تازہ ترین تحریریں

Sunday, 16 September 2012

انورشاه کشمیری نے تحریف قرآن کا عقیده اختیار کیا ہے

یہ باطل وکاذب وسوسہ فرقہ جدید اہل حدیث کے بعض جہلاء نے مشہورکیا ہے ، اورعوام کوگمراه کرنے کے لیئے بلاخوف وخطراس وسوسہ کو استعمال کرتے ہیں ، حقیقت اس وسوسہ کی یہ ہے کہ حضرت الإمام العلامة الحافظ الحجة الثقة الثبت المحقق الفقيه المفسرالمحدث الشيخ السيد أنـورشاه الكشميري رحمه الله( فیضُ الباری شرح بخاری ) میں کتب سماویہ (آسمانی کتابوں)میں تحریف سے متعلق کلام کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ
خوب جان لو کہ تحریف کے بارے میں علماء کے تین مذاہب ہیں ،
1 = ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ کتب سماویہ (آسمانی کتابوں) میں لفظ اورمعنی دونوں کے اعتبارسے تحریف واقع ہوئ ہے ، اورعلامہ ابن حزم کی بهی یہی رائے ہے۔
2 = ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ تحریف کم واقع ہوئ ہے ، اورحافظ ابن تیمیہ اسی رائے کی طرف گئے ہیں۔
3 = اورایک جماعت نے تحریف لفظی کا بالکل انکارکیا ہے ، پس ان کے نزدیک تحریف سارا کا سارا معنوی ہے۔
یہ تین مذاہب بیان کرنے کے بعد حضرت العلامہ الامام انورشاه الکشمیری رحمہ الله اس تیسرے مذہب کے قائلین پر رد کرتے ہیں یعنی جو یہ کہتے ہیں کہ تحریف لفظی نہیں ہے سارا کا سارا معنوی ہے۔
لہذا حضرت الإمام أنـورشاه الكشميري رحمه الله بطریق الزام فرماتے ہیں کہ اگر صرف تحریف معنوی ہو لفظی نہ ہو تو اس سے تو لازم آئے گا کہ قرآن بهی محَرَف ہو کیونکہ کتنے لوگوں نےقرآن میں بهی معنوی تحریف کی ہے۔
جیسے روافض وشیعہ وقادیانیہ ومنکرین حدیث واہل بدعت وفرق ضالہ نے قرآن میں تحریف معنوی کی ہے، تحریف معنوی کی ایک مشہور مثال یہ ہے ، مثلاقادیانی امت یہ عقیده رکهتی ہے کہ لفظ (خـَاتـَمُ النَبيين ) کا معنی ہے ( أفضلُ النبيين وخيرُ النبيين ) قادیانی یہ عقیده رکهتے ہیں کہ خاتم کا معنی آخری نہیں ہے ، لہذا یہ قرآن میں تحریف معنوی کی ایک مشہورمثال ہے ۰)
لہذا حضرت کشمیری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک تحقیقی بات یہی ہے کہ کتب سماویہ (آسمانی کتابوں،انجیل ،تورات وغیره) میں تحریف صرف معنوی نہیں ہے بلکہ لفظی تحریف بهی ہوئ ہے۔
یہ ہے ساری حقیقت و وضاحت حضرت الإمام أنـورشاه الكشميري رحمه الله کے قول کی جیسا کہ مسائل بیان کرتے وقت تمام علماء امت کا طریقہ ہوتا ہے ، کہ پہلے سب اقوال ذکرکرتے ہیں پهران میں جوراجح اورتحقیقی قول ہوتا ہے تواس کوذکرکرتے ہیں ، تو حضرت الإمام الكشميري رحمه الله سابقہ کتب سماویہ میں تحریف کے بارے کلام کرتے ہیں ، اوراس بارے میں تین مذاہب نقل کرنے کے بعد راجح قول ذکرکرتے ہیں ، لیکن بے وقوف لوگوں نے عوام کو گمراه کرنے کے لیئے اس کو کچهہ اور رنگ دے دیا ، اب عوام کو کیا پتہ بلکہ خود یہ وسوسہ پهیلانے والوں کوکا کچهہ پتہ نہیں کہ (فیضُ الباری شرح بخاری) کیا ہے اورکیسی کتاب ہے ، بس وسوسہ کسی سے سن لیا اوراس کو پلے باندهہ لیا۔
اوریہ مشہورکردیا کہ انورشاه کشمیری دیوبندی رحمہ الله نے اپنی کتاب ( فیضُ الباری )میں تحریف قرآن کا عقيده اختياركيا ہے ، نعوذبالله عداوت وجہالت وتعصب بڑی بری بلا ہے ، کہ آدمی کواپنے مخالف کے ضد میں کتنے بڑے بڑے کبائرمیں ڈال دیتی ہے ، الله کی پناه الله تعالی اس اندهی عدوات وتعصب سے ہمیں محفوظ رکهے۔
حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کی عربی عبارت درج ذیل ہے۔
واعلم أنَّ في التحريف ثلاثةُ مذاهبَ: ذهب جماعةٌ إلى أن التحريفَ في الكتب السماوية قد وقع بكُلِّ نحو في اللفظ والمعنى جميعًا، وهو الذي مال إليه ابنُ حَزْم؛ وذهب جماعةٌ إلى أن التحريف قليلٌ، ولعلَّ الحافِظَ ابنَ تيميةَ جنح إليه؛ وذهب جماعةٌ إلى إنكارِ التحريف اللفظي رأسًا، فالتحريفُ عندهم كلُّه معنوي۔
قلت: يَلْزَمُ على هذا المذهب أن يكونَ القرآنُ أيضًا مُحرَّفًا، فإِنَّ التحريفَ المعنويِّ غيرُ قليل فيه أيضًا، والذي تحقَق عندي أن التحريفَ فيه لفظيُّ أيضًا، أما إنه عن عمد منهم، لمغلطة. فالله تعالى أعلم به۔
حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کا قول ( والذي تحقق عندي ) یعنی میرے نزدیک تحقیقی قول یہ ہے ، اب تحقیقی قول کس مسئلہ میں ذکرکر رہے ہیں ؟ وہی سابقہ کتب سماویہ (آسمانی کتابوں) میں تحریف کے متعلق تین مذاہب ذکرکرنے کے بعد اپنا تحقیقی قول پیش کرتے ہیں۔
حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کا قول ( إما أنه عن عمد منهم ) یہ ( هُم ) ضمیر راجع ہے أهل الكتاب کی طرف اوریہ دراصل ابن عباس رضی الله عنہ کا ایک اثرہے جس کو حضرت الإمام الكشميري رحمه الله نے مختصرا ذکرکیا ہے۔
حاصل یہ کہ حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کی رائے یہ ہے کہ کتب سماویہ (آسمانی کتابوں) میں تحریف لفظی ومعنوی دونوں طرح ہوئ ہے ، اوریہی بات حضرت اپنے اس مذکوره بالا کلام میں بیان کی ہے ، اور حضرت الإمام الكشميري رحمه الله نے اپنی اس رائے وقول کو (فيض الباري) میں ایک دوسرے مقام پراس طرح پیش کیا ہے۔
قال الإمام العلامة الحافظ الحجة الثقة الثبت المحقق الفقيه المفسرالمحدث الشيخ السيد أنـورشاه الكشميري رحمه الله في كتابه العظيم المسمى بــ " فيض الباري "
قوله: (قال ابنُ عَبَّاسٍ:... {يُحَرّفُونَ} يُزِيلُونَ، ولَيْسَ أَحَدٌ يُزِيلُ لفْظَ كِتَابٍ مِنْ كُتُبِ اللَّهِ، ولكِنَّهُمْ يُحَرِّفُونَهُ، يَتَأَوَّلُونَهُ عَلَى غَيْرِ تَأْوِيلِهِ) واعلم أن أقوالَ العلماء في وقوع التحريف، ودلائلَهمن كلَّها قد قضى عنه الوَطَرَ المُحَشِّي، فراجعه. والذي ينبغي فيه النظرُ ههنا أنه كيف سَاغَ لابن عبَّاس إنكارُ التحريف اللفظيِّ، مع أن شاهد الوجود يُخَالِفُهُ. كيف وقد نعى عليهم القرآن أنَّهم كانوا يَكْتُبُونَ بأيديهم، ثم يقولون {هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ} (آل عمران: ۷۸)، وهل هذا إلاَّ تحريفٌ لفظيٌّ، ولعلَّ مرادَه أنَّهم ما كانوا يُحَرِّفونها قصداً، ولكن سَلَفهم كانوا يَكْتُبُون مرادها كما فَهِمُوه. ثم كان خَلَفُهم يُدْخِلُنَه في نفس التوراة، فكان التفسيرُ يَخْتَلِطُ بالتوراة من هذا الطري۔
اسی طرح حضرت الإمام الكشميري رحمه الله فرماتے ہیں۔
باب من قال لم يترك النبي صلى الله عليه وسلم الا ما بين الدفتين
رد على الروافض حيث زعم الملاعنة ان عثمان نقص من القرآن۔
فيض الباري شرح صحيح البخاري ج 3 ص 464
یعنی یہ باب جوامام بخاری رحمه الله نے قائم کیا ہے ، یہ روافض کے رد میں ہے کیونکہ یہ روافض ملعون یہ عقیده رکهتے ہیں کہ حضرت عثمان نے قرآن میں کمی (تحریف) کی ہے۔
اسی طرح حضرت الإمام الكشميري رحمه الله فرماتے ہیں۔
کہ مختار بات یہ ہے کہ روافض کافرہیں ، کیونکہ جمہورصحابہ کی تکفیرکرنے والا کافرہے۔الخ اور روافض کے کفرکی ایک وجہ تحریف قرآن کا عقیده بهی ہے اور روافض کی مستند کتب اس پرشاہد عدل ہیں۔
وقال الإمام الكشميري رحمه الله
والمختارتكفيرهم فإن مكفرجمهورالصحابة كافر ، الخ
وللروافض فى القرآن العظيم أقوال
قيل زاد فيه عثمان ونقص ، وقيل : نقص ولم يزد ، وقيل : انه محفوظ ، ولايقولون بصحة أحاديث كتب أهل السنة ، ولهم صحاح أربعة ، وهي سقام ومفتريات۔ ( ألعرف الشذي شرح سنن الترمذي ج 1 ص 82 )
اسی طرح فرقہ جدید اہل حدیث کی طرف سےایک جهوٹ یہ بهی مشہور کیا گیا ہے ، وه ایک یہ کہ گذشتہ ایک مدت سے ایک شخص اپنے آپ کو حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کا پوتا ظاہرکرتا ہے ، جس کا نام سید عتیق الرحمن شاه ہے اوراپنی تقریروں میں حنفی دیوبندی مسلک چهوڑکر اہل حدیث مسلک اختیارکرنے کے اسباب بیان کرتا ہے۔
اس بارے میں ہم دواصولی باتیں ذکرکرنا چاہتے ہیں۔
1 = ایک یہ کہ ہمارے نزدیک حسب ونسب وشخصیات کے ذریعہ حق وسچ کو نہیں پرکهاجاتا بلکہ حق کے ذریعہ شخصیات کوپرکها جاتا ہے ، لہذا اگر بالفرض حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کا یا ہمارے اکابرمیں سے کسی بهی بزرگ کا کوئ پوتا یا نواسا یا کوئ بهی رشتہ دار فرقہ اہل حدیث میں شامل ہوجائے ، تو یہ ہمارے نزدیک فرقہ اہل حدیث کی حقانیت ومقبولیت کی دلیل نہیں ہے۔
2 = دوسری بات جہاں تک سید عتیق الرحمن شاه نامی شخص کا دعوی ہے تو صحیح بات یہ ہے کہ یہ شخص حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کا نہ پوتا ہے نہ نواسا ہے ، کیونکہ حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کی خاندان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کے داماد حضرت مولانا احمد رضا بَجنوری رحمہ الله اپنی کتاب ( انوارُالباری شرح بخاری ج 2 ص 258 ) میں فرماتے ہیں کہ حضرت شاه صاحب نے تین صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں یادگارچهوڑیں ، ان سب میں بڑی صاحبزادی عابده خاتون تهیں ، ان کا اورمنجهلے صاحبزادے محمد اکبرکا بعمرجوانی انتقال ہوا ، مرحومہ عابده خاتون کا عقد مولوی محمد شفیق صاحب سلمہ بجنوری سے ہوا تها ، بڑے صاحبزادے حافظ محمد ازہرشاه قیصرسلمہ عرصہ سے مدیر رسالہ " دارُالعلوم " ہیں ، جوکامیاب مدیر ومضمون نگارہیں ، ان کے تین صاحبزادے محمد اطہر محمد راحت محمد نسیم اور دو صاحبزادیاں ہیں ، سلمهم الله تعالی۔
چهوٹے صاحبزادے مولانا انظرشاه صاحب سلمہ دارُالعلوم میں طبقہ وسطی کے لائق استاذ اورفاضل محقق ومصنف ہیں ، ان کے ایک صاحبزادے احمد اور دو صاحبزادیاں ہیں ، سلمهم الله تعالی۔
حضرت شاه صاحب کی چهوٹی صاحبزادی راشده خاتون کے پانچ بچے محمد ارشد، محمداسعد، محمدامجد، محمداعبد، محمداسجد، اوردوبچیاں ہیں، سلمهم الله تعالی ۰ فقیر حقیر راقمُ الحروف (مولانا احمد رضا بَجنوری رحمہ الله ) کو حضرت کے خویش ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بلفظہ
مولانا عبدالرشید ارشد صاحب نےاپنی کتاب (بیس بڑے مسلمان ص399) میں یہی تفصیل بیان کی ہے۔
اب فرقہ جدید اہل حدیث عتیق الرحمن شاه پوچهے کہ وه ان میں سے کس کا پوتا ہے ؟؟ اگر مندرجہ بالا حضرت الإمام الكشميري رحمه الله کے تین بیٹوں اور بیٹیوں کےساتهہ اس کا نسب ثابت نہ ہوسکے ، تو پهر یہ اس کی مجرمانہ حرکت اورغیرشرعی دعوی ہے ، کیونکہ قرآن کہتا ہے۔
أدعوهم لآبائهم هوأقسط عندالله (الأحزاب پکارو ان کو ان کے باپوں کی طرف نسبت کرکے یہ بات الله کے نزدیک زیاده انصاف والی ہے۔
اورجهوٹ بولنا منافق کی نشانی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔
اذا حدث کذب ، جب وه بات کرتا ہے توجهوٹ بولتا ہے، اسی طرح بخاری شریف ہی کی روایت ہے کہ جس شخص نے اپنے باپ کے علاوه کسی اورکی طرف جان بوجهہ کر ( نسبت) کا دعوی کیا ، تواس پرجنت حرام ہے،
عن سعد وأبي بكرة رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم: من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم فالجنة عليه حرام. رواه البخاري ، وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم: " لا ترغبوا عن آبائكم فمن رغب عن أبيه فقد كفر" صحيح البخاري
اورابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ایسے شخص پر الله اورفرشتوں اورتمام لوگوں کی لعنت ہے۔
وأخرج ابن ماجة في سننه بإسناد صحيح من حديث ابن عباس رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ( من انتسب إلى غير أبيه ، أو تولى غير مواليه فعليه لعنه الله والملائكة والناس أجمعين
اورابن ماجہ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایسا شخص جنت کی خوشبو بهی نہیں سونگهے گا اور جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت تک پائی جاتی ہیں۔
وفي مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجة للبوصيري من حديث عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( من ادعى إلى غير أبيه لم يرح ريح الجنة ، وإن ريحها ليوجد من مسيرة خمسمائة عام ) . والحديث صحيح اور ترمذی وغیره کی روایت میں ہے کہ " لا يقبل الله منه يوم القيامة صرفا ولا عدلا " الله تعالی قیامت کے دن فرض ونفل قبول نہیں کرے گا۔
یاد رہے یہ ساری وعیدیں قریب یا دور کی دونوں جهوٹی نسبتوں کوشامل ہے۔
اگر ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
اس کے بعد ہم کچهہ عرض نہیں کرتے جب کہ ایسے شخص کا حال احادیث کی روشنی میں آپ نے دیکهہ لیا ، اوراس پرفخرکا اظہارکرنا خوشی کے ساتهہ اس کی تشہیرکرنا ، یہ کوئ غیرمقلد ہی کرسکتا ہے ، اورپهرایسے شخص کو تو غیرمقلدیت اختیارکرنے کی وجوہات واسباب بیان کرنے کی بهی کوئ ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ قرآن واحادیث میں بیان کیئے جاچکے ہیں۔
میں نے ایک مقالہ اس عنوان ( حنفی علماء کا قرآن اور حدیث کی طرف رجوع ) کے ساتهہ دیکها ، جس میں موصوف کا نام اس طرح لکها ہےمولانا سید عتیق الرحمن شاہ ( مولانا انور شاہ کاشمیری جو دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے‘ کے خاندان کے چشم و چراغ اسی طرح کسی اور جگہ اس شخص کے بارے یہ کلمات بهی دیکهے۔
یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ مشہور محدث انورشاہ کشمیری کے پوتے ہیں جواس خاندان کے سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے فرقہ دیوبندیت سے توبہ کرکے اہل حدیث جیسا سچا مسلک کو اختیار کیا اور پھر اللہ کے فضل وکرم سے ان کی نیک کوششوں کے ذریعے شاہ خاندان کے کئی افراد اہل حدیث ہوگئے.
ایک شاعر نے غالبا اسی قسم کے لوگوں کے بارے خوب فرمایا ہے۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بـدنـام اگـرہـوں گے تـوکیـا نــام نــہ ہـوگــا

No comments:

Post a Comment