انکار کر دیا اور کها کہ یہ سلفیہ کے امام ابن القیم رح کی کتاب نهیں هے بلکہ اُن کی طرف منسوب کی گئ هے ، حقائق کا انکارکرکے جاهل آدمی کو تو منوایا جا سکتا هے لیکن اهل علم کے نزدیک اس کی کوئ حیثیت نهیں هے ، یہ کتاب درحقیقت ابن القیم رح هی کی هے ،
1 = جتنے بهی کبار علماء مثلا حافظ ابن حجر وغیره نے ابن القیم کا ترجمہ وسیرت ذکرکی هے سب نے ان کی تا لیفات میں ،کتاب الروح، کابهی ذکرکیاهے اور کسی نے بهی اس اعتراض نهیں کیا ،
2 = اورسب سے بڑهہ کر یہ کہ خود ابن القیم رح نے اپنی دیگر کتابوں میں ، کتاب الروح ، کا حوالہ دیا هے مثلا اپنی کتا ب ، جلاء الاَفهام ، باب نمبر چهہ ۶ میں حضرت ابوهریره رض کی حدیث ، اذا خَرجت روحُ المومن الخ پر کلام کرتے هوئے ابن القیم رح نے کها کہ میں نے اِس حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث پر تفصیلی کلام اپنی ، کتاب الروح، میں کیاهے ،اب اس کا کیا جواب هو گا ؟


3 = حافظ ابن حجر رح کے شاگرد علامہ بقاعی نے بهی یہ شهادت دی کہ یہ ابن القیم کی کتاب هے اور انهوں نے اس کا خلاصہ بهی " سرُالروح" کے نام سے لکها۰
4 = ابن القیم رح کتاب الروح میں جا بجا اپنے شیخ ابن تیمیہ رح اقوال وتحقیقات بهی ذکر کرتے هیں جیسا کہ اپنی دیگر کتابوں میں ان کی یهی عادت مالوفہ هے٠

No comments:

Post a Comment