وسوسه = علماء دیوبند وحدتُ الوجود کا عقیده رکهتے هیں جوکہ ایک کفریہ شرکیہ عقیده هے ۰


جواب = یہ وسوسہ فرقہ جدید اهل حدیث میں شامل چند جہلاء نے پهیلایا هوا هے اور اپنی طرف سے عوام کواس مطلب بتلاتے هیں پهران سے کہتے هیں یہ علماء دیوبند کا عقیده هے ، اس باب میں ایک مختصر مگرجامع مضمون اس سے قبل میں لکهہ چکا هوں ، لہذا اسی کا اعاده کرتا هوں ،
1 = علماء حق علماء دیوبند پر ایک بہتان چند جہلاء ونام نہاد اهل حدیث کی طرف سے یہ بهی لگایا جاتا هے کہ یہ لوگ الله تعالی کے لیئے حُلول واتحاد کا عقیده رکهتے هیں جس کو " وحدتُ الوجود " کہا جاتا هے اور اس کا مطلب ومفہوم یہ لوگ اس طرح بیان کرتے هیں کہ (معاذالله ) الله تعالی تمام کائنات کے اجزا مثلا حیوانات جمادات نباتات وغیره هر چیز میں حلول کیا هوا هے یعنی مخلوق بعینہ خالق بن گیا اور جتنی بهی مشاهدات ومحسوسات هیں وه بعینہ الله تعالی کی ذات هے ۰

(معاذالله ثم معاذالله وتعالی الله عن ذالک علوا کبیرا )
بلا شک " وحدتُ الوجود " کا یہ معنی ومفہوم صریح کفر وضلال هے جس کا ایک ادنی مسلمان تصور بهی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ علماء حق علماء دیوبند کا یہ عقیده هو ۰
( سبحانک هذا بهتان عظیم )
ناحق بهتان والزام لگانے والے جهال ومتعصبین کا منہ کوئ بند نہیں کرسکتا اور نہ کوئ مقرب جماعت علماء اس سے محفوظ ره سکتی هے اور هرزمانے میں کمینے اور جاهل لوگوں نے علماء ربانیین کی مخالفت وعداوت کی هے ،لهذا جولوگ اپنی طرف سے " وحدتُ الوجود " کا یہ معنی کرکے اس کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے هیں اور عوام الناس کو گمراه کرتے هیں یقینا ایسے لوگ الله تعالی کے پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے علماء دیوبند اور دیگر صوفیہ کرام " وحدتُ الوجود " کے اس کفریہ معنی ومفہوم سے بری هیں ۰
واضح رهے کہ کچهہ بدبخت لوگ اس بیان وتصریح کے بعد بهی یہ بهتان لگاتے رهیں گے کیونکہ ان کا مقصد حق بات کو قبول کرنا اور اس پرعمل کرنا نہیں هے بلکہ ان کا مقصد وحید توابلیس کی پیروی کرتے هوئے علماء حق علماء دیوبند کی مخالفت وعداوت هی هے چاهے علماء دیوبند هزار باریہ کہیں کہ همارا یہ عقیده نہیں هے هماری نصیحت تو ایسے عام ناواقف لوگوں کے لیئے هے جوایسے جهوٹے اورجاهل لوگوں کی سنی سنائ باتوں کی اندهی تقلید کرکے اپنی عاقبت خراب کر رهے هیں ۰
اور اس بارے میں امام شعرانی شافعی رح کے یہ نصیحت آمیز کلمات ذهن میں رکهیں
قسم اٹهاکرفرماتے هیں کہ جب بتوں کے پجاریوں کو یہ جراءت نہیں هوئ کہ اپنے معبودان باطلہ کو عین الله تعالی کی ذات تصور کریں بلکہ انهوں نے بهی یہ کہا جیسا کہ قرآن میں هے
ماَ نعبُدُهُم الا لِیُقَرّبوُنا الی الله یعنی هم ان بتوں کی عبادت اس لیئے کرتے هیں تاکہ یہ همیں الله کے قریب کردیں تو اولیاء الله کے متعلق یہ بهتان لگانا کہ وه ، حلول واتحاد ، کا عقیده رکهتے تهے سراسر بهتان اور جهوٹ هے اور ان کے حق میں ایک محال وناممکن دعوی هے جس کو جاهل واحمق هی قبول کریگا ۰

2 = جن صوفیہ کرام اور بزرگان دین کے کلام میں " وحدتُ الوجود " کا کلمہ موجود هے اور ایسے لوگوں کی فضل وعلم تقوی و ورع کی شهادت کے ساتهہ ان کی پوری زندگی اتباع شرع میں گذری هے تو اس حالت میں ان کے اس کلام کی اچهی تاویل کی جائے گی جیسا کہ علماء محققین کا طریقہ
هے اس قسم کے امور میں اور وه تاویل اس طرح کہ ایسے حضرات کی مراد " وحدتُ الوجود " سے وه نہیں هے جو ملحد و زندیق لوگوں نے مراد لیا هے اور حقیقت بهی یہی هے ۰
اس کلمہ اور اس طرح کے دیگر کلمات جو صوفیہ کرام کی کتب میں وارد هوئے هیں جو بظا هر خلاف شرع معلوم هوتے هیں ان کی مثال اس اعرابی کی طرح هے جس کی دفاع خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے کی هے ( صحیح بخاری ومسلم ) کی روایت هے جس کا مفہوم یہ هے کہ
کہ وه جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رها تها اس پر اس کا کهانا پینا بهی تها لهذا وه تهکاوٹ کی وجہ سے آرام کے کے لیئے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گیا جب اٹها تو دیکها کہ سواری سامان سمیت غائب هے وه اس کو تلاش کرنے کے لیئے گیا لیکن اس کو نهیں ملا لهذا پهر اس درخت کے نیچے مایوس هو کرلوٹ آیا اور موت کے انتظار میں سو گیا پهر جب اس کی آنکهہ کهلی تو کیا دیکهتا هے کہ اس کی سواری بهی موجود هے اور کهانا پینا بهی وه اتنا خوش هوا بلکہ خوشی وفرحت کے اس انتها پہنچا کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے. اللهم انتَ عبدی وانا ربُک. یعنی اے الله تو میرا بنده میں تیرا رب ، اسی حدیث میں هے کہ الله تعالی بنده کی توبہ سے اِس آدمی سے بهی زیاده خوش هوتے هیں ، جاء في الحديث الذي رواه الإمام مسلم" لله أشد فرحاً بتوبة عبده حين يتوب إليه من أحدكم كان على راحلته بأرض فلاة فانفلتت منه وعليها طعامه وشرابه فأيس منها فأتى شجرة فاضطجع في ظلها وقد أيس من راحلته فبينما هو كذلك إذ هو بها قائمة عنده بخطامها ، ثم قال من شدة الفرح: اللهم أنت عبدي وأنا ربك! أخطأ من شدة الفرح". اوکما قال النبی صلی الله علیہ وسلم
اب اس حدیث میں اس آدمی کا قول اے الله تو میرابنده میں تیرا رب
کیا ان ظاهری الفاظ کو دیکهہ کر نام نهاد اهل حدیث وهی حکم لگا ئیں گے جو دیگر اولیاء وعلماء کے ظاهری الفاظ کو لے کر اپنی طرف سے معنی کرکے حکم لگاتے هیں ؟
یا حدیث کے ان ظاهری الفاظ کی تاویل کریں گے ؟

3 = خوب یاد رکهیں کہ " وحدتُ الوجود " کا مسئلہ نہ همارے عقائد میں سے هے نہ ضروریات دین میں سے هے نہ ضروریات اهل سنت میں سے نہ احکام کا مسئلہ هے کہ فرض واجب سنت مستحب مباح کہا جائے بلکہ صوفیہ کرام کے یہاں یہ ایک اصطلاحی لفظ هے اور یہ صوفیہ کرام کے یہاں محض احوال کا مسئلہ هے فقط اور اس سے وه صحیح معنی ومفہوم مراد لیتے هیں ۰
سوال = کیا " وحدتُ الوجود " کی اصطلاح قرآن و حدیث میں هے ؟؟
جواب = قرآن وحدیث میں کسی بهی فن کی اصطلاحات نہیں هیں حتی کہ اور تو اور احادیث کے اقسام مثلا صحیح ، حسن ، ضعیف وغیره کی جو اصطلاحات هیں یہ بهی قرآن و حدیث میں نہیں هیں بلکہ محدثین نے اپنے اجتهاد سے یہ اصطلاحات وضع کیئے هیں اور پوری امت ان هی کی تقلید میں یہ اصطلاحات استعمال کرتی هے لهذا اگر کسی اصطلاح کے غلط هونے کی یہ دلیل هے کہ وه قرآن وحدیث میں نہیں هے تو سب اصطلاحات چاهے جس فن کی بهی هوں غلط هو جائیں گی لهذا یہ قاعده هی غلط هے اور هر فن کی اصطلاحی الفاظ اس لیئے استعمال کیئے جاتے هیں تاکہ بڑے مطلب کو سمیٹا جا سکے اور بات آسانی سے سمجهہ آئے ۰

خلاصہ وحاصل پوری بات یہ هے کہ نام نہاد اهل حدیث اور نفس وشیطان کے مقلد " وحدتُ الوجود " کا غلط مطلب ومفهوم لے کر علماء دیوبند اور صوفیہ کرام پر تبرا کرتے هیں بهتان باندهتے هیں یہ ان کی جهالت یا عداوت وخیانت هے کیونکہ تمام علماء دیوبند اورتمام صوفیہ ( اتحاد وحلول ) کے عقیده کو الحاد زندقہ اور گمراهی قرار دیتے هیں البتہ ناحق تہمت کا علاج همارے پاس نہیں هے ۰
هدانا الله وایاهم الی السواء السبیل ۰