تازہ ترین تحریریں

Sunday, 16 September 2012

حضرت شاہ ولی اللہ الدہلوی علیہ رحمہ اور مذاہبِ اربعہ

حضـرت شـاه ولـي الله الدهـلوي رحمـة الله عليه اورمـذاهـب أربـعــه
حکیم الاسلام حضـرت شـاه ولـي الله الدهـلوي رحمـة الله عليه کی ذات گرامی کسی تعارف وتعریف کی محتاج نہیں ہے ، آپ کی ساری زندگی اسلام وعقائداسلام وعلوم دینیہ کی نشرواشاعت میں بسرہوئ ، ہندوستان میں مسند حدیث آپ نے ہی بچهائ ، اورآپ کے درس وتعلیم سےبے شمارمخلوق کوفائده پہنچا ، اورلاتعداد تشنگان علوم کوآپ نے سیراب کیا ، آپ کا وجود خطہ ہند پرخصوصا اورپوری دنیا پرعموما ایک بہت بڑا احسان الہی تها ، ہندوستان میں غالی وشیعہ وروافض کا دور دوره تها ، تقریبا پورے ہندوستان پران کا تسلط تها ، بدعات ومحدثات ورسومات راسخ ہوچکی تهیں ، اورسنت کے آثارتک مٹ رہے تهے ، حتی کہ الله تعالی نے اپنی سنت جاریہ کے مطابق آپ کوپیدا کیا ، الله تعالی نے آپ کے ذریعہ ملت حنیفیہ کے ستونوں کومضبوط کیا ، قرآن وسنت کے علوم کی صحیح بنیاد ڈالی ، اورقوم کی بدحالی کا مداوا کیا ، اورپهراسی تحریک ولی اللهی کوآپ کے نسبی اولاد واحفاد نے پروان چڑهایا ، اورپهراسی تحریک ولی اللهی کو آپ کے روحانی فرزندوں نے یعنی علماء حق علماء دیوبند نے مزید پختہ ومضبوط کیا ، اوراس کے حسن وبہارمیں مزید اضافہ کیا ، اورپورے عالم میں اس کے نوروضیاء کو پهیلا دیا ۰
فكثرالله أمثالهم وأتباعهم فى البلاد والعباد الى أبدالآباد

حضـرت شـاه ولـي الله الدهـلوي رحمـة الله عليه نے اپنی زندگی میں بے شمارعلمی ودینی وتجدیدی وتصنیفی وتالیفی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ،
آپ کے تصنیفات کی تفصیل اس طرح ہے ،
1 = قرآن ومتعلقات قرآن
2 = حدیث ومتعلقات حدیث
3 = اصول فقہ
4 = فقہ حدیث وحکمت دین
5 = عقائد وعلم کلام
6 = تصوف
7 = سیروسوانح وتاریخ
8 = مکتوبات
9 = مناظره
10= متفرقات
آپ کا سب سے اہم کارنامہ قرآن اورعلوم قرآن کی اشاعت ہے ، اوراس باب میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے ،
چنانچہ آپ نے { فتحُ الرحمن فی ترجمة القرآن } کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا ، کیونکہ اس وقت کی ملکی وقومی زبان فارسی تهی ،
ايسا هى { ألفوزالكبير في أصول التفسير } علم تفسیرمیں آپ کی بہترین کتاب ہے ، جومدارس اسلامیہ کے نصاب میں داخل ہے ،
اسی طرح حدیث کے میدان میں بهی آپ کی خدمات بہت ہیں ، موطا امام مالک کی دوشرحیں عربی وفارسی میں آپ نے لکهیں ، ألمُسَوى (عربى) اورألمُصَفى (فارسى) میں لکهیں ، ایسا ہی دیگراوربہت ساری کتب آپ نے لکهیں ،
جن کے مطالعہ سے آپ کی تبحرعلمی اوراستخراج مسائل کا ملکہ اورمجتهدانہ شان بالکل نمایاں ہوجاتی ہے ، اورآپ کی امامت وجلالت وثقاہت پرسب متفق ہیں ، اورآپ بارہویں صدی کے بلا نزاع مجد د ہیں ، خود فرماتے ہیں کہ
لما تمت بي دورة الحكمة ألبسني الله خلعة المُجد دية فعلمت علم الجمع بين المختلفات
{ تفهيمات )
یعنی جب میرا دوره حکمت یعنی علم اسرار ورموز دین پورا ہوگیا توالله تعالی نے مجهے خلعت مجد دیت پہنائ ، پس میں نے اختلافی مسائل میں جمع وتطبیق معلوم کرلیا ۰
آپ باوجود اس مجتهدانہ ومُجددانہ مرتبہ وشان کے فقہ حنفی کے مقلد تهے ،
فرقہ اہل حدیث کے بانی نواب صدیق حسن خان صاحب آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
انصاف ایں است کہ اگر وجود او درصدر اول ودر زمانہ ماضی بود امام الآئمہ وتاج المجتهدین شمرده می شود ۰ {اتحاف النبلاء ص 30 }
یعنی انصاف کی بات تویہ ہے کہ آپ اگرپہلے زمانہ میں پیدا ہوتے توآپ کواماموں کا امام اور مجتہدین کا تاج سمجهاتا جاتا ۰
مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب کا حکم وفیصلہ پیش کرنے سے قبل بغرض فائده یہ تهوڑی سی تفصیل ذکرکی ، تاکہ تهوڑا اندازه ہوجائے کہ اتنی بڑی شخصیت جواپنے وقت کا مُجدد ہے اوراجتہاد کے شروط واوصاف کا مالک ہے ، علوم ومعارف کا ایک سمندر ہے ، اوربقول نواب صدیق حسن خان صاحب کہ امام الأئمه وتاجُ المجتهدين ہے ، اب ایسی شخصیت کا فیصلہ یقینا سب کے لیئے قابل قبول اور مبنی برحق وصداقت ہوگا ، لہذا اب مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب رحمة الله عليه کا حکم وفیصلہ پڑهتے ہیں ۰

يقول الإمام القدوة العلامة المفسرالمحدث الحافظ الحجة الفقيه المحقق الصوفي الزاهد الوَرِع سراج الهند ومسندالوقت وسيدالطائفة الشيخ الشاه ولي الله الدهلوي رحمة الله عليه
{{ باب ـ تاكيد الأخذ بهذه المذاهب الأربعة والتشديد فى تركها والخروج عنها }}

اعلم ان فى الأخذ بهذه المذاهب الأربعة مصلحة عظيمة ، وفى الأعراض عنها كلها مفسدة كبيرة ، ونحن نبين ذالك بوجوه ،

أحــــدهــــا " ان الأمة اجتمعت على ان يعتمدوا على السلف فى معرفة الشريعة ، فالتابعون اعتمدوا فى ذالك على الصحابة ، وتبع التابعون اعتمدوا على التابعين ،
وهكذا فى كل طبقة اعتمد العلماء على مَن قبلهم ، والعقل يدل على حسن ذالك ، لأن الشريعة لاتعرف الا بالنقل والإستنباط ، والنقل لايستقيم الابأن تأخذ كل طبقة عمن قبلها بالإتصال ، ولابد فى الإستنباط من ان يعرف مذاهب المتقدمين لئلا يخرج عن أقوالهم فيخرق الإجماع ، ويبني عليها ، ويستعين فى ذالك كل بمن سَبقه ، لأن جميع الصناعات كالصرف والنحو والطب والشعر والحدادة والنجارة والصياغة لم تتيسر لأحد الا بملازمة أهلها ، وغيرذالك نادر بعيد لم يقع وان كان جائزا فى العقل ، واذا تعين الإعتماد على أقاويل السلف فلابد من ان يكون أقوالهم التي يعتمد عليها مروية بالإسناد الصحيح ، أومُدونة فى كتب مشهورة ، وان يكون مخدومة بأن يبين الراجح من محتملاتها ، ويخصص عمومها فى بعض المواضع ، ويقيد مطلقها فى بعض المواضع ، ويجمع المختلف منها ، ويبين علل أحكامها ، والا لم يصح الإعتماد عليها ، وليس مذهب فى هذه الأزمنة المتأخرة الا هذه المـذاهب الأربعـة ، اللهم الا مذهب الإمامية والزيدية وهم أهل البدعة لايجوزالإعتماد على أقاويلهم ٠
وثـانـيـهــا " قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اتبعوا السوادالأعظم ،
ولما اندرست المذاهب الحقة ، الا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم ، والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم ٠
وثـالـثـهــا " ان الزمان لما طال وبعد العهد ، وضيعت الأمانات ، لم يجزان يعتمد على أقوال علماء السوء من القضاة الجورة والمفتين التابعين لأهوائهم حتى ينسبوا مايقولون الى بعض من اشتهرمن السلف بالصدق والديانة والأمانة اما صريحا أودلالة وحفظ قوله ذالك ، ولاعلى على قول مَن لاندري هل جمع شروط الإجتهاد أو لا ، فاذا رأينا العلماء المحققين فى مذاهب السلف عسى ان يصدقوا فى تخريجاتهم على أقوالهم واستنباطهم من الكتاب والسنة ، وأما اذا لم نرمنهم ذالك فهيهات ، الخ
{ عقدالجيد في أحكام الإجتهاد والتقليد ، ص 39 ، 40 ، الناشردارالفتح }

حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے باب اس عنوان سے قائم کیا ، یعنی مذاهب اربعہ کولینے ان پرعمل کرنے کی تاکید اور مذاهب اربعہ کو چهوڑنے اوران سے نکلنے کی تشدید کے بیان میں ،

پهرحضرت شاه صاحب رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ خوب جان لو کہ ان چاروں مذاهب

{ حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ، } کواخذ کرنے ( ان کولینے اوران پرعمل کرنے ) میں بڑی عظیم مصلحت ہے ، اوران چارمذاهب سے اعراض کرنے میں یعنی مذاهب اربعہ کو چهوڑنے میں بڑا فساد ہے ، اورهم اس کوکئ وجوهات سے بیان کرتے ہیں ،

1 = ایک یہ کہ امت نے اجماع واتفاق کرلیا ہے اس بات پرکہ شریعت کے معلوم کرنے میں سلف پراعتماد کریں ، پس تابعین نے (شریعت کی معرفت میں ) صحابه کرام پراعتماد کیا ، اورتبع تابعین نے تابعین پراعتماد کیا ، اوراسی طرح ہرطبقے ( اورہرزمانہ ) میں علماء نے اپنے اگلوں پراعتماد کیا ، اورعقل بهی اس ( طرزعمل ) کی حسن وخوبصورتی پردلالت کرتی ہے ، اس لیئے کہ شریعت کی معرفت وپہچان نہیں ہوسکتی مگرنقل اوراستنباط کے ساتهہ ، اور نقل درست وصحیح نہیں ہوسکتی مگراس طرح کہ هرطبقہ پہلوں ( سلف ) سے اتصال کے ساتهہ اخذ (حاصل ) کرے ، اور استنباط میں ضروری ہے کہ متقدمین ( پہلوں ) کی مذاهب کو پہچانے ، تاکہ ان کے اقوال سے نکل کر خارق اجماع یعنی اجماع کو توڑنے والا نہ ہوجائے ، اوراس پربنیاد رکهے اوراس بارے میں جوپہلے گذر چکے ( یعنی سلف صالحین )ان سے استعانت کرے ،

اس لیئے تمام صناعتیں جیسے صرف ، اورنحو ، اورطب ، اورشعر ، اور لوہاری کا کام ، اوربڑهئ ( فرنیچر کا کام ) ، اورسناری ( وغیره جتنے بهی فنون ہیں ) حاصل نہیں ہوسکتے ، مگران (فنون وامور) کے ماہرلوگوں کی صحبت کولازم پکڑنے سے ، اوربغیر( ماہرلوگوں کی صحبت ) کے ان (فنون وامور) کا حاصل ہوجانا واقع نہیں ہے نادر اوربعید ہے اگرچہ عقلا جائزہے ،

اور جب سلف کے اقوال پر (شریعت کی معرفت میں ) میں اعتماد متعین ہوگیا ، تواب ضروری ہے کہ ان کے وه اقوال جن پراعتماد کیا جاتا ہے وه صحیح سند کے ساتهہ مَروی هوں ، یا کتب مشہوره میں جمع (ومحفوظ ) ہوں ، اورجو محتملات ہیں ان میں راجح کوبیان کردیا جائے ، اورعموم کو بعض مقامات پرخاص کیاجائے ، اوربعض مواضع میں مطلق کومقید کیاجائے ، اورمختلف فیہ میں جمع کیاجائے ، اوراحکام کی علتیں بیان کی جائیں ، ورنہ ( اگر یہ صفات نہ هو ) تواس پراعتماد صحیح نہیں ہے ، اوراس اخیرزمانے میں کوئ مذهب اس صفت کے ساتهہ ( متصف ) نہیں ہے ، سوائے ان مذاهب اربعہ کے ،

ہاں مذهب امامية اور زيدية بهى ہیں لیکن وه اہل بدعت ہیں ان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں هے،

2 = رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا " اتبعوا السوادالأعظم " سواد اعظم (بڑی جماعت) کی اتباع کرو، اور جب ان مذاہب اربعہ کے علاوہ باقی سچے مذاہب مفقود ہوگئے توان مذاہب کا اتباع سواد اعظم کا اتباع ہے اور ان سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے۰

3 = جب زمانہ طویل وبعید ہوگیا ، اورامانات ضائع ہوگئے ، توپهراس حال میں علماء سُوء ( برے علماء ) ظالم قاضیوں میں سےاوراپنے خواہشات کے پیروکار مفتیان کے اقوال پراعتماد جائزنہیں ہے ، یہاں تک کہ وه (علماء سُوء ) اپنے اقوال کو صريحا یا دلالة بعض سلف کی طرف منسوب کریں جوصدق وديانت وامانت کے ساتهہ مشہور ہیں ،اوراسی طرح اس شخص کے قول پربهی اعتماد جائزنہیں ہے جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ آیا اس میں اجتہاد کی شرائط جمع تهیں یا نہیں ؟ الخ

حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه کا فیصلہ وتبصره بالکل واضح ہے ، مزید توضیح وتشریح کی ضرورت نہیں ہے ، مذاهب اربعہ کو چهوڑنے والے اوراعراض کرنے والے لوگ حضرت شاه صاحب رحمة الله عليه کی بصیرت افروز وحکمت آمیزبیان کے مطابق بہت بڑے فساد میں مبتلا ہیں ، یقینا یہ بیان بالکل صحیح ہے آج ہم اس بات کا خوب مشاہده کر رہے ہیں ، الله تعالی لامذہبیت سے ہماری حفاظت فرمائے ، جودرحقیقت جہالت وفساد کا راستہ ہے ۰
پهرحضرت شاه صاحب رحمة الله عليه نے اپنے اس فیصلہ وبیان کہ { چاروں مذاهب کولینے اوران پرعمل کرنے میں بڑی عظیم مصلحت ہے ،اوران چارمذاهب سے اعراض کرنے میں بڑا فساد ہے } کی وجہ اوردلیل یہ بیان کی کہ امت نے اس بات پراجماع کرلیا ہے کہ دین وشریعت کو معلوم کرنے سلف صالحین پراعتماد کریں گے ، یعنی دین کو جس طرح انهوں نے سمجها اور عمل کیا ایسا ہی هم بهی کریں گے ، اورتابعین عظام نے دین وشریعت کوسمجهنے اورعمل کرنے میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا ، اورپهرتبع تابعین نے تابعین پراعتماد کیا ، اورآخرتک یہی سلسلہ چلتا رہا الخ

شاه صاحب رحمة الله عليه نے مذاهب اربعہ کولازم پکڑنے لازم پکڑنے کا استدلال اس حدیث سے بهی کیا کہ " اتبعوا السوادالأعظم جماعت کثیر کی پیروی کرو اور وه مذاهب حقہ میں سے صرف مذاهب اربعہ ہی ہیں ، کیونکہ باقی مذاهب حقہ کا وجود ختم ہوگیا ، لہذا اب مذاهب اربعہ سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے ، جس سواد اعظم کی اتباع کا حکم حدیث میں دیا گیا ہے ۰

باقی شاه صاحب رحمة الله عليه نے جوحدیث ذکرکی " اتبعوا السوادالأعظم

اس کی کچهہ تفصیل راقم الحروف کو علامہ سخاوي رحمہ الله کی کتاب (المقاصد الحسنة ) میں ملی جودرج ذیل هے ،

حديث: لا تجتمع أمتي على ضلالة، أحمد في مسنده والطبراني في الكبير وابن أبي خيثمة في تاريخه عن أبي بصرة الغفاري مرفوعاً في حديث سألت ربي أن لا تجتمع أمتي على ضلالة فأعطانيها، والطبراني وحده وابن أبي عاصم في السنة له عن أبي مالك الأشعري رفعه: إن الله أجاركم من ثلاث وذكر منها وأن لا تجتمعوا على ضلالة، وأبو نعيم في الحلية والحاكم في مستدركه وأعله واللالكائي في السنة وابن منده ومن طريقه الضياء في المختارة عن ابن عمر رفعه: إن الله لا يجمع هذه الأمة على ضلالة أبداً وإن يد الله مع الجماعة فاتبعوا السواد الأعظم فإنه من شذ شذ في النار، وهكذا هو عند الترمذي لكن بلفظ: هذه الأمة، أو قال: أمتي، وابن ماجه وعبد في مسنده عن أنس مرفوعاً: إن أمتي لا تجتمع على ضلالة فإذا رأيتم الاختلاف فعليكم بالسواد الأعظم، والحاكم في مستدركه عن ابن عباس رفعه بلفظ. لا يجمع الله هذه الأمة على ضلالة ويد الله مع الجماعة، والجملة الثانية منه عند الترمذي وابن أبي عاصم وغيره عن أبي مسعود عقبة بن عمرو الأنصاري موقوفاً في حديث: وعليكم بالجماعة فإن الله لا يجمع هذه الأمة على ضلالة، زاد غيره: فإياكم والتلون في دين الله، والطبري في تفسيره عن الحسن البصري مرسلاً بلفظ أبي بصرة، وبالجملة فهو حديث مشهور المتن، ذو أسانيد كثيرة، وشواهد متعددة في المرفوع وغيره، فمن الأول: أنتم شهداء الله في الأرض، ومن الثاني قول ابن مسعود: إذا سئل أحدكم فلينظر في كتاب الله فإن لم يجده ففي سنة رسول الله فإن لم يجده فيها فلينظر فيما اجتمع عليه المسلمون وإلا فليجتهد،
{ المقاصد الحسنة للعلامة السخاوي الصفحة : 239 }

حضرت شــاه ولـی الله ألدهـلوي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
مجهے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے یہ وصیت کی گئ ، یہ الہام ہوا کہ میں مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کروں ، اورمجهے یہ وصیت کی ان چار مذاهب سے باهرنہ نکلوں ، حالانکہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله درجہ اجتہاد پرفائزتهے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہی بات خود فرماتے ہیں کہ
واستفدتُ منه ( صلى الله عليه وسلم ) ثلاثة أمورخلاف ماكان عندي ، وما كان طبعي يميل اليها أشد ميل فصارت هذه الإستفادة من براهين الحق تعالى علي ،
الى ان قال : وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها ٠
{ فيوضُ الحرَمَين ، ص 64 ، 65 ، }
اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله اسی کتاب میں فرماتے ہیں کہ
مجهے حضور صلى الله عليه وسلم نے سمجهایا کہ مذهب حنفی سنت کے سب سے زیاده موافق ومطابق طریقہ ہے ،
وعرفني رسول الله صلى الله عليه وسلم أن فى المذهب الحنفي طريقة أنيقة هي أوفق الطرُق بالسنة المعرُوفة التي جمعت ونقحت في زمان البخاري وأصحابه ٠
{ فيوضُ الحرَمَين ، ص 48 }
حضرت شــاه صاحب رحمہ الله کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے ،
1 = تقلید عمومی طورپرصحابہ وتابعین ، رضی الله عنهم کے زمانے رائج تهی ،
2 = مذاهب اربعه {حنفی ، شافعی ، مالکی ، حنبلی ،}کی درحقیقت سواد اعظم یعنی جماعت کثیرکی اتباع ہے ، جس کا حکم حدیث میں ہے ، اورمذاهب اربعه سے خروج سواد اعظم سے خروج ہے ۰
3 = مجتهدین کی تقلید اورخاص کر مذهب امام اعظم ابوحنیفہ کی تقلید الله تعالی کے اسرَار میں سے ایک سِر( راز ) ہے ، جس کوالله تعالی نے اپنے نیک صالح بندوں کوالہام کیا ۰
4 = امت اسلامیہ کا مذاهب اربعه کی تقلید پراجماع ہوچکا ہے ، اورکل امت کا اجماع کبهی ضلالت پرنہیں ہوسکتا ۰
5 = عامی وجاہل پرتقلید مجتهدین واجب ہے ، اوراجتہاد سے عاجزہرشخص خواه وه عالم کیوں نہ ہو اس پربهی تقلید مجتهدین واجب ہے ۰
6 = تقلید مجتهدین میں بے شماراورعظیم مصالح ومنافع ہیں ، اوربے شماردینی فوائد ہیں جس کا شمارنہیں ہوسکتا ۰
7 =اور سب سے بڑهہ کر یہ کہ حضرت شــاه صاحب رحمہ الله کو حضور صلى الله عليه وسلم نے مذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید کی وصیت کی
8 = اور حضرت شــاه صاحب رحمہ الله کو حضور صلى الله عليه وسلم نے نے بتایا کہ مذهب حنفی دیگرمذاهب کی بہ نسبت سنت نبویہ کے زیاده موافق ومطابق وقریب ہے ۰
9 = عامی وجاہل پرمذاهب اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے ، اور اس سے نکلنا حرام ہے ، کیونکہ پهر ترک تقلید اس کو گمراہی کے نچلے درجہ تک پہنچادے گی ۰
10 = مجتهدین کی تقلید کا مطلب جہالت وضلالت نہیں ہے ، جیسا آج کل چند جہلاء نے جاہل عوام کو گمراه کرنے کے لیئے مشہورکردیا ہے ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله نے فرمایا کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے تقلید مذاهب کی وصیت کی ، حضرت شــاه صاحب رحمہ الله کے الفاظ پهر پڑهیں ،
: وثانيها الوصية بالتقليد لهذه المذاهب الأربعة لا أخرج منها :
کیا ( معاذالله ) اگرمجتهدین کی تقلید جہالت وضلالت ہے تو پهر حضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت شــاه صاحب رحمہ الله تقلید مذاهب کی وصیت کیوں کی؟؟
میں یہ کہتا ہوں کہ اگر عقل وفہم کی ایک رَتی بهی کسی میں ہو تو حضرت شــاه صاحب رحمہ الله یہ تصریحات وبیانات اس کی ہدایت کے لیئے کافی ہیں ، اورتقلید ومذاهب اربعہ کے خلاف اکثروساوس کی جڑکٹ جاتی ہے ۰
الله تعالى عوام كوصحيح فهم عطا فرمائے۰

3 comments:

  1. حضـرت شـاه ولـي الله الدهـلوي رحمـة الله عليه اورمـذاهـب أربـعــه

    حکیم الاسلام حضـرت شـاه ولـي الله الدهـلوي رحمـة الله عليه کی ذات گرامی کسی تعارف وتعریف کی محتاج نہیں ہے ، آپ کی ساری زندگی اسلام وعقائداسلام وعلوم دینیہ کی نشرواشاعت میں بسرہوئ ، ہندوستان میں مسند حدیث آپ نے ہی بچهائ ، اورآپ کے درس وتعلیم سےبے شمارمخلوق کوفائده پہنچا ، اورلاتعداد تشنگان علوم کوآپ نے سیراب کیا ، آپ کا وجود خطہ ہند پرخصوصا اورپوری دنیا پرعموما ایک بہت بڑا احسان الہی تها ، ہندوستان میں غالی وشیعہ وروافض کا دور دوره تها ، تقریبا پورے ہندوستان پران کا تسلط تها ، بدعات ومحدثات ورسومات راسخ ہوچکی تهیں ، اورسنت کے آثارتک مٹ رہے تهے ، حتی کہ الله تعالی نے اپنی سنت جاریہ کے مطابق آپ کوپیدا کیا ، الله تعالی نے آپ کے ذریعہ ملت حنیفیہ کے ستونوں کومضبوط کیا ، قرآن وسنت کے علوم کی صحیح بنیاد ڈالی ، اورقوم کی بدحالی کا مداوا کیا ، اورپهراسی تحریک ولی اللهی کوآپ کے نسبی اولاد واحفاد نے پروان چڑهایا ، اورپهراسی تحریک ولی اللهی کو آپ کے روحانی فرزندوں نے یعنی علماء حق علماء دیوبند نے مزید پختہ ومضبوط کیا ، اوراس کے حسن وبہارمیں مزید اضافہ کیا ، اورپورے عالم میں اس کے نوروضیاء کو پهیلا دیا ۰
    فكثرالله أمثالهم وأتباعهم فى البلاد والعباد الى أبدالآباد ٠
    حضـرت شـاه ولـي الله الدهـلوي رحمـة الله عليه نے اپنی زندگی میں بے شمارعلمی ودینی وتجدیدی وتصنیفی وتالیفی کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ،
    آپ کے تصنیفات کی تفصیل اس طرح ہے ،
    1 = قرآن ومتعلقات قرآن
    2 = حدیث ومتعلقات حدیث
    3 = اصول فقہ
    4 = فقہ حدیث وحکمت دین
    5 = عقائد وعلم کلام
    6 = تصوف
    7 = سیروسوانح وتاریخ
    8 = مکتوبات
    9 = مناظره
    10= متفرقات
    آپ کا سب سے اہم کارنامہ قرآن اورعلوم قرآن کی اشاعت ہے ، اوراس باب میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے ،
    چنانچہ آپ نے { فتحُ الرحمن فی ترجمة القرآن } کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا ، کیونکہ اس وقت کی ملکی وقومی زبان فارسی تهی ،
    ايسا هى { ألفوزالكبير في أصول التفسير } علم تفسیرمیں آپ کی بہترین کتاب ہے ، جومدارس اسلامیہ کے نصاب میں داخل ہے ،
    اسی طرح حدیث کے میدان میں بهی آپ کی خدمات بہت ہیں ، موطا امام مالک کی دوشرحیں عربی وفارسی میں آپ نے لکهیں ، ألمُسَوى (عربى) اورألمُصَفى (فارسى) میں لکهیں ، ایسا ہی دیگراوربہت ساری کتب آپ نے لکهیں ،
    جن کے مطالعہ سے آپ کی تبحرعلمی اوراستخراج مسائل کا ملکہ اورمجتهدانہ شان بالکل نمایاں ہوجاتی ہے ، اورآپ کی امامت وجلالت وثقاہت پرسب متفق ہیں ، اورآپ بارہویں صدی کے بلا نزاع مجد د ہیں ، خود فرماتے ہیں کہ
    لما تمت بي دورة الحكمة ألبسني الله خلعة المُجد دية فعلمت علم الجمع بين المختلفات
    { تفهيمات )
    یعنی جب میرا دوره حکمت یعنی علم اسرار ورموز دین پورا ہوگیا توالله تعالی نے مجهے خلعت مجد دیت پہنائ ، پس میں نے اختلافی مسائل میں جمع وتطبیق معلوم کرلیا ۰
    آپ باوجود اس مجتهدانہ ومُجددانہ مرتبہ وشان کے فقہ حنفی کے مقلد تهے ،
    فرقہ اہل حدیث کے بانی نواب صدیق حسن خان صاحب آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
    انصاف ایں است کہ اگر وجود او درصدر اول ودر زمانہ ماضی بود امام الآئمہ وتاج المجتهدین شمرده می شود ۰ {اتحاف النبلاء ص 30 }
    یعنی انصاف کی بات تویہ ہے کہ آپ اگرپہلے زمانہ میں پیدا ہوتے توآپ کواماموں کا امام اور مجتہدین کا تاج سمجهاتا جاتا ۰
    مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب کا حکم وفیصلہ پیش کرنے سے قبل بغرض فائده یہ تهوڑی سی تفصیل ذکرکی ، تاکہ تهوڑا اندازه ہوجائے کہ اتنی بڑی شخصیت جواپنے وقت کا مُجدد ہے اوراجتہاد کے شروط واوصاف کا مالک ہے ، علوم ومعارف کا ایک سمندر ہے ، اوربقول نواب صدیق حسن خان صاحب کہ امام الأئمه وتاجُ المجتهدين ہے ، اب ایسی شخصیت کا فیصلہ یقینا سب کے لیئے قابل قبول اور مبنی برحق وصداقت ہوگا ، لہذا اب مذاهب اربعہ کے بارے میں حضـرت شـاه صاحب رحمة الله عليه کا حکم وفیصلہ پڑهتے ہیں ۰

    ReplyDelete
  2. للمزيد عن الإمام شاه ولي الله الدلوي ، نقطات غير متاحة للعرب
    http://nidaulhind.blogspot.in/2016/01/blog-post.html

    ReplyDelete
  3. افتريتم على الإمام الجليل يا رُدفاءَ الوهم ، أليس منكم من ينبس بالصدق والحق،،،تجرأوا على الجواب إن كنتم صادقين أولا نبدأ بمولد الإمام
    ولد الإمام الشاه ولي الله يوم الأربعاء، لأربع عشرة خلت( ) من شهر شوال، سنة أربع عشرة ومائة وألف (1114هـ)، في أيام الملك العادل، الصالح القانت أورنكزيبعالَمْكِير قدسنا الله بأسراره، وقبل وفاته بأربع سنين بالتحديد؛ حيث توفي عالمكير في عام 1118هـ.
    كانت الهند - كسائر الأقطار الإسلامية - في هذه الفترة معمورة بأهل العلم والصلاح والتقوى، اشتهر فيها في ذلك الوقت رجال من الفقهاء الحنفية والشافعية، والمحدثين والمتكلمين على منهج أهل السنة: الأشاعرة والماتريدية، والمتصوفين السالكين طرق كبار أئمة التصوف، كالشيخ عبد القادر الجيلاني، والسيد أحمد الكبير الرفاعي، والخواجه معين الدين الجِشْتِيالأجميري الهندي. ولم يدخل الهندَ ضلالاتُ وإسرائيليات ابن تيمية الحراني في هذه الفترة، ولا خرافات زعيم البادية، وأما الشيعة الشنيعة فكانت موجودة في بعض مناطق الشمال، إلا أن علماء السنة كانوا لها بالمرصاد.
    فمن مشاهير أئمة الإسلام في الهند في هذه الفترة: الإمام المحدث الشيخ عبد الحق الدهلوي (ت: 1052هـ)، والإمام الشيخ عبد الحكيم السيالكوتي، إمام العلوم العقلية واللغوية في العالم الإسلامي (1067هـ)( )، والإمام العلامة الشيخ محب الله البهاري الحنفي الماتريدي (ت: 1119هـ)( )، والعلامة الشيخ نظام الدين السهالوي الحنفي الماتريدي (1088-1161هـ)، وابنه العلامة بحر العلوم عبد العلي (1142-1225هـ)( )، هذا في شمال الهند، وإن جئت إلى الجنوب تجد أمثال السيد شيخ بن محمد الجفري الشافعي الأشعري (ت: 1222هـ)( )، وغيرهم من أصحاب المتون المتينة والشروح القيمة والحواشي المفيدة والتعليقات المنيرة، ولولا ضيق الوقت لذكرت طائفة كبيرة منهم( ).
    لماذا نذهب بعيدا؛ فإنه وإن لم يوجد في الهند كلِّها غيرُ حاكمِها الفاضل، الإمام العادل أورنكزيبعالمكير رضي الله عنه لكفى الهندَ رفعة وعزة، وفخارا ونخوة، وهو كوكب الهند وسراجها، بل هو شمس الخلافة الإسلامية وقمرها، إليه تنسب «الفتاوى العالمكيرية» العظيمة في ست مجلدات كبار، وبأمره جمعت، وتحت رعايته دونت( )، وهي الشهيرة في العالم العربي بـ«الفتاوى الهندية» على المذهب الحنفي، لا على مذاق اللامذهبية الوهابية. وعرفنا أن الشاه ولي الله ولد قبل وفاته بأربعة أعوام.
    وهدفي من هذه الإشارة هو التنبيه على خطأ يرتكبه أصحاب النوايا السيئة، وتلبيس يتعمده ذوو الأغراض الخبيثة المعروفة؛ حيث يقولون إن الهند في هذه القرون كانت غارقة في الشركياتوالكفريات والسحريات والنارنجات، وإن المسلمين في الهند لم يكن لهم إمام يقتدى به في تلك الفترة. اقرأ مثلا ما كتبه ذلك المسكين السيالكوتي في كتاب يؤرخ للشاه ولي الله، استهدف به ترويج بضاعاته الكاسدة باسم هذا الإمام، وعليه وعلى من عَوَّده هذا التجريَ أن يعلم جيدا أن مثل هذا التهيج والتشنج لا يكسر الحق ولا ينصر الباطل، وانظره وهو يقول عند وصفه للهند في الزمن الذي عاش فيه الشاه ولي الله ما نصه:
    للمزيد تابع على الرابطة
    http://nidaulhind.blogspot.in/2016/01/blog-post.html

    ReplyDelete