تازہ ترین تحریریں

Sunday 16 September 2012

غیرمقلدین پر امام حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کا رد

جہاں تک آج کل کے غیرمقلدین کا تعلق ہے توحقیقت میں تو ان میں کوئی بهی غیرمقلد نہیں ہے بلکہ سب مقلد ہیں آج کل کے چند جہلاء کی تقلید کرتے ہیں جن کو شیخ کا لقب دیا ہوا ہے جوبهی مذہب حنفی یا امام اعظم یا کسی اورحنفی عالم کے خلاف کچھ واہیات بولتا ہے یا لکهتا ہے تو وه ان کے نزدیک شیخ بن جاتا ہے، فوا اسفاه
یقینا جوحضرات حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله سے اوران کی سیرت سے واقف ہیں ان کو اس مذکوره بالا عنوان سے تهوڑا تعجب ہوگا کیونکہ حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله ساتویں صدی ہجری کے آدمی ہیں اور غیرمقلدین کا فرقہ تو ہندوستان میں انگریزی دور میں معرض وجود میں آیا ؟؟
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے ایک مستقل انتہائی لطیف ومفید رسالہ لکھ کرغیرمقلدین پر رد کیا ہے،  اس رسالہ کا نام ہے؛
الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ
یعنی ان لوگوں پر رد جو مذاہب اربعہ (حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ) کے علاوه کسی اورکی اتباع کرتے ہیں۔
یقینا یہ بات صحیح ہے کہ حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کی رد خاص طور پر موجوده فرقہ غیرمقلدین کے لئے تو نہیں ہے کیونکہ یہ فرقہ ان کے زمانے کے بہت بعد پیدا ہوا ہے لیکن عمومی طور یہ فرقہ غیرمُقلدین بهی اس رد میں شامل ہے کیونکہ اس فرقہ کے ہَمنوا بهی مذاہب اربعہ اورخصوصا مذہب حنفی کو مخالف قرآن وسنت گردانتے رہتے ہیں ، اور لوگوں کو مختلف وساوس واوہام کے ذریعہ سے مذاہب اربعہ اورخصوصا مذهب حنفی سے متنفرکرتے ہیں اوران کی اتباع وتقلید سے منع کرتے ہیں اوراس کوشرک وبدعت وغیره کے القابات سے یاد کرتے ہیں ، لہذا حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کی رد میں فرقہ غیرمُقلدین بطریق اولی داخل وشامل ہے ، اوردوسری اہم بات یہ ہے کہ حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ آج سے سینکڑوں سال قبل یعنی ساتویں صدی ہجری میں مستقل رسالہ لکھ کرامت مسلمہ کو خبردار کر رہے کہ یاد رکهو اب دین کے معاملہ میں راہنمائی مذاهب اربعہ ( حنفی ، شافعی ، مالکی حنبلی ) سے حاصل کی جائے گی ان کے علاوه کسی اور کی طرف رجوع صحیح نہیں ہے الا یہ کہ کوئی شخص درجہ ومرتبہ میں ائمہ اربعہ کے ہم پلہ ہوجائے توپهراس کے لیئے مذاہب اربعہ سے خروج جائز ہے ، اور یقینا اجتہاد واستنباط کی یہ صلاحیت ایک طویل زمانہ سے مفقود ہے لہذا مذاہب اربعہ کی طرف رجوع کے بغیر کوئ چاره نہیں ہے ، یاد رہے کہحافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله مذهب حنبلی کے کبار ومستند ومُتبحر علماء میں سے ہیں اورشیخ الاسلام ابن تيمية اورابن القیم رحمهما الله کے خصوصی شاگردوں میں سے ہیں ، اورعلماء اسلام نے ان کو الشيخ العلامة الإمام الحافظ الحجة المحدث الفقيه الواعظ وغیره کے عظیم القابات سے یاد کیا ہے ، مثلا چند علماء کی عبارات درج ذیل ہیں
1= وقال الشهاب ابن حجّي أتقن في الحديث وصار أعرف أهل عصره بالعلل وتتبع الطرق تخرّج به غالب اصحابنا الحنابلہ
2= وقال ابن مفلح الشيخ العلامة الحافظ الزاهد شيخ الحنابلہ
3 = ونعته ابن حجر بالمحدث الحافظ وقال: مهر في فنون الحديث أسماء ورجالاً وعللاً وطرقاً واطلاعاً على معانية، وكان صاحب عبادة وتہجد
4 = قال أبو المحاسن الدمشقي الإمام الحافظ الحجة والفقيه العمدة أحد العلماء الزهاد والأئمة العباد مفيد المحدثين واعظ المسلمين
5 = قال ابن العماد الحنبلي الإمام العالم العلامة الزاهد القدوة البركة الحافظ العمدة الثقة الحجة الحنبلي
6 = قال الحافظ ابن حجر في انباء الغمر بأبناء العمر رافق شيخنا زين الدين العراقي في السماع كثيراً ومهر في فنون الحديث أسماء ورجالاً وعللاً وطرقاً واطلاعاً لى معانيه
7 = قال الحافظ السيوطي هوالإمام الحافظ المحدث الفقيه الواعظ
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کی مدح وتعریف میں یہ چند عبارات میں نے اس لیئے نقل کی ہیں تاکہ کوئ جاہل شخص یہ نہ کہے ابن رجب الحنبلی توایک عام آدمی تهے ان کے تبصره وتحریر ورائی کا کوئی اعتبارنہیں ہے، جیسا کہ اوپرمذکورہوا کہ حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے یہ رسالہ
الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ
 ان لوگوں کی رد وتردید میں لکها ہے جو فروعی واجتہادی مسائل میں مذاہب اربعہ (حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ) کے علاوه کسی اور کی اتباع کرتے ہیں ، اورپهر جولوگ صرف یہی نہیں کہ مذاہب اربعہ کی اتباع نہیں کرتے بلکہ ساتھ ہی دن رات ان پرلعن طعن بهی کرتے ہیں توایسے لوگ کتنے خطرے ونقصان میں ہیں وه بالکل واضح ہے ، میری بات طویل ہوگئی میں اصل میں کچھ اقتباسات حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کے اس رسالہ سے نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں۔ یاد رہے کہ اس رسالہ شریفہ میں ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے دواہم فیصلے سنائے ہیں:
1 = فروعی مسائل میں صرف اورصرف مذاہب الاربعہ کی اتباع 
2 = غیرمذاہب الاربعہ کی اتباع نہ کرنا
لہذا کسی کے لیئے یہ جائزنہیں ہے کہ فروعی مسائل میں مذاہب الاربعہ کے علاوه کسی اورکو اختیار کرے الایہ کہ کوئ بہت بڑا عالم مُتبحر ہو اجتہاد کے منصب پرفائز ہو اور ائمہ اربعہ کے رتبے اوردرجے تک پہنچ گیا ہو مگر یہ صورت ایک طویل زمانہ سے نادر بلکہ معدوم ہے ، لہذا ائمہ اربعہ کے علاوه کسی کی تقلید جائزنہیں ہے ، ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے اپنے اس فیصلے پرکئی دلائل پیش کئے ہیں ، مثلا صحابہ کرام رضی الله عنہم کا لوگوں کو صرف مصحف عثمانی کی قراءت پرجمع کرنا ، جب انهوں نے دیکها کہ اب مصلحت ومنفعت اسی میں ہے ، کیونکہ لوگوں کو اگرآزاد چهوڑدیا جائے تومختلف مفاسد ومہالک وخطرات میں مبتلا ہوجائیں گے ، لہذا احكام کے مسائل اورحلال وحرام کے فتاوى کا بهی یہی حال ہے ، پهراس دعوی پر ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے کئ دلائل ذکرکئے مثلا:
1 = اگرلوگوں کو معدود ومشہورائمہ یعنی ائمہ اربعہ کے اقوال پرجمع نہ کیا جائے تو دین میں فساد واقع ہوجائے گا
2 = ہرأحمق بے وقوف وجاہل اپنے آپ کو مُجتهدین کے زمره میں شمارکرے گا
3 = کبهی کوئ جهوٹا قول کوئ بات مُتقدمین سلف کی طرف منسوب کیا جائے گا
4 = اورکبهی کوئ تحريف کرکے ان کی طرف منسوب کیا جائے گا ، اورکبهی یہ قول بعض سلف کی خطاء ولغزش ہوگی جس کے ترک کرنے اورچهوڑنے پر مسلمانوں کی ایک جماعت کا اجتماع ہوگا۔
5 = لہذا مصلحت کا تقاضا وہی ہے جو الله تعالی کی قضاء وقدر میں مقررہوچکا ہے یعنی لوگوں کو مشهورائمہ ( یعنی ائمہ اربعہ ) رضی الله عنہم اجمعين کے مذاہب پرجمع کیا جائے۔
ابن رجب الحنبلی رحمہ الله ایک اعتراض نقل کرتے ہیں وه یہ کہ ممکن ہے کہ حق ائمہ اربعہ کے أقوال سے خارج ہو ؟؟
ابن رجب الحنبلی رحمہ الله نے اس شبہ کے واقع ہونے کا انکارکیا ہے کہ حق ائمہ اربعہ کے اقوال سے خارج ہوکیونکہ لأن الأمة لا تجتمع على ضلالة ، امت مسلمہ کبهی گمراہی پرجمع نہیں ہوسکتی الخ
سوال : صرف ائمہ اربعہ کی اتباع کیوں لازمی اورضروری ہے ؟؟
جواب = حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالی كى حكمت ہے كہ اس كے دين كى حفاظت و ضبط اس طرح ہوئى كہ لوگوں كے ليے آئمہ كرام كھڑے كيے جن كاعلم و فضل اور درايت احكام وفتوى ميں انتہائى درجہ كو پہنچا ہوا ہے وہ آئمہ اہل رائے ميں بھى ہوئے اور اہل حديث یعنی محدثین ميں بھى، اس طرح سب لوگ ان كے فتاوى پر چلنے لگے اور احكام معلوم كرنے كے ليے ان آئمہ كرام كى طرف رجوع كرتے ہيں اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے ايسے افراد پيدا كيے جنہوں نے ان كے مذاہب كواحاطہ تحريرميں لايا اور ان كے قواعد لكھے حتى كہ ہر ايک امام كا مسلک اور اس كے اصول و قواعد اور فصول مقرر كرديےكہ احكام معلوم ہوں اورحلال وحرام كے مسائل معلوم وضبط كيے جاسكيں يہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں پر مہربانى و رحمت تھى اور اس دين كى حفاظت ميں ايک اچھا احسان تھا، اگر يہ نہ ہوتا تو لوگ ہراحمق كى جانب سےعجيب وغريب اشياء ديكھتے جو بڑى جرات كے ساتھہ اپنى احمقانہ رائے لوگوں كے سامنے بيان كرتا پھرتا، اور اس رائے پرفخربھى كرتا، اور امت كے امام ہونے كا دعوى كر ديتا، اور يہ باور كراتا كہ وہ اس امت كا راہنما ہے، اور لوگوں كى اسى كى طرف رجوع كرنا چاہيے، كسى اور كى جانب نہيں ليكن اللہ كا فضل اور اس كا احسان ہے كہ اس نے اس خطرناک دروازے كو بند كر ديا، اور ان عظيم خرابيوں كو جڑ سے كاٹ پھينكا، اور يہ بھى اللہ كى اپنے بندوں پر مہربانى ہے لیكن اس كے باوجود ايسے افراد اب تک ظاہر ہوتے اور سامنے آتے رہتے ہيں جو اجتھاد كے درجہ تک پہنچنے كا دعوى كرتے، اور ان آئمہ اربعہ كى تقليد كيے بغير علم ميں باتيں كرتے ہيں، اور باقى سارے لوگ جو اس درجہ تک نہيں پہنچے انہيں ان چاروں كى تقليد كيے بغير كوئى چارہ نہيں، بلكہ جہاں سارى امت داخل ہوئى ہے انہيں بھى داخل ہونا ہوگا. انتہىٰ۔
الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ: فاقتضت حكمة الله سبحانه أن ضبط الدين وحفظه بأن نصب للناس أئمة مجتمعاً على علمهم ودرايتهم وبلوغهم الغاية المقصودة في مرتبة العلم بالأحكام والفتوى من أهل الرأي والحديث فصار الناس كلهم يعولون في الفتاوى عليهم ويرجعون في معرفة الأحكام إليهم وأقام الله من يضبط مذاهبهم ويحڑ قواعدهم ، حتى ضبط مذهب كل إمام منهم وأصوله وقواعده وفصوله حتى ترد إلى ذلك الأحكام ويضبط الكلام في مسائل الحلال والحرام وكان ذلك من لطف الله بعباده المؤمنين ومن جملة عوائده الحسنة في حفظ هذا الدين ولولا ذلك لرأى الناس العجاب مِن كل أحمق متكلف معجبٍ برأيه جريءعلى الناس وثَّاب فيدعي هذا أنه إمام الأئمة ويدعي هذا أنه هادي الأمة وأنه هوالذي ينبغي الرجوع دون الناس إليه والتعويل دون الخلق عليه ولكن بحمد الله ومنته انسد هذا الباب الذي خطره عظيم وأمره جسيم وانحسرت هذه المفاسد العظيمة وكان ذلك من لطف الله تعالى لعباده وجميل عوائده وعواطفه الحميمة ومع هذا فلم يزل يظهر من يدعي بلوغ درجة الاجتهاد ويتكلم في العلم من غير تقليدٍ لأحد من هؤلاء الأئمة ولا انقياد فمنهم من يسوغ له ذلك لظهور صدقه فيما ادعاه ومنهم من رد عليه قوله وكذب في دعواه وأما سائر الناس ممن لم يصل إلى هذه الدرجة فلا يسعه إلا تقليد أولئك الأئمة والدخول فيما دخل فيه سائر الأمة " انتهى۔
سبحان الله حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کی اس تبصرے کا ایک ایک لفظ مبنی برحقیقت اورکهلا اور واضح پیغام حق ہے اور مذاهب ائمہ اربعہ سے بغاوت کی صورت میں جن خدشات وخطرات کے واقع ہونے کی طرف ابن رجب رحمه الله نے اشاره کیا ہے آج کے دور میں ہم اس کا مشاهده کر رہے ہیں۔
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله ایک اورسوال نقل کرتے ہیں اورخود ہی اس کا جواب دیتے ہیں۔
سوال: اگر يہ كہا جائے کہ امام احمد رحمه الله وغيرہ نے جو اپنى كتاب اور كلام ميں تقليد كرنے سے منع كيا ہے اس كے متعلق آپ كيا كہتے ہيں ؟؟ اور پھر امام احمد رحمہ اللہ كا قول ہے ميرا اور فلان اور فلان كا كلام مت لكھو، بلكہ جس طرح ہم نے سيكھا ہے اور تعليم حاصل كى ہے اس طرح تم بھى تعليم حاصل كرو آئمہ كى كلام ميں يہ بہت موجود ہے ؟؟
جواب: اس كے جواب ميں كہا جائيگا كہ بلاشک و شبہ امام احمد رحمہ اللہ فقہاء كى آراء لكھنے اور حفظ كرنے ميں مشغول ہونے سے منع كيا كرتے تھے بلكہ كہتے كہ كتاب و سنت كى فہم اور تعليم و تدريس اور حفظ ميں مشغول ہوا جائے اور صحابہ كرام اور تابعين عظام كے آثار لكھا كريں ان كے بعد والوں كى نہيں اور اس ميں سے صحيح اور ضعيف شاذ و مطروح قول كو معلوم كريں بلاشک اس يہ سے تعين ہو جاتا ہے كہ كتاب و سنت كى تعليم كا اہتمام كرنا كسى دوسرے كام ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے بلكہ پہلے اس كى تعليم حاصل كى جائے.لہذا جو يہ جان لے اور اس كى معرفت كى انتہاء تک پہنچ جائے جيسا كہ امام احمد رحمه الله نے اشارہ كيا ہے تو اس كا علم تقريبا امام احمد رحمه الله كے قريب ہو گيا تو اس پر كوئى روک ٹوک نہيں ہے اور نہ ہى اس كے متعلق كلام كى جا رہى ہے، بلكہ كلام تو اس شخص كے متعلق ہے جو اس درجہ تک نہيں پہنچا اور نہ ہى وہ اس كى انتہاء كو پہنچا ہے اور نہ اس نے كوئ سمجھا ہے ہاں تهوڑا ساعلم ضرور ہے جيسا كہ اس دور كے لوگوں كى حالت ہے بلكہ كئى زمانوں سے اكثر لوگوں كا يہى حال ہے وہ انتہاء درجہ تک پہنچنے اورغايت كو پانے كا دعوى كرتے ہيں حالانكہ وہ تو ابتدائى درجات تک بھى نہيں پہنچ سكے۔
فإن قيل : فما تقولون في نهي الإمام أحمد وغيره من الأئمة عن تقليدهم وكتابة كلامهم ، وقول الإمام أحمد : لا تكتب كلامي ولا كلام فلان وفلان ، وتعلم كما تعلمنا . وهذا كثير موجود في كلامهم ؟
قيل : لا ريب أن الإمام أحمد رضي الله عنه كان ينهى عن آراء الفقهاء والاشتغال بها حفظاً وكتابة ويأمر بالاشتغال بالكتاب والسنة حفظاً وفهماً وكتابة ودراسة وبكتابة آثار الصحابة والتابعين دون كلام مَن بعدهم ومعرفة صحة ذلك من سقمه والمأخوذ منه والقول الشاذ المطرح منه ولا ريب أن هذا مما يتعين الاهتمام به والاشتغال بتعلمه أولاً قبل غيره فمن عرف ذلك وبلغ النهاية من معرفته كما أشار إليه الإمام أحمد فقد صارعلمه قريباً من علم أحمد فهذا لا حجرعليه ولا يتوجه الكلام فيه إنما الكلام في منع من لم يبلغ هذه الغاية ولا ارتقى إلى هذه النهاية ولا فهم من هذا إلا النزر اليسير كما هو حال أهل هذا الزمان بل هو حال أكثر الناس منذ أزمان مع دعوى كثير منهم الوصول إلى الغايات والانتهاء إلى النهايات وأكثرهم لم يرتقوا عن درجة البدايات " انتهى۔ الرد على من اتبع غير المذاہب الاربعۃ۔
الله تعالی کی بے شمار رحمتیں نازل ہوں تمام ائمہ وعلماء اہل سنت پر کہ ہر مسئلہ میں ہر پہلو اور ہرمیدان میں ہماری راہنمائی فرمائی اورتمام فتنوں سے ہمیں پہلے ہی آگاه وخبرادار کیا ، حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ الله کا مبنی برصدق وحق کلام وتبصره آپ نے پڑھ لیا ،  یقینا اس کلام میں ہم سب کے لئے اورخصوصا ان نادان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ونصیحت ہے جنہوں نے دین کے معاملہ ائمہ حق وہدی ائمہ اربعہ کی اتباع چهوڑ کر آج کل کے چند جاہل لوگوں کی اورنفس وشیطان کی اتباع کا طوق اپنے گلے میں ڈال دیا ہے۔
هدانا الله وایاهم الی السواء السبیل

3 comments: