وسوسه = تبلیغی جماعت کی کتاب { فضائل اعمال } ضعیف احادیث پرمبنی هے لہذا اس کتاب سے بچنا بہت ضروری هے ۰
جواب = کتاب { فضائل اعمال }وغیره کتب کے لیئے نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء بہت سخت الفاظ استعمال کرتے هیں ، امت میں گمراهی وتباهی کا سبب قرار دیتے هیں ،
یہ وسوسہ بهی بہت سارے ناواقف لوگوں پراستعمال کیا جاتا هے ، کہ { فضائل اعمال } میں ضعیف احادیث هیں ، لہذا جہاں اس تبلیغی جماعت کوچهوڑنا ضروری هے ، وهاں ان کی { فضائل اعمال } سے بهی بچنا بہت ضروری هے ،
اب ایک عام آدمی " ضعیف حدیث " کا معنی وحکم کیا جانے خود فرقہ جدید اهل حدیث کے جہلاء کوپتہ نہیں هے ، یہ جاهل ٹولہ لفظ " ضعیف " سے اردو والا معنی مراد لیتے هیں ، بلکہ جوفرقہ یہ دعوی کرے کہ همارے دو هی اصول
أطيعوا الله وأطيعوا الرسول ، توان کےلیئے تو کسی حدیث کو ضعیف کسی کوصحیح کسی کوغریب وغیره امتیوں کے بنائے نام بولنا بهی جائزنہیں هے ،
کیونکہ قرآن وذخیره حدیث میں کہیں بهی یہ نام واصطلاحات وارد نہیں هوئے بلکہ بہت بعد امتیوں نے بنائے هیں ، یہ خالص اندهی تقلید هے ، نہ معلوم کس مجبوری کی وجہ سے یہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث اپنے اس اصول { أطيعوُا الله وأطيعوُا الرسُول }کوتوڑدیتی هے ،
خیرمیں " ضعیف حدیث " کے حوالے سے مختصرا کچهہ عرض کرتا هوں ، کیونکہ اس وسوسہ کے ذریعہ یہ فرقہ جدید عوام کو بہت جلد بے راه کرلیتا هے ،
اور یہ بهی یاد رهے کہ کتاب { فضائل اعمال } میں سب احادیث ضعیف نہیں هیں ، بلکہ صحیح ، حسن ، وضعیف وغيره سب هیں ،
" ضعیف حدیث " پرعـمـل کـا حـکم
الإمام مُحي الدین النووي الشافعي رحمه الله نے اپنی بہت ساری نے کتب میں تمام
محدثين وفقهاء کا اتفاق نقل کیا هے کہ " فضائلُ الأعمال وترغيب وترهيب " میں " ضعیف حدیث " کولینا اوراس پرعمل کرنا جائزهے ،
الإمام النووي الشافعي رحمه الله نے یہ بات اپنی کتب (الروضه) اور (الإرشاد والتقريب) اور (الأذكار) وغیره میں نقل کی هے ، اور یہی الإمام النووي رحمه الله کا مذهب هے ، اور اسی طرح کی تصریح دیگرکبارائمہ حدیث نے بهی کی هے ، مثلا الحافظ إبن حجر العسقلاني ، والإمام النووي ، والإمام إبن جماعة ، والإمام الطيبي ، والإمام سراج الدين البلقيني ، والحافظ زين الدين أبو الفضل العراقي ، والإمام إبن دقيق العيد ، والحافظ إبن حجر الهيتمي ، والإمام إبن الهمام ، والإمام إبن علان ، والإمام الصنعاني ، وغیرهم
اورحتی کہ آج کل کے عرب کے سلفی علماء میں سے الشيخ بن باز ، والشيخ صالح اللحيدان ، والشيخ صالح الفوزان ، والشيخ عبدالعزيز آل الشيخ ، والشيخ صالح آل الشيخ ، والشيخ علي حسن الحلبي ، وغیرهم بهی یہی کہتے هیں ،
ان علماء امت کی چند تصریحات ملاحظہ کریں
وقال الحافظ السخاوي ”وممن اختاروا ذالك أيضاً إبن عبدالسلام وإبن دقيق العيد“ [القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع (ص195)] .
وقال الحافظ إبن حجر العسقلاني ”تجوز رواية الحديث الضعيف إن كان بهذا الشرطين : ألا يكون فيه حكم ، وأن تشهد له الأصول“ [الإصابة في تميز الصحابة (5/690)] .
وقال الإمام إبن علان ”ويبقى للعمل بالضعيف شرطان : أن يكون له أصل شاهد لذالك كاندراجه في عموم أو قاعدة كلية ، وأن لا يُعتقد عند العمل به ثبوته بل يُعتقد الاحتياط“ [الفتوحات الربانية (1/84)] .
وقال الحافظ إبن حجر العسقلاني ”ولا فرق في العمل بالحديث الضعيف في الأحكام أو الفضائل إذ الكُّل شُرع“ [تبين العجب (ص04)] .
وقال الإمام الصنعاني ”الأحاديث الواهية جوزوا أي أئمة الحديث التساهل فيه ، وروايته من غير بيان لِضعفه إذا كان وارداً في غير الأحكام وذالك كالفضائل والقصص والوعظ وسائر فنون الترغيب والترهيب“ [توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (2/238)] .
وقال العلامة إبراهيم بن موسى الأبناسي ”الأحاديث الضعيفة التي يُحتمل صِدقها في الباطن حيث جاز روايتها في الترغيب والترهيب“ [الشذ الفياح من علوم إبن صلاح (1/223)] .
وقال العلامة طاهر الجزائري الدمشقي ”الظاهر أنه يلزم بيان ضِعف الضعيف الوارد في الفضائل ونحوها كي لا يُعتقد ثبوته في نفس الأمر ، مع أنه رُبما كان غير ثابت في نفس الأمر“ [توجيه النظر إلى أصول الأثر (2/238)] .
وقال العلامة علي القاري ”الأعمال التي تثبت مشروعيتها بما تقوم الحجة به شرعاً ، ويكون معه حديث ضعيف ففي مثل هذا يُعمل به في فضائل الأعمال ؛ لأنه ليس فيه تشريع ذالك العمل به ، وإنما فيه بيان فضل خاص يُرجى أن يناله العامل به“ [المرقاة (2/381)] .
وقال العلامة حبيب الرحمن الأعظمي ”والضعيف من الحديث وإن كان قبولاً في فضائل الأعمال ، ولابأس بإيراده فيها عند العلماء“ [مقدمة مختصر الترغيب والترهيب (ص06)] .
وقال الإمام إبن الهمام في كتاب الجنائز من فتح القدير ”الاستحباب يثبت بالضعيف غير الموضوع“
وقال الإمام إبن حجر الهيتمي في الفتح المبين ”أتفق العلماء على جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال لأنه إن كان صحيحاً في نفس الأمر فقد أُعطي حقه من العمل به“
وقال الشيخ صالح بن عبدالعزيز آل الشيخ ”أما في فضائل الأعمال فيجوز أن يستشهد بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال وأن يذكر لأجل ترغيب الناس في الخير، وهذا هو المنقول عن أئمة الحديث وأئمة السلف“ [محاضرة بعنوان وصايا عامة (الوجه الثاني)] .
وقال الشيخ محمود الطحان ”يجوز عند أهل الحديث وغيرهم رواية الأحاديث الضعيفة والتساهل في أسانيدها من غير بيان لِضعفها في مثل المواعظ والترغيب والترهيب والقصص وما أشبه ذالك“ [تيسير مصطلح الحديث (ص65)] .
" ضعیف حدیث "كـى تـعـريف
یاد رکهیں کہ مُحدثین کرام کے " حديث ضعيف " کی اصطلاحی تعریف میں مختلف اقوال وآراء هیں، تين أقوال بطورخلاصہ وبغرض فائده نقل کرتاهوں ،
1 = {كل حديث لم تجتمع فيه صفات الحديث الصحيح ولا صفات الحديث الحسن}
هروه حدیث جس میں "حدیث صحیح اورحدیث حسن " کے صفات وشرائط موجود نہ هوں تو وه " حديث ضعيف " هے ،
اور یہ مشہور مُحدث امام ابنُ الصلاح الشافعی رحمہ الله کا قول هے ،
اوراسی تعریف کوان کے بعد حافظ ابن جماعة اورحافظ ابن كثيراورحافظ نووي اورحافظ جرجاني وغيرهم رحمہم الله نے ذکرکیا هے ،
اورپهراسی تعریف پردیگر مُحدثین کے کچهہ تعقیبات بهی هیں ، جس کی تفصیل اصول حدیث کی کتب میں موجود هے ۰
2 = { كل حديث لم تجتمع فيه صفات القبول }
هروه حدیث جس میں صفات قبول موجود نہ هوں ،
یہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله کا قول هے ، اوربعض دیگرمُحدثین نے بهی اسی کواختیارکیا هے ، اعتراضات وتعقیبات اس پربهی هیں ۰
3 = {ما قصر عن درجة الحسن قليلا }
هروه حدیث جودرجہ میں "حدیث حسن " سے کم هو ،
حافظ الذهبي رحمہ الله نے اپنی کتاب { الموقظة } میں یہ تعریف کی هے ، اور اصل اس تعریف کا امام ابن دقيق العيد اور علامہ عراقي کا کلام هے ،
اور اعتراضات وتعقیبات اس پربهی هیں ۰
حاصل کلام یہ هے کہ حافظ ابنُ الصَلاح الشافعی رحمہ الله اپنی کتاب{مقدمة ابنُ الصلاح }میں فرماتے هیں کہ
وه حدیث جس میں چهہ شرائط پائے جائیں تو وه " صحيح " هے ، اور وه چهہ شرائط یہ هیں ،
1 = اتصال سند
2 = عدالة الرُواة
3 = ضبط الرواة
4 = السلامة من الشذوذ
5 = السلامة من العلة
6 = وجود العاضد
اور جمهورمتأخرين مُحدثین کے نزدیک " حديث حسن " کی تعریف بهی یہی هے جس میں شروط سابقہ پائ جائیں ، مگر " حديث حسن " کا راوی اگرچہ حافظ هوتا هے لیکن حفظ میں " حدیث صحیح " کے راوي سے کم هوتا هے ،
اور پهر " حديث ضعيف " بهی اسی کے ساتهہ مُلحق هے ،
لہذا متأخرين مُحدثین کے نزدیک " حديث ضعيف " کی تعریف یہ هے کہ جس میں ان شروط مذكورة بالا میں سے کوئ ایک شرط یا اکثر مفقود هوں ،
پهراس کے بعد " حديث ضعيف " کے أنواع واقسام کی ایک طویل بحث هے ۰
{ من شاء المزید فلیراجع الی المطولات}
فحاصل الكلام انهم عرفوا الحديث الضعيف بأنه :هو ما فقد شرطا من شروط الحديث المقبول وهي ستة:
1 =ألعدالة: أي الصدق والتقوى والالتزام الظاهر بأحكام الإسلام.
2 =ألضبط: هو الدقة في الحفظ والإتقان ثم الاستحضار عند الأداء .
3 =ألاتصال: أي كل واحد من الرواة قد تلقاه من رواة الحديث حتى النهاية دون إرسال أو انقطاع.
4= عدم الشذوذ: وهو مخالفة الراوي الثقة لمن هو أثق منه .
5= عدم وجود العلة القادحة: أي سلامة الحديث من وصف خفي قادح في صحة الحديث والظاهر السلامة منه .
6 =ألعاضدُ عند الاحتياج إليه .
راجع : مقدمة ابن الصلاح(ج 1 / ص 6 ) والباعث الحثيث في اختصار علوم الحديث(ج 1 / ص 5 ) وتدريب الراوي في شرح تقريب النواوي(ج 1 / ص 73 ) والتقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث(ج 1 / ص 2 ) وتدريب الراوي في شرح تقريب النواوي(ج 1 / ص 120 ) .
اس مختصر بحث اورائمہ حدیث کی تصریحات سے یہ واضح هوا ، کہ حدیث کی تعریف وتقسیم وغیره سب مُحدثین کے اجتہاد کا ثمره هے ، اس لیئے اس باب میں مُحدثین کے اقوال وآراء اختلاف بهی پایا جاتا هے ، اور حدیث کا هرطالب ان سب تعریفات واصطلاحات خالص تقلید میں پڑهتا هے اوراستعمال کرتا هے ،
میری سمجهہ میں نہیں آتا کہ وهی تقلید فقهاء کرام کے اجتہادات کی هو تو فرقہ جدید کےنزدیک شرک وبدعت وجہالت بن جائے ، اور وهی خالص تقلید مُحدثین کی هوتو کچهہ فرق نہ پڑے ، حالانکہ فقہاء کرام ومُجتهدین عظام کے تمام اجتہادات دلائل کےساتهہ موجود هیں ، جب کہ مُحدثین کے ان اجتہادات کی کوئ دلیل بهی نہیں هے ، هرمُحدث نے اپنی ذوق وفہم وبصیرت سے یہ تعریفات واصطلاحات وضع کی هیں ۰
الله تعالی تمام اهل اسلام کوصحیح فہم وبصیرت عطا فرمائے ۰
جواب = کتاب { فضائل اعمال }وغیره کتب کے لیئے نام نہاد اهل حدیث میں شامل جہلاء بہت سخت الفاظ استعمال کرتے هیں ، امت میں گمراهی وتباهی کا سبب قرار دیتے هیں ،
یہ وسوسہ بهی بہت سارے ناواقف لوگوں پراستعمال کیا جاتا هے ، کہ { فضائل اعمال } میں ضعیف احادیث هیں ، لہذا جہاں اس تبلیغی جماعت کوچهوڑنا ضروری هے ، وهاں ان کی { فضائل اعمال } سے بهی بچنا بہت ضروری هے ،
اب ایک عام آدمی " ضعیف حدیث " کا معنی وحکم کیا جانے خود فرقہ جدید اهل حدیث کے جہلاء کوپتہ نہیں هے ، یہ جاهل ٹولہ لفظ " ضعیف " سے اردو والا معنی مراد لیتے هیں ، بلکہ جوفرقہ یہ دعوی کرے کہ همارے دو هی اصول
أطيعوا الله وأطيعوا الرسول ، توان کےلیئے تو کسی حدیث کو ضعیف کسی کوصحیح کسی کوغریب وغیره امتیوں کے بنائے نام بولنا بهی جائزنہیں هے ،
کیونکہ قرآن وذخیره حدیث میں کہیں بهی یہ نام واصطلاحات وارد نہیں هوئے بلکہ بہت بعد امتیوں نے بنائے هیں ، یہ خالص اندهی تقلید هے ، نہ معلوم کس مجبوری کی وجہ سے یہ فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث اپنے اس اصول { أطيعوُا الله وأطيعوُا الرسُول }کوتوڑدیتی هے ،
خیرمیں " ضعیف حدیث " کے حوالے سے مختصرا کچهہ عرض کرتا هوں ، کیونکہ اس وسوسہ کے ذریعہ یہ فرقہ جدید عوام کو بہت جلد بے راه کرلیتا هے ،
اور یہ بهی یاد رهے کہ کتاب { فضائل اعمال } میں سب احادیث ضعیف نہیں هیں ، بلکہ صحیح ، حسن ، وضعیف وغيره سب هیں ،
" ضعیف حدیث " پرعـمـل کـا حـکم
الإمام مُحي الدین النووي الشافعي رحمه الله نے اپنی بہت ساری نے کتب میں تمام
محدثين وفقهاء کا اتفاق نقل کیا هے کہ " فضائلُ الأعمال وترغيب وترهيب " میں " ضعیف حدیث " کولینا اوراس پرعمل کرنا جائزهے ،
الإمام النووي الشافعي رحمه الله نے یہ بات اپنی کتب (الروضه) اور (الإرشاد والتقريب) اور (الأذكار) وغیره میں نقل کی هے ، اور یہی الإمام النووي رحمه الله کا مذهب هے ، اور اسی طرح کی تصریح دیگرکبارائمہ حدیث نے بهی کی هے ، مثلا الحافظ إبن حجر العسقلاني ، والإمام النووي ، والإمام إبن جماعة ، والإمام الطيبي ، والإمام سراج الدين البلقيني ، والحافظ زين الدين أبو الفضل العراقي ، والإمام إبن دقيق العيد ، والحافظ إبن حجر الهيتمي ، والإمام إبن الهمام ، والإمام إبن علان ، والإمام الصنعاني ، وغیرهم
اورحتی کہ آج کل کے عرب کے سلفی علماء میں سے الشيخ بن باز ، والشيخ صالح اللحيدان ، والشيخ صالح الفوزان ، والشيخ عبدالعزيز آل الشيخ ، والشيخ صالح آل الشيخ ، والشيخ علي حسن الحلبي ، وغیرهم بهی یہی کہتے هیں ،
ان علماء امت کی چند تصریحات ملاحظہ کریں
وقال الحافظ السخاوي ”وممن اختاروا ذالك أيضاً إبن عبدالسلام وإبن دقيق العيد“ [القول البديع في الصلاة على الحبيب الشفيع (ص195)] .
وقال الحافظ إبن حجر العسقلاني ”تجوز رواية الحديث الضعيف إن كان بهذا الشرطين : ألا يكون فيه حكم ، وأن تشهد له الأصول“ [الإصابة في تميز الصحابة (5/690)] .
وقال الإمام إبن علان ”ويبقى للعمل بالضعيف شرطان : أن يكون له أصل شاهد لذالك كاندراجه في عموم أو قاعدة كلية ، وأن لا يُعتقد عند العمل به ثبوته بل يُعتقد الاحتياط“ [الفتوحات الربانية (1/84)] .
وقال الحافظ إبن حجر العسقلاني ”ولا فرق في العمل بالحديث الضعيف في الأحكام أو الفضائل إذ الكُّل شُرع“ [تبين العجب (ص04)] .
وقال الإمام الصنعاني ”الأحاديث الواهية جوزوا أي أئمة الحديث التساهل فيه ، وروايته من غير بيان لِضعفه إذا كان وارداً في غير الأحكام وذالك كالفضائل والقصص والوعظ وسائر فنون الترغيب والترهيب“ [توضيح الأفكار لمعاني تنقيح الأنظار (2/238)] .
وقال العلامة إبراهيم بن موسى الأبناسي ”الأحاديث الضعيفة التي يُحتمل صِدقها في الباطن حيث جاز روايتها في الترغيب والترهيب“ [الشذ الفياح من علوم إبن صلاح (1/223)] .
وقال العلامة طاهر الجزائري الدمشقي ”الظاهر أنه يلزم بيان ضِعف الضعيف الوارد في الفضائل ونحوها كي لا يُعتقد ثبوته في نفس الأمر ، مع أنه رُبما كان غير ثابت في نفس الأمر“ [توجيه النظر إلى أصول الأثر (2/238)] .
وقال العلامة علي القاري ”الأعمال التي تثبت مشروعيتها بما تقوم الحجة به شرعاً ، ويكون معه حديث ضعيف ففي مثل هذا يُعمل به في فضائل الأعمال ؛ لأنه ليس فيه تشريع ذالك العمل به ، وإنما فيه بيان فضل خاص يُرجى أن يناله العامل به“ [المرقاة (2/381)] .
وقال العلامة حبيب الرحمن الأعظمي ”والضعيف من الحديث وإن كان قبولاً في فضائل الأعمال ، ولابأس بإيراده فيها عند العلماء“ [مقدمة مختصر الترغيب والترهيب (ص06)] .
وقال الإمام إبن الهمام في كتاب الجنائز من فتح القدير ”الاستحباب يثبت بالضعيف غير الموضوع“
وقال الإمام إبن حجر الهيتمي في الفتح المبين ”أتفق العلماء على جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال لأنه إن كان صحيحاً في نفس الأمر فقد أُعطي حقه من العمل به“
وقال الشيخ صالح بن عبدالعزيز آل الشيخ ”أما في فضائل الأعمال فيجوز أن يستشهد بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال وأن يذكر لأجل ترغيب الناس في الخير، وهذا هو المنقول عن أئمة الحديث وأئمة السلف“ [محاضرة بعنوان وصايا عامة (الوجه الثاني)] .
وقال الشيخ محمود الطحان ”يجوز عند أهل الحديث وغيرهم رواية الأحاديث الضعيفة والتساهل في أسانيدها من غير بيان لِضعفها في مثل المواعظ والترغيب والترهيب والقصص وما أشبه ذالك“ [تيسير مصطلح الحديث (ص65)] .
" ضعیف حدیث "كـى تـعـريف
یاد رکهیں کہ مُحدثین کرام کے " حديث ضعيف " کی اصطلاحی تعریف میں مختلف اقوال وآراء هیں، تين أقوال بطورخلاصہ وبغرض فائده نقل کرتاهوں ،
1 = {كل حديث لم تجتمع فيه صفات الحديث الصحيح ولا صفات الحديث الحسن}
هروه حدیث جس میں "حدیث صحیح اورحدیث حسن " کے صفات وشرائط موجود نہ هوں تو وه " حديث ضعيف " هے ،
اور یہ مشہور مُحدث امام ابنُ الصلاح الشافعی رحمہ الله کا قول هے ،
اوراسی تعریف کوان کے بعد حافظ ابن جماعة اورحافظ ابن كثيراورحافظ نووي اورحافظ جرجاني وغيرهم رحمہم الله نے ذکرکیا هے ،
اورپهراسی تعریف پردیگر مُحدثین کے کچهہ تعقیبات بهی هیں ، جس کی تفصیل اصول حدیث کی کتب میں موجود هے ۰
2 = { كل حديث لم تجتمع فيه صفات القبول }
هروه حدیث جس میں صفات قبول موجود نہ هوں ،
یہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ الله کا قول هے ، اوربعض دیگرمُحدثین نے بهی اسی کواختیارکیا هے ، اعتراضات وتعقیبات اس پربهی هیں ۰
3 = {ما قصر عن درجة الحسن قليلا }
هروه حدیث جودرجہ میں "حدیث حسن " سے کم هو ،
حافظ الذهبي رحمہ الله نے اپنی کتاب { الموقظة } میں یہ تعریف کی هے ، اور اصل اس تعریف کا امام ابن دقيق العيد اور علامہ عراقي کا کلام هے ،
اور اعتراضات وتعقیبات اس پربهی هیں ۰
حاصل کلام یہ هے کہ حافظ ابنُ الصَلاح الشافعی رحمہ الله اپنی کتاب{مقدمة ابنُ الصلاح }میں فرماتے هیں کہ
وه حدیث جس میں چهہ شرائط پائے جائیں تو وه " صحيح " هے ، اور وه چهہ شرائط یہ هیں ،
1 = اتصال سند
2 = عدالة الرُواة
3 = ضبط الرواة
4 = السلامة من الشذوذ
5 = السلامة من العلة
6 = وجود العاضد
اور جمهورمتأخرين مُحدثین کے نزدیک " حديث حسن " کی تعریف بهی یہی هے جس میں شروط سابقہ پائ جائیں ، مگر " حديث حسن " کا راوی اگرچہ حافظ هوتا هے لیکن حفظ میں " حدیث صحیح " کے راوي سے کم هوتا هے ،
اور پهر " حديث ضعيف " بهی اسی کے ساتهہ مُلحق هے ،
لہذا متأخرين مُحدثین کے نزدیک " حديث ضعيف " کی تعریف یہ هے کہ جس میں ان شروط مذكورة بالا میں سے کوئ ایک شرط یا اکثر مفقود هوں ،
پهراس کے بعد " حديث ضعيف " کے أنواع واقسام کی ایک طویل بحث هے ۰
{ من شاء المزید فلیراجع الی المطولات}
فحاصل الكلام انهم عرفوا الحديث الضعيف بأنه :هو ما فقد شرطا من شروط الحديث المقبول وهي ستة:
1 =ألعدالة: أي الصدق والتقوى والالتزام الظاهر بأحكام الإسلام.
2 =ألضبط: هو الدقة في الحفظ والإتقان ثم الاستحضار عند الأداء .
3 =ألاتصال: أي كل واحد من الرواة قد تلقاه من رواة الحديث حتى النهاية دون إرسال أو انقطاع.
4= عدم الشذوذ: وهو مخالفة الراوي الثقة لمن هو أثق منه .
5= عدم وجود العلة القادحة: أي سلامة الحديث من وصف خفي قادح في صحة الحديث والظاهر السلامة منه .
6 =ألعاضدُ عند الاحتياج إليه .
راجع : مقدمة ابن الصلاح(ج 1 / ص 6 ) والباعث الحثيث في اختصار علوم الحديث(ج 1 / ص 5 ) وتدريب الراوي في شرح تقريب النواوي(ج 1 / ص 73 ) والتقريب والتيسير لمعرفة سنن البشير النذير في أصول الحديث(ج 1 / ص 2 ) وتدريب الراوي في شرح تقريب النواوي(ج 1 / ص 120 ) .
اس مختصر بحث اورائمہ حدیث کی تصریحات سے یہ واضح هوا ، کہ حدیث کی تعریف وتقسیم وغیره سب مُحدثین کے اجتہاد کا ثمره هے ، اس لیئے اس باب میں مُحدثین کے اقوال وآراء اختلاف بهی پایا جاتا هے ، اور حدیث کا هرطالب ان سب تعریفات واصطلاحات خالص تقلید میں پڑهتا هے اوراستعمال کرتا هے ،
میری سمجهہ میں نہیں آتا کہ وهی تقلید فقهاء کرام کے اجتہادات کی هو تو فرقہ جدید کےنزدیک شرک وبدعت وجہالت بن جائے ، اور وهی خالص تقلید مُحدثین کی هوتو کچهہ فرق نہ پڑے ، حالانکہ فقہاء کرام ومُجتهدین عظام کے تمام اجتہادات دلائل کےساتهہ موجود هیں ، جب کہ مُحدثین کے ان اجتہادات کی کوئ دلیل بهی نہیں هے ، هرمُحدث نے اپنی ذوق وفہم وبصیرت سے یہ تعریفات واصطلاحات وضع کی هیں ۰
الله تعالی تمام اهل اسلام کوصحیح فہم وبصیرت عطا فرمائے ۰
No comments:
Post a Comment